چند سوالات کا جواب

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
ایک قابل توجہ بات احادیث کی گواہی

اس موقع پر مندرجہ بالا تفسیر پر کچھ اعتراض ہوئے ہیں ۔ بحث میں غیر جانبداری کا خیال رکھتے ہوئے انہیں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے ۔
۱۔ اگر اولوالامر سے مراد معصوم امام ہیں تو ہ مفہوم لفظ” اولیٰ “ کے ساتھ جو جمع ہے ، کوئی مناسبت نہیں رکھتا کیونکہ اس مفہوم کی صورت میں ہر زمانے میں ایک سے زیادہ معصوم امام نہ ہوگا۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر چہ ہر زمانے میں ایک سے زیادہ معصوم امام نہیں ہوتا لیکن وہ تمام زمانوں میں بہت سے افراد کی تشکیل سیرت اور تعمیر کردار کرتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ یہ آیت ایک زمانے کی ذمہ داری کی تعین نہیں کررہی ہے ۔
۲۔ اولوالامر اس معنی کے مطابق تو پیغمبر کے زمانے میں موجود نہیں تھا تو اس صورت میں اس کی اطاعت کا حکم کس طرح دیا گیا ہے ۔ اس کا جواب بھی گذشتہ جواب سے واضح ہو جاتا ہے کیونکہ آیت کسی معین زمانے کے لئے محدود نہیں ہے بلکہ وہ تمام مسلمانوں کے لئے فرائض کو ہر زمانے کے لئے واضح کررہی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ عہد رسالت میں حضورٴ خود اولوالامر تھے کیونکہ حضرت رسولِ اکرم دو منصب رکھتے تھے ایک منصب رسالت اور تبلیغِ احکام جو آیت میں اطیعوا الرسول کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے اور دوسرا منصب امت اسلامی کی رہبری اور سر براہی جس کا ذکر قرآن نے اولوالامر کے نام سے کیا ہے ۔ اس لئے پیغمبر کے زمانے میں خود پیغمبر معصوم رہبر و پیشوا تھے اور شاید لفظ” اطیعوا“کا عدم تکرار رسول اور اولامر کے درمیان اسی معنی کی طرف اشارے خالی نہ ہو۔
دوسرے لفظوں میں منصب رسالت اور منصب اولوالامر مختلف منصب ہیں ۔ جو رسول اکرم کے وجود میں ایک جگہ جمع ہیں لیکن یہ امام میں جاکر الگ الگ ہو جاتے ہیں ۔ اور صرف دوسرا( اولوالامر کا ) منصب رکھتے ہیں ۔
کہتا ہے :
فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فی شَیْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَ الرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ ذلِکَ خَیْرٌ وَ اٴَحْسَنُ تَاٴْویلاً۔
اگر کسی چیز میں اختلاف پڑ جائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹادو۔ اگر تم خدا اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اس کا انجام بھی بہت ہی اچھا ہے ۔
ظاہر ہے کہ یہاں اولو الامرکا ذکر نہیں ہے اور اختلاف کو دور کرنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ خدا کی کتاب اور حضرت رسول اکرم کی سنت ہے ۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض صرف شیعہ علماء کی تفسیر پر نہیں ہے بلکہ ادنےٰ تامل کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ دوسری تفاسیر پر بھی اس کی زد پڑتی ہے یعنی یہ اعتراض اہلِ سنت کی تفاسیرپر بھی ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس میں شک نہیں کہ مندرجہ بالا جملے میں اختلاف و تنازع سے مراد احکام میں اختلاف ہے نہ کہ ان مسائل سے جن کا تعلق حکومت و رہبری کی جزئیات سے ہے کیونکہ ان مسائل میں تولازماً اولوالامر کی اطاعت کرنا ہو گی جیسا کہ آیت کے پہلے جملے میں وضاحت ہوچکی ہے ۔ اس بنا پر اس اختلاف سے مراد اسلام کے احکام اور قوانین کلی کا اختلاف ہے جن کی تشریع خدا اور پیغمبر سے متعلق ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ امام تو احکام جاری کرنے والے ہیں نہ کہ قانون وضع کرنے اور منسوخ کرنے والے ۔ امام تو ہمیشہ خدا کے احکام اور سنتِ رسول کے اجرا کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں ۔ اسی لئے احادیثِ اہل بیت (ع) میں ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص کوئی بات کتاب خدا اور حدیث پیغمبر کے خلاف نقل کرے تو اسے ہر گز قبول نہ کرو کیونکہ ناممکن اور محال ہے کہ ہم کتابِ خدا اور سنتِ پیغمبر کے خلاف کچھ کہیں ۔ اسی لئے احکام و قوانین ِ اسلامی میں لوگوں کے اختلاف دور کرنے کا پہلا مرجع خدا اور حضرت رسولِ اکرم (ص)
 ہیں جن پر وحی خدا نازل ہوتی ہے ۔ اب اگر ائمہ معصومین احکام بیان کرتے ہیں تو وہ خود ان کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ وہ کتاب خدا یا اس علم سے ہیں جو حضرت رسالت مآب کی طرف سے ان تک پہنچا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اولو الامر کا لفظ اختلافی احکام و مسائل کے حل کرنے والوں میں شامل نہیں ہے ۔ ۱
۱اگر اس سورہ کی آیت ۸۳ میں بعض مشکلات کو حل کرنے کے لئے اولوالامر کو مرجع قرار دیا گیا ہے تو اس سے مراد شریعت کے کلی احکام و قوانین کا اختلاف نہیں ہے بلکہ جیسا کہ آیت مذکورہ کی تفسیر میں آئے گا یہ ان مسائل کے بارے میں ہے جو احکام جاری کرنے کے طریقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔

 


۱- تفسیر از فخرالدین رازی ، جلد۱۰ صفحہ ۱۴۴، طبع مصر ۱۳۵۷ھ ۔
 
ایک قابل توجہ بات احادیث کی گواہی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma