یہ آیت اور بعد کی چند آیتیں ایک اہم ترین اسلامی مسئلے یعنی رہبری کے بارے میں بحث کررہی ہیں اور مسلمانوں کے مختلف دین اجتماعی مسائل میں حقیقی مراجع ( جن کی طرف رجوع کیا جائے ) کو مشخص اور متعین کرتی ہیں سب سے پہلے ایمانداروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدا وند عالم کی اطاعت کریں اور یہ بات روشن ہے کہ ایک ایماندار شخص پر واجب ہے کہ اس کی تمام اطاعتوں کی انتہا خدا وند عالم کی اطاعت پر ہو اور اس کے حکم کے مطابق ہر قسم کی رہبری کا سر چشمہ اس کی ذات گرامی ہو ۔ کیونکہ جہانِ ہستی کا مالک ِ تکوینی اور حاکم اعلیٰ وہی ہے اس لئے ہر قسم کی حاکمیت ، مالکیت اسی کے فرمان کے مطابق ہونا چاہئیے۔
(یا ایھا الذین امنواا اطیعوا اللہ)۔
دوسرے مرحلے میں پیغمبر اکرم کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے ۔ وہ رسول جو معصوم ہے اور کبھی ہوا و ہوس سے بات نہیں کرتا۔پیغمبر جو لوگوں میں خدا ئی نمائندہ ہے جس کی بات خدا کی بات ہے ، اسے یہ مرتبہ بلند مقام خدا وند عالم نے مرحمت فرمایاہے اس وجہ سے خدا اطاعت تو اس کی ذات کی خالقیت وھاکمیت کی بناء ہے لیکن حضور کی اطاعت فرمانِ پروردگار کی وجہ سے ہے ۔
دوسرے لفظوں میں خدا بالذات واجب الاطاعت ہے اور پیغمبر بالغیر واجب الاطاعت ہیں ۔ شاید آیت میں اطیعوا کا تکرار اسی بات کی طرف اشارہ ہے ، یعنی دونوں اطاعتوں میں یہ فرق ہے (اطیعوا الرسول)۔
تیسرے مرحلے میں اولوالامر کی طاعت کا حکم ہے جو اسلامی معاشرے میں سے ہو اور لوگو ں کے دین و دنیا کی حفاظت کرے۔