تفسیر مجمع البیان اور دوسری اسلامی تفسیروں میں ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی جب حضرت پیغمبر اکرم فتح مبین کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے اور عثمان بن طلحہ کو جو خانہ کعبہ کا کلید بردار تھا طلب فرمایا اور اس سے چابی لی تاکہ خانہٴ خدا کو بتوں سے پاک و صاف کریں ۔ حضرت عباس نے جو حضرت رسولِ اکرم (ص) کے چچا تھے ، اس کام سے فراغت پانے کے بعد تقاضا کیا کہ خدا کے گھر کی چابی انہیں دے کر بیت اللہ کی کلید برداری کا منصب ان کے سپرد کردیں ۔ یہ منصب عربوں میں ایک بلند و بالامرتبہ تھا( گویا عباس چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کے اجتماعیاور سیاسی اثر و رسوخ سے ذاتی نفع حاصل کریں لیکن پیغمبر اکرم نے اس تقاضا کے خلاف خانہٴ کعبہ کو بتوں کی نجاست سے پاک کرنے کے بعد کعبہ کا دروازہ بند کرکے یہ آیت تلاوت فرماتے ہوئے :
(إِنَّ اللَّہَ یَاٴْمُرُکُمْ اٴَنْ تُؤَدُّوا الْاٴَماناتِ إِلی اٴَہْلِہا)۱
چابی عثمان بن طلحہ ہی کو دے دی ۔
زیر نظر آیت اگر چہ بہت سی دوسری آیتوں کی طرح خاص موقع اور محل پر نازل ہوئی ہے لیکن واضح ہے کہ اس سے ایک عام حکم کا پتہ چلتا ہے آیت تفصیل سے بتاتی ہے کہ خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کے دے دو ۔ واضح ہے کہ یہاں امانت کا لفظ ایک وسیع معنی میں ہے اور وہ ہر قسم کی مادی اور روحانی چیزوں اور امور پر محیط ہے ہر مسلمان اس آیت کے مطابق ذمہ دار ہے کہ کسی کی امانت میں ( کسی استثناء کے بغیر ) خیانت نہ کرے۔ صاحب امانت مسلمان ہو کہ غیر مسلم اور یہ حقیقت میں اسلام میں حقوق انسانی کا اعلان ہے جس میں تمام انسان برابر ہیں ۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالاشانَ نزول میں امانت صرف ایک مادی امانت نہیں تھی اور دوسرا فریق مشرک تھا۔
آیت کے دوسرے حصے میں ایک اور اہم قانون کی طرف اشارہ ہے اور وہ ہے حکومت اور قضاوت میں عدالت آیت خبر دار کرتی ہے کہ خدا نے تمہیں یہ بھی حکم دیا ہے کہ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدالت کے مطابق حکم دو (وَ إِذا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اٴَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْل)۔
اس کے بعد ان دونوں احکام کی تاکید کے طور پر فرماتا ہے : خدا تمہیں بہترین وعظ و نصیحت کرتا ہے (ِ إِنَّ اللَّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہِ)
پھر تاکید کرتے ہوئے فرماتا ہے : ہر حالت میں خدا تمہارے اعمال کا دیکھنے والاہے ۔ وہ تمہاری باتوں کو بھی سنتا ہے اور تمہارے کاموں کو بھی دیکھتا ہے
( إِنَّ اللَّہَ کانَ سَمیعاً بَصیراً)۔ یہ قانون بھی کلی اور عمومی ہے اور ہر قسم کی قضاوت اور فیصلہ کرانے کے لئے حضرت امام حسن (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت علی (ع)نے جو اس معاملے کو دیکھ رہے تھے اپنے فرزند ارجمند سے فرمایا:
یا بنی انظر کیف تحکم فان ھٰذا حکم و اللہ ساٴلک عنہ یوم القیامة
میرے نور نظر خوب خوب غور کرلو کہ کیا فیصلہ ہونا چاہئیے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی قضاوت ہے اور خدا قیامت کے دن تجھ سے اس کے بارے میں سوال کرے گا۔ 2
یہ دونوں اہم اسلامی قانون یعنی حفظ امانت اور قضاوت میں عدالت ایک پاکیزہ انسانی معاشرے کا سنگ میل ہیں ۔کوئی معاشرہ چاہے وہ مادی ہو کہ راحانی ان ہر دو اصولوں پر عمل پیراہوئے بغیر منظم نہیں ہوسکتا ۔ پہلا اصول یہ ہے کہ اموال ،ثروت، دفاتر کی ذمہ داریاں ، انسانی سر مائے ، ثقافتی اور تاریخی دستاویزات، میراث اور ترکہ سب خدائی امانتیں ہیں ۔ جو معاشرے کے مختلف افراد کے سپرد ہوتی ہیں اور سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی امانتوں کی حفاظت کریں ۔ انہیں ان کے اصلی مالکوں کو دینے کی کو شش کریں اور ان میں کسی طرح خیانت نہ کریں ۔
دوسرا یہ کہ ہمیشہ معاشروں میں اختلاف ، تضاد اور خواہشات کا ٹکڑا پایا جاتا ہے عادلانہ قضاوت کے ذریعے اس کا حل اور فیصلہ کرنا چاہے تاکہ سو سائٹی اور سماج سے گروہ بندی ، بے جا امتیاز ات اور ظلم و ستم ختم ہو جائے۔
جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں امانت صرف ان اموال تک محدود نہیں جن کو لوگ ایک دوسرے کے سپرد کرتے ہیں ۔ بلکہ علماء اور دانش مند بھی معاشرے کے امانتدار ہیں جن کایہ فریضہ ہے کہ وہ حقائق کو نہ چھائیں ۔ یہاں تک کہ اولاد بھی انسان کے پاس خدا کی امانت ہے ۔
اگر ان کی تعلیم و تربیت میں کوتا ہی کی جائے تو یہ بھی امانت میں خیانت ہے اس سے برھ کر یہ کہ انسان کا اپنا وجود اور ہستی اور وہ صلاحیتیں اور قابلیتیں جو خدانے اسے مرحمت فرمائی ہیں سب خدا وند عالم کی امانتیں ہیں ، جن کے بارے میں انسان ذمہ دارہے کہ ان کی حفاظت کی کو شش کرے۔ جسم وروح کی استعداد، جوانی کی طاقت اور فکری صلاحیت کی حفاظت میں بھی کوتا ہی نہیں کرنا چاہئیے اسی لئے تو انسان خود کشی تو کیا اپنے آپ کو کسی قسم کا ضرر بھی نہیں پہنچا سکتا ۔ یہاں تک کہ بعض اسلامی احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسرار و علوم اور امامت کی امانتیں جنہیں ہر امام آنے والے امام کے سپرد کرتا ہے ، وہ بھی اس آیت کے مفہوم میں داخل ہیں ۔ 3
یہ بات لائق توجہ بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں امانت کی ادائیگی کو عدالت پر مقدم رکھا گیا ہے ۔ شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ مسئلہ عدالت ہمیشہ فیصلہ میں خیانت کے موقع پر ضروری ہو تا ہے کیونکہ اصل اور بنیاد یہ ہے کہ سب لوگ امین ہوں لیکن اگر ایک فرد کئی افراد اس سے روگردانی کریں تو عدالت کی نوبت آتی ہے کہ انہیں ان کے فریضہ سے آشنا کیا جائے ۔
اسلام میں امانت اورعدالت کی اہمیت
اسلامی کتب اورمصادر میں امانت اور عدالت کے بارے میں اتنی تاکید کی گئی ہے جو باقی احکام میں بہت کم نظر آتی ہے ۔ ذیل کی چند حدیثیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں ۔
۱۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:
لاتنظروا الیٰ طول رکوع الرجل و سجودہ فان ذٰلک شیء اعتادہ فلو تر کہ استوحشولکن انظرو ا الیٰ صدق حدیثہ و اداء امانتہ
کسی شخص کے صرف طویل رکوع و سجود کو نہ دیکھو ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے وہ اس کا عادی ہو چکا ہو اور اب اسے چھوڑ نے سے اسے وحشت ہوتی ہو البتہ بات میں اس کی سچانی اور اس کی امانت کی ادائیگی کی طرف دیکھو۔ 4
۲۔ ایک اور حدیث میں حضرت امام جعفر صادق (ع) ہی سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے جو مرتبہ اور مقام پیغمبر اسلام کے ہاں پایا وہ بات میں سچائی اور امانت کی ادائیگی کی وجہ سے تھا۔5
۳۔ ایک اور حدیث میں حضرت امام جعفر صادق (ع) نے اپنے ماننے والے سے فرمایا :
ان ضارب علی بالسیف و قاتلوا ائمتی و استنصحنی و استثارنی ثم قبلت ذٰلک منہ لادیت الیہ الامانة۔ 6
اگر حضرت امیر المومنین علی (ع) کا قاتل میرے پاس کوئی امانت رکھتا یا مجھ سے نصیحت طلب کرتا یا مجھ سے مشورہ لیتااور میں ان امور کے لئے تیار ہو جاتا ، تو میں یقینا حقِ امانت ادا کرتا۔
۴۔ جو روایات شیعہ سنی کتب میں پیغمبر اسلام منقول ہیں ان میں آپ کا یہ روشن اور عظیم فرمان بھی ہے :
اٰ یة المنافق کی تین نشانیاں ہیں ۱۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۲۔ جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور ۳۔ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے ۔ 7
۵۔ پیغمبر اسلام نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:
جب لڑائی جھگڑے کے طرفین تمہارے پاس آئیں تو ان کی طرف دیکھنے اور ان سے گفتگو کی مقدادر کیفیت میں مساوات اور عدالت کو پیش نظر رکھو۔
حدیث کی عربی عبارت یوں ہے : سوبین الخصمین فی لحظک ولفظک 8
۵۹۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَطیعُوا اللَّہَ وَ اٴَطیعُوا الرَّسُولَ وَ اٴُولِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فی شَیْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَ الرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ ذلِکَ خَیْرٌ وَ اٴَحْسَنُ تَاٴْویلاً۔
ترجمہ
۵۹۔ اے ایمان والو! خدا کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو اور جب کسی چیز میں جھگڑو تو اگر خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوتو اسے خدا اور پیغمبر کی طرف لوٹا دو ۔ یہ تمہارے لئے ہے اور اس کا انجام و اختتام بہت اچھا ہے ۔