یہودیوں کے کردار کا ایک اوررخ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
تعجب آ میز عبارت ہٹ دھرم افراد کی سر نوشت

یہ آیت گذشتہ آیتوں کے بعد دشمنانِ اسلام کی کچھ اور صفتوں کی تشریح کرتی ہے اور ان کے بعض اعمال کی طرف اشار ہ کرت ہے ۔ پہلے یہ بتاتی ہے کہ ان کا کام حقائق کی تحریف اور احکام خدا کے چہرے کو مسخ کرنا تھا (مِنَ الَّذینَ ہادُوا یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَواضِعِہِ)
یہود یوں کا ایک گروہ کلمات ِ خدا کو ان کی جگہ سے تبدیل کردیتا تھا ۔ یہ تحریف نہ معلوم لفظی تھی کہ معنوی لیکن بعد کے جملے بتاتے ہیں کہ یہاں تحریف سے مراد تحریف لفظی اور تغیر عبارت ہے کیونکہ اس جملہ کے بعد فرماتا ہے ( وَ یَقُولُونَ سَمِعْنا وَ عَصَیْنا )
ہم نے سنا اور نا فرمانی کی یعنی بجائے اس کے کہ سمعنا و اطعنا یعنی ہم نے سنا اور اطاعت کی کہیں کہتے ہیں ہم نے سن کر مخالفت کی اور یہ بالکل ان لوگوں کی طرح ہے جو بعض اوقات بطور استہزاکہتے ہیں : ” آپ کا کہنا اور ہمارا بات پر کان نہ دھر نا ” آیت کے دوسرے جملے بھی اسی اسی مطلب کی گواہی دیتے ہیں ۔
اس کے بعد ان کی عداوت آمیز جسارت اور بے ادبی کی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

وَ اسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ ۔
”سنو کہ کبھی نہ سنو “اور اس طرح وہ ایک نادان او رجاہل گروہ بن کر حقائق کو بدلنے اور کتب آسمانی میں خیانت کرنے میں مصروف ہیں ۔ حالانکہ یہ کتاب ِ آسمانی فرعون جیسے ظالم و جابر کے چنگل سے ان کی نجات کا ماحصل ہے ۔ انہوں نے استہزاء اور مسخرہ پن جیسے نامردانہ حربے اختیار کررکھے ہیں یہ حربہ ہٹ دھرم اور غرور کرنے والوں کا ہتھیار ہیں ۔ وہ کبھی ان طاتوں کے علاوہ وہ پاک دل مسلمانوں کے بعض جملوں سے جو وہ حضرت رسالت مآب کی خدمت اقدس میں عرض کرتے تھے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ان جملوں کو دوسرے مطالب و معانی کا لباس پہنا کر استہزاء اور تمسخر کے طور پر استعمال کرتے تھے مثلاً ”راعنا“ جس کے معنی ہیں “ ہم سب سے رعایت کیجئے “ ۔ سچے مسلمان دعوت ِ اسلام کی ابتداء میں اس بناء پر کہ زیادہ اچھے اور بہتر طریقے سے آپ کی باتوں کو سنیں اور دل میں جگہ دیں حضرت رسول ِ اکرم کے سامنے ایسے جملے عرض کرتے لیکن یہودیوں کا یہ گروہ اسے بگاڑ کر حضور کے سامنے اسے دھراتا تھا ۔ اس لفظ سے اس کی مراد اس کا عبرانی معنی تھا اور وہ یہ کہ ” سنو کہ کبھی نہ سنو“ یا پھر دوسرے عربہ معنی یعنی ہمیں بے وقوف بناوٴ ۱
ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ یہ ظاہر کریں کہ خاکم بدہن پیغمبر (ص) کا کام لوگوں کو اتر بنا نا اور بے خبر رکھنا ہے ۔ وہ یہ سب کچھ اس لئے کرتے تھے تاکہ اپنی زبان سے حقائق کو اصلی محور سے ہٹا دیں اور دین حق پر زبان اعتراض دراز کریں ۔
(وَ راعِنا لَیًّا بِاٴَلْسِنَتِہِمْ وَ طَعْناً فِی الدِّینِ)۔
لیّ ( بروزن حیّ)کے معنی طناب وغیرہ ک ولپیٹنا ہیں اور یہاں ادل بدل کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
وَ لَوْ اٴَنَّہُمْ قالُوا سَمِعْنا وَ اٴَطَعْنا وَ اسْمَعْ وَ انْظُرْنا لَکانَ خَیْراً لَہُمْ وَ اٴَقْوَمَ ۔
لیکن اگر وہ اس ہٹ دھرمی ، اصرار ، حق دشمنی اور بے ادبی کی بجائے سیدھی راہ اپناتے اور یہ کہتے کہ ہم نے خدا کاکلام سنا اور ہم نے اطاعت کی آپ ہماری گزارشات سنئیے اور ہم سے رعایت کیجئے اور ہمیں مہلت دیجئے کہ ہم حقائق کو سمجھ سکیں تویہ ان کے فائدے میں ہوتا اور عدل ، منطق اور ادب کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا۔
وَ لکِنْ لَعَنَہُمُ اللَّہُ بِکُفْرِہِمْ فَلا یُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلیلاً ۔
لیکن وہ کفر، سر کشی اور بغاوت کی وجہ سے رحمتِ خدا سے دور ہو گئے ہیں اور ان کے دل اس قدر مردہ ہو چکے ہیں کہ وہ جلد ی زندہ اور بیدار نہیں ہوسکتے۔ ان میں صرف تھوڑے سے لوگ پاک دل ہیں جو حقائق قبول کرنے کے لئے تیار ہیں اور حق کی باتوں کو سنتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں ۔
بعض لوگ اس جملے کو قرآن کی غیب خبروں میں سے قرار دیتے ہیں کیونکہ جس طرح قرآن اس جملے میں خبر دیتا ہے اسلام کی طویل تاریخ میں یہودیوں میں سے بہت کم لوگ ایمان لائے اور اسلام سے وابستہ ہوئے باقی اس دن سے آج تک اسلام سے بر سرِ پیکار ہیں ۔

 

۴۷۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ آمِنُوا بِما نَزَّلْنا مُصَدِّقاً لِما مَعَکُمْ مِنْ قَبْلِ اٴَنْ نَطْمِسَ وُجُوہاً فَنَرُدَّہا عَلی اٴَدْبارِہا اٴَوْ نَلْعَنَہُمْ کَما لَعَنَّا اٴَصْحابَ السَّبْتِ وَ کانَ اٴَمْرُ اللَّہِ مَفْعُولاً ۔
ترجمہ
۴۷۔ اے وہ لوگوں جنہیں اللہ کی کتاب دی گئی ہے : جو کچھ ہم نے ( اپنے رسول پر ) نازل کیا ہے اور جو ان نشانیوں سے ہم آہنگ بھی ہے جو تمہارے پاس ہیں ایمان لے آوٴ ، اس سے پہلے کہ چہروں کو مسخ کردیں اور پھر انہیں پشت کی طرف پھیر دیں یا انہیں اپنی رحمت سے دور کردیں جیسا کہ ہم نے اصحاب سبت کو دور کردیا تھا اور خدا کا فرمان ہر حالت میں روبہ عمل ہو کے رہتا ہے ۔

 


۱”راعنا “ اگر ”رعی“ کے مادہ سے ہوتو اس کا معنی ہے ” ہم سے مراعات کیجئے اور ہمیں مہلت دیجئے “ اور اگر ” رعونت“ کے مادہ سے ہو تو اس کا معنی ہے ” ہم بے وقوف بنائے“ یادرہے کہ پہلی صورت میں ” راعنا“ میں نون مشدد کے بغیر ہو گا اور دوسری صورت میں شد کے ساتھ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی خاص طور پر نون پر شد دیتے تھے اور آخر پر اسے کھینچ کر پڑھتے تھے ۔

 

تعجب آ میز عبارت ہٹ دھرم افراد کی سر نوشت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma