تعجب آ میز عبارت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
تیمم کا فلسفہیہودیوں کے کردار کا ایک اوررخ

الم ترا الیٰ الذین اوتوا نصیباً من الکتاب یشترون الضلالة و یریدون ان تضلوا السبیل۔
خدا وند عالم اس آیت میں تعجب آ میز عبارت سے اپنے پیغمبر (ص) سے خطاب فرماتا ہے ۔ فرماتا ہے : اس گروہ کی حالت حیران کن ہے کہ جو کتاب آسمانی کا کچھ حصہ اپنے پاس رکھتے تھے ۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ اس کے ذریعے اپنے اور دوسروں کے لئے ہدایت و سعادت حاصل کرتے ، گمراہی کا راستہ اپناتے ہیں اور تمہارے لئے بھی چاہتے ہیں کہ گمراہ ہوجاوٴ۔
اس طریقے سے وہ اپنی چیز جو خود ان کے لئے اور دوسروں کے لئے ہدایت کا ذریعہ تھی ، ان کی بری نیتوں کی وجہ سے گمراہی اور وسیلہٴ گمراہی میں بدل گئی ہے کیونکہ وہ بھی حقیقت کی تلاش میں کوشاں نہیں تھے ۔ بلکہ ہر چیز کو نفاق، حسد اور مادیت کی سیاہ عینک سے دیکھتے ہیں ۔ اس کے بعد فرماتا ہے : یہ لوگ اگر چہ دوستی کے لباس میں جلوہ گر ہوتے ہیں لیکن یہ در اصل تمہارے جانی دشمن ہیں اور خداان سے آگاہ ہے ( و اللہ اعلم باعدائکم )۔ اس سے بڑھ کر اور کیا دشمنی ہوگی کہ وہ کبھی خیر خواہی کے لہجے میں اور کبھی بد گوئی کی زبان میں تمہاری ہدایت اور سعادت کی مخالفت کرتے ہیں اور ہر وقت اپنے برے مقاصد کی تکمیل کے در پے ہیں لیکن تم ان کی دشمنی سے نہ گھبراوٴ۔ تم اکیلے نہیں ہو ۔ یہی کافی ہے کہ تمہارا خدا تمہارا رہبر ، ولی اور مدد گار ہے

(لو کفیٰ باللہ ولیاو کفیٰ باللہ نصیراً)۔ کیونکہ وہ کچھ نہ سکیں گے ۔ اگر تم ان کی باتوں کو پاوٴں کے نیچے روند ڈالوں تو کسی کا ڈر نہیں ہے ۔
ضمناً ” اوتوا نصیباً من الکتاب“ ( کتاب کا کچھ حصہ انہیں دیا گیا ہے ) سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس جو کچھ تھا وہ مکمل آسمانی کتاب” تورات“ نہ تھی بلکہ اس کا کچھ حصہ تھا اور یہ بات تسلیم شدہ تاریخی حقائق کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے کیونکہ تورات کے بہت سے اصلی حصے یا تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدلتے گئے یا وہ بالکل نیست و نابود کر دئے گئے تھے ۔

۴۶۔مِنَ الَّذینَ ہادُوا یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَواضِعِہِ وَ یَقُولُونَ سَمِعْنا وَ عَصَیْنا وَ اسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَ راعِنا لَیًّا بِاٴَلْسِنَتِہِمْ وَ طَعْناً فِی الدِّینِ وَ لَوْ اٴَنَّہُمْ قالُوا سَمِعْنا وَ اٴَطَعْنا وَ اسْمَعْ وَ انْظُرْنا لَکانَ خَیْراً لَہُمْ وَ اٴَقْوَمَ وَ لکِنْ لَعَنَہُمُ اللَّہُ بِکُفْرِہِمْ فَلا یُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلیلاً ۔
ترجمہ
۴۶۔ بعض یہودی تورات کے کچھ فقروں کو ان کے مقام سے بدل دیتے تھے اور ( بجائے اس کے یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ) یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مخالفت کی اور نیز کہتے کہ سنو کہ ہر گز نہ سنو اور ( بطور طنز کہتے” راعنا“ یعنی )ہمیں بےوقوف نہ بناوٴ یہ اس لئے ہے کہ تاکہ وہ اپنی ز بان کو حقائق کو بدل ڈالیں اور دین خدا پر طعن و تشنیع کریں اگر وہ ( اس ہٹ دھرمی اور اصرار کی بجائے ) یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور ہماری بات سنو اور ہمیں مہلت دو ( تاکہ ہم حقائق کی تہ کو پہنچ سکیں ) تو یہ بات ان کے نفع میں تھی اور حقیقت کے ساتھ ساز گار تھی ۔ لیکن خدا نے انہیں ان کے کفر کی وجہ سے اپنی رحمت سے محروم کر دیا ۔ اس لئے اس لئے ان میں سے تھوڑے لوگوں کے سوا ایمان نہیں لائیں گے ۔


تیمم کا فلسفہیہودیوں کے کردار کا ایک اوررخ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma