اس دن ان لوگوں کی کیا حالت ہو گی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
”ذرّة“ کیا چیز ہے چندفقہی احکام

فکیف اذا جئنا من کل امة بشہید
گذشتہ آیتوں کے بعد جو بروں اور نیکوں کو سزا و جزا کے بارے میں تھیں یہ آیات روز قیامت کے گواہوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں پہلی آیت میں ہے : اس دن ان لوگوں کی کیا حالت ہو گی جب ہم ہر امت کے لئے ان کے اعمال کا گواہ لے آئیں گے اور تمہیں ان کا گواہ مقرر کریں گے ۔ اسی طرح جس انسانی کے اعضاء کی گواہی اس زمین کی گوا ہی جس پر وہ رہتے تھے اور اس کے اعمال پر خدا کے فرشتوں کی گواہی کے علاوہ ہر پیغمبر بھی اپنی امت کے اعمال پر گواہ ہوگا ۔ حضرت رسول اکرم (ص)
 جو سب سے آخری اور سب سے عظیم پیغمبر خدا ہیں اپنی امت کے اعمال پر گواہ ہو ں گے ۔ برے لوگ ان سب گواہوں کے ہوتے ہوئے کس طرح حقیقت کا انکار کر سکیں گے اور کیسے اپنے تئیں اپنے اعمال کی سزا سے بچا سکیں گے۔ اسی قسم کا مضمون کلام مجید کی چند دوسری آیتوں میں بھی ہے مثلاً بقرہ ۱۴۳، نحل ۸۹ اور حج ۷۸۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنی امت کے اعمال کے متعلق پیغمبروں کی گواہی کس قسم کی ہوگی ۔ اگر لفظ ھئو لاء کا اشارہ مسلمانوں کی طرف ہو جیسا کہ تفسیر مجمع البیان میں تحریر ہے تو اس سوال کا جواب واضح ہو جائے گا ۔ چونکہ ہر نبی جب تک اپنی امت کے درمیان رہے تو ان کے اعمال دیکھتا ہے اور اس کے بعد اس کے معصوم جانشین ان کے اعمال پر گواہ و ناظر ہوتے ہیں ۔ اسی لئے حضرت عیسی علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ قیامت کے دن خداند عالم کے سوال کے جواب میں عرض کریں گے:
ماقلت لھم لا ما امر تنی بہ ان اعبدوا اللہ ربی و ربکم و کنت علیھم شھیداًما دمت فیھم فلما ترفیتنی کنت انت الرقیب علیھم و انت علی کل شیء شھید۔

( المائدہ، ۷)
اے پانے والے !تو نے مجھے حکم دیا ہے میں نے انہیں اس کے سوا کچھ نہیں کہا۔ میں نے ان سے کہا کہ اس خدا کی جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے عبادت کرو اور جب تک میں ان کے درمیان تھا ان کے اعمال کو گواہ تھا لیکن جب سے تونے مجھے ان کے درمیان سے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے ۔
لیکن مفسرین کی ایک جماعت نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ لفظ” ھئو لاء“ گذشتہ امتوں کے گواہوں کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی اے رسول ( (ص)ہم تجھے تمام گواہوں اور گذشتہ انبیاء پر گواہ قرار دیں گے اور کئی ایک روایات میں بھی اس تفسیر کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ ۱
اس بناء پر آیت کا مفہوم اس طرح ہو گا کہ ہر پیغمبر حیاتِ و وفات ہر صورت میں باطنی اور روحانی مشاہدے کے ذریعے اپنی تمام امت کے حالات کا شاہد ہو گا اور حضور کی روح اقدس بھی اسی طریقہ سے تمام گذشتہ امتوں اور اپنی امت کے حالات کو دیکھنے والی اور انکے اعمال پر گواہ ہے ۔ یہاں تک کہ ممکن ہے امت کے صلحاء اور پر ہیز گاری میں اعلیٰ مقام کے حامل افراد بھی اس قسم کی استعداد رکھتے ہوں ۔ اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ حضرت پیغمبر اسلام کی روح اقدس خلقتِ آدم (ع) سے پہلے موجود تھی کیونکہ شہود کے معنی آگاہی اور موجود ہونے کے ہیں لیکن یہ تفسیر اس آیت کے ساتھ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نقل کی گئی ہے کوئی زیادہ مناسبت نہیں رکھتی کیونکہ وہ اپنی امت پر تا حیات گواہ تھے ( غور فرمائیے گا) ۲
اگر شہادت کو عملی شہادت کے معنی میں لیں یعنی نمونہ کے ایک فرد کے اعمال جو باقی لوگوں کے اعمال جانچنے کی میزان اور پیمانہ ہیں تو اس صورت میں مندرجہ بالا تفسیر میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا ۔ یعنی ہر پیغمبر اپنی مخصوص صفتوں کی بناپر اپنی امت کے اعمال کی جانچ کے لئے میزان و مقیاس ہے اور امت کے اچھے برے لوگوں کو ان کے ساتھ مشابہت رکھنے یا نہ رکھنے سے پہچانا جا سکتا ہے اور چونکہ حضرت رسول ِ اکرم (ص)
 خدا کے نبیوں میں سے بزرگ تریں ہستی ہیں اس لئے حضور کے اعمال و صفات تمام نبیوں کے درجات جانچنے کے لئے معیار ہوں گے ۔ اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا شہادت اسی معنی میں آئی ہے کہ نہیں لیکن اس طرف توجہ کرنے سے کہ نمونے کے انسانوں کے افکار و اعمال بھی عملہ طور پر گواہی دیتے ہیں کہ ایک انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ اس حد تک روحانی اور باطنی درجات حاصل کرے تو یہ معنی بعید دکھائی نہیں دیتے۔

 (غور فرمائیے گا)۔
یومئذ یود الذین کفروز و عصوا الرسولمیں آن.......
جس و قت کافر خدا وند عالم کے بھیجے ہوئے نبیوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے لوگ اس عدالت الہٰی میں ناقابل انکار شہود اور گواہ دیکھیں گے تو وہ اپنے کئے پر اتنا پشیمان ہوں گے کہ وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ خاک ہوتے اور زمین کی مٹی کے برابر ہو جاتے ۔ قرآن مجید فرماتا ہے : لو تسوی بھم الارض۔ سورہ نباء کے آخر میں اس طرح ہے :
و یقول الکافر یا لیتنی کنت تراباً۔
اس وقت کافر کہے گا اے کاش میں خاک ہوتا۔
لیکن” تسوی“ کی تعبیر ایک اور مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ کہ اس کے علاوہ کہ کافر یہ آرزوکریں گے کہ وہ خاک ہو جائیں ، یہ بھی چاہیں گے کہ ان کی خاک اور قبریں بھی زمین میں دب جائیں اور آس پاس کی زمینوں کے برابر ہو جائیں تاکہ وہ بالکل محو ہو جائیں ۔3
مگر وہ اس موقع پر کسی حقیقت کو نہ چھپا سکیں گے ( ولا یکتمون اللہ حدیثا)۔ کیونکہ اس شہود اور گواہوں کی موجود گی میں وہ انکار نہ کرسکیں گے ۔ البتہ ان دوسری آیات کے منافی نہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ بعض کافر قیامت کے دن بھی حقائق چھپائیں گے اور جھوٹ بولیں گے۔ کیونکہ ان کا جھوٹ شہوداور گواہوں سے پہلے ہو گا لیکن اس کے بعد جب انکار کی کوئی گنجائش نہ رہے گی تو وہ تما م حقائق کا اقرار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔
حضرت امیر المومنین (ع) نے ایک خطبہ میں فرمایا:
خدا قیامت کے دن کچھ لوگوں کے لبوں پر مہر خاموشی ثبت کردے گا تاکہ وہ بات نہ کرسکیں ۔ تو ایسے میں ان کے ہاتھ بولیں گے اور ان کے پاوٴں گواہی دیں گے اور جسم کی کھال اپنے اعمال بیان کرے گی ۔ غرض اس وقت کوئی شخص حقیقت کا انکار نہ کرسکے گا۔ 4
بعض مفسرین نے اس کے یہ معنی بھی لکھے ہیں کہ لایکتمون اللہ حدیثاسے مراد یہ ہے کہ وہ تمنا کریں گے کہ اے کاش جب وہ دنیا میں تھے تو پیغمبر اسلام کے بارے میں حقائق کو نہ چھپا تے ۔ اس بناپر یہ مذکورہ جملہ” لو تسوّی بھم الارض “ پر عطف ہو گا ۔ لیکن یہ تفسیر لایکتمون کے ظہور کے ساتھ جو فعل مضارع ہے کوئی مناسبت نہیں رکھتی ۔ اگر یہ معنی مراد ہوتے تو پھر یوں کہا جاتا:
”ولم یکتموا “

 

۴۳۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَ اٴَنْتُمْ سُکاری حَتَّی تَعْلَمُوا ما تَقُولُونَ وَ لا جُنُباً إِلاَّ عابِری سَبیلٍ حَتَّی تَغْتَسِلُوا وَ إِنْ کُنْتُمْ مَرْضی اٴَوْ عَلی سَفَرٍ اٴَوْ جاء َ اٴَحَدٌ مِنْکُمْ مِنَ الْغائِطِ اٴَوْ لامَسْتُمُ النِّساء َ فَلَمْ تَجِدُوا ماء ً فَتَیَمَّمُوا صَعیداً طَیِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوہِکُمْ وَ اٴَیْدیکُمْ إِنَّ اللَّہَ کانَ عَفُوًّا غَفُوراً۔
ترجمہ
۴۳۔ اے ایمان والوجب تم نشے میں ہوتو نماز کے قریب نہ جاوٴ ۔ جب تک تم یہ نہ سمجھ لو کہ تم کیا کررہے ہو اور اسی طرح جب تم جنابت کی حالت میں ہو جب تک غسل نہ کرلو مگر یہ کہ عالمِ مسافرت میں ہو ، اب اگر تم بیمار یا مسافر ہو یا قضائے حاجت کی ہے اور یا عورتوں سے مباشرت کی ہے اور اس حالت میں تمہیں ( وضو یا غسل کے لئے ) پانی نہ ملے تو پاک مٹی “سے تیمم کرو ۔ اس طرح سے کہ اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو۔ خدا بخشنے والا اور مغفرت کرنے والاہے ۔

 


۱تفسیر نو ر الثقلین ، تفسیر بر ہان آیہٴ مذکورہ کے ذیل میں۔
۲ - اس آیت سے حضرت عیسیٰ (ع) کا کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک الگ مفہوم رکھتی ہے ۔ ( مترجم )
3- سورہٴ انعام کی آیت ۲۲ اور ۲۳ ،اور سورہ مجادلہ کی آیت ۱۸۔
4- نور الثقلین ، جلد اوّل صفحہ ۴۸۲ منقول از تفسیر عیاشی ۔
”ذرّة“ کیا چیز ہے چندفقہی احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma