وَ اللاَّتی یَاٴْتینَ الْفاحِشَةَ ۔۔۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
عول اور تعصیب کسے کہتے ہیں اسلام کے تعزیری قوانین کا سہل اور ممتنع طریقہ

وَ اللاَّتی یَاٴْتینَ الْفاحِشَةَ ۔۔۔
لفظ فاحشہ جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے اصل میں بہت برے کام یا بری گفتگو کے معنی میں ہے اگر یہ لفظ زنا اور عفت و پاک دامنی کے خلاف کاموں کے بارے میں استعمال ہو تو وہ بھی اسی مناسبت سے ہے ۔ یہ لفظ قرآن مجید میں تیرہ مقامت پر آیا ہے ۔بعض مواقع پر زنا ، بعض جگہوں پر ” لواطت “ کے لئے اور بعض جگہوں پر نہایت برے اور سنگین کاموں کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ جیسا کہ اکثر مفسرین نے اس آیہ شریفہ کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ یہ آیت ان شوہر دار عورتوں کی سزا کی طرف اشارہ کرتی ہے جو زنا کار ہوں ۔ آیت مزید بتاتی ہے کہ اگر تمہاری بیویاں زنا کی تہمت سے آلودہ ہوں تو چار مسلمان مرد اس کام کے گواہوں کے طور پر بلاوٴ ۔ اگر وہ اس بات کی گواہی دیدیں تو پھر ان عورتوں کو گھر میں بند کردو یہاں تک کہ ان کو موت آجائے ۔
اس امر کی دلیل کہ مندرجہ بالا آیت زنائے محصنہ ۱
کی طرف اشارہ کرتی ہے ، اس قرینہ کے علاوہ جو آنے والی آیت میں ہے لفظ من نسائکم ( تمہاری بیویاں ) بھی ہے ۔ کیونکہ یہ تعبیر قرآن مجید میں بار بار آئی ہے ۔ اسی وجہ سے شوہر دار عورتوں کے عفت و عصمت کے منافی عمل کی سزا اس آیت میں --” عمر قید “ مقرر ہوئی ہے ۔ لیکن اس کے بعد آیت فورا ً بلا فاصلہ کہتی ہے : ( او یجعل اللہ لھن سبیلا ) یا یہ کہ خدا ان کے لئے کوئی راستہ نکال دے ۔ یعنی ان کے لئے قید کی سزا جاری ہے یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا یہ کہ کوئی نیا قانوں خدا کی طرف سے ان کے لئے معین ہو ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ ایک وقتی حکم تھا جو شروع شروع میں نازل ہوا تا کہ آئیندہ جب حالات اور افکار سازگار ہو جائیں تو ان کے بارے میں ایک نیا حکم نازل کیا جائے ۔ اس موقع پر جو عورتیں اس قانون کی زد میں آتی ہیں اور ابھی تک زندہ ہیں وہ فطرتا ً قید سے آزاد ہو جائیں گی اور دوسری سزا بھی انہیں نہ دی جائے گی ۔ ان کی قید خانہ سے آزادی پہلا حکم منسوخ ہو جانے کی وجہ سے ہوگی ۔ باقی رہا سزا کا نہ ملنا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سزا کا قانون ان کے کاموں کے لئے ہوتا ہے جو اس کے آنے کے بعد انجام پائیں اس طرح آئندہ کے لئے جو بھی قانون ہو وہ ان قیدیوں کی رہائی کا راستہ ہے ۔ البتہ نیا قانون ان تمام افراد کے لئے ہے جو آئندہ جرم کریں گے

 

( غور و فرمایئے گا )
باقی رہا وہ احتمال جو بعض نے پیش کیا ہے کہ ” او یجعل اللہ لھن سبیلا “ سے مراد یہ ہے کہ خدا وند عالم نے سنگساری کے متعلق اپنے آئندہ حکم کے ذریعے ایسے افراد کے لئے آزادی کی راہ کھول دی ہے ، تو یہ نظریہ درست نہیں ہے کیونکہ یہ کبھی بھی ” لھن سبیلا “

 

( ان کے لئے نفع کی راہ ) کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا کیونکہ کسی کو قتل کر دینا نجات کا راستہ نہیں ہے ہم جانتے ہیں کہ وہ قانون جو اسلام نے زنائے محصنہ کا ارتکا کرنے والوں کے لئے بعد میں مقرر کیا ہے ، ”رجم “ ( سنگسار کرنا ) ہے جو احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں بطور مسلم موجود ہے اگر چہ قرآن میں اس کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ۔
جو کچھ ہم رقم کر چکے ہیں اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مندرجہ بالا آیت ہر گز منسوخ نہیں ہوئی کیونکہ نسخ ان احکامات کے بارے میں صادق آتا ہے جو شروع میں بصورت مطلق ہوں نہ کہ وقتی اور محدود طور پر ، جبکہ مندرجہ بالا آیت نے عمر قید کا حکم محدود اور وقتی حیثیت سے ذکر کیا ہے اور اگر کچھ روایتوں میں ہے کہ آیات مندرجہ بالا ان کے احکام کے ذریعہ جو عفت و عصمت کے منافی اعمال کی سزا کے بارے میں آئے ہیں ، منسوخ ہو گئی ہے تو اس سے مراد اصطلاحی نسخ نہیں ہے کیونکہ نسخ کا لفظ روایات کی زبان میں حکم کے ہر طرح سے خاتمے کے لئے بولا جاتا ہے ( غور کیجئے گا ) ۔
ضمنا ً اس طرف بھی توجہ دینا چاہیے کہ اس قسم کی عورتوں کو گھر میں قید رکھنے کا حکم ایک طرف سے تو ان کے فائدہ میں ہے کیونکہ یہ ان کو عام قید خانوں میں قید کرنے سے کہیں بہتر ہے ۔ دوسری طرف تجربہ بتاتا ہے کہ عا م قید خانے معاشرے کو بگاڑنے اور تباہ و برباد کرنے میں گہرا اثر رکھتے ہیں کیونکہ یہ عام طور پر برائیوں کی بہت بڑی درسگاہ ہوتے ہیں ۔ مجرم لوگ وہاں اپنے تجربے ایک دوسرے کو منتقل کرتے ہیں کیونکہ وہ اکھٹے رہتے ہیں اور ان کے پاس وسیع فارغ وقت بھی ہوتا ہے ۔
وَ الَّذانِ یَاٴْتِیانِہا مِنْکُمْ ۔۔۔
اس کے بعد خدا وند عالم اس آیت میں غیر محصنہ ( غیر شادی شدہ ) سے سرزد ہونے والے زنا اور عفت کے منافی عمل کا ذکر کتے ہوئے فرماتا ہے : اگر کنوارے مرد ، عورت یہ برا کام کریں تو نہیں سزا دو ۔اگر چہ اس آیت میں زنائے غیر محصنہ کی صراحت نہیں ہے ۔ لیکن اس لحاظ سے کہ یہ آیت گذشتہ آیت کے بعد آئی ہے اور زنا کیجس سزا کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے وہ اس سزا سے جدا اور الگ ہے جو گذشتہ آیت میں تھی اور اس سے ہلکی ہے ۔ بنا بریں اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکم زنا کرنے والوں میں سے ایسے گروہ کے بارے میں ہے جو پہلی آیت میں داخل نہ تھا اور چونکہ گذشتہ آیت اس قرینہ سے جس کی طرف اشارہ کر چکے ہیں محصنہ کے زنا کے ساتھ مخصوص ہے ، تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ آیت غیر محصنہ کے زنا کے بارے میں حکم بیان کر رہی ہے ۔
یہ نکتہ بھی واضح ہے کہ اس آیت میں ذکر ہوئی سزا ایک کلی سزا ہے اور سورہٴ نور کی آیت ۲ میں جو حد زنا طرفین میں سے ہر ایک کےلئے سو کوڑے بیان کی گئی ہے ، بہت ممکن ہے کہ وہ اس آیت کی تفسیر و توضیح ہو اسی دلیل کی بنا پر یہ حکم منسوخ نہیں ہوا ۔
تفسیر عیاشی میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :
البکر اذا اتت الفاحشة التی اتتھا ھذہ الثیب فازوھما ۔
یعنی اس آیت سے مراد غیر شادی شدہ مرد عورت ہیں اگر وہ برا کام کریں تو انہیں سزا دی جائے ۔ لفظ ” اللذان “اگر چہ تثنیہ مذکر کا صیغہ ہے ، تا ہم اس سے مراد مرد اورعورت دونوں ہی ہیں اور یہ اصطلاح کے مطابق باب تغلیب سے ہے ۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال تحریر کیا ہے کہ یہ آیت لواطت جیسے بد ترین کام کے بارے میں ہے اور گذشتہ آیت کا ربط مساحقہ ( عورت سے عورت کا مباشرت کرنا ) کے ساتھ ہے ۔ لیکن ” یاٴتیانھا “ کی ضمیر ” فاحشہ کی طرف پھیرنے سے جو گذشتہ آیت میں ہے ، یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ منافی عفت عمل جس کا اس آیت میں ذکر ہے ، اسی نوعیت کا ہے جس نوعیت کا آیت میں ذکر کیا گیا ہے ۔ بنا بریں ایک کو لواطت کے بارے میں اور دوسرے کو مساحقت کے بارے میں سمجھنا ظاہر کے خلاف ہے ۔ اگر چہ یہ دونوں انواع ہم جنس سے ملاپ کرنے میں شریک ہیں ۔
اس بنا پر دونوں آیت کا زنا سے تعلق ہے ۔ ان سب کو چھوڑتے ہوئے بھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں لواطت کی سزا قتل ہے نہ کہ آزار اور تکلیف پہنچانا اور کوڑے مارنا ۔ غرض اس امر کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ زیر بحث آیت منسوخ ہو گئی ہے ۔
فَإِنْ تابا وَ اٴَصْلَحا فَاٴَعْرِضُوا عَنْہُما إِنَّ اللَّہَ کانَ تَوَّاباً رَحیماً۔
خدا وند عالم آیت کے آخر میں اس قسم کے گناہوں کے لئے توبہ اور بخشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
اگر وہ واقعا ً توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرکے گذشتہ گناہوں کی تلافی کر لیں تو ان کی سزا سے صرف نظر اور چشم پوشی کرلو کیونکہ خدا وند عالم توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے ۔ یہ حکم حقیقت میں اس قسم کی خطا کاروں کے لئے واپس آنے کی راہ کھولتا ہے کہ توبہ اور اصلاح کی صورت میں اسلامی معاشرہ فراخ دلی کے ساتھ دامن پھیلائے ہوئے انہیں قبول کر لیتا ہے اور اب وہ معاشرے کے دھتکارے یوئے افراد بن کر نہیں رہتے ۔
البتہ جیسا کہ فقہی کتب میں ہے توبہ اس صورت میں درست ہے کہ وہ اسلامی عدالت میں ثبوت جرم ، شہادت گواہان اور عدالت اسلامی کا حکم صادر ہونے سے پہلے کی جائے لیکن وہ توبہ جو حکم صادر ہونے کے بعد ہو ، کوئی وزن نہیں رکھتی ہاں اس حکم سے ضمنا ً یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ توبہ کرچکے ہیں انہیں گذشتہ گناہوں کا ذمہ دار ٹھہراکر برا بھلا نہ کہا جائے ۔
تو جہاں سزا کا حکم اور حد شرعی ساقط ہو جائے وہاں پر بدرجہ اولیٰ لوگ اس کے کئے ہوئے گناہ سے چشم پوشی کریں ۔ اسی طرح وہ لوگ جن کے بارے میں یہ حد جاری ہو گئی ہو اور اس کے بعد وہ توبہ کرلیں وہ بھی مسلمانوں کی طرف سے چشم پوشی کے مستحق ہیں ۔

 

 
۱ ۔ محصنہ سہاگن یا شوہر دار عورت کو کہتے ہیں ۔(مترجم)
عول اور تعصیب کسے کہتے ہیں اسلام کے تعزیری قوانین کا سہل اور ممتنع طریقہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma