”حدود “ حد کی جمع ہے ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
چند اہم نکات اسلامی قانون میراچ کی خصوصیات

”حدود “ حد کی جمع ہے ۔ اصل میں اس کا معنی ہے منع کرنا اور روکنا ۔ بعد ازاں ہر اس چیز کو جو دو چیزوں کے درمیان حد فاصل ہو اور انہیں ایک دوسرے سے ممتاز اور جدا کرے حد کہا جانے لگا ۔ مثلا ً گھر کی حد ، باغ کی حد ِ شہر کی حد اور ملک کی حد ۔ گویا ایسے نقاط کو حد کہا جاتا ہے جو نہیں دوسرے نقاط سے جدا کریں ۔
خدا وند عالم مندرجہ بالا آیت میں لفظ تلک کے ذریعے میراث کے قوانین کی طرف جو گذشتہ آیت میں آچکے ہیں اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : یہ خدا کی سر حدیں ہیں پھندنا اور عبور کرنا منع ہے ۔ جو ان سے آگے بڑھیں گے وہ گناہ گار سمجھے جائیں گے ۔
تلک حدود اللہ کا یہ مفہوم کلام مجید کی متعدد آیات میں آیا ہے اور یہ ہر جگہ اجتماعی حکامات اور مقرارت بیان کرنے کے بعد آیا ہے مثلا سورہٴ بقرہ کی آیت ۱۸۷ میں اعتکاف میں جنسی ملاپ کی ممانعت اور روسہ کے احکام کے بعد ہے سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۲۹ اور ۲۳۰ ، سورہ طلاق کی آیت ۱۰ میں طلاق کے چھ احکام کے بعد اور سورہ مبادلہ آیت ۴ میں کفارہ کے بیان کے بعد ہے ۔ ان سب موقعوں پر احکام و قوانین بیان ہوئے ہیں جن سے آگے بڑھنا ممنوع ہے اور وہ خدا ئی سر حدوں کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ۱
من یطع اللہ و رسولہ یدخلہ جنات ۔۔۔
خدا وند عالم ان چند خدائی حداو اور سر حدوں کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : وہ لوگ جو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں اور ان سرحدوں کا احترام کرتے ہیں ، ہمیشہ ہمیشہ جنت کے باغوں میں رہیں گے جن کے درختوں کے نیچے سدا پانی بہتا رہتا ہے ۔ آیت کے آخر میں فرماتا ہے : یہ بہت بڑی کامیابی و کامرانی ہے (و ذٰلک الفوز العظیم ) ۔
وَ مَنْ یَعْصِ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ وَ یَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ ناراً خالِداً فیہا
آیت کا یہ حصہ ان لوگوں کے مخالف نقطہ نظر کو بیان کرتا ہے جن کی طرف گذشتہ آیتوں میں اشزرہ کیا جا چکا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : وہ لوگ جو خدا اور اسے رسول کی نا فرمانی کرتے ہیں اور ان کے احکامات کی سرحدیں پھاند جاتے ہیں وہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے ۔
البتہ ہم جانتے ہیں کہ صرف خدا کی حکم عدولی (چاہے وہ گناہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہو) ہمیشہ کے عذاب کا سبب نہیں ہے ۔ اس وجہ سے آیت مذکورہ بالا میں وہ لوگ مراد لئے گئے ہیں جو دشمنی ، سرکشی ، بغاوت اور آیات الہی کے انکار کی بنا پر خدا وند عالم کے احکامات کو اپنے پاوٴں کے نیچے روند ڈالتے ہیں ۔ یہ حقیقت میں وہ خدا اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ۔ اس بات کی طرف غور فکر کرتے ہوئے کہ لفظ حدود جمع ہے اور تمام قوانین الہی پر محیط ہے ، یہ معنی بعید دکھائی نہیں دیتا کیونکہ جو شخص خدا وند عالم کے سب قانون توڑ دے وہ ہر گز خدا پر ایمان نہیں رکھتا ۔ ورنہ ان میں سے کسی کا احترام تو کرتا ۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ گذشتہ آیتوں میں اہل بہشت کے بارے میں ” خالدین فیھا “ ( ہمیشہ جنت میں رہیں گے ) جمع کی صورت میں آیا ہے اورا س آیت میں جو دوزخیوں کے متعلق ہے ” خالداً فیھا “ جو واحد کی شکل میں آیا ہے ۔ ایسی دو آیات میں جو جنت کی نعمتوں سے ایک نعمت شمار ہوتی ہے جبکہ اہل دوزخ عذاب الہی میں اس طرح پھنسے ہوئے اور ڈوبے ہوئے ہوں گے کہ انہیں دوسروں کی کوئی سدھ بدھ نہ ہوگی ۔ غرض وہ عملی طور پر اکیلے ہوں گے یہاں تک کہ یہ بات اس دنیا میں اپنی رائے پر چلنے والوں اور الگ تھلگ رہنے والے لوگوں کے بارے میں مل جل کر اور اجتماعی زندگی بسر کرنے والوں کے مقابلے میں صادق آتی ہے کہ یہ لوگ اس دنیا میں جنتی اور وہ دوزخی ہیں ۔
و لہ عذاب مھین
ان کے لئے ذلیل اور رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔
اصل میں گذشتہ جملے میں عذاب خدا وندی کی جسمانی سزاوٴں کا پہلو جھلکتا ہے اور کیونکہ اس جملہ میں ذلت و رسوائی کا تذکرہ بھی ہے اس لئے یہاں روحانی پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔


۱ ۔حدود اللہ کی تفسیر کے سلسلے میں اس تفسیر کی جلد ۲ میں مزید بحث ہو چکی ہے ۔ اردو ترجمہ ص ۱۰۱ ملاحظہ کیجئے ۔

 

چند اہم نکات اسلامی قانون میراچ کی خصوصیات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma