چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
بھائیوں اور بہنوں کی میراث ”حدود “ حد کی جمع ہے ۔

۱ ۔ جو کچھ مندرجہ بالا آیت میں بہن بھائیوں کی میراث کے بارے میں ہے اگر چہ وہ بظاہر مطلق ہے اور پدری مادری بہن بھائیوں اور صرف پدری یا صرف مادری بھائیوں کے بارے میں ہے ۔ لیکن سورہٴ نساء ہی کی آخری آیت کی طرف توجہ کرنے سے جس کی تفسیر عنقریب لکھی جائے گی معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے مراد متوفی کے صرف مادری بہن بھائی ہیں ( جو ماں کی طرف سے بھائی بہن ہوں )۔
جبکہ سورہٴ نساء کی آخری آیت پدری مادری یا صرف پدری بہن بھائیوں کے بارے میں ہے ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہم اس آیت کے ذیل میں اس سلسلے میں شواہد پیش کریں گے ۔
اگر چہ اس بنا پر کہ یہ دونوں آیتیں ” کلالہ “ بہن بھائیوں کی میراث سے بحث کر رہی ہیں اور بظاہر ایک دوسرے کے خلاف ہیں لیکن دونوں آیات کے مضامین میں غورو فکر کرنے سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک بہن بھائیوں کی ایک خاص صورت کے متعلق وضاحت کر رہی ہے ۔ بنا بر یں ان دونوں آیتوں میں کسی قسم کا تضاد نہیں ہے ۔
۲۔ ظاہر ہے کہ اس طبقے کی وراثت اس صورت میں ہے جب پہلے طبقے یعنی ماں باپ اور اولاد میں سے کوئی باقی نہ ہو ۔ اس امر کی شاہد یہ آیت ہے :
”و اولو الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ “
رشتہ داروں میں سے بعض کے تقرر اور تعین میں دوسروں پر ترجیح رکھتے ہیں یعنی جو مرنے والے کے زیادہ قریب ہیں وہ مقدم ہیں ۔ (انفال ۔ ۷۵)
اسی طرح وہ بہت سی روایتیں جو اس سلسلے میں منقو ل ہیں وہ میراث کے طبقات کے تعین اور بعض کی بعض پر ترجیح پر مزید گواہ ہیں ۔
۳۔ ھم شرکاء فی الثلث ، اگر ایک سے زیادہ ( مادری بھائی اور بہنیں ) ہوں تو وہ مال کے ایک تہائی میں برابر برابر کے شریک ہیں اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک تہائی مال آپس میں مساوی طور پر تقسیم کریں گے اور اس صورت میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ شراکت مطلقہ کا مفہوم حصوں کا برابر برابر ہونا ہے ۔
۴۔ مندرجہ بالا آیت سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ انسان یہ حق نہیں رکھتا کہ وصیت لے ذریعہ یا ایسا قرضہ بیان کرکے جو در اصل اس کے ذمہ نہیں ہے وارثوں کے خلاف سازش کرے اور ان کا حق ضایع کرے ۔ ہاں اس کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ جو قرضہ مچھ اس کے ذمہ ہے آخری موقع پر انہیں بتا دے اور وہ عادلانہ وصیت کا حق رکھتا ہے جس کی حد روایار کی رو سے مال کا ایک تہائی حصہ ہے ۔
اس سلسلے میں رہبران اسلام کے ارشادات میں سخت ہدایات دکھائی دیتی ہیں ان میں سے ایک حدیث میں ہے :
ان الضرار فی الوصیة من الکبائر ۔
وارثوں کو نقصان پہنچانا اور انہیں بےجا وصیت کے ذریعے حق شرعی سے محروم کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔ 1
اسلام حقیقت میں اس حکم کے ذریعے ایک طرف تو اس شخص کو اس کے مال کے ایک حصے سے اس کی وفات کے بعد بھی فائدہ و ثواب پہنچانا چاہتا ہے دوسری طرف وارثوں کو بھی فائدہ پہنچانا چاہتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ کینہ اور دشمنی کی وجہ سے محبت کا رشتہ جسے مرنے کے بعد بھی زندہ رہنا چاہیے منزور اور سست پڑ جائے ۔

۱۳ ۔تِلْکَ حُدُودُ اللَّہِ وَ مَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہارُ خالِدینَ فیہا وَ ذلِکَ الْفَوْزُ الْعَظیمُ
۱۴۔ وَ مَنْ یَعْصِ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ وَ یَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ ناراً خالِداً فیہا وَ لَہُ عَذابٌ مُہینٌ۔
ترجمہ
۱۳ ۔ یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی ) سرحدیں ہیں ۔ جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرے ( اور اس کے قوانین کی سرحدوں کا احترام کرے ) وہ اسے اسی جنت کے باغوں میں بھیجے گا جس کے درختوں کے نیچے پانی کی نہریں جاری رہتی ہیں اور یہ لوگ ہمیشہ کے لئے اس میں رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے ۔
۱۴۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی سر حدوں سے تجاوز کرے گا تو وہ اسے ایسی آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے ذلت آمیز سزا ہے ۔

 

 
1 ۔ مجمع البیان
 
بھائیوں اور بہنوں کی میراث ”حدود “ حد کی جمع ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma