بھائیوں اور بہنوں کی میراث

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
میراث ، وصیت اور قرض کے بعد ہےچند اہم نکات

وَ إِنْ کانَ رَجُلٌ یُورَثُ کَلالَة۔۔۔
اس آیت میں ہمیں ایک نیا لفظ ملا ہے جو قرآن میں صرف دو مقام پر آیا ہے ۔ ایک زیر بحث آیت میں اور دوسرے سورہٴ نساء ہی کی آخری آیت میں اور وہ ہے لفظ ”کلالہ “ لغات کی کتابیں دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ” کلالہ “ اصل میں مصدری معنی رکھتا ہے اور ” کلال “ کے معنی میں ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے ” قوت و توانائی کا ختم ہونا “ ۔ 1
لیکن یہ لفظ بعد میں ان بہن بھائیوں کے لئے استعمال ہوا ہے جو متوفی کی میراث لیتے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ اور مناسبت یہ ہے کہ بھائی اور بہنیں میراث کے دوسرے طبقہ کا جزء ہیں اور صرف ماں باپ اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں وارث ہوتے ہیں اور ایسا شخص جس کے ماں باپ ، اور اولاد نہ ہو یقینا رنج و مصیبت میں ہوتا ہے اور اپنی بیوی طاقت اور توانائی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ اس لئے انہیں ” کلالہ “ کہا جاتا ہے ۔ راغب مفردات میں لکھتا ہے کہ ” کلالہ “ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو متوفی کی میراث اس صورت میں لے جبکہ اس کے ماں باپ ، اولاد اور اولاد در اولاد نہ ہو ۔ لیکن ایک اور روایت جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے ، سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” کلالہ“ عنوان اور نشان ہے ایسے شخص کے لئے جو دنیا سے اس حال میں چل بسا ہو کہ اس کے نہ ماں باپ ہوں نہ اولاد ہو۔
نیز اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ کلالہ کا لفظ متوفی کے لئے بولا جائے اور اس قسم کے رشتہ داروں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہو ۔ جیسا کہ اس نے اپنی کتاب میں اس موضوع کی وضاحت کی ہے ۔
باقی رہا یہ کہ قرآن مجید نے بہن بھائیوں کے الفاظ کے بجائے لفظ کلالہ کیوں چنا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ایسے اشخاص جن کے ماں باپ ہوں نہ اولاد ، وہ یہ بات مد نظر رکھیں کہ ان کا مال ایسے لوگوں کے ہاتھ آئے گا جو اس کی کمزوری اور نا توانی کی نشانی ہیں ۔ اس لئے قبل از ایں کہ غیر لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں وہ خود اس مال کو کمزور مواقع ( ضرورت مند لوگوں کی مدد اور اجتماعی فلاح و بہبود ) میں خرچ کرے ۔
اب ہم آیت کی تفسیر کی طرف لوٹتے ہیں :
وَ إِنْ کانَ رَجُلٌ یُورَثُ کَلالَةً اٴَوِ امْرَاٴَةٌ وَ لَہُ اٴَخٌ اٴَوْ اٴُخْتٌ فَلِکُلِّ واحِدٍ مِنْہُمَا السُّدُسُ ۔۔۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ اگر کوئی شخص دنیا سے اٹھ جائے اور بہن بھائی اس کی میراث لے لیں یا کوئی عورت دنیا سے چل بسے اور اس کا ایک بھائی اور ایک بہن زندہ ہو تو ان میں سے ہرایک اس کے مال کا چھٹا حصہ لے گا ۔
یہ اس صورت میں ہے جبکہ متوفی کا ایک بھائی یا بہن باقی رہ گئے ہوں اور اگر وہ ایک سے زیادہ ہوں تو پھر وہ ک مال کی ایک تہائی لیں گے ۔ یعنی ان کو چاہیے کہ ایک تہائی مال آپس میں بانٹ لیں ۔( فَإِنْ کانُوا اٴَکْثَرَ مِنْ ذلِکَ فَہُمْ شُرَکاء ُ فِی الثُّلُثِ ) ۔
اس جے بعد مزید فرماتا ہے : مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصی بِہا اٴَوْ دَیْنٍ
یہ اس صورت میں ہے کہ جبکہ وصیت پہلے پوری ہو چکی ہو اور قرض ادا کیا جا چکا ہو (غیر مضار ) یعنی اس حالت میں جبکہ وصیت اور قرض میں وارثوں کو نقصان پہنچنے کا کوئی پہلو نہ ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ ما ل کی وصیت نہ کرے کیونکہ ان روایتوں کے مطابق جو حضرت رسول اکرم اور ائمہ اہل بیت (ع) سے مروی ہیں ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کرنا گویا وارثوں کو نقصان پہنچانا ہے ۔ ایسی وصیت کی تعمیل وارثوں کی اجازت سے ہوگی یا یہ کہ وارثوں کو محروم کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کے لئے مقروض نہ ہوتے ہوئے خواہ مخواہ قرض کی ادائیگی کا ذکر کر دیا گیا جائے ۔
آخر میں تاکید کے طور پر فرماتا ہے :
وَصِیَّةً مِنَ اللَّہِ وَ اللَّہُ عَلیمٌ حَلیم۔
یعنی ۔ یہ خدا کی وصیت اور نصیحت ہے اس کا احترام کرنا چاہے کیونکہ وہ تمہاری بہتری کو خوب جانتا ہے ۔ جس نے یہ حکم مقرر کئے ہیں وہ وصیت کرنے والوں کی نیت سے بھی واقف ہے لیکن اس کے باوجود وہ برد بار بھی ہے ۔ چنانچہ ان لوگوں کو جو اس کے حکم کو نہیں مانتے فورا ً سزا نہیں دیتا ۔


1۔ صحا ح الغة میں ہے ۔ ” الکلالة فی الاصل مصدر بمعنی الکلال و ھو ذھاب القوة ۔
میراث ، وصیت اور قرض کے بعد ہےچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma