باقی رہا ماں باپ کا ورثہ جو پہلے طبقہ کا حصہ ہیں اور ورثہ کے لحاظ سے اولاد کے برابر ہیں ( یعنی طبقہ اول سے تعلق رکھتے ہیں ) ۔ ان کی میراث وہی ہے جو مندرجہ بالا آیت میں آ چکی ہے ۔ اس کی تین حالتیں ہیں :
پہلی یہ کہ مرنے والے کے ایک یا کئی بیٹے اور بیٹیاں ہوں تو اس صورت میں ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا ۔
(وَ لِاٴَبَوَیْہِ لِکُلِّ واحِدٍ مِنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِنْ کانَ لَہُ وَلَدٌ )
دوسری یہ کہ مرنے والے کی کوئی اولاد نہ ہو اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔ اس صورت میں ماں کا حصہ کل مال کا ایک تہائی ہے ( فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ وَلَدٌ وَ وَرِثَہُ اٴَبَواہُ فَلِاٴُمِّہِ الثُّلُثُ) ۔ یہاں باپ کا حصہ ذکر نہیں کیا گیا ہے تو اس اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا حصہ واضح ہے یعنی دو تہائی البتہ اگر مرنے والے کی بیوی ہو یا مرنے والی کا شوہر موجود ہو تو اس صورت میں بیوی یا شوہر کا حصہ باپ کے حصہ میں سے منہا ہو جائے گا ۔ یعنی اس صورت حال میں باپ کا حصہ دوسری شق میں تبدیل ہو جائے گا ۔
تیسری یہ ہے کہ صرف ماں باپ وارث ہوں۔ اولاد نہ ہو ۔ لیکن مرنے والے کی پدری مادری (سگے بھائی ) یا صرف پدری ( سوتیلے ) بھائی موجود ہوں تو اس صورت میں ماں ماں کا حصہ ایک تہائی کے بجائے چھٹا ہو جائے گا حقیقت میں اگر چہ بھائی میراث نہیں لیں گے لیکن اس صورت میں اضافہ مقدار نہ لے سکے گی ۔ اسی بنا ر انہیں ” حاجب “ کہتے ہیں ۔(فَإِنْ کانَ لَہُ إِخْوَةٌ فَلِاٴُمِّہِ السُّدُسُ)۔
اس کا فلسفہ واضح ہے ک۔ کئی بھائیوں کا ہونا باپ کی زندگی کے بوجھ کو بڑھاتا ہے کیونکہ باپ ان کے اخراجات کا کفیل ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائیں بلکہ جوان ہونے کے بعد بھی ان کے کئی اخراجات باپ کو اٹھانا پڑتے ہیں ۔ اسی لئے وہ بھائی ، ماں کے حصہ کی کمی کا سبب بنتے ہیں ۔ اگر وہ ماں باپ یا صرف باپ کی طرف سے بھائی ہوں تو وہ بھائی جو صرف ماں کی طرف سے ہیں ان کی کسی قسم کی ذمہ داری باپ پر نہیں ، وہ ” حاجب “ نہیں بنتے