میراث گذشتہ اقوام عالم میں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
میراث ایک فطری حق ہے ایک سوال اور اس کا جواب

وراثت کا قانون فطری بنیادوں پر قائم ہے وہ گذری ہوئی قوموں میں بھی مختلف شکلوں میں دکھائی دیتا ہے اگر چہ بعض لوگ یہودیوں کے متعلق یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان میں قانون وراثت کا وجود نہیں تھا لیکن موجودہ تورات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قانون بڑی تفصیل کے ساتھ سفر ” اعداد “ میں موجود ہے ۔ اس میں ہے :
اور بنی اسرائیل سے کہہ دو کہ اگر کویہ شخص مر جائے اور اس کے بیٹا نہ ہو تو اس کی میراث بیٹی کو دے دو اگر بیٹی بھی نہ ہو تو اس کا ورثہ اس کےب باپ کے بھائیوں کو دے دو اگر اس کے باپ کا کوئی بھائی نہیں ہے تو اس کے پس ماندگان میں سے جو بھی اس کا زیادہ نزدیکی رشتہ دار ہے اسے ترکہ دے دو ۔ تا کہ وہ اس کا وارث بن جائے اور یہ امر بنی اسرائیل کے لئے واجب ہے ۔ اس لئے کہ خدا وند عالم نے موسی کو یہ حکم دیا ہے ۔ ۱
مندرجہ بالا فقروں سے پتہ چلتا ہے کہ بنی اسرائیل میں میراث کا تعلق صرف اہل نسب سے ہی تھا کیونکہ اس میں شروع وے آخر تک بیوی اور شوہر کا نام نہیں ہے ۔
دین مسیحی میں اس قانون کو معتبر سمجھا جائے گا کیونکہ مسجودہ انجیل میں منقول ہے کہ حضرت مسیح (ع) نے فرمایا : ۔
میں اس لئے نہیں آیا کہ تورات کے احکامات میں کوئی رو بدل کروں ۔
اسی لئے ان کی موجودہ کتب و رسائل مذہبی میں میراث کی کوئی بحث نہیں پائی جاتی ۔ صرف چند مقامات پر لفظ ارث کے مشتقات پر گفتگو کی گئی ہے جو سب کی سب معنوی یا اخروی میراث کے بارے میں صحیح ہے ۔
اسلام سے پہلے عربوں میں تین طریقوں سے میراث بٹتی تھی :
۱۔ ” نسب “ اس سے مراد ان کے ہاں صرف بیٹے اور مرد تھے ۔ بچے اور عورتیں ترکہ سے قطعی طور پر محروم تھیں۔
۲۔” متبنیٰ “۔یعنی ایسا بیٹا جسے ایک خاندان نے دھتکار دیا ہو اور دوسرے نے اسے اپنی طرف منسوب کر لیا ہو یہ در اصل منہ بولا بیٹا ہوتا تھا ۔ اس صورت میں اس منہ بولے بیٹے اور اس کے منہ بولے باپ کے درمیان قانون وراثت جاری ہو جاتا تھا ۔
۳ ۔عہد و پیمان ۔ دو آدمی آپس میں معاہدہ کر لیتے تھے کہ وہ زندگی بھر ایک دوسرے کا دفاع کریں گے اور مرنے کے بعد ایک دوسرے راز دار اور وراثت رہیں گے ۔
اسلام نے میراث کے فطری اور طبعی قانوں کو ان خس و خاشاک سے پاک کر دیا اور ظالمانہ تفریقات جو ایک طرف عورت مرد اور دوسری طرف چھٹے بڑے کے درمیان تھیں ۔ انہیں دور کر دیا ۔
اسلام نے تین چیزوں کو میراث کا سر چمہ قرار دیا ۔ اسلام سے پہلے یوں نہ تھا ۔وہ تین چیزیں یہ ہیں :
۱۔ ” نسب “ اپنے وسیع مفہوم کے ساتھ یعنی ہر قسم کا تعلق جو تولد کے ذریعے دو اشخاص کے درمیان مختلف سطحوں میں ظاہر ۔ چاہے وہ مرد عورت ہوں چاہے چھوٹے بڑے ۔
۲ ۔” سبب ‘ ‘ یعنی ایسے روابط جو شادی کے ذریعے مختلف افراد کے درمیان پیدا ہو جائیں ۔
۳۔ ” ولاء “اس سے مراد ایسے روبط ہیں جو نسبی یا سببی رشتہ داری کے علاوہدو اشخاص میں پیدا ہوں مثلاً عتق یعنی اگر کوئی شخص اپنے غلام کو آزاد کر دیتا ہے اور موت کے غلام اپنا کوئی نسبی یا سببی رشتہ دار نہیں چھوڑتا تو اس کا مال آزاد کرنے والے کو مل جائے گا اور یہ خود غلام آزاد کرنے کی ایک جزا اور ترغیب ہے۔
اسی طرح ولاء ضمان جریرہ ہے یہ ایک خاص معاہدہ تھا جو افراد کے درمیان ان کی خواہش اور ارادے سے قائم ہو جاتا تھا اور طرفین یہ امر اپنے ذمہ لے لیتے تھے کہ وہ مختلف مواقع پر ایک دوسرے کا دفاع کریں گے اور مرنے کے بعد ( جبکہ ان کے درمیان کسی قسم کی نسبی یا سببی رشتہ داری بھی نہ ہو ) ایک دوسرے کی میراث لےں گے ۔
اسی لئے طرح ولاء امامت ہے یعنی اگر کوئی شخص دنیا سے چل بسے اور اپنے بعد کسی قسم کا نسبی اور سببی رشتہ دار نہ چھوڑے تو اس کی میراث امام کو یا دوسرے لفظوں میں مسلمانوں کے بیت المال کو ملے گی ۔ البتہ مندرجہ بالا طبقات کے لئے شرطیں اور احکام ہیں جو کتب فقہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ۔
تفسیر
یُوصیکُمُ اللَّہُ فی اٴَوْلادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاٴُنْثَیَیْنِ
اس آیت میں وارثوں کے پہلے طبقے (اولاد اور ماں باپ ) کے بارے میں حکم بیان کیا گیا ہے ۔ واضح ہے کہ ربط و تعل ق کی رو سے کوئی رشتہ اولاد ۔ ماں اور باپ سے زیادہ قریبی نہیں ہے ۔ اسی لئے قرآن نے انہیں میراث کے دیگر طبقات پر مقدم رکھا ہے ۔
پہلی آیت میں فرماتا ہے : خدا تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں سفارش اور وصیت کرتا ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں کی نسبت دو گنا حصہ دو ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ترغیب آیت اور طرز بیان کے لحاظ سے بیٹوں کی میراث دینے کےلئے ایک طرح کی تاکید ہے اور زمانہ جاہلیت کی بدعتوں کا مقابلہ ہے کیونکہ وہ بیٹی کو بالکل محروم کر دیتے تھے ۔ باقی رہا ان دونوں کی میراث کے تفاوت و فرق کا فلسفہ تو وہ عنقریب بیان کیا جائے گا ۔
ِ فَإِنْ کُنَّ نِساء ً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثا ما تَرَکَ
اگر مرنے والے کی اولاد صرف دو لڑکیاں یا ان سے زیادہ ہوں تو انہیں مال کا دو تہائی ملے گا ۔
وَ إِنْ کانَتْ واحِدَةً فَلَہَا النِّصْفُ ۔۔۔
لیکن اگر بیٹی ہو تو اسے مال کا نصف ملے گا ۔

ایک سوال اور اس کا جواب

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں قرآن فرماتا ہے ” فوق اثنین “ یعنی اگر دو بیٹیوں سے زیادہ ہوں تو دو تہائی مال ان کا ہے اس بناء ہر آیت دو لڑکیوں کے حکم سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے کیونکہ اس نے صرف ایک یا چند بیٹیوں کا حکم بیان کیا ہے ۔
اس سوال کا جواب آیت کے پہلے حصہ پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے :
لذکر مثل حظ الانثین
یعنی ۔ لڑکا لڑکی سے دو گنا حصہ لے گا ۔
اگر کسی مرنے والے کے پس مندگان میں فقط ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہو تو بیٹی کا حصہ ایک تہائی اور بیٹے کا دو تہائی ہوتا ہے۔
بنا بریں اس کے مطابق دو بیٹیوں کا حصہ دو تہائی ہو گا ۔ شاید اسی وجہ سے بعد میں آنے والے جملے میں دو بیٹیوں کے حصہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ چند بیٹیوں کے حصہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ جو دو تہائی سے نہیں بڑھتا ( غور فرمایئے گا )۔
نیز سورے نساء کی آخری آیت پر غور و فکر کرنے سے بھی یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے کیونکہ اس آیت میں ایک بہن کا حصہ ( ایک بیٹی کی طرح ) آدھا قرار دیا گیا ہے
۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اگر دو بہنیں ہوں تو انہیں دو تہائی مال ملے گا ۔ اس حکم سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ دو بیٹیوں کا حصہ بھی دو تہائی ہے ۔
اس کے علاوہ یہ تعبیر عربی ادب میں دکھائی دیتی ہے، وہ کبھی لکھتے ہیں ” فوق اثنین “ جس سے مراد ہوتا ہے (اثنتان و ما فوق ) یعنی دو یا دو سے زیادہ ۔
ان تمام امور کو چھوڑتے ہوئے حکم مذکور فقہ اسلامی اور منابع حدیث کے لحاظ سے تسلیم شدہ ہے فرض کی جئے کہ مندرجہ بالا جملے میں شک و شبہ کی گنجائش ہے تو وہ مصادر حدیث پر ایک نگاہ ڈالنے سے دور ہو جاتا ہے۔
مرد کی میراث عورت سے دوگنی کیوں ہے ؟
بظاہر تو مرد کا ورثہ عورت سے دو چند ہے لیکن غور کرنے سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ ایک لحاظ سے عورت کی میراث مرد سے دوگنی ہے اور یہ اس حمایت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہے جو اسلام نے عورت کے حقوق کی فرمائی ہے ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر مردوں کی ذمہ داریوں کی ملحوظ رکھاجائے تو مرد کی آدھی آمدنی عملی طور پر عورتوں پر خرچ ہوتی ہے ۔ جبکہ عورت کے ذمہ ایسی کوئی چیز نہیں ۔مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کی زندگی کے لوازمات اس کی ضرورت کے مطابق مکان ، لباس ، خوراک اور دیگر ضروریات زندگی مہیا کرے ۔ چھوٹے بچوں کی ضروریات بھی مرد کے ذمہ ہےں۔ جبکہ عورتوں کے ذمہ یہ لوازم نہیں ہیں ۔ یہاں تک کہ اپنی ضروریات زندگی بھی ان کے ذمہ نہیں ہیں ۔ اس وجہ سے ایک عورت یہ کر سکتی ہے کہ وہ اپنی تمام میراث کو اپنی بچت کے طور پر رکھے جبکہ مرد اپنے اور اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کے لئے مجبور ہے اس کا عملی نتیجہ یہی نکلے گا کہ مرد کی آدھی آمدنی عورت پر اور آدھی اپنے پر خرچ ہوگی جبکہ عورت کا حصہ جوں کا توں باقی رہ جاتا ہے ۔
مزید وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل مثال کی طرف توجہ فرمایئے :
فرض کیجئے کہ دنیا کی کل دولت ۳۰ ارب روپے ہے ۔ جو میراث کی رو سے عورتوں ، مردوں ۔ بیٹیوں اور بیٹوں میں بانٹی جانا ہے اب دنیا کے تمام مردوں کی آمدنی کا عورتوں کی آمدنی کے ساتھ بلحاظ میراث حساب کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس رقم میں سے ۲۰ / ارب مردوں کے ہیں اور دس ارب عورتوں کے ۔ جب معمول کے مطابق عورتوں کی شادی ہو جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ ان کے لوازمات زندگی کا تمام تربوجھ مردوں پر ہوگا ۔ اس طرح عورتیں اہنے حصہ کا دس ارب روپیہ بچا سکتی ہیں کیونکہ وہ عملی طور پر مردوں کے ۲۰ / ارب روپے میں شریک ہیں وہ ان پر اور ان کی اولاد پر خرچ ہوگا ۔
اس طرح مردوں کا آدھا حصہ ( دس ارب روپے ) عورتوں پر خرچ ہوگا ۔ اب اگر اس کے ساتھ اس دس ارب روپے کو جمع کیا جائے جو انہوں نے بچایا ہے تو یوں یہ رقم مجموعی تور پر ۲۰ /ارب روپے بنتی ہے ۔ جو پوری دنیا کے سرمایہ کا دو تہائی ہے جبکہ مرد عملی طور پر دس ارب روپے سے زیادہ اپنے پر خرچ نہیں کر سکتے ۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خرچ اور فائدہ اٹھانے کے لحاظ سے عورتوں کا اصلی حصہ مردوں کے حقیقی حصہ سے دوگنا ہے ۔ یہ فرق اس لئے ہے کہ عموماً عورتوں میں روپئے کمانے کی صلاحیت کم ہے ۔ یہ اسلام کی طرف سے عورتوں کی منطقی اور عادلانہ حمایت ہے ۔ اگر چہ ظاہری طور پر عورتوں کا حصہ آدھا ہے ۔ مگر ان کا حقیقی حصہ مردوں سے زیادہ مقرر کیا گیا ہے ۔
اتفاق کی بات ہے کہ آثار اسلام کی طرف رجوع کرنے سے ہمیں اس نکتے کا سراغ ملتا ہے کہ مندرجہ بالا سوال اسلام کے شروع میں ہی لوگوں کے ذہن میں تھا اور وہ کبھی کبھار اس سلسلے میں رہبران اسلام سے سوالات بھی کر لیتے تھے ۔ جو جوابات ان بزرگان اسلام ( ائمہ اہل بیت (ع) ) نے اس سوال کے دئے ہیں ۔ غالبا ً وہ سب ایک ہی مضمون کے ہیں اور وہ یہ کہ :
خدا وند عالم نے زندگی کے اخراجات اور حق مہر مردوں کے ذمہ لگایا ہے ۔ اس بنا پر ان کا حصہ بھی زیادہ مقرر کیا گیا ہے ۔
کتاب ” معافی الاخبار “ میں حضرت علی بن موسیٰ (ع) رضا سے منقول ہے کہ آپ (ع) نے اس سوال کے جواب میں فرمایا :
یہ میراث میں عورتوں کا حصہ مردوں کی نسبت آدھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عورت کی شادی ہوتی ہے تو وہ کچھ نہ کچھ لیتی ہے اور مرد مجبور ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ دے ۔ اس کے علاوہ عورتوں کے اخراجات مردوں کے کندھے پر ہیں ۔ جبکہ عورت مرد کے اخراجات اور اپنے اخراجات سے بے فکر ہے ۔


۱ ۔ سفر اعداد آیات ۸۔۱۱
میراث ایک فطری حق ہے ایک سوال اور اس کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma