تعدد ازواج ایک اجتماعی ضرورت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
بیویوں سے عدالت کا مفہوم ایک سوال اور اس کا جواب

مندرجہ بالا آیت میں تعدد ازواج کو (سخت شرائط اور معین حدود کے ساتھ ) جائز قرار دیا ہے ۔ اب ہم ان سوالات اور جملوں کا سامنا کریں گے جو مخالفین نے سطحی مطالعہ اور بے شعور احساسات کے باعث کئے ہیں۔ اہل مغرب بالخصوص اس سلسلہ میں بہت اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے مردوں کو حرم سرا بنانے اور لا تعداد بیویاں رکھنے کی اجازت دے دی ہے ۔ حالا نکہ اسلام نے اس طرح سے حرم سرا کی تشکیل کی اجازت نہیں دی ہے ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ قبل از اسلام کے مختلف معاشروں کی کیفیت کا مطالعہ کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ غیر محدود طور پر تعدد ازواج ان میں ایک عام سی چیز تھی ۔ یہاں تک کہ بعض بت پرست جب مسلمان ہوئے تو ان کی دس سے بھی زیادہ بیویاں تھیں لہذا تعدد ازواج کی بنیاد اسلام نے نہیں رکھی اور نہ یہ کوئی نئی ایجاد ہے ۔ بلکہ اسلام نے تو اسے انسانی زندگی کے تقاضوں کی روشنی میں محدود کر دیا ہے اور مزید یہ کہ اسکے لئے سخت وسم کی شرائط اور قیود مقرر کر دی ہیں ۔
اسلامی قوانین انسان کی حقیقی ضروریات کے گرد گھومتے ہیں ۔ یہ قوانین پرا پیکنڈا اور جذبات کی رو میں بہ کر نہیں بنائے گئے ۔ تعداد ازواج کا معاملہ بھی اسلام نے اپنے اسی مزاج کے مطابق پیش کیا گیا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ زندگی کے گونا گوں حوادث میںمرد عورتوں کی نسبت موت کے خطرات سے زیادہ دوچار ہوتے ہیں ۔ جنگوں اور دیگر حوادث میںزیادہ تر مرد ہی موت کا شکار ہوتے ہیں ۔ نیز اس کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کی نسبت مرد کی جنسی زندگی کہیں زیادہ طولانی ہوتی ہے ۔ کیونکہ عورتیں ایک معین عرصہ کے بعد اپنی جنسی آمادگی کھو بیٹھتی ہےں جبکہ مردوں کا معاملہ مختلف ہے نیز ایام ماہواری اور وضع حمل کے کچھ دنوں میں عملی طور پر عورتوں کے لئے جنسی ملاپ ممنوع ہے جبکہ مردوں کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں ۔
ان تمام باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے بعض پہلو اور بھی قابل توجہ ہیں ۔ بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو مختلف وجوہ کی بنا پر اپنے شوہروں سے محروم ہو جاتی ہیں ۔ اس صورت میں وہ مردوں کے لئے اس پہلو سے قابل متوجہ نہیں ہوتیں کہ وہ ان کے پہلے شوہر ہوں ۔ اب اگر تعدد ازواج کی سہولت نہ ہو تو وہ ساری عمر بغیر شوہر کے بیٹھی رہیں ۔ اکثر اخبارات و جرائد میں ایسی خبریں چھپتی ہیں کہ بعض ایسی بیوہ عورتیں ہیں جو تعدد ازواج کے محدود ہونے کے باعث اپنی زندگی کی بے سرو سامانی پر شکوہ کناں ہیں اور مردوں کی طرف سے ایک سے زیادہ شادیاں نہ کرنے کو اپنے ساتھ ایک ظالمانہ سلوک تصور کرتی ہیں ۔
ان حقائق کو ایسے مواقع پر سامنے رکھیں کہ جہاں مرد اور عورت کے درمیان توازن ختم ہو جاتا ہے تو ہم مجبور ہیں کہ ذیل می تین صورتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کیا جائے ۔
۱۔ ہر صورت میں مرد ایک ہی بیوی پر قناعت کریں اور جو عورتیں بچ جائیں وہ تمام عمر بغیر شوہر کے گزار دیں اور تمام فطری تقاضوں اور اندرونی خواہشات کو دبائے رکھیں۔
۲۔ مرد قانونی طور پر ایک ہی بیوی رکھیں لیکن آزاد اور غیر شرعی جنسی روابط بے شوہر عورتوں سے رکھیں اور انہیں داشتہ بنا کر رکھیں۔
۳۔ جو لوگ ایک سے زیادہ بیویاں رکھ سکتے ہیں اور جسمانی ، مالی اور اخلاقی لحاظ سے انہیں کوئی اور مشکل در پیش نہ ہو نیز وہ اپنی بیویوں اور بچوں کے درمیان کامل عدالت قائم رکھ سکیں انہیں اجازت دی جائے کہ وہ اپنے لئے ایک سے زیادہ بیویوں کا انتخاب کر لیں ۔ یہ مسلم ہیں کہ ان تین راستوں کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہیں ۔
پہلے راستے کے انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ ہم انسان کی فطرت، سرشت اور روحانی و جسمانی ضروریات کے خلاف جنگ کریں اور ایسی عورتوں کے جذبات و احساسات کی پرواہ نہ کریں اور یہ وہ جنگ ہے جس میں کامیابی کی کوئی امید نہیں اور اگر فرض کریں کہ ایسا ہو جائے تو اس طرز عمل کے غیر انسانی پہلو کسی سے مخفی نہیں ہیں ۔
دوسرے لفظوں میں تعدد ازواج کا مسئلہ ضرورت کے مواقع پر صرف پہلی بیوی کی آنکھ کے دریچہ سے نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ اس کا مطالعہ دوسری بیوی کی آنکھ کے دریچہ سے کیا جانا چاہیے جو لوگ پہلی بیوی کی مشکلات کو دوسری بیوی کے معاملہ میں مثال بناتے ہیں وہ در اصل تین زادیوں والے مسئلے صرف ایک زاویہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ تعدد ازواج کا مسئلہ مرد کی نگاہ کے زاویے سے ، پہلی بیوی کی نگاہ کے زاویے سے اور دوسری بیوی کی نگاہ کے زاویے سے دیکھا جانا چاہیے اور ان تینوں کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بارے میں فیصلہ کیا جانا چاہیے ۔
دوسری راہ کے انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ فحش اور قبیح کاموں کو قانونی حیثیت دے دی جائے اور عورتوں کو داشتہ کی حیثیت سے جنسی لذتوں کے لئے استعمال کیا جائے ، ان کے لئے نہ اطمینان و سکون ہو اور نہ ان کو کوئی مستقبل اور در اصل انکی شخصیت کو روند ڈالا جائے ۔ یہ کوئی ایسا طریقہ نہیں جسے کوئی عقلمند انسان تجویز کرے ۔
لہذا صرف تیسرا طریقہ باقی رہ جاتا ہے جو عورتوں کی فطری خواہشات اور طبوی ضروریات کا حل بھی ہے اور فحش اور قبیح امور کے برے نتائج اورتباہ کن زندگی سے عورتوں کی نجات کا راستہ بھی ہے ۔ اس طرح سے عورت معاشرے کو بھی گرداب گناہ سے نکال لے گی ۔
البتہ توجہ رہے کہ تعدد ازواج کا جواز اگر چہ معاشرے کی ایک ضرورت ہے اور اسلام کے مسلم احکام میں سے ہے لیکن موجوہ زمانے میں اس کی شرائط کی تکمیل گذشتہ زمانے سے بہت مختلف ہے ۔ کیونکہ گذشتہ زمانہ میں زندگی سادہ اور بسیط سی تھی لہذا عورتوں میں کامل مساوات کا لحاظ رکھنا آسان تھا اور زیادہ تر لوگ اس سے عہدہ برآ ہو لیتے تھے لیکن ہمارے زمانے میں جو شخص اس قانون سے استفادہ کرنا چاہے اسے چاہیے کہ ہر لحاظ سے عدالت کو ملحوظ خاطر رکھے ۔ اگر وہ ایسا کر سکے تو یہ اقدام کرے اور بنیادی طور پر یہ قدم ہوا و ہوس کی بنا پر نہیںہونا چاہیے ۔
تعجب کی بات ہے کہ اہل مغرب کی طرح جو لوگ تعدد ازواج کے مخالف ہیں اپنی تاریخ میں ایسے حوادث کا شکار رہے ہیں جن سے ان کی یہ ضرورت مکمل طور پر واضح ہو گئی ہے مثلا دوسری عالمی جنگ کے بعد جنگ زدہ ممالک میں خصوصاً جرمنی میںاس کی سخت ضرورت کا احساس ہوا ۔ یہاں تک کہ ان کے بعض مفسرین تعدد ازواج کے ممنوع ہونے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوئے تا کہ مشکل کا کوئی حل نکل سکے ۔ بات یہاں تک پہونچی کہ انہوں نے ”الازہر “ سے رجوع کیا اور ان سے تعدد ازواج کے بارے میں اسلامی حکمت کی تفصلات منگوائیں اور اس پر تحقیق و مطالعہ شروع کیا لیکن کلیسا نے ان پر سخت حملے اور تنقیدیں کیں ۔ جن سے مجبور ہوکر انہیں یہ پروگرام چھوڑنا پڑا اور پھر اس کا نتیجہ وحشتناک فحاشی اور وسیع بے راہ روی کی صورت میں نکلا جس نے تمام جنگ زدہ ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ان تمام باتوں کو چھوڑتے ہوئے ، اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض مرد ایک سے زیادہ بیویوں کی طرف میلان و رغبت رکھتے ہیں ۔ اگر یہ میلان صرف ہوا و ہوس کی بنا پر ہو تو ٹھیک ہے اعتناء نہیں کرنا چاہیے لیکن بعض اوقات بیوی بانجھ ہوتی ہے اور مرد کو اولاد کی شدید خواہش ہوتی ہے اس صورت میں مرد کی خواہش منطقی ہوتی ہے یا بعض اوقات مرد کی خواہشات جنسی شدید ہوتی ہے جبکہ اس کی پہلی بیوی مرد کی اس فطری خواہش کی تکمیل کی طاقت نہیں رکھتی ۔ لہذا مرد دوسری شادی کے لئے اپنے آپ کو مجبور سمجھتا ہے یہاں تک کہ جائز طریقہ سے تکمیل خواہش نہ ہونے کی صورت میں وہ غیر شرعی قدم اٹھاتا ہے ۔ ان مواقو پر بھی دوسری شادی کے لئے مرد کی خواہش کے منطقی ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس بناء پر جن ممالک میں قانوناً ایک سے زیادہ شادیاں ممنوع ہیں عملاً مختلف عورتوں سے نا جائز تعلقات استوار کئے ہوتا ہے ۔
مشہور فرانسیسی مورخ گوستاولوبون تعدد ازواج کے بارے میں اسلامی قانون ، جو کہ محدود مشروط ہے کو دین اسلام کی خوبیوں میں سے شمار کرتا ہے ۔ وہ یورپ کے مردوں کے متعدد عورتوں سے آزاد انہ ناجائز روابط کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتا ہے :
مغرب میں بھی جہاں کی آب وہوا اور وضع طبیعت اگر چہ اس رسم ( تعدد ازواج ) کو قبول نہیں کرتی پھر بھی ایک بیوی کا ہونا ایک ایسی چیز ہے جو صرف قانون کی کتاب میں دکھائی دیتی ہے ورنہ مجھے یہ گمان نہیں کہ اس بات کا انکار کیا جائے کہ ہمارے معاشرے میں اس رسم کے آثار نہیں ہیں ۔ واقعاً میں حیران ہوں اور میں نہیں جان سکا کہ مشرق کے جائز اور محدود تعدد ازواج کے نظریے میں مغرب کے مکارانہ اور فریب دہندہ تعدد ازواج کے حوالے سے کیا کمی ہے بلکہ میں کہتاہوں کہ پہلا طریقہ دوسرے کی نسبت ہر لحاظ سے بہتر اور زیادہ شائستہ ہے ۔
البتہ اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتاکہ بعض مسلمان نما لوگ اس اسلامی قانون کی روح کے منافی اس سے سوء استفادہ کرتے ہیں اور شرمناک طریقہ سے اپنے لئے بیویاں مہیا کرتے ہیں اور اپنی بیویوں کے حقوق میں تجاوز کرتے ہیں لیکن یہ قانون کی قانون کی خرابی نہیں اور ان لوگون کے کردار کو اسلامی قوانین کے کھاتے میں نہیں ڈالنا چاہیے کون سا ایسا قانون ہے جس سے نا جائز فائدہ نہ اٹھایا جاتا ہو ۔

بیویوں سے عدالت کا مفہوم ایک سوال اور اس کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma