یوں تو قرآن مجید کی سب کی سب آیتیں اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ وہ سب خدا کا کلام ہیں اور نوع بشر کی تعلیم تربیت کے لئے نازل ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں سے بعض خاص قسم کی چمک و دمک رکھتی ہیں ۔ ان میں سے مندرجہ بالا پانچ آیات قرآن کی دل ہلا دینے والی عبارتوں میں سے ہیں ۔ یہ معارف دینی کا ایک ایسا نادر مجموعہ ہیں جن میں لطیف مناجات اور تفرع و زاری کی آمیزش ہے اور وہ ایک آسمانی سرود معلوم ہوتی ہیں ۔ اسی لئے تو احادیث اور روایات میں انہیں خاص اہمیت دی گئی ہے ۔
عطا بن ابی رباح کہتا ہے کہ میں ایک دن حضرت عائشہ کے پاس گیا اور ان سے سوال کیا کہ سب سے زیادہ عجیب چیز جو آپ نے پیغمبر اسلام سے دیکھی ہے وہ کیا ہے ؟
وہ کہنے لگیں : پیغمبر کا سب کچھ تعجب خیز تھا لیکن عجیب تر یہ تھا کہ ایک رات آنحضرت میرے حجرے میں استراحت کرنے لگے ، ابھی آرام نہیں کیا تھا کہ کھڑے ہو گئے ۔ لباس پہنا ، وضو کیا اور نماز شروع کردی ۔ حالت نماز میںاور مخصوص جذبہ الہی میں اس قدر آنسوں بہائے کہ آپ کے لباس کا اکلا حصہ آپ کے اشکوں سے تر ہو گیا ۔ اس کے بعد آپ نے سر سجدہ میں رکھا اور اتنا گریہ کیا کہ زمین آپ کے آنسووٴں سے تر ہو گئی ۔ آپ طلوع صبح تک اسی طرح گریاں و منقلب رہے ۔ جب بلال نے آپ کو نماز صبح کے لئے پکارا تو آپ کو اشکوں سے تر بتر دیکھا تو پوچھا کہ آپ اس قدر گریہ کیوں فرمارہے ہیں ، آپ کے تو لطف الہی شامل حال ہے ۔ آپ نے فرمایا :
افلا اکون للہ عبدا شکورا
کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ، میں کیوں گریہ نہ کروں خدا تعالیٰ نے کل رات مجھ پر ہلا دینے والی اور پریشان کر دینے والی آیات نازل کی ہیں ۔
پھر آپ نے یہ پانچ آیات ( جو زیر نظر ہیں ) کی تلاوت شروع کی اور آخر میں فرمایا :
ویل لمن قراٴھا ولم یتفکر فیھا
وائے ہو اس پر انہیں پڑھے لیکن ان میں غور و فکر نہ کرے ۔ ۱
روایت کا کا آخری جملہ آیات میں گہرے غور وفکر کا حکم دیتا ہے ۔ایسے جملے بہت سی روایات میں مختلف الفاظ کے ساتھ منقول ہیں ۔
ایک روایت میں حضرت علی (علیه السلام) سے منقول ہے کہ پیغمبر خدا جب بھی نماز تہجد کے لئے اٹھتے پہلے مسواک کرتے پھر آسمان کی طرف دیکھتے اور یہ آیت پڑھتے ۔ ۲
روایات اہل بیت میں حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص بھی نماز تہجد کے لئے اٹھے ان آیات کی تلاوت کرے ۳
نوف بکالی حضرت علی (علیه السلام) کے خاص اصحاب میں سے تھے ۔ وہ کہتے ہیں :
ایک شب میں آپ (علیه السلام) کی خدمت میں تھا ۔ ابھی مجھے نیند نہ آئی تھی میں نے دیکھا کہ امام (علیه السلام) اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور آپ
(علیه السلام) نے ان آیات کی تلاوت شروع کر دی ہے ۔ پھر مجھے پکارا اور فرمایا : اے نوف ! سو رہے ہو یا جاگتے ہو ؟
میں نے عرض کیا : میں بیدار ہوں اور اس وسیع و عریض آسمان کو دیکھ رہا ہوں ۔ آپ (علیه السلام) نے فرمایا : کیا کہنا ان لوگوں کا جنہوں نے اس زمین کی آلودگیوں کو قبول نہیں کیا اور اس طرح سے آسمان کی طرف گئے ہیں ( یعنی ۔ جنہوں نے عالم مادہ کی چار دیواری سے پرواز کی ہے اور ان کی بلند روح ملکوت آسمانی کی سیر کرتی ہے ) ۔