مقابلے اور پامردی سے تھک نہ جاوٴ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
موت کا اٹل قانون علماء کی عظیم ذمہ داری

مقابلے اور پامردی سے تھک نہ جاوٴ

لَتُبْلَوُنَّ فی اٴَمْوالِکُمْ وَ اٴَنْفُسِکُمْ ۔۔۔
جان و مال کے ذریعہ تمہارا امتحان لیا جائے گا اور اصولی طور پر یہ دنیا تو میدان آزمائش ہی ہے اور اپنے آپ کو سخت اور ناگوار حوادث و مشکلات کے مقابلے میں آمادہ رکھے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ در حقیقت یہ سب مسلمانوں کے لئے تنبیہ ہے اور آمادہ برہنے کے لئے تلقین ہے تا کہ وہ یہ گمان نہ کرلیں کہ سخت حوادث ان کی زندگی سے ختم ہو چکے ہیں اور یا کعب بن اشرف جسے بد گو ، بد زبان اورفتنہ پر ور شاعر کے خاتمے سے دشمن کی طرف سے کوئی اذیت یا زیان کا زخم نہیں پہنچے گا ۔
اسی لئے فرمایا :
وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذینَ اٴَشْرَکُوا اٴَذیً کَثیراً ۔۔۔
یعنی یہ بات طے شدہ ہے کہ تم آئندہ بھی اہل کتاب ( یہودی و نصاریٰ )اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے ۔
دشمن سے ناروا باتیں سننا ان آزمائش کا حصہ ہے جن کا ذکر آیت کا ابتدائی حصے میں کیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود یہاں اس کا ذکر خصوصیت سے ہوا ہے ۔ اس کی وجہ یہ یہ ہے کہ بات خصوصی اہمیت کی حامل ہے ۔ زبان کے چر کے حساس اور شریف انسانوں کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں جیسا کہ مشہور ہے کہ تلوار کے زخم تو بھر جاتے ہیں لیکن زبان کے زخم مند مل نہیں ہوتے ۔
وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاٴُمُورِ ۔
یہاں شدید اور المناک حواث کے موقع پر مسلمانوں کی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اگر استقامت اور پامردی سے کام لو ، صابر و برد بار رہو اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرو تو یہ ایسے کام ہیں جن کا نتیجہ واضح ہے ۔ لہٰذا ہر عقلمند آدمی کو ایسا کرنے کا مصمم ارادہ کر لینا چاہیے ۔
لغت میں ” عزم “ کا معنی ہے ” پختہ ارادہ “ یعنی اوقات ہر محکم و مضبوط چیز کو عزم کہا جاتا ہے اس لیے عزم الامور کا معنی ہے شائستہ اور امناسب کام ، جن کی انجام دہی کے لئے انسان کو مصمم ارادہ کر لینا چاہیے یا ہھر اس کا مطلب یہ ہے ہر قسم کے محکم اور قابل اطمینان کام ۔
صبر اور تقویٰ کا آیت میں ایک ساتھ ذکر آیا ہے ۔ یہ گویا اس طرف اشارہ ہے کہ بعض افراد استقامت و پامردی کے با وجود نا شکری کا اظہار کرتے ہیں اور
زبان شکایت کھلے رکھتے ہیں لیکن حقیقی مومن وہ ہیں جو صبر استقامت کے ساتھ تقویٰ و پرہیز گاری کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اور ناشکری اور شکوہ و شکایت سے دور رہتے ہیں ۔

 


۱۸۷۔ وَ إِذْ اٴَخَذَ اللَّہُ میثاقَ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَ لا تَکْتُمُونَہُ فَنَبَذُوہُ وَراء َ ظُہُورِہِمْ وَ اشْتَرَوْا بِہِ ثَمَناً قَلیلاً فَبِئْسَ ما یَشْتَرُونَ۔
۱۸۷۔اور وہ وقت (یاد کرو ) جب خدا نے اہل کتاب سے میثاق لیا کہ اسے لوگوں کے سامنے لازمی پر آشکار کریں چھپائیں نہیں لیکن انہوں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور اسے تھوڑی سی قیمت پر فروخت کر دیا ، انہوں نے کیسی بری متاع خریدی ۔

تفسیر

وَ إِذْ اٴَخَذَ اللَّہُ میثاقَ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَ لا تَکْتُمُونَہُ ۔۔۔
اہل کتاب کی چند غلط کاریوں کے تذکرے کے بعد اس آیت میں ان کے ایک اور برے کام کی نشاندہی کی گئی ہے اور وہ ہے حقائق کو چھپانا ۔ فرمایا گیا ہے :

وہ وقت نہ بھول جاوٴ جب خدا نے اہل کتاب سے پیمان لیا کہ وہ آیات الہی کو لوگوں کے سامنے آشکار کریں اور انہیں ہر گز نہ چھپائیں ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ لفظ ”لتبینہ“ میں اگر چہ لام قسم اور نون تاکید ثقیلہ موجود ہے جس سے انتہائی تاکید ظاہر ہوتی ہے ۔ پھر ” ولا تکتمونہ “ کہہ کر مزید تاکید کی گئی ہے جس میں نہ چھپانے کا حکم ہے ۔ ان تمام تعبیرات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے گذشتہ انبیاء کے ذریعے ان سے اس بات پر نہایت تاکیدی عہد لیا ہے کہ وہ حقائق کو بیان کریں گے لیکن ان تمام امور کے باوجود انہوں نے خدا سے باندھے گئے محکم پیمان میں خیانت کی اور آسمانی کتب کے حقائق کو چھپایا ۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے : فنبذوہ وراء ظھورھم۔یعنی انہوں نے کتاب خدا کو پس پشت ڈال دیا ۔ یہ جملہ عمل نہ کرنے اور اسے فراموش کر دینے کے بارے میں عمدہ کنایا ہے کیونکہ جس پرو گرام پر انسان کے عمل کا دارو مدار ہوتا ہے اسے وہ اپنے سامنے رکھتا ہے اور اسے دیکھتا رہتا ہے لیکن اگر وہ اس پر عمل نہ کرنا چاہے اور اسے فراموش کر دینا چاہے تو سامنے سے اٹھا کر اسے پس پشت ڈال دیتا ہے ۔
وَ اشْتَرَوْا بِہِ ثَمَناً قَلیلاً فَبِئْسَ ما یَشْتَرُونَ۔
یہ جملہ ان کی شدید دنیا پرستی اور فکری انحطاط کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ فرما یا گیا ہے : اس کام کے بدلے انہوں نے حقیر سی قیمت حا صل کی اور یہ پونجی کیسی بری ہے جو انہوں نے حاصل کی ہے ۔ اگر انہوں نے اخفائے حق کے اس جرم کے بدلے بہت بڑی قیمت حاصل کی ہوتی تو کہا جاتا کہ کثرت مال و ثروت نے ان کی آنکھ کو اندھا اور کان کو بہرہ کر دیا ۔ لیکن تعجب تو اس بات پر ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ متا ع قلیل کے بدلے بیچ دیا ( البتہ اس جملے سے پست ہمت علماء کا کام مراد ہے ) ۔

موت کا اٹل قانون علماء کی عظیم ذمہ داری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma