موت کا اٹل قانون

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
یہودیوں کی بہانہ تراشی مقابلے اور پامردی سے تھک نہ جاوٴ

موت کا اٹل قانون

مخالفین اور بے ایمان لوگوں کی ہٹ دھرمی کے تذکرے کے بعد اس آیت میں موت کے عمومی قانون کا تذکرہ ہے اور قیامت میں لوگوں کے انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تا کہ اس سے پیغمبر اکرم اور مومنین کی دلجوئی بھی ہو جائے اور گناہ پیشہ مخالفین کو تنبیہ بھی ۔ پہلے تو آیت میں ایک ایسے قانون کا تذکرہ ہے جو اس عالم کے تمام زندہ موجودات پر حاکم ہے ۔ فرمایا : تمام زندہ چیزیں چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ایک دن موت کا مزہ چکھیں گی

 ( کل نفس ذائقة الموت )
اگر چہ بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ بھول جائیں گے کہ وہ فنا پذیر ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر ہم اسے فراموش بھی کر دیں تب بھی وہ ہمیں نہیں بھولائے گی ۔ اس دنیا کی زندگی آخر کار ختم ہو جائے گی اور ایک دن ایسا آئے گا جب موت ہر شخص کی تلاش میں آئے گی اور پھر مجبورا ًاس جہان سے رخت سفر باندھنا پڑے گا ۔
اس آیت میں ” نفس “ سے مراد جسم و جان کا مجموعہ ہے اگر چہ بعض اوقات قرآن میں ” نفس “ صرف روح کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ چکھنا یہاں احساس کامل کی طرف اشارہ کر رہا ہے کیونکہ بعض اوقات انسان کوئی غذا آنکھ سے دیکھتا ہے یا ہاتھ سے چھوتا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی مکمل احساس پیدا نہیں کرتا لیکن چکھنے سے مکمل احساس پیدا ہو جاتا ہے ۔ کویا کار گہِ خلقت میں بالآخر موت ہی ہر موجود زندہ کے لئے ایک طرح کی غذا ہے ۔
انما توفون اجورکم یوم القیامة
پھر فرمایا کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد جزا و سزا کا مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔ یہاں عمل ہے جزا کے بغیر اور وہاں جزا ہے عمل کے بغیر ۔ ” توفون “ کا معنی ہے ” مکمل وصولی “ یہ لفظ نشاندہی کرتا ہے کہ روز قیامت انسان کو پورے طور پر جزا دی جائے گی ۔ اس بنا پر اس میں کوئی مانع نہیں کہ عالم برزخ میں بھی انسان اپنے اعمال کے کچھ نتائج اور جزا کا سامنا کرے گا کیونکہ برزخ کی جزا و سزا مکمل نہیں ہے ۔
فمن زحزح عن النار و ادخل الجنة فقد فاز ۔
” زحزح “
کا اصلی معنی ہے ” انسان کا اپنے تئیں کسی چیز کی قوت کشش سے آہستہ آہستہ نکالنا “اور ”فاز “ کا اصلی معنی ہے ” ہلاکت سے نجات اورمحبوب تک رسائی “۔
زیر نظر جملہ میں فرمایا گیا ہے: جو لوگ آتش جہنم کے دائرہٴ کوشش سے دور ہوں گے اور بہشت میں داخل ہوں گے وہ نجات یافتہ ہوں گے اور اپنے محبوب مطلوب کو پا لیں گے ۔
گویا دوزخ اپنی قوت سے انسانوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے سچ تو یہ ہے کہ جو عوامل انسان کو دوزخ کی طرف کھینچتے ہیں ان میں عجیب غریب قوت جذب موجود ہوتی ہے ۔ کیا تیز رو ہوس رانیاں ، غیر مشروع جنسی لذتیں ، منصب اور نا جائز دولت و ثروت انسان کے لئے قوت جاذبہ نہیں رکھتیں؟
اس تعبیر سے ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوشش نہ کریں اور ان پُر فریب عوامل قوت جاذبہ سے دور نہ ہوں تو آہستہ آہستہ اس کی طرف کھینچے جائیں گے ۔ لیکن جو لوگ تعلیم و تربیت کے ذریعے اپنے اوپر تدریجاً کنٹرول پالتے ہیں اور نفس مطمئنہ کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو وہ حقیقی نجات یافتہ لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور امن و اطمینان کا لطف اٹھاتے ہیں ۔
و ما الحیوة الدنیا الا متاع الغرور
یہ جملہ گذشتہ بحث کی تکمیل کرتا ہے ۔ اس میں فرمایا گیا ہے کہ حیات دنیا تو فقط غرور آمیز متاع ہے ۔ یہ زندگی اور اس سر گرم عوامل دور سے بہت پر فریب ہیں لیکن جب انسان اسے پالیتا ہے اور اسے قریب سے چھو لیتا ہے تو عملی طور پر اسے اسے اندر سے خالی چیز نظر آتی ہے اور متاع غرور کا بھی بس یہی مفہوم ہے ۔
علاوہ ازیں مادی لذتیں دور سے تو خالص دکھائی دیتی ہیں لیکن جب انسان ان کے قریب جاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ طرح طرح کے رنج و الم سے آلودہ ہیں ۔ یہ بھی مادی مادی دنیا کے فریبوں میں سے ایک فریب ہے ۔ اسی طرح عموماً انسان کی فنا پذیری کی طرف بھی توجہ نہیں کرتا لیکن بہت جلد اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کس قدر جلدی زائل اور فنا ہونے والی ہیں ۔
یہ تعبیرات قرآن و احادیث میں بارہا آئی ہیں اور ان سب کا ہدف ایک ہی ہے کہ انسان مادہ اور اس کی لذات کو اپناآخری ہدف و مقصد کیونکہ اس کے نتیجے میں تو انسان طرح طرح کے جرائم اور گناہوں میں غرق ہوجاتا ہے اور انسانی تکامل و ارتقاء کی حقیقت سے دور ہو جاتا ہے لیکن مادی دنیا اور اس کی نعمات سے اس حوالے سے استفادہ کرنا کہ یہ تکمیل بشریت کا ذریعہ ہیں نہ صرف مذموم و قبیح نہیں بلکہ لازم اور ضروری ہے ۔

 ۱۸۶ ۔ لَتُبْلَوُنَّ فی اٴَمْوالِکُمْ وَ اٴَنْفُسِکُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذینَ اٴَشْرَکُوا اٴَذیً کَثیراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاٴُمُورِ ۔
۱۸۶ ۔ یہ طے شدہ ہے کہ تمہارے اموال اور تمہاری آزمائش کی جائے گی اور جن لوگوں (یعنی یہودیوں ) کو تم سے پہلے آسمانی کتاب دی گئی ہے اور

 ( اسی طرح ) جنہوں نے شرک کی راہ اختیار کر رکھی ہے ان سے تم بہت سی تکلیف دہ اور آزار رساں باتیں سنو گے اور اگر تم نے صبر و استقامت اور تقویٰ اختیار کیا (کہ جو تمہارے لئے زیادہ مناسب ہے ) تو پھر یہ امر محکم اور قابل اطمینان امور میں سے ہے ۔

شان نزول

جب مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور اپنے گھر اور کارو بار سے دور ہو گئے تو مشرکین نے ان کے اموال کی طرف دست تجاوز کیا اور انہیں اپنے زیر تصرف لے آئے اور جو شخص بھی ان کے ہاتھ لگا اسے زبانی اور جسمانی اذیت پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔
دوسری طرف جب مدینہ آئے تو وہاں پر انہیں یہودیوں کی بد گوئی اور آزار رسانی کا سامنا کرنا پڑا ۔ خاص طور پر ان میں سے ایک بد زبان اور کینہ پرور شاعر تھا ۔ اس کا نام کعب بن اشرف تھا ۔ وہ مسلسل پیغمبر اکرم اور مسلمانوں کی ہجو کہتا تھا اور مشرکین کو ان کے خلاف ابھارتا تھا ۔ یہاں تک کہ مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کے بارے میں غزل سرائی اور عشق بازی سے نہیں چوکتا تھا ۔ اس کی بے حیائی اور گستاخی آخر اس حد تک پہنچ گئی کہ پیغمبر اکرم نے مجبوراً اس کے قتل کا حکم صادر کر دیا اور وہ مسلمانوں کے ہاتھ فی النار والسقر ہو گیا ۔
مفسرین کی نقل کردہ روایات کے مطابق مندرجہ بالا آیت انہی موضوعات کی طرف اشارہ کرتی ہے اور مسلمانوں کے مقابلہ جاری رکھنے کے لیے شوق دلاتی ہے ۔

یہودیوں کی بہانہ تراشی مقابلے اور پامردی سے تھک نہ جاوٴ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma