یہودیوں کی بہانہ تراشی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
قید بند کا بھاری طوق موت کا اٹل قانون

یہودیوں کی بہانہ تراشی

الَّذینَ قالُوا إِنَّ اللَّہَ عَہِدَ إِلَیْنا ۔۔۔
قبول اسلام بچپنے کے لئے یہودی عجیب و غریب بہانے تراشتے تھے ۔ ان میں سے ایک کی طرف زیر نظر آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ وہ کہتے تھے :خدانے ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم کسی پیغمبر کی دعوت اس عققت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ کرے جسے آسمان سے آگ آکر اچک لے ۔
مفسرین کہتے ہیں یہودیوں کا دعویٰ تھا کہ انبیاء الہی اپنی حقانیت ثزبت کرنے کے لئے لازمی طور پر اس مخصوسص معجزے کے حامل ہوتے ہیں کہ وہ جانور ذبح کرتے ہیں اور آسمانی بجلی کے ذریعہ وہ لوگوں کے سامنے جل جاتا ہے ۔
یہودی یہ فرمائش اگر اگر واقعاً ایک معجزے کے لئے کرتے نہ کہ ہٹ دھرمی اور بہانہ سازی کے طور پر تو ایک بات تھی ان کی گذشتہ تاریخ اور پیغمبر اسلام سے ان کی کشمکش واضح طور پر یہ حقیقت ثابت کرتی ہیں کہ ان کامقصد ہر گز تحقیق حق نہ تھا بلکہ وہ معاشرتی دباوٴ اور واضح قرآنی استدلالات سے فرار کے لئے نت نئی تجویزیں پیش کرتے تھے اور اگر ان کی کوئی تجویز زیر عمل آ بھی جاتی تب بھی وہ ایمان نہیں لاتے تھے ۔ وہ تو اپنی کتب میں پیغمبر اسلام کی سب نشانیاں پڑھ چکے تھے پھر بھی قبول حق سے گریزاں تھے ۔
قرآن ان کے جواب میں کہتاہے : قُلْ قَدْ جاء َکُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلی بِالْبَیِّناتِ وَ بِالَّذی قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوہُمْ إِنْ کُنْتُمْ صادِقینَ ۔ یعنی ان بہانہ تراشیوں کے جواب میں ان سے کہئے کہ مجھ سے پہلے بنی اسرائیل کے کئی انبیاء آئے ، وہ اپنے ساتھ واضح نشانیاں بھی لائے یہاں تک کہ انہوں نے اس طرح سے قربانی بھی تمہارے سامنے کی ،اگر تم سچے ہو تو پھر ان پر ایمان کیوں نہیں لائے اور انہیں کیوں قتل کیا ( حضرت زکریا، حضرت یحیٰ (علیه السلام) اور چند دیگر انبیاء بنی اسرائیل کی طرف اشارہ ہے جو ان کے ہاتھوں قتل ہو چکے تھے ) ۔
بعضی متاخرین تفسیر نگار حضرات مثلا ًتفسیر المنار کے مولف قربانی کے مسئلے کے بارے میں ایک اور احتمال ذکر کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کا مقصد یہ نہ تھا کہ کوئی جانور ذبح ہو اور ّگ معجزانہ طور پر آسمان سے آکر اسے جلا دے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ ان کے مذہبی احکامات میں قربانی کی ایک قسم جلی ہوئی قربانی کی تھی ۔ اس کے مطابق وہ ایک جانور ذبح کرتے تھے اور خاص رسوم کے مطابق اسے آگ لگا دیتے تھے ( ان مراسم کی تورات سفر لاویان کی پہلی فصل میں موجود ہے ) ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ خدا نے ہم سے عہد لے رکھا ہے کہ جلی ہوئی قربانی کا یہ حکم ہر انسانی دین میں ہو گا اور چونکہ دین اسلام میں یہ نہیں ہے لہٰذا ہم تم پر ایمان نہیں لاتے ۔
لیکن یہ احتمال تفسیر آیت میں بہت بعید ہے کیونکہ اول تو اس لفظ کا عطف بینات پر ہے کہ ان کا مقصود ایک معجزانہ کام ہے جو کہ اس تفسیر پر ہے پر منطبق نہیں ہوتا دوسرا یہ کہ ایک جانور ذبح کرکے جلا دینا ایک فضول کام ہے اور ایسا کام انبیاء کے لائے ہوئے آسمانی احکامات میں سے نہیں ہو سکتا ۔
فَإِنْ کَذَّبُوکَ فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِکَ
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو تسلی دیتا ہے اور ان کی دلجوئی کرتا ہے کہ اگر یہ لوگ آپ کی باتیں نہیں مانتے تو آپ پریشان نہ ہوں کیونکہ ایسا پہلے بھی بہت دفعہ ہو چکا ہے ۔ آپ سے پہلے کئی پیغمبر آئے ہیں جن کی انہوں نے تکذیب کی ہے ۔
جاؤُ بِالْبَیِّناتِ وَ الزُّبُرِ وَ الْکِتابِ الْمُنیرِ ۔
جبکہ ان انبیاء کے پاس واضح نشانیاں بھی تھیں ، وہ آشکار معجزے بھی لائے تھے (البینات ) ، محکم و بلند مرتبہ کتب بھی ان کے پاس تھیں ( الزبر ) اور وہ زیا بخش کتابوں کے بھی حامل تھے ( الکتاب المنیر) توجہ رہے کہ زبر ، زبور کی جمع ہے جس کا معنی ہے ایسی کتاب جو استحکام اور پختگی سے لکھی گئی ہو یہ مادہ دراصل لکھنے کے معنی میں ہے لیکن اس طرح کا لکھنا مراد نہیں بلکہ ایسا لکھنا جس میں استحکام ہو ۔ باقی رہی یہ بات کہ ” الزبر “ اور --”المنیر “ میں کیا فرق ہے ، جبکہ دونوں الفاظ کتاب کے بارے میں ہیں تو ممکن ہے یہ اس وجہ سے ہو کہ پہلا لفظ ان انبیاء کی کتب کے بارے میں ہو جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے تھے اور دوسرا لفظ تورات و انجیل کے بارے میں ہو کیونکہ قرآن نے سورہٴ مائدہ آیت ۴۴ و ۴۶ میں ان کے لئے لفظ ”نور “ استعمال کیا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے ۔
انا انزلنا التورٰة فیھا ھدی و نور
اور دوسری آیت ہے :
و اتیناہ الانجیل فیہ ھدیً و نور
بعض مفسرین کا خیال ہے کہ زبور آسمانی کتب کے صرف اس حصے کو کہتے ہیں جو وعظ و نصیحت پر مشتمل ہو لیکن آسمانی کتاب یا کتاب منیر کتب کے ان حصوں کو کہتے ہیں جن میں انفرادی و اجماعی قوانین ہوں ( جیسا کہ موجودہ زبور جو حضرت دووٴد کی طرف منسوب ہے میں بھی وعظ و نصیحت ہی ہے ) ۔

 ۱۸۵۔ إِنَّما ذلِکُمُ الشَّیْطانُ یُخَوِّفُ اٴَوْلِیاء َہُ فَلا تَخافُوہُمْ وَ خافُونِ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ ۔
ترجمہ
۱۸۵ ۔ ہر شخص موت کا ذائقہ چکھتا ہے اور تم روز قیامت اپنا اگر مکمل طورپر حاصل کرو گے پس جو لوگ ( جہنم کی ) آگ کی زد سے دور رہے اور بہشت میں داخل ہو گئے وہ سعادت سے ہمکنار ہوئے اور حیات دنیا سرمایہ ٴ فریب کے سوا کجھ نہیں ۔

 

قید بند کا بھاری طوق موت کا اٹل قانون
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma