قید بند کا بھاری طوق

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
مسلمانوں کی تطہیریہودیوں کی بہانہ تراشی

قید بند کا بھاری طوق

وَ لا یَحْسَبَنَّ الَّذینَ یَبْخَلُونَ بِما آتاہُمُ اللَّہُ
زیر نظر آیت میں قیامت کے دن بخیلوں کے انجام کی وضاحت کی گئی ہے ۔ بخیل جو مال جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں اور دولت و ثروت کی حفاظت میں کوشاں رہتے ہیں لیکن اسے بندگان خدا پر خرچ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں ۔
آیت میں اگر چہ واجب مالی حقوق کا نام نہیں لیا گیا لیکن روایات اہل بیت (علیه السلام) میں اور اقوال مفسرین میں اسے مانعین زکوٰة سے مخصوص قرار دیا گیا ہے اور آیت میں جس قدر شدت دکھا ئی دیتی ہے وہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے مراد مستحب انفاق اور خرچ کرنا نہیں ہے ۔
فرمایا گیا ہے : جو لوگ بخل کرتے ہیں اور خدا نے انہیں جو اپنے فضل و کرم سے دیا ہے اس میں سے خرچ نہیں کرتے وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ ان کے نفع میں ہے بلکہ یہ تو ان کے نقصان میں جا پڑتا ہے پھر قیامت میں ان کے انجام کا تذکر ہے : سَیُطَوَّقُونَ ما بَخِلُوا بِہِ یَوْمَ الْقِیامَةِ ۔۔۔جن اموال میں وہ بخل کرتے ہیں بہت جلد انہیں طوق بناکر ان کی گردن میں ڈال دیا جائے گا ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس مال سے واجب حقوق ادا نہیں کیے گئے اور معاشرے کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ انفرادی ہوس کی نذر ہو گیا ہے اور بعض اوقات احمقانہ امور میں خرچ ہو گیا ہے اور یا بلا وجہ اسے جمع کرکے رکھ دیا گیا اور اس سے کسی نے فائدہ نہیںاٹھایا وہ دیگر اعمال انسانی کی طرح تجسیم اعمال کے قانون کے مطابق روز قیامت مجسم ہو گا اور درد ناک صورت عذاب کا ذریعہ بن کر آئے گا ۔
ایسا مال طوق کی شکل میں مجسم ہوگا اور گردن میں ڈالا جائے گا ۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان اس کا تمام تر بوجھ اٹھانے کا ذمہ دار ہے اگر چہ اس نت اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا ہو ۔ وہ زیادہ مال جو جنون کی حد تک کوشش سے جمع کیا جائے اور اس کی حفاظت کی جائے مگر وہ معاشرے کی خدمت کے لئے نہ ہو وہ اپنے مالک کے لئے زنجیر اور زندان کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کوئی شخص اپنے مال سے معین حد تک ہی فائدہ اٹھاتا ہے لیکن حد سے گزر جائے تو ایک طرح کی قید اور بیکار بوجھ کے سوائے اس کا کوئی نتیجہ نہیں مگر یہ کہ اس کی روحانی برکات سے فائدہ حاصل کیا جائے اور اسے مثبت کاموں پر خرچ کیا جائے ۔ ایسا مال نہ فقط روز قیامت اپنے مالک کے لئے طوق بنے گا بلکہ اس دنیا میں بھی یہ ایسا ہی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ فرق ہے کہ قیامت میں آشکار ہو گا اور اس دنیا میں انتہائی مخفی ہوتا ہے ۔ اس سے بڑھ کر جنون اور حماقت کیا ہوگی کہ انسان مال کے حساب کتاب ، حفاظت اور بچاوٴ کے لئے درکار زحمتیں اور تکلیف اٹھانے کے علاوہ مال حاصل کرنے کی بہت سی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لے لیکن اسے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو ۔ کیا قید و بند کا طوق اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہے ؟
تفسیر عیاشی میں امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے :
جو شخص اپنے مال کی زکوٰة ادا نہیں کرتا خدا اس مال کو آگ کے طوقوں میں بد ل دے گا ۔ اس کے بعد کہا جائے گا کہ جیسے دنیا میں تو اس مال کو کسی صورت میں اپنے سے دور نہیں کرتا تھا اب بھی اسے اٹھا لے اور اپنی گردن میں ڈال لے ۔
یہ بات لائق توجہ ہے کہ آیت میں مال کو ” ما اتھم اللہ من فضلہ “ کہا گیا ہے ۔اس لئے یہ گنجائش نہیں کہ کوئی شخص اس مال و دولت کو ملک حقیقی کی راہ میں خرچ کرنے سے بخل کرے ۔ بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ اس جملہ کا مفہوم عام ہے اور اس میں تمام نعمات الہی یہاں تک کہ علم و دانش بھی شامل ہے ۔ لیکن یہ احتمال آیت کے ظاہری مفاہیم پر منطبق نہیں ہوتا ۔
اس کے بعد آیت ایک اور نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہے : ” وللہ میراث السمٰوات و الارض “ یعنی یہ مال راہ خدا میں اور بندگان خدا کے لئے خرچ ہو یا نہ ہو آخر کار اپنے مالکوں سے جدا ہو جائیں گے اور خدا تمام آسمانوں اور زمین کی وراثتوں کا وارث ہے ۔ جب ایسا ہی ہے تو پھر کیا ہی اچھا ہے کہ ان اموال کے جدا ہونے سے پہلے ان کی معنوی وروحانی برکات سے فائدہ اٹھایا جائے نہ کہ ان کی حسرت اور ذمہ داری کا بوجھ اٹھا لیا جائے ۔
آٰت کے آخر میں ارشاد ہے : خدا تمہارے اعمال سے آگاہ ہے ۔ بخل کروگے توبھی وہ جانتا ہے اور اگر انسانی معاشرے کے مفاد میں اسے کام میں لاوٴ گے تو بھی اسے معلوم ہے اور وہ ہر شخص کو اس کا حسب حال اجر دے گا ۔ و اللہ بما تعملون خبیر ۔


۱۸۱۔ لَقَدْ سَمِعَ اللَّہُ قَوْلَ الَّذینَ قالُوا إِنَّ اللَّہَ فَقیرٌ وَ نَحْنُ اٴَغْنِیاء ُ سَنَکْتُبُ ما قالُوا وَ قَتْلَہُمُ الْاٴَنْبِیاء َ بِغَیْرِ حَقٍّ وَ نَقُولُ ذُوقُوا عَذابَ الْحَریقِ ۔
۱۸۲۔ ذلِکَ بِما قَدَّمَتْ اٴَیْدیکُمْ وَ اٴَنَّ اللَّہَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبیدِ ۔
ترجمہ
۱۸۱۔ خدا نے ان لوگوں کی بات سنی ہے جو کہتے ہیں کہ خدا فقیر ہے اور ہم غنی ہیں ۔ انہوں نے جو کچھ کہا یہ ہم لکھ لیں گے اور (اسی طرح ان کا ) پیغمبروں کو نا حق قتل کرنا بھی ( ہم نے لکھ رکھا ہے اور ہم انہیں کہیں گے کہ جلانے والا عذاب چکھو ) ۔
۱۸۲۔ یہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی آگے بھیجی ہوئی کمائی ہے اور خدا ( اپنے ) بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔

شان نزول

یہ آیات یہودیوں کی سر زنش کے لئے نازل ہوئی ہیں ۔
ابن عباس کہتے ہیں:
پیغمبر اکرم نے بنی قینقاع کے یہودیوں کو خط لکھا ۔ اس میں انہیں نماز ادا کرنے ، زکوٰة دینے اور خدا کو قرض ۱
دینے کی دعت دی گئی ۔
آنحضرت کا قاصد اس گھر میں گیا جو یہودیوں کی مذہبی تعلیم و تدریس کا مرکز تھا اس کا نام بیت المدارس تھا ۔ قاصد نے یہ خط سب سے بڑے عالم فخاص کے ہاتھ میں دیا ۔ اس نے خط پڑھنے کے بعد طنزیہ لہجے میں کہا : اگر تمہاری باتیں سچی ہیں تو پھر یہ کہنا چاہیے کہ خدا فقیر ہے اور ہم غنی ہیں کیونکہ اگر وہ فقیر نہ ہوتا تو ہم سے قرض کی خواہش نہ کرتا ۔ ۲
علاوہ ازیں محمد کااعتقاد ہے کہ خدا نے تمہیں سود کھنے سے منع کیا ہے حالانکہ وہ خود تمہارے انفاق اور خرچ کرنے کےبدلے ربا اور سود کا وعدہ کرتا ہے ۔۳
بعد میں فخاص نے یہ جاننے سے انکار کر دیا کہ اس نے یہ باتیں کہی ہیں ۔ اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ ۴
پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے : خدا نے یہودیوں کی کفر آمیز باتیں سنیں ، وہ کہتے تھے کہ خدا فقیر ہے اور ہم غنی ہیں ۔ اب اگر وہ لوگوں کے سامنے انکار کرتے ہیں مگر خدا کے سامنے تو انکار نہیں کر سکتے کہ وہ سب باتوں کو سنتا ہے ، وہ آواز کی ان کمزور ترین اور قوی ترین سب لہروں کو سنتا ہے جن کے ادراک سے انسانوں کے کان عاجز ہیں ۔”۔ لَقَدْ سَمِعَ اللَّہُ قَوْلَ الَّذینَ قالُوا إِنَّ اللَّہَ فَقیرٌ وَ نَحْنُ اٴَغْنِیاء ““اس لئے انکا انکار کرنا فضول ہے ۔
اس سے مزید فرمایا :سنکتب ما قالوا ۔۔۔یعنی نہ صرف نہ صرف یہ کہ ہم ان کی باتیں سنتے ہیں ان سب کو لکھتے بھی ہیں ۔ واضح ہے کہ لکھنے سے مراد ہماری طرح کاغذ پر لکھنا نہیں ہے بلکہ مراد آثار عمل کی حفاظت کرنا ہے ۔ قانون بقائے مادہ کی ترمیم کے مطابق مادہ ختم نہیں ہوتا لیکن توانائی میں بدل سکتا ہے اور یوں باقی رہتا ہے ۔ اسی طرح فرشتگان خدا کا لکھنا بھی حفاظت عمل کی ایک قسم ہے جو ہر قسم کی کتاب سے بالا تر ہے ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ ان کی ان کفر آمیز باتوں ہی کو نہیں لکھا جاتا بلکہ وہ جو انبیاء و مرسلین کو قتل کرتے رہے ہیں اسے بھی ثبت کیا گیا ہے

(و قتلھم الانبیاء ) یعنی یہودیوں کی طرف سے انبیا ء کا مقابلہ کرنا اور ان کے سامنے صف آرا ہونا کوئی نئی چیز نہیں ۔ یہ پہلی مرتبہ کسی پیغمبر کا مذاق نہیں اڑا رہے بلکہ اپنی طویل تاریخ میںایسے بہت سے جرائم کا ارتکاب کر چکے ہیں ۔ وہ لوگ کہ جن کی جسارت اس حد تک پہنچ گئی ہو کہ وہ انبیاء کو قتل کر دیں ان کے لئے کونسی تعجب کی بات ہے کہ وہ ایسی کفر آمیز باتیں اپنی زبان پر لائیں ۔
ممکن ہے کہا جائے کہ قتل انبیاء کا تعلق پیغمبر اسلام کے زمانے سے تو نہیں تھا لیکن جیسا ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ نسبت اس بنا پر ہے کہ وہ اپنے بڑوں کے کاموں پر راضی تھے ۔ اس لئے اس جوابدہی میں شریک تھے ۔
باقی رہا ان کے اعمال ثبت کئے جانے اور ان کے اعمال کی نگرانی کا مسئلہ تو یہ بے وجہ نہیں ہے بلکہ یہ تو اس لئے ہے تا کہ روز قیامت یہ سب ان کے سامنے رکھ دیا جائے اور ہم ان سے کہیں کہ اس وقت اپنے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ تم ہی تھے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ، خدا تو کسی پر ظلم نہیں کرے گا ۔۔ذلِکَ بِما قَدَّمَتْ اٴَیْدیکُمْ وَ اٴَنَّ اللَّہَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبیدِ ۔۔۔۔۔اصولی طور پر اگر تم جیسے ظالم اپنے اعمال کا بدلہ نہ پائیںاور وہ بھی نیک لوگوں کی صف میں کھڑے کئے جائیں تو یہ انتہائی ظلم ہے اور اگر خدا ایسا نہ کرے تو وہ ظلام یعنی بہت زیادہ ظلم کرنے والا ہوگا ۔ نہج البلاغہ میں حضرت امیر المومنین علی (علیه السلام) سے منقول ہے :
و ایم اللہ ما کان قوم قط فی غض نعمة من عیش فزال عنھم الا بذنوب اجترحوھا لان اللہ لیس بظلام للعبید ۔
خدا کی قسم نعمت یافتہ گروہ سے اس وقت تک نعمت نہیں چھینی گئی جب تک وہ گناہوں کا مرتکب نہیں ہوا ۔( اس کے بعد امام (علیه السلام) نے قرآن کا یہی جملہ بطور سند پیش کیا ) ”لان اللہ لیس بظلام للعبید “ ( کیونکہ خدا اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا اور کسی نعمت کے اہل شخص سے نعمت سلب نہیں کرتا ) ۔
یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو ایک طرف سے جبر یوں کے مذہب کی نفی کرتی ہیں اور دوسری طرف افعال کے معاملے میں عدالت کا عمومی اصول بیان کرتی ہیں ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ زیر نظر آیت صراحت سے کہتی ہے کہ خدا کی طرف سے ہر سزا اور اجر ان اعمال کی وجہ سے ہے جو لوگ اپنے قصد اور ارادہ سے انجام دیتے ہیں ۔ ذٰلک بما قدّمت ایدیکم ۔۔یعنی یہ ان کاموں کے سبب ہے جنہیں تمہارے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں 5
دوسری طرف زیر بحث آیت صراحت سے کہتی ہے کہ خدا کبھی ظلم نہیں کرتا اور اس کی سزا کا قانون عدالت مطلقہ کے محور کے گرد گردش کرتا ہے ۔ عدلیہ اسی چیز کا اعتقاد رکھتے ہیں ۔ شیعہ اور اہل سنت کا ایک گروہ جسے معتزلہ کہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ۔ عدل کے قائل ہیں ۔ ان کے مقابلے میں اہل سنت کا دوسرا گروہ جسے اشاعرہ کہتے ہیں ، اس کا اس سلسلے میں عجیب و غریب عقیدہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اصولی طور پر خدا کے بارے میں ظلم کا تصور ہی نہیں ہو سکتا اور وہ جو کام انجام دے عین عدالت ہے یہاں تک کہ اگر تمام نیک لوگوں کو جہنم میں اور تمام ظالموں کو بہشت میں لے جائے تو بھی اس نے کوئی ظلم نہیں کیا اور کوئی شخص اس میں چوں چرا نہیں کر سکتا ۔
زیر نظر آیت میں ایسے عقائد کو قطعی طور پر رد کر دیا گیا ہے ۔ آیت کہتی ہے کہ اگر خدا کچھ افراد کو غلط کام کئے بغیر سزا دے تو وہ ظالم بلکہ ظلام ہوگا ۔ لفظ ظلام مبالغہ کا صیغہ ہے جا کا معنی ہے بہت ظلم کرنے والا ۔
خدا تو کم سے کم ظلم نہیں کرتا پھر یہاں اس لفظ کا استعمال شاید اس بنا پر ہو کہ اگر وہ لوگوں کو کفر و گناہ پر مجبور کرے اور برے کاموں پر ابھارنے والے امور ان میں پیدا کرے پھر ان اعمال کے جرم میں جو انہوں نے مجبوراً انجام دئے ہیں انہیں سزا دے تو یہ چھوٹا سا ظلم نہیں ہوگا بلکہ اس طرح تو وہ ظلام

( بہت زیادہ ظلم کرنے والا ) ہی قرار دیا جائے گا ۔

۱۸۳۔ الَّذینَ قالُوا إِنَّ اللَّہَ عَہِدَ إِلَیْنا اٴَلاَّ نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّی یَاٴْتِیَنا بِقُرْبانٍ تَاٴْکُلُہُ النَّارُ قُلْ قَدْ جاء َکُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلی بِالْبَیِّناتِ وَ بِالَّذی قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوہُمْ إِنْ کُنْتُمْ صادِقینَ ۔
۱۸۴ ۔ فَإِنْ کَذَّبُوکَ فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِکَ جاؤُ بِالْبَیِّناتِ وَ الزُّبُرِ وَ الْکِتابِ الْمُنیرِ ۔
۱۸۳۔ ( یہ ) وہی (ہیں ) جنہوں نے کہا کہ خدا نے ہم سے پیمان لیا ہے کہ ہم کسی پیغمبر پر ایمان نہ لائیں جب تک وہ (معجزہ کے طور پر ) ایسی قربانی نہ کرے جسے (آسمانی ) آگ کھا جائے ۔ ان سے کہئے کہ پھر تم نے مھج سے پہلے آنے والے انبیاء کو کیوں قتل کیا اگر تم سچے ہو جبکہ وہ واضح دلائل اور جو کچھ تم کہتے ہو لے کر آئے تھے ۔
۱۸۴ ۔ پس اگر یہ (بہانہ تراش ) تیری تکذیب کرتے ہیں (تو یہ کوئی نئی بات نہیں ) یہ تم سے پہلے پیغمبروں کی (بھی )تکذیب کر چکے ہیں جبکہ وہ ( پیغمبر )
واضح دلائل ، متین و محکم تحریریںاور ضیاء بخش کتاب لائے تھے ۔

شان نزول

یہودیوں کے چند سر کردہ افراد پیغمبر اکرم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے : تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ خدا نے تمہیں ہماری طرف بھیجا ہے اور تم پر کتاب بھی نازل کی ہے حالانکہ خدا نے تورات میں ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے ہم اس پر ایمان لے آئیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ ہمارے سامنے ایک جانور کی قربانی کرے اور آسمان سے ( صاعقہ کی صورت میں ) آگ آئے جو اسے جلا دے ، اگر تم ایسا کر دکھاوٴ تو ہم تم پر ایمان لے آئیںگے ۔
اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں ۔


۱ ۔خدا کو قرض دینے سے مراد راہ خدا میں خرچ کرنا ہے ۔ یہاں قرض کا لفظ انسانوں کے جذبوں کو متحرک کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔
۲ ۔یہ اشارہ ہے آیت” من یقرض اللہ قرضا ً حسناً ۔ کی طرف۔ (حدید ۔۱۱ )
۳ ۔آیہ ”یربوا الصدقات “ کی طرف اشارہ ہے ۔ (بقرہ۔ ۲۷۶)
۴ ۔ اسباب النزول از واقدی ، صفحہ ۹۹ اور تفسیر روح البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
5 ۔ افعال کی نسبت ہاتھوں کی طرف اس لئے دی گئی ہے کیونکہ بیشتر کام ہاتھوں سے انجام پاتے ہیں لیکن یہ حکم ہاتھ کے اعمال سے مخصوص نہیںاسی لئے تو کہتے ہیں کہ فلا کام اس کے ہاتھ سے انجام پایا ہے حالانکہ ہو سکتا ہے کہ کام میں اس کے ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو ۔
 
مسلمانوں کی تطہیریہودیوں کی بہانہ تراشی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma