تربیت الٰہی کی فوری تاثیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
غزوہٴ حمراء الاسدپیغمبر کے لئے تسلی

جنگ احد اور واقعہ حمراء الاسد جس کی تفصیل گذر چکی ہے ، ان دونوں مواقع پر مسلمانوں کے جذبہ کا موازنہ کیا جائے تو انسان کو تعجب ہوتا ہے کہ ایک شکست خوردہ جماعت جس کے جذبے بلند تھے ، تعداد کافی نہ تھی اور جس میں بہت سے زخمی بھی موجود تھے اتنی تھوڑی سی مدت میں جو شاید چوبیس گھنٹے بھی نہ بنتی تھی اس کی حالت اتنی بدلی کہ وہ عزم راسخ اور بڑے ولولے اور جذبے کے ساتھ دشمن کے تعاقب پر آمادہ ہوگئی یہاں تک کہ قرآن ان لوگوں کے متعلق کہتا ہے جب انہیں اطلاع ملی کہ دشمن نے ان پر حملے کے لئے اکٹھ کر لیا ہے تو وہ صرف یہ کہ ڈرے نہیں بلکہ ان کاایمان اور بڑھ گیا اور ان کے استتقامت میں اضافہ ہوگیا ۔ در اصل یہ ہدف و مقصد پر ایمان رکھنے کی خاصیت ہے کہ انسان پر مشکلات و مصائب جس قدر بڑھیں اور وہ انہیں زیادہ قریب سے دیکھے اس کی پامردی اور استقامت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے ۔ در حقیقت ایسے میں اس کی تمام روحانی و مادی قوتیں خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے مجتمع ہو جاتی ہیں ۔ ایک چھوٹی سی جماعت میں یہ عجیب و غریب تغیر انسانی تربیت کرنے والی آیات قرآن اور پیغمبر اسلام کے موثر و دل آویز ارشادات کی فوری اور گہری تاثیر کا غماز ہے اور یہ بات بذات خود ایک معجزے سے کم نہیں ۔

  ۱۷۵۔ إِنَّما ذلِکُمُ الشَّیْطانُ یُخَوِّفُ اٴَوْلِیاء َہُ فَلا تَخافُوہُمْ وَ خافُونِ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ ۔
ترجمہ
۱۷۵۔ یہ صرف شیطان ہی ہے جو اپنے پیروکاروں کو ( بے بنیاد باتوں اور افواہوں کے ذریعہ ) ڈراتا ہے ۔ ان سے نہ ڈرو اور صرف مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو ۔

تفسیر

یہ آیت غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کا ضمیمہ ہے ۔ لفظ ”ذٰلکم “ ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو مسلمانوں کو فوج قریش کی طاقت سے ڈراتے تھے تا کہ ان کے دلوں کو کمزور کریں ۔ اس بناء پر آیت کا معنی یہ ہے کہ نعیم بن مسعود یا کاروان عبد القیس کا عمل فقط ایک شیطانی عمل ہے جو شیطان کے دوستوں کو ڈرانے کے لئے ہے یعنی ایسے وسوسے صرف شیطان کے دوستوں پر ہی اثر انداز ہوتے ہیں لیکن اہل ایمان اور ثابت قدم لوگ ایسے وسوسوں سے کبھی اثر نہیں لیتے ۔ اس بناء پر جب تم شیطان کے پیرو نہیں ہو تو تمہیں ان وسوسوں سے متزلزل نہیں ہونا چاہیے ۔
نعیم بن مسعود کا کارواں عبد القیس کو اس لئے شیطان قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان کا عمل واقعاً شیطانی تھا اور یہ اس کے الہام اور وسوسہ سے ظہور پذیر ہوا تھا ۔ قرآن و احادیث میں ہر برے اور غلط کام کو شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے چونکہ ایسے ہر کام کا انجام شیطانی وسوسوں کا سا ہے ۔
یا شیطان سے مراد خود وہی افراد ہیں اور یہ ان مواقع میں سے ایک ہے جہاں لفظ شیطان اپنے انسانی مصداق کے لے استعمال ہوتا ہے کیونکہ شیطان کا ایک وسیع معنیٰ ہے اور اس کے مفہوم میں تمام گمراہ کرنے والے شامل ہیں ، وہ انسان ہوں یا غیر انسان ۔ جیسا کہ سورہ انعام آیة ۱۱۲ میں ہے :
و کذٰلک جعلنا لکل نبی عدواً شیطینَ الانس والجنِّ
یعنی اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انسانی اور جناتی شیطانوں میں سے دشمن قرار دئے ہیں ۔
” وَ خافُونِ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنین“ آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو مجھ سے اور میرے حکم کی نافرمانی سے ڈرو یعنی ایمان اور غیر خدا کا خوف ان دونوں کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں ۔ اسی طرح ایک اور مقام پر ہے :
فمن یوٴمن بربہ فلا یخاف بخساً ولا رھقا ً
یعنی جو شخص اپنے پر ور دگار پر ایمان لے آتا ہے وہ کسی نقصان اور طغیان سے نہیں ڈرتا ۔ (جن ۔۱۳ )
اس بنا پر اگر کسی دل میں غیر خدا کا خوف پیدا ہو تو یہ ایمان کا کامل نہ ہونے کی دلیل ہے اور شیطانی سوسوں کے نفوذ کی نشانی ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس بے کار عالم ہستی میں پناہ گاہ صرف خدا ہےاور صرف وہی موثر بالذات ہے اور اس کی قدرت کے مقابلے میں کسی کی کوئی قدرت نہیں ۔
اصولی طور پر مومنین اپنے ولی یعنی خدا کا مشرکین و منافقین کے ولی یعنی شیطان سے موازنہ کریں تو یہ بات ان پر قطعاً واضح ہو جائے گی کہ خدا کے مقابلے میں اس کی کچھ قدرت و طاقت نہیں ہے اس لئے اہل ایمان کو معمولی سی پریشانی بھی نہیںہونی چایئے ۔ اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں کہیں ایمان نفوذ کرجاتا ہے لازمی طور پر وہاں جراٴت و شجاعت بھی نفوذ کرتی ہے ۔

 ۱۷۶ ۔ وَ لا یَحْزُنْکَ الَّذینَ یُسارِعُونَ فِی الْکُفْرِ إِنَّہُمْ لَنْ یَضُرُّوا اللَّہَ شَیْئاً یُریدُ اللَّہُ اٴَلاَّ یَجْعَلَ لَہُمْ حَظًّا فِی الْآخِرَةِ وَ لَہُمْ عَذابٌ عَظیمٌ ۔
۱۷۷۔ إِنَّ الَّذینَ اشْتَرَوُا الْکُفْرَ بِالْإِیْمانِ لَنْ یَضُرُّوا اللَّہَ شَیْئاً وَ لَہُمْ عَذابٌ اٴَلیمٌ ۔
ترجمہ
۱۷۶۔ جو لوگ راہ کفر میں دوسرے پر سبقت کرتے ہیں وہ تمہیں غمگین نہ کردیں کیونکہ ہو ہر گز خدا کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔
(علاوہ ازیں ) خدا چاہتا ہے ( کہ انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیں اور اس کے نتیجے میں ) آخرت میں ان کاکوئی حصہ قرار نہ دے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ۔
۱۷۷ ۔ لنہوں نے ایمان کے بدلے کفر خریدا ہے وہ خدا کو ہر گز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے ۔

 

غزوہٴ حمراء الاسدپیغمبر کے لئے تسلی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma