روح کی بقاء کا شاہد

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
زندہٴ جاویدغزوہٴ حمراء الاسد

روح کی بقاء کا شاہد

جو آیات صراحت کے بقائے روح پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے زیر نظر آیات بھی ہیں جو موت کے بعد حیات شہداء کے بارے میں ہیں ۔ بعض نے یہ جو احتمال دیا ہے کہ حیات سے مراد ان کی مجازی زندگی ہے اور مقصد ان کے زحمات کے آثار اور نام و نشان کی بقا ہے یہ مفہوم آیات کے معنی سے بہت بعید ہے ۔ یہ مفہوم مندرجہ بالا کے کسی جملے سے پیدا نہیں ہوتا چاہے شہداء کے روزی حاصل کرنے کا معاملہ ہو یا مختلف حوالوں سے ان کے سرور و انبساط کا تذکرہ ۔ علاوہ ازیں زیر نظر آیات وجود برزخ اور نعمات برزخ پر واضح دلیل ہیں ۔اس کی تشریح سورہٴ مومنون کی آیت ۱۰۰ کے ذیل میں تفصیل سے پیش کی جائے گی ۔ مذکورہ آیت یوں ہے :
و من ورآئھم برزخ الیٰ یوم یبعثونَ
شہیدوں کا اجر مقام شہداء کی اہمیت کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے ۔ ہر قوم و ملت اپنے شہداء کے لئے ایک مخصوص مرتبے کی قائل ہے لیکن اسلام نے راہ خدا کے شہداء کو جو احترام دیا ہے وہ بے نظیر ہے ۔ ذیل میں ایک مثال پیش کی جا رہی ہے جو اسلام کی نظر میں احترام شہداء کا ایک واضح نمونہ ہے ۔ اسلام کی اپنی تعلیمات کی وجہ سے ایک مختصر سی پس ماندہ جماعت میں ایسی قوت و طاقت آگئی جس نے دنیا کے عظیم ترین شاہی نظاموں کو گھٹنے ٹکینے پر مجبور کر دیا ۔ مزکورہ روایت یہ ہے :
امام علی بن موسیٰ رضا علیھما السلام امیرالمومنین ضحرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں :
ایک مرتبہ آنحضرت خطبہ دے رہے تھے اور لوگوں کو جہاد کا شوق دلا رہے تھے ۔ اس دوران میں ایک نو جون کھڑا ہوگیا ۔ اس نے عرض کیا: اے امیرالمومنین (علیه السلام) : مجھ سے راہ خدا میں جنگ کرنے والوں کی فضیلت بیان فرمائیے ۔ امام نے جواب میں فرمایا : ایک دفوہ میں پیغمبر کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھا ۔ ہم جنگ ذات السلاسل سے واپس آ رہے تھے یہی سوال جو تو نے مجھ سے کیا ہے میں نے رسول اللہ سے کیا ، تو آپ نے فرمایا : جب مجاہد میدان جہاد میں شرکت کا پختہ ارادہ کر لیتے ہیں تو خدا وند عالم جہنم سے آزادی ان کے لئے مقدر کر دیتا ہے اور جب وہ ہتھیار اٹھا کر میدان جنگ کا رخ کرتے ہیں تو ملائکہ ان پر فخر کرتے ہیں اور جب ان کی بیوی بچے ، عزیز و اقارب انہیں الوداع کہتے ہیں تو وہ اپنے گناہوں سے آزاد ہو جاتے ہیں ------ پھر وہ جو بھی کام کرتے ہیں اس کا اجر دو گنا زیادہ ہو جاتا ہے اور ہر دن کے بدلے ان کے لئے ہزار عابد کی عبادت کا اجر لکھا جاتا ہے اور جب وہ دشمن کے آمنے سامنے ہوتے ہیں تو پورے عالم کے لوگ ان کے میزان ثواب کا اندازہ نہیں کر سکتے اور جب وہ میدان جنگ میں قدم رکھتے ہیں ، نیزہ و تیر کا تبادلہ ہونے لگتا ہے اور پھر دست بدست لڑائی شروع ہو جاتی ہے تو فرشتے اپنے پر و بال سے انہیں گھیر لیتے ہیں اور خدا سے میدان میں ان کی ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں ۔ اس وقت ایک منادی ندا دیتا ہے : الجنة تحت ظلال السیوف ۔( یعنی جنت تلواروں کے سائے میں ہے ) ۔ اس وقت شہید کے جسم پر دشمن کے وار زیادہ آسان اور گرمیوں میں ٹھنڈا پانی پینے سے زیادہ خوش گوار ہوتے ہیں اور جب شہید اپنی سواری سے نوٹتا ہوا گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے حوران بہشت اس کے استقبال کو آتی ہیں اور اسے ان تمام عظیم روحانی و مادی نعمتوں کی خبر دیتی ہیں جو خدا تعالیٰ نے اس کے لئے فراہم کر رکھی ہیں اور جب شہید زمین پر گر چکتا ہے تو زمین کہتی ہے : آفرین ہے پاکیزہ روح کے لئے جو پا کیزہ بدن سے پرواز کر رہی ہے ، تیرے لئے خوش خبری ہے ،
ان لک ما لا عین راٴت و لا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر ۔
یعنی تیرے انتظارمیں ایسی نعمتیں ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہے نہ کسی کان نے ان کے بارے میں سان ہے اور نہ کسی دل میں ان کا خیال آیا ہے  ۔ نیز خدا فرماتا ہے : میں اس کے پس ماندگان کا سر پرست ہوں ، جو کوئی انہیں خوش کرے گا اس نے مجھے کوش کیا اور جو نہیں ناراض کرے گا اس نے مجھے ناراض اور غضب ناک کیا ۔

۱۷۲۔الَّذینَ اسْتَجابُوا لِلَّہِ وَ الرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما اٴَصابَہُمُ الْقَرْحُ لِلَّذینَ اٴَحْسَنُوا مِنْہُمْ وَ اتَّقَوْا اٴَجْرٌ عَظیمٌ ۔
۱۷۳۔الَّذینَ قالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزادَہُمْ إیماناً وَ قالُوا حَسْبُنَا اللَّہُ وَ نِعْمَ الْوَکیلُ ۔
۱۷۴۔فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّہِ وَ فَضْلٍ لَمْ یَمْسَسْہُمْ سُوء ٌ وَ اتَّبَعُوا رِضْوانَ اللَّہِ وَ اللَّہُ ذُو فَضْلٍ عَظیمٍ ۔
ترجمہ
۱۷۲۔ جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی خدا اور رسول کی دعوت کو قبول کیا ( اور بھی ان کے جنگ احد کے زخم تازہ تھے کہ وہ حمراء الاسد کے میداں کی طرف چل پڑے ) ان میں سے نیک عمل کرنے والوں اور تقوی ٰ اختیار کرنے والوں کے لیے اجر عظیم ہے ۔
۱۷۳۔ وہ ایسے اشخاص تھے جن سے (بعض ) لوگوں نے کہا کہ ( لشکر دشمن کے ) افراد نے تم پر ( حملہ کرنے کے لیے ) اکٹھ کر لیا ہے ، ان سے ڈرو لیکن ان کا ایمان اور زیادہ وہ گیا اور وہ کہنے لگے کہ خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ ہمارا بہترین حامی ہے ۔
۱۷۴۔اسی وجہ سے وہ ( اس میدان سے ) پر ور دگار کی نعمت و فضل کے ساتھ اس عالم میں لو ٹے کہ انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچی اور خدا صاحب فضل و بخشش ہے ۔
تفسیر

زندہٴ جاویدغزوہٴ حمراء الاسد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma