زندہٴ جاوید

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
منافقین کی بے بنیاد باتیں روح کی بقاء کا شاہد

زندہٴ جاوید

بعض مفسرین کے نزدیک مندرجہ بالا آیات شہدائے احد کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں اور بعض دوسرے سمجھتے ہیں کہ یہ شہدائے بدر سے متعلق ہیں لیکن حق یہ ہے کہ گذشتہ آیات سے ان کا ربط ظاہر کرتا ہے کہ یہ جنگ احد کے بعد نازل ہوئیں ہیں لیکن ان کا عمومی مفہوم بھی ہے جو تمام شہداء جن میں بدر کے چودہ شہدا بھی شامل ہیں پر محیط ہے ۔ اسی لئے امام محمد باقر (علیه السلام) سے یاک حدیث میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : یہ آیات شہداء بدر و احد ، ہر دو کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ ۱
ابن مسعود پیغمبر سے روایت کرتے ہیں :
خدا نے شہداء احد کی ارواح کو خطاب کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ تمہاری کیا آرزو ہے تو نہوں نے کہا : پروردگار ہم اس سے زیادہ کیا آرزو کر سکتے ہیں کہ ہم ہمیشہ کی نعمتوں میں مستغرق ہیں اور تیرے عرش کے سائے میںرہتے ہیں ، ہمارا تقاضا صرف یہ ہے کہ ہم دوبارہ دنیا کی طرف پلٹ جائیں اور پھر تیری راہ میں شہید ہوں ۔ اس پر خدا نے فرمایا : میرا اٹل فیصلہ ہے کہ کوئی شخص دوبارہ دنیا کی طرف نہیں پلٹے گا ۔ ۲
انہوں نے عرض کیا : جب ایسا ہی ہے تو ہماری تمنا ہے کہ ہمارا سلام پیغمبر اسلام کو پہنچا دے، ہمارے حالات ہمارے پسندگان کو بتا دے اور انہیں ہماری حالت کی بشارت دے تا کہ انہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو ۔
اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں ۔
یوں لگتا ہے کہ جنگ احد کے بعد کچھ کمزور ایمان لوگ بیٹھ جاتے اور اپنے ان دوستوں اور عزیزوں کا افسوس کرتے جو اس جنگ میں شہید گئے تھے اور کہتے کہ وہ کیوں مارے گئے اور ختم ہو گئے ۔ خصوصا ً جب انہیں کوئی نعمت ملتی اور ان کی عدم موجودگی کے خیال سے انہیں بہت دکھ ہوتا ۔ وہ اپنے آپ سے کہتے کہ ہم تو ایسے ناز و نعمت سے بہرہ ور ہیں لیکن ہمارے بھائی بیٹے قبروں میں سوئے یوئے ہیں اور ان کے ہاتھ بالکل خالی ہیں ۔
ایسے افکار اور ایسی باتیں نہ فقط یہ کہ درست اور واقع کے مطابق نہ تھیں بلکہ رہ جانے والوں کے جذبوں کو بھی ک کمزور کرنے کا باعث تھیں ۔ زیر نظر آیات نے ایسے افکار پر خط بطلان کھینچ دیا اور شہیدوں کے بلند مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا ۔ یہاں روئے سخن فقط پیغمبر کی طرف ہے تا کہ دوسرے خود اندازہ کر لیں ۔
آیت کے اس حصہ کا مفہوم ہے کہ اے پیغمبر ! یہ گمان ہر گز نہ کیجئے کہ جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں وہ مردہ ہیں ۔بلْ اٴَحْیاء ٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ ۔بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پر ور دگار کے ہاں سے نعمتیں حاصل کرتے ہیں ۔
یہاں زندگی سے مراد برزخ کی زندگی ہے جو موت کے بعد کے زمانے میںارواح کو حاصل کرتی ہے ۔ یہ مادی و جسمانی زندگی نہیں ۔ البتہ یہ زندگی شہداء سے مخصوص نہیں اور دیگر بہت سے لوگ بھی اس زندگی کے حامل ہیں ۔ ۱
۱ ۔بعض محقیقین دو طرح کے لوگوں کے لئے حیات بر زخ کے قائل ہیں ایک بہت زیادہ نیک اور دوسرے بہت زیادہ برے ۔
لیکن شہیدوں کی زندگی چونکہ بہت انوع واقسام کی نعمتوں سے مالا مال ہے ۔علاوہ ازیں آیت میں موضوع سخن شہداء ہی ہیں اس لئے صرف انہی کا نام لیا گیا ہے اور وہ اس قدر حیات معنوی کی نعمتوں سے بہرہ ور ہیں گویا برزخ میں رہنے والے باقی لوگوں کی زندگی ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔
اس کے بعد شہداء کی حیات برزخ کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :
۔فَرِحینَ بِما آتاہُمُ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ ۔ ۔ ۔
وہ فراواں نعمتیں جو خدا نے اپنے فضل و کرم سے انہیں دی ہیں ان سے وہ خوش حال ہیں ۔
ان کی دوسری مسرت اپنے ان بھائیوں کے بارے میںہے جنہوں نے میدان جنگ میں جام شہادت نوش نہیں کیا اور ان سے مل نہیں پائے ۔ وہ ان کے مقامات اور اجر و ثواب کو اس جہان میں اچھی طرح دیکھتے ہیں اس بنا پر وہ مسرور اور شاداں ہیں جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
وَ یَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذینَ لَمْ یَلْحَقُوا بِہِمْ مِنْ خَلْفِہِمْ ۲
۲ ۔استبشار کا معنی ہے بشارت پانا یا خود نعمت حاصل کرنے پر خوش ہونا یا دوستوں کے نعمت پانے پر مسرور ہونا اور اس کا معنی بشارت دینا نہیں ہے ۔
اس کے بعد فرماتا ہے :
اٴَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لا ہُمْ یَحْزَنُونَ ۔
یعنی شہداء محسوس کرتے ہیں کہ ان کے مجاہد بھائی ان چیزوں کے بارے میں کوئی غم نہیں کرتے جو وہ بعد از موت دنیا میں چھوڑ آئے ہیں اور نہ ہی انہیں قیامت اور اس کے وحشتناک حوادث کا خوف ہے ۔
اس جملے کی ایک اور تفسیر بھی ہو سکتی ہے ، وہ یہ کہ شہداء اپنے ان مجاہد بھائیوں کے مقامت بلند دیکھ کر خوش ہوتے ہیں جو ان کے ساتھ نہیں سکے اور اس کے علاوہ انہیں خود بھی آئندہ کا کوئی خوف اور گذشتہ کا غم نہیں ہے ۔ ۳
۳ ۔دوسرے الفاظ میں پہلی تفسیر کی رو سے ”اٴَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لا ہُمْ یَحْزَنُونَ “۔کی ضمیریں دنیا میں رہ جانے والوں کی طرف لوٹتی ہیں جبکہ دوسری تفسیر کی رو سے خود شہداء کی طرف لوٹتی ہیں ۔
یَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّہِ وَ فَضْلٍ
یہ آیت در حقیقت ان بشارتوں کی زیادہ تاکید اور توضح ہے جو شہادت کے بعد شہداء کو حاصل ہوئی ہیں ۔ وہ دو وجوہ کی بناء پر خوش اور مسرور ہیں:
پہلی یہ کہ وہ خدا کی نعمتیں پا لیتے ہیں ، نعمتیں ہی نہیں بلکہ اس کا فضل جس کا معنی ہے ان نعمتوں کی زیادتی اور تکرار ۔
دوسری یہ کہ وہ دیکھتے ہیں کہ خدا مومنین کا اجر ضائع نہیں کرتا نہ شہیدوں اور سچے مجاہدین جو جام شہادت نوش نہیں کر سکے ، کا اجر ضائع نہیں کرتاہے ۔ وَ اٴَنَّ اللَّہَ لا یُضیعُ اٴَجْرَ الْمُؤْمِنینَ ۔در حقیقت جو کچھ انہوں نے پہلے سنا ہوا تھا اب وہ اسے واضح طور پر دیکھیں گے ۔


۱- نورالثقلین جلد ۱ ، صفحہ ۴۰۹ بحولہ عیاشی ۔
۲ ۔ عموما ً ایسا ہی ہوتا ہے البتہ بعض مواقع استثنائی حیثیت رکھتے ہیں جیسے امام زمانہ کے دور حکومت میں رجعت (مترجم)
3 ۔یہ اس روایت کا خلا صہ ہے جوعظیم اسلامی مفسر مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں مندرجہ بالا آیت کے ذیل میں درج کی ہے ۔

 

منافقین کی بے بنیاد باتیں روح کی بقاء کا شاہد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma