خدا کی بہت بڑی نعمت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
ایک موثر طریقہٴ تربیت جنگ احد پر ایک اور نظر

خدا کی بہت بڑی نعمت

لَقَدْ مَنَّ اللَّہُ عَلَی الْمُؤْمِنینَ إِذْ بَعَثَ فیہِمْ رَسُولاً مِنْ اٴَنْفُسِہِمْ
اس آیت میں عظیم ترین نعمت یعنی ”بعثت پیغمبر اسلام “ کے متعلق گفتگو ہے ۔ حقیقت میں یہ ان سوالات کا جواب ہے جو نو مسلموں کے دل میں جنگ احد کے بعد اٹھتے تھے ۔ وہ سوچتے تھے کہ ہم ان مشکلات و مصائب میں کیوں گرفتار ہوں ۔ قرآن انہیں کہتا ہے : اگر تمہیں اس راہ میں نقصان اٹھانا پڑا ہے تو یہ نہ بھول جاوٴ کہ اللہ نے تمہیں ایک بہت بڑی نعمت عطا کی ہے ، اس نے پیغمبر مبعوث کیا ہے جو تمہاری تربیت کرتا ہے اور تمہیں کھلی گمراہیوں سے روکتا ہے ، اس عظیم نعمت کی حفاظت کے لئے تم جتنی بھی کوشش کرو اور تمہیں جتنی بھی قیمت دینا پڑے حقیر ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس کا ذکر ” لقد من اللہ علیٰ المومنین “ (خدا نے مومنین پر احسان کیا ہے)سے شروع ہوتا ہے ، جو ابتدائی نظر میں مناسب معلوم نہیں ہوتا لیکن ” منت “ کے اصلی معنی کی طرف توجہ دی جائے تو مطلب پوری طرح واضح ہوجاتا ہے ۔ مفردات میں راغب کہتا ہے کہ یہ لفظ در اصل ” من “ سے ہے جس کا معنی ہے ” وہ پتھر جن سے چیزوں کو تولا جاتا ہے “ اسی لئے ہر قیمتی چیز اگر وہ عملی پہلو رکھتی ہوتو سے منت کہتے ہیں یعنی کسی نے دوسرے کو عملی طور پر عظیم نعمت عطا کی ہو تو اس کا استعمال بالکل زیبا اور مناسب ہے لیکن اگر کوئی اپنے چھوٹے سے کام کو باتوں سے بڑا کرکے دکھائے تو یہ انتہائی برا اور قبیح ہے لہذا احسان جتلانا جو برا اور مذموم ہے وہ باتوں میں اپنے احسانات کو بڑا شمار کرنا ہے لیکن اس احسان کا تذکرہ جو عظیم نعمتوں کی عطا ہو ، مناسب اور زیبا ہے ۔
مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : پروردگار نے مومنین پر احسان کیا یعنی انہیں عظیم نعمتیں عطا کی ۔ یہاںسوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف مونین کا ذکر کیوں کیا گیا ہے جبکہ بعثت پیغمبر تو تمام نوع بشر کی ہدایت کے لئے ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نتیجہ اور تاثیر کے لحاظ سے صرف مومنین ہی اس عظیم نعمت سے استفادہ کرتے ہیں اور عملا ً اسے اپنے سے مخصوص کر لیتے ہیں ۔
اسکے بعد فرماتا ہے ؛ پیغمبر کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ خود انہی کی جنس اور نوع بشر میں سے ہے ( من انفسھم ) وہ فرشتوں یا دیگر نوع کی مخلوق میں سے نہیں ہے ۔ یہ اس لئے ہے تا کہ ضروریات بشر کو مکمل طور سے جان سکے اور انسانوں کو دکھ درد ، مشکلات و مصائب اور مسائل زندگی کو لمس کر سکے اور یوں ان کی تربیت کے ئے اقدام کرنے کی طرف خود متوجہ ہو سکے ۔ علاوہ ازیں انبیاء کے تربیتی پروگرام کا اہم ترین حصہ ان کی اپنی زندگی اور عملی تبلیغات تھیں ۔ ان کے اعمال تربیت کے لئے بہترین نمونہ اور ذریعہ تھے ۔ کیونکہ” عمل کی زبان “سے ہر زبان میں بہتر تبلیغ کی جا سکتی ہے اور یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ جب تبلیغ کرنے والا سننے والے کی ہم جنس ہو ۔ اس کی جسمانی ، طبیعی اور روحی بناوٹ ایک سی ہو ۔ مثلا اگر انبیاء ملائکہ کے ہم جنس ہوتے تو لوگوں کی طرف سے یہ سوال باقی رہتا کہ اگر وہ گناہ نہیں کرتے تو کیا اس کی یہ وجہ نہیں کہ وہ شہوت وغضب اور ہر طرح انسانی احتیاجات بشری غرائز و سرشت کے حامل نہیں ہیں اور یوں انبیاء کا عملی تبلیغات کا پروگرام ختم ہو کر رہ جاتا ۔ اسی لئے انبیاء کا انتخاب انسانوں میں سے انہی حاجات ، ضروریات ،غرائز اور طبائع کے ساتھ کیا گیا ہے تا کہ وہ سب کے لئے نمونہ معمل بن سکیں ۔
یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیاتِہِ وَ یُزَکِّیہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ ۔
پھر فرمایا پیغمبر نے ان کے سامنے تین اہم پروگرام پیش کئے ہیں :
پہلا ان کے سامنے پروردگار عالم کی آیات پڑھنا ، تلاوت کرنا اور ان کے کانوں اور افکار کو ان آیات سے آشکار کرنا ۔
دوسرا تعلیم یعنی ان حقائق کو ان کی روح تک پہنچانا ۔
تیسرا تزکیہ نفس یعنی اخلاقی و انسانی ملکات کی تربیت اور نش و نما ، چونکہ اصلی ہدف تربیت ہے لہذا آیت میں اس کا ذکر تعلیم سے پہلے آیا ہے حالانکہ فطری تربیت کے لحاظ سے تعلیم تربیت پر مقدم ہے ۔
وہ لوگ جو انسانی حقائق سے بالکل دور ہیں وہ تربیت کا اثر آسانی سے قبول نہیں کرتے بلکہ ایک مدت تک ان کے کانوں کو ارشادات الہی سے آشنا کرنا پڑے گا اور ان میں پہلے سے موجود وحشت و اجنبیت کو دور کرنا پڑے گا پھر تعلیم کا مرحلہ شروع ہوگا اور اس کے بعد تربیت کی باری آئے گی جو کہ سارے پروگرام کا ما حصل ہے ۔
ممکن ہے آیت میں تزکیہ سے مراد شرک ، باطل عقائد اور بےہودہ خصائل اور بری حیوانی عادات کی آلودگی سے پاک کرنا ہو کیونکہ جب تک انسان کا باطن ان غلاظتوں سے پاک نہ ہو تو ممکن نہیں کہ وہ کتاب الہی اور حقیقی حکمت و دانائی کی تعلیم کے لئے آمادہ ہو سکے ۔ جیسے ایک تختی پر موجود برے نقوش جب تک صاف نہ ہو جائیں اس پر خوبصورت اور دلکش نقوش بجا طور پر ثبت نہیں ہو سکتے اس لئے مندرجہ بالا آیت میں تزکیہ نفس کو تعلیم یعنی بلند اور اعلیٰ اسلامی معارف پر مقدم کیا گیا ہے ۔
وَ إِنْ کانُوا مِنْ قَبْلُ لَفی ضَلالٍ مُبینٍ ۔
ایک عظیم نعمت کی اہمیت اس وقت واضح ہوتی ہے جب اس سے فائدہ حاصل کرنے کے زمانے کا اس سے قبل کے زمانے سے موازنہ کیا جائے اور ان دونوں کا فرق جان لیا جائے ۔ زیر نظر جملے میں کہتا ہے : اسلام سے قبل کے زمانے پر ایک ناگاہ کرو تمہاری کیا حالت تھی اور تمہارے ایام کیسے گزر رہے تھے اور اب کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہو ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ قرآن زمانہ جاہلیت کی کیفیت کو ”ضلٰل مبین “ یعنی ” واضح گمراہی “ قرار دیتا ہے کیونکہ گمراہی و ضلالت کی کئی قسمیں ہیں ۔ بعض گمراہیاں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان آسانی سے ان کے باطل ہونے کو نہیں سمجھ سکتا اور کھی ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص تھوڑی سی عقل بھی رکھتاہو فورا ً سمجھ لیتا ہے ۔
دنیا کے لوگ اور خصوصا جزیرة العرب کے رہنے والے پیغمبر اسلام کی بعثت کے زمانے میں واضح ضلالت و گمراہی میں مبتلا تھے ۔ نا جائز کاروبار ، بد بختی ، جہل و نا دانی اور طرح طرح کی معنوی آلودکیوں نے اس زمانے میں تمام دنیا کو گھیر رکھا تھا اور یہ غیر مناسب کیفیت کسی پر بھی ڈھکی چھپی نہ تھی ۔

 ۱۶۵۔اٴَ وَ لَمَّا اٴَصابَتْکُمْ مُصیبَةٌ قَدْ اٴَصَبْتُمْ مِثْلَیْہا قُلْتُمْ اٴَنَّی ہذا قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اٴَنْفُسِکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلی کُلِّ شَیْء ٍ قَدیرٌ۔
ترجمہ
۱۶۵۔ (جنگ احد میں ) تم پر مصیبت آئی ( جبکہ بدر میں ) اس سے دو گنا (دشمن ) پر بھی غالب آچکے ہو ، تو تم کہنے لگے کہ یہ مصیبت کہاں سے آئی ؟ کہہ دو کہ خود تمہاری طرف سے ہے ( کہ تم نے جنگ احد کے میدان میں حکم پیغمبر کی مخالفت کی ) ۔خدا ہر چیز پر قادر ہے

( اور اب بھی اگر تم اپنی اصلاح کر لو تو آئندہ وہ تمہیں کامیابی دے گا ) ۔

تفسیر

 

ایک موثر طریقہٴ تربیت جنگ احد پر ایک اور نظر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma