جہاد میں شرکت نہ کرنے والے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
ہر قسم کی خیانت ممنوع ہےایک موثر طریقہٴ تربیت

جہاد میں شرکت نہ کرنے والے

اٴ فمن اتبع رضوان اللہ۔
آیات گذشتہ میں جنگ احد کے مختلف پہلووٴں اور اس کے نتائج پر بحث ہو چکی ہے ۔ اب باری ہے منافقین اور ان کمزور ایمان والے مسلمانوں کی جو منافقین کی اتباع کرتے ہوئے میدان جنگ میں حاضر نہ ہوئے ۔ روایات میں ہے کہ جب پیغمر اکرم نے جنگ احد کے لئے چلنے کا حکم صادر فرمایا تو منافقین کا ایک گروہ اس بہانے شامل نہ ہوا کہ بقول ان کے انہیں جنگ کے وقوع پذیر ہونے کا یقین نہیں تھا ۔ بعض کمزور ایمان والے مسلمان بھی ان کے ساتھ شریک ہو گئے ۔ زیر نظر آیت ان کی اسی حاکت کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہے : وہ لوگ جو حکم خدا وندی کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کی رضا کی پیروی کرتے ہیں کیا وہ ان لوگوں کی طرح ہیںجو غضب خداکی طرف لوٹ گئے ہیں اور انکا ٹھکاناجہنم اوران کا انجام کار برا اور تکلیف دہ ہے ۔
اس کے بعد فرمایا :ھم درجات عند اللہ۔ یعنی ان میںہر کوئی بارگاہ الہی میں درجہ اور اہمیت رکھتا ہے ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ نہ فقط یہ کہ تن پرور منافق اور مجا ہدین آپس میں فرق رکھتے ہیں بلکہ ہر شخص جو ان دو صفوں میں سے کسی میں کھڑا ہے فدا کاری و جانبازی یا نفاق و حق دشمنی میں فرق کا ایک خاص درجہ رکھتا ہے جو صفر سے شروع ہو کر حد تصور سے بالا تر تک جاری و ساری رہتا ہے ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایک روایت میں حضرت امام علی بن موسیٰ رضا (علیه السلام) سے منقول ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا ۔
ہر درجہ کے درمیان آسمان و زمین کے درمیانی فاصلے جتنا فاصلہ ہے ۔ ۱
ایک اور روایت میں ہے :
اہل بہشت درجات بالا میں رہنے والوں کو اس طرح دکھیں گے جیسے آسمان پر ستارہ دکھائی دیتا ہے ۔۲
البتہ توجہ رہے کہ عموماً درجہ سیڑھیوں کو کہا جاتا ہے کہ جن کے ذریعے انسان بلند نقطے کی طرف جاتا ہے انہیں ” درک “ ( بر وزن مرگ ) کہا جاتا ہے ۔ اسی لئے سورہٴ بقرہ آیة ۲۵۳ میں انبیاء کے بارے میں ہے :
و رفع بعضھم فوق بعض درجات
سورہٴ نساء آیة ۱۴۵ میں منا فقین کے بارے میں ہے:
ان المنا فقین فی الدرک الاسفل من النار
لیکن زیر بحث آیت میں کیونکہ دونوں گروہوں کے متعلق گفتگو ہے اس لئے مومنین سے متعلقہ تعبیر اختیار کی گئی اور لفظ ” درجہ “ استعمال کیا گیا

( اس طرز بیان کو ادبی اصطلاح میں تغلیب کہتے ہیں ) ۔
آیت کے آخرمیں فرمایا گیا ہے : واللہ بصیر بما یعملون۔ یعنی خدا سب کے اعمال دیکھتا ہے اور کامل طور پر جانتا ہے کہ ہر شخص اپنی نیت ، ایمان اور عمل کے لحاظ سے کس درجہکا اہل ہے ۔

 


۱ ۔تفسیر نور الثقلین ، جلد ۱ ، صفحہ ۴۰۶ ۔
۲ ۔ تفسیر مجمع البیان ، زیر نظر آیت کے ذیل میں ۔
 
ہر قسم کی خیانت ممنوع ہےایک موثر طریقہٴ تربیت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma