ہر قسم کی خیانت ممنوع ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
توکل کا نتیجہجہاد میں شرکت نہ کرنے والے

ہر قسم کی خیانت ممنوع ہے

وما کان لنبی ان یغل
اس طرف توجہ رکھتے ہوئے کہ مندرجہ بالا آیت جنگ احد کے سلسلے کی آیات کے بعد آئی ہے اور ان روایت پر نظر رکھتے ہوئے جو صدر اول کے مفسرین نے نقل کی ہیں ، یہ آیت جنگ احد کے سپاہیوں کی بعض بے بنیاد عذر راشیوں کے جواب میں ہے ۔ اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ جنگ احد کے بعض تیر انداز جب اپنا حساس مورچہ مال غنیمت جمع کرنے کے لئے چھوڑنا چاہتے تھے تو ان کے سردار نے انہیں حکم دیا کہ وہ یہ مورچہ نہ چھوڑیں اور ساتھ ہی اس سے کہا کہ رسول خدا تمہیں مال غنیمت سے محروم نہیں رکھیں گے لیکن ان دنیا پرستوں نے اپنے اصلی چہرے چھپانے کے لئے کہا کہ ہمیں یہ ڈر ہے کہ پیغمبر تقسیم غنائم میں نظر انداز کر دیں گے لہذا ہمیں اپنے لئے خود ہاتھ پاوٴں مارنے چاہئیں ۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنا مورچہ چھوڑ ا اور مال غنیمت سمیٹنے لگ گئے اور پھر وہ درد ناک حوادث پیش آئے جن کا ذکر کیا جا چکا ہے ۔
قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے : کیا تم گمان کرتے ہو کہ پیغمبر تم سے خیانت کریں گے جبکہ ممکن نہیں کہ کوئی پیغمبر خیانت کرے
(وما کان لنبی ان یغل ) ۔ ۱
اس آیت میں خدا وند عالم نے ساحت مقدس انبیاء کو خیانت سے کاملاً منزہ قرار دیا ہے ۔ ارشاد فرماتا ہے : بنیادی طور پر ایسی چیز نبوت کے شایان شان ہی نہیں یعنی خیانت کا نبوت سے کوئی جوڑ نہیں اگر پیغمبر خائن ہو تو پھر رسالت الہی کی ادائیگی اور تبلیغِ احکام میں اس پر اطمینان نہیں کیا جا سکتا ۔
بغیر کہے واضح ہے کہ اس آیت میں انبیاء سے ہر قسم کی خیانت کی نفی کی گئی ہے اس کا تعلق مال غنیمت کی تقسیم سے ہو یا لوگوں کی امانت کی حفاظت سے یا پھر وحی حاصل کرنے اور اسے بندگان خدا تک پہنچانے سے ۔
تعجب ہے کہ جو شخص پیغمبر کو وحی الٰہی کے بارے میں امین سمجھتا ہو کیسے گمان کر سکتا ہے کہ وہ نعوذ باللہ جنگی مال غنیمت کے بارے میں نا روا حکم دے گا یا اسے اس کے حق سے محروم کر دے گا ۔
البتہ واضح ہے کہ خیانت کی کسی شخص کو اجازت نہیں چاہے ہو پیغمبر ہو یا کوئی اور ، لیکن جنگ احد کے بہانہ سازوں کی گفتگو چونکہ پیغمبر کے بارے میں تھی لہٰذا آیت بھی پہلے انبیا کے متعلق بات کرتی ہے اور پھر مزید کہتی ہے:
و من یغلل یاٴت بما غل یوم القیامة ۔
یعنی جو شخص بھی خیانت کرے گا وہ روز قیامت اس چیز کا با ر اپنے دوش پر بطور سند اٹھائے ہوئے حاضر ہوگا جس میں اسنے خیانت کی ہوگی یا میدان محشر میں یا میدان محشر میں اسے اپنے ساتھ لائے گا ۔ اس طرح وہ سب کے سامنے ذلیل و رسوا ہو گا ۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ دوش پر اٹھا لانے یا اپنے ساتھ لے آنے سے مراد یہ نہیں کہ بعینہ وہی چیز اٹھا لائیں گے بلکہ یہاں اس کی جواب دہی کا بوجھ مراد ہے لیکن قیامت میں انسانی اعمال مجسم ہونے کے مسئلے کی طرف نظر کی جائے تو اس تفسیر کی ضرورت باقی نہیں رہتی بلکہ جیسے مندرجہ بالا آیت کا ظاہری مفہوم شاہد ہے بعینہ وہی چیزیں بطور سند خیانت کاروں کے دوش پر ہوں گی یا ان کے ہمراہ ہوں گی جن میں خیانت کی گئی ہے ۔
ثم توفی کل نفس ما کسبت و ھم لا یظلمون
پھر ہر شخص کو وہ کچھ دیا جائے گا جو اس نے انجام دیاہے یا کسب کیا ہے یعنی لوگ اپنے اعمال کو بعینہ وہاں پائیں گے لہذا اس بنا پر کسی شخص پر ظلم وستم نہیں ہوگا کیونکہ ہر شخص کو وہ کچھ مل جائے گا جو اس نے حاصل کیا تھا یا کمایا تھا ، چاہے اچھا ہو یا برا ۔
مندرجہ بالا آیت اور وہ احادیث جو پیغمبر اکرم پر الزام لگانے کی مذمت کے ضمن میں صادر ہوئیں انہوں نے مسلمانوںپر عجیب تربیتی اثرات مرتب کئے ہیں ۔ ان کی تاثیر تھی کہ ان سے چھوٹی چھوٹی خیانت بھی سرزد نہیں ہوتی تھی خصوصا مال غنیمت اور دیگر مالی معاملات میں ہوتا یہ تھا کہ بہت قیمتی غنائمکمحجم ہونے کے باوجود جن مین خیانت کرنا کچھ مشکل نہ تھا ، مکمل پیغمبر اکرم اور آپ کے بعد بر سر کار حکام کے پاس بغیر دست برد کے لائے جاتے تھے اور یہ ہنر دیکھنے والے کے لئے تعجب خیز امر تھا ۔ یہ وہی زمانہ جاہلیت کے وحشی اور غارت گرعرب تھے جو تعلیمات اسلامی کے نتیجہ میں انسانی تربیت کے اس درجہ پر پہنچ گئے تھے ۔ گویا میدان محشر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ جس میں اموال میں خیانت کرنے والوں کو سب کے سامنے اس عالم میں پیش کیا جائے گا کہ وہ اموال ان کے دوش پر ہوں گے جن میں انہوں نے خیانت کی ہو گی ۔ یہی وہ ایمان تھا جو انہیں اس قدر بیدار کرتا تھا کہ وہ خیانت کا خیال بھی ترک کر دیں ۔
طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے :
جب مسلمان مدائن میں داخل ہوئے اور مال غنیمت جمع کرنے لگے ایک مسلمان مال غنیمت میں سے ایک نہایت قیمتی چیز مال غنیمت جمع کرنے والوں کے پاس لے آیا ۔ وہ اس چیز کو دیکھ کر تعجب کرنے لگے اور اس سے کہنے لگے : ہم نے آج تک اس قسم کی قیمتی چیز نہیں دیکھی ۔پھر انہوں نے اس سے پوچھا : تم نے اس میں سے کچھ کیا بھی ہے ؟ وہ کہنے لگا : خدا کی قسم اگر یہ خدا کے لئے نہ ہوتا تو میں ہر گز اسے تمہارے پاس نہ لاتا ۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ شخص بڑی روحانی شخصیت کاحامل ہے ۔ پھر انہوں نے اس سے خواہش کی کہ وہ اپنا تعارف کروادے ۔ وہ کہنے لگا : بخدا میں ہر گز تم سے اپنا تعارف نہیں کرواوٴں گا ، کہیں تم میری تعریف و توصیف کرنے لگو میں نہیں چاہتا کہ دوسرے میری تعریف کریں لیکن میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور اس کی جزا و ثواب پر راضی ہوں ۔ 2

۱۶۲۔اٴَ فَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَ اللَّہِ کَمَنْ باء َ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّہِ وَ مَاٴْواہُ جَہَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصیرُ۔
۱۶۳۔ہُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّہِ وَ اللَّہُ بَصیرٌ بِما یَعْمَلُونَ ۔
ترجمہ
۱۶۲۔ وہ جو رضائے خدا کی پیروی کرے کیا وہ اس کی مانند ہے جو خشم و غضب خدا کی طرف لوٹے اور جس کی جائے قرار جہنم ہے جس کا انجام بہت ہی برا ہے ۔
۱۶۳۔ ان میں سے ہر ایک کے لئے درگاہ خدا میں درجہ و مقام ہے اور جو کچھ وہ انجام دیتے ہیں اسے خدا دیکھتا ہے ۔
 


۱ ۔ یہ لفظ ” غلل “ سے خیانت کے معنی میں لیا گیا ہے ۔ اصل میں ”غلل “ کا معنی ہے پانی کا تدریجی اور مخفی طور پر درختوں کی جڑوں میں پہنچنا ۔ خیانت چونکہ مخفی طور پر اور تدریجاً ہوتی ہے اس لئے اسے بھی ” غلول “ کہتے ہیں ۔ تشنگی سے پیدا ہونے والی اندرونی حالت کو بھی ” غلیل “ اسی وجہ سے کہتے ہیں ۔
2 ۔ تاریخ طبری ، جزو ۴، صفحہ ۱۶۔

 

توکل کا نتیجہجہاد میں شرکت نہ کرنے والے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma