اسلام میں مشورہ کی اہمیت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
اب دیکھنا یہ ہے کہ پیغمبر کن مسائل میں لوگوں سے مشورہ کیا کرتے تھے ۔جس سے مشورہ کیا جائے اس کی ذمہ داری

مشورہ اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ پیغمبر اکرم وحی آسمانی سے قطع نظر ایسی قوت فکر کے مالک تھے کہ انہیں کسی قسم کے مشورہ کی ضرورت نہ تھی ، پھر بھی آپ مسلمانوں کو مشورہ کی اہمیت بتلانے کے لئے قانون سازی کو چھوڑ کر دیگر عام معاملات میں مشورہ کیا کرتے تھے تا کہ ان کی قوت فکر و نظر پروان چڑھ سکے اور خصوصیت کے ساتھ صاحب الرائے افراد کی قدر افزائی کیا کرتے تھے یہاں تک کہ بعض دفعہ ان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کی رائے کو ترجیح دیا کرتے تھے جیسا کہ ایک واقعہ جنگ احد کے تذکرہ میں پیش کیا گیا ہے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر کی اسلامی پرو گراموں میں کامیابی کا ایک اہم راز ان کا یہی طرز عمل تھا ۔ اصولی طور پر جو لوگ اپنے اہم کاموں کو ایک دوسرے کے صلاح مشورہ سے انجام دیتے اور متعلقہ امور کے ماہر غور و خوض کے بعد ان کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں اس کے بر عکس جو لوگ اپنے آپ کو دوسروں کے صلاح مشورہ سے بے نیاز سمجھتے ہیں وہ کتنے ہی بڑے صاحب فکر و نظر کیوں نہ ہوں زیدہ تر خطرناک اور المناک اشتباہات میں گرفتار ہو جاتے ہیں علاوہ ازیں مشورہ سے بے نیازی کی وجہ سے عامةالناس میں شخصیت کا وقار ختم ہو جاتا ہے اور افکار و نظریات کی ترویج میں رکاوٹ پڑ جاتی ہے اور موجود استعدادیں ختم ہو جاتی ہیں اور اس طرح کسی ملت کا بہت بڑا انسانی سرمایہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے ۔ مزید بر آں جو شخص اپنے کام دوسروں کی صلاح مشورہ سے کرتا ہے اگر وہ کامیابی سے ہمکنار ہو جائے تو دوسرے لوگ اس کو حسد کی نگاہ سے نہیں دیکھتے کیونکہ دوسرے لوگ اس کی کامیابی کو اپنی طرف سے ہی سمجھتے ہیں اور عموما ً انسان اس کام سے حسد نہیں کرتا جسے اس نے خود انجام دیا ہو اور اگر وہ کبھی شکست کھا جائے تو وہ دوسروں کے اعتراضات کا نشانہ نہیں بنتا کیونکہ کوئی شخص اپنے کام کے نتیجہ پر اعتراض نہیں کرتا نہ صرف یہ کہ اعتراض نہیں کرتا بلکہ ہمدردی اور غمخواری بھی کرتا ہے ۔
مشورہ کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان دوسرے افراد کی شخصیت کی قدر و قیمت اور ان کی دشمنی اور دوستی کا اندازہ بھی لگالیتا ہے اور یہ چیز کامیابی کے لئے در کنار شناسائی کا بھی سبب بنتی ہے ۔ اسلامی روایات میں مشورہ کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ایک حدیث میں رسول خدا نے فرمایا :
”ما شقی عبد قط بمشورة ولا سبد استغناء رای “
کو ئی شخص ہر گز مشورہ سے بد بخت اور اسبداد رائے سے خوش بخت نہیں ہو سکتا ۔ 1 #
حضرت علی (ع) نے فرمایا :
”من استبد برایہ ھلک ومن شاور الرجال شارکھا فی عقولھم “
جو شخص استبداد رائے رکھتا ہو وہ ہلاک ہو جاتا ہے اور جو بڑے لوگوں سے مشورہ کرتا ہے وہ ان کی عقل میں شریک ہو جاتا ہے ۔ 2 #
پیغمبر اکرم نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا :
” اذا کان امرائکم خیارکم و اغنیائکم سمحائکم و امرکم شوری بینکم فظھر وا الارض خیر لکم من بطنھا واذا کان من امرائکم شرارکم و غنیائکم بخلائکم ولم یکن امرکم شوری بینکم فبطن الارض خیر لکم من ظھرھا “
جس وقت تمہارے حاکم نیک لوگ ہوں اور تمہارے امیر سخی لوگ ہوں اور تمہارے کام مشورہ سے انجام پائیں تو اس وقت زمین کا ظاہری حصہ باطنی کی نسبت تمہارے لئے بہتر ہے ( یعنی یہ زمین جینے کے قابل ہے ) لیکن اگر تمہارے حکمران برے ہوں ، دولت مند بخیل ہوں اور کام ایک دوسرے کے مشورہ سے نہ ہوتے ہوں تو اس وقت تمہارے لئے زمین کا نچلا (باطنی) حصہ ، بالائی ، حصہ سے بہتر ہے ۔ 3 #
یہ مسلم ہے کہ ہر شخص سے مشورہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بعض اوقات ان میں کمزوری کے پہلو ہوتے ہیں جن کی بنا پر ان کا مشورہ بد بختی اور پسماندگی کا سبب بن سکتا ہے جیسا کہ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ تین قسم کے لوگوں سے مشورہ نہ کرو۔
۱۔ بخیل افراد سے مشورہ نہ کرنا کیونکہ وہ تجھے بخشش اور دوسروں کی مدد کرنے سے روکیں گے اور فقر و غربت سے ڈرائیں گے
(لا تدخلن فی مشورتک بخیلا یعدل بک عن الفضل و یعدک الفقر)۔ #
۲ ۔ بزدلوںسے مشورہ نہ کرنا کیونکہ وہ تجھے اہم کاموںکی انجام دہی سے روکیں گے
(ولا جیاناًیضعفک عن الامور )۔4#
۳۔ حریص افراد سے مشورہ نہ کرنا کیونکہ وہ دولت کی طمع میں تمہیں ظلم و ستم کی طرف رغبت دلائیں گے
(ولا حریصاً یزین لک الشرة بالجور )۔


1۔ تفسیر ابو الفتوح رازی ۔
2 ۔ نہج البلاغہ ۔
3۔ تفسیر ابو الفتوح رازی ۔
4۔ نہج البلاغہ فرمان بنام مالک اشتر ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پیغمبر کن مسائل میں لوگوں سے مشورہ کیا کرتے تھے ۔جس سے مشورہ کیا جائے اس کی ذمہ داری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma