منافقین کی مفاد پرستی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
زمانہ جاہلیت کے وسوسے ام معافی کا حکم

منافقین کی مفاد پرستی

یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَکُونُوا کَالَّذینَ ۔۔۔۔۔۔۔
واقعہٴ احد دو لحاظ سے مسلمانوںکے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے پہلی یہ کہ واقعہ اس وقت کے تمام حالات و کیفیات کا آئینہ دار ہے جس میں مسلمانوںکی حقیق صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے اور انہیں اپنی کیفیت کی اصلاح کرنے پر ابھارا گیا اور کمذور پہلووٴںکو بہتر کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ اسی بنا پر قرآن نے اس واقعہ کو نہایت اہتمام سے بیان کیا ہے ۔ بہت سی گذشتہ اور آئندہ آیات میں بھی اس واقعہ سے تربیت کے لئے فائدہ اٹھایا گیا ہے ۔ دوسری چرف یہ واقعہ دشمنوں اور منافقوں کے لئے زہر پاشی کا کام دیتا تھا اس لئے بہت سی آیات میں اس کو زائل کیا گیا ہے مندرجہ بالا آیات بھی ایسی ہی ہیں ۔
مذکورہ آیات منافقین کی تخریبی کار روائیوں کو نا کام بنانے اور مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے پہلے صاحب ایمان افراد سے خطاب کرتی ہیں کہ تم کفار کی طرح نہ جاوٴ کہ جس وقت ان کے بھائی سفر پر یا جنگ لڑنے کے لئے جاتے ہیںاور وہ قتل ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ افسوس اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے ۔ اگر چہ وہ یہ باتیں ہمدردی کے بھیس میں کرتے ہیں لیکن ان زہریلی باتوں سے بچو اور ایسے جملے زبان پر نہ لاوٴ ۔
لِیَجْعَلَ اللَّہُ ذلِکَ حَسْرَةً فی قُلُوبِہِم:
اگر تم مومنین ان کی گمراہ کن باتوں سے متاثر ہوئے اور ایسی ہی باتیں کیں تو فطری طور پر تمہارے جذبے ماند پڑ جائیں گے اور میدان جنگ کی ترف جانے سے اور راہ خدا میں سفر سے رک جاوٴ گے اور اس طرح لوگ اہنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گے ، لیکن تم ایسا نہ کرو اور مضبوط جذبے کے ساتھ میدان جہاد میں جاوٴ تا کہ ایسی حسرت منافقین کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے رہ جائے ۔ اس کے بعد قرآن ان کی زہر آلود باتوں کے تین منطقی جواب دیتا ہے:
۱۔موت و حیات ہر حالت میں اللہ کے دست قدرت میں ہے ، سفر اور جنگ کرنے سے اس کی قطعی و یقینی حالت نہیں بدل سکتی اور خدا بندوں کے سب اعمال سے آگاہ ہے ۔ (وَ اللَّہُ یُحْیی وَ یُمیتُ وَ اللَّہُ بِما تَعْمَلُونَ بَصیرٌ ) ۔
۲۔ اب اگر تم راہ خدا میں مر جاوٴ اور منافقین کے خیال کے مطابق تم پر موت جلد آ پڑے تو تمہارا کوئی نقصان نہیںہوا کیونکہ پر ور دگارکی رحمت و مغفرت ان اموال سے بدرجہا بہتر ہے جو تم یا منافقین اپنی زندگی میں جمع کرتے ہیں (وَ لَئِنْ قُتِلْتُمْ فی سَبیلِ اللَّہِ اٴَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّہِ وَ رَحْمَةٌ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ)۔ اصولی طور پر سن دونوں کا تقابل نہیں کرنا چاہیے ۔ لیکن ان کی پشت ذہنیت مال و دولت اور چند روزہ زندگی لو اعزاز جہاد شہادت پر ترجیح دیتی تھی، اس لئے اس کے علاوہ چارہ نہیں تھا کہ کہا جاتا کہ جن اموال کو کفار شہوت بھری زندگی اور دنیا پرستی کے جنون میں جمع کرتے ہیں ، اس سے وہ اعزار وحاصل کہیں بہتر ہے جو تم راہ شہادت اور راہ خدا میں مر جانے سے پاتے ہو ۔
موت کا معنی فنا اور نا بودی نہیں ہے جس سے تم اتنے پریشان ہوتے ہو بلکہ موت دوسری زندگی کے لئے ایک دریچہ ہے جو بہت وسیع اور جاوداں ہے

 (وَ لَئِنْ مُتُّمْ اٴَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَی اللَّہِ تُحْشَرُونَ)۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ان آیات میں سفر میں مر جانے کو شہادت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ان سفروں سے مراد وہ سفر تھے جنہیں وہ خدا کے لئے کیا کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر میدان جنگ یا تبلیغی پرو گراموں کے لئے سفر کرنا وغیرہ ۔ اس دور کے سفر مشکلات و مصائب سے پر ہوتے تھے بیماریاں بھی آ گھیرتی تھیں لہذا ان میں مر جانا میدان جہاد میں مرنے سے کم نہیں ہوتا تھا ۔ البتہ بعض مفسرین نے اس سے تجارتی سفر مراد لیا ہے لیکن یہ معنی اس آیت سے بہت بعید ہے کیونکہ یہ حصول مال کا ایک ذریعہ تھا اور کافروں کو ایسے سفر پر کیا افسوس ہو سکتا تھا ۔ علاوہ از ایںیہ بات جنگ احد کے بعد مسلمانوں میں کمزوری پیدا کرنے کے لئے موثر نہیں ہو سکتی تھی نیز اس سلسلہ میں مسلمان اگر کافروں سے ہم آہنگ نہ ہوں تو ان کے لئے باعث حسرت و یاس نہیںہو سکتا تھا ۔ لہذا یہاں سفر میں مرنے سے مراد وہ سفر ہے جو میدان جہاد کی طرف تھا یا دیگر اسلامی مقاصد کے لئے ۔

 ۱۵۹۔فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّہِ لِنْتَ لَہُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَ شاوِرْہُمْ فِی الْاٴَمْرِ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلینَ ۔
۱۶۰۔ إِنْ یَنْصُرْکُمُ اللَّہُ فَلا غالِبَ لَکُمْ وَ إِنْ یَخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذی یَنْصُرُکُمْ مِنْ بَعْدِہِ وَ عَلَی اللَّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ۔
ترجمہ
۱۵۹۔ رحمت الٰہی کے سبب تم ان کے سامنے نرم (اور مہربان ) پو اور اگر تم سخت خو ہوتے تو وہ تم سے دور ہو جاتے لہٰذا انہیں معاف کر دو اوران کے لئے مغفرت طلب کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ کیا کرو لیکن مصمم ارادہ کرلو تو ( پھر ڈٹ جاوٴاور ) خدا پر توکل کرو کیونکہ خدا توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ ۱۶۰۔ اگر خدا تمہاری مدد کرے تو کوئی بھی تم پر غلبہ نہیںپا سکتا اور اگر وہ تمہاری مدد سے دست بردار ہو جائے تو اس کے علاوہ کون تمہاری مدد کرنے والا ہے اور مونین کو صرف خدا پر توکل کرنا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمانہ جاہلیت کے وسوسے ام معافی کا حکم
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma