گذشتہ زمانوں کے مجاہدین

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
شخصیت پرستی کی ممانعت بار بار خطرے سے آگاہی

گذشتہ زمانوں کے مجاہدین

و کاٴین من نبی۔۔۔۔۔
”کاٴین “
کے معنی ہیں کتنے زیادہ اور ادب کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ لفظ کاف تشبیہ اور ” این “ سے مرکب ہے کہ جو اب ایک ہی کلمہ بن چکا ہے اور پہلے اجزاء کا انفرادی معنی متروک ہو گیا اور اس کا معنی ہو گیا ہے ” کتنے زیادہ “
”ربّیون “ ربّی ( بر وزن ملی ) کی جمع ہے اور ربی اس شخص کو کہا جاتا ہے کہ جس کا خدا سے مضبوط اتصال ہو جو صاحب ایمان ، عالم ، صابر اور مخلص ہو ۔
جنگ احد کے واقعات کے بعد اوپر کی آیت گذشتہ زمانہ کے مجاہدین اور اصحاب انبیاء کی قوت ، شجاعت پختگی ایمان اور استقامت کی یاد دلا کر مسلمانوں کو شجاعت اور فدا کاری کی تشویق وترغیب دلاتی ہے اور ضمنی طور پر میدان سے فرار کرنے والوں کی سر زنش کرتی ہے اور کہتی ہے کہ بہت سے انبیاء ایسے تھے جن کے یارو انصار کی صف میں خدا پرست مجاہد موجود تھے ۔ اس کے بعد ان کا طرز عمل یوں بیان کرتی ہے : وہ انبیاء کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ، بہت کٹھن مشکلات میں انہوں نے سستی اور نا توانی نہیں دکھائی اور دشمن کے سامنے کبھی سر خم نہیں کیا اور نہ ہی اپنے آپ کو ان کے سپرد کیا (ما ضعّفوا وما استکانوا) اور واضح ہے کہ خدا یسے ہی افراد کو پسند کرتا ہے جو لڑائی میں پیچھا نہیں دکھاتے (واللہ یحب الصابرین) ۔ وہ لوگ جو کبھی سستی یا لغزشوں کی وجہ سے دشمن کے سامنے مشکلات میں گھر جاتے تھے تو بجائے اس کے کہ میدان ان کے حوالہ کردیں یا اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیں یا ان کے دماغ میں کفر و ارتداد کی خلش پیدا ہو ، وہ بارگاہ خدا وندی سے صبر و استقامت اور پا مردی کی درخواست کرتے تھے اور کہتے تھے۔
” رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا وَ إِسْرافَنا فی اٴَمْرِنا وَ ثَبِّتْ اٴَقْدامَنا وَ انْصُرْنا عَلَی الْقَوْمِ الْکافِرینَ “۔
پرور دگارا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے ہماری جلد بازی سے در گزر فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمیں کافروں پر کامیابی عطا کر۔ وہ اس قسم کے طرز فکر عمل سے خدا سے جلد اپنی جزا اور ثواب حاصل کرتے تھے اس دنیا کی جزا بھی جو دشمن پر فتح وکامرانی ہے اور دوسرے جہان کی جزا ثواب بھی۔
” فَآتاہُمُ اللَّہُ ثَوابَ الدُّنْیا وَ حُسْنَ ثَوابِ الْآخِرَةِ “
آیت کے آخر میں انہیں نیکی کاروں میں شمار کرکے ارشاد ہوتا ہے :ِ وَ اللَّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنینَ ۔خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے ۔ اس طرح سے خدا تازہ مسلمانوں کے لئے گذشتہ امتوں کے مجاہدین کے پروگراموں اور مشکلات کے مقابلہ میں ان کے طرز عمل کا ذکر ایک درس کے طور پر کر رہا ہے ۔
اوپر کی آیات ان چیزوں کے علاوہ کئی اور نکات بھی واضح کرتی ہیں:
۱۔ جیسا کہ پہلے بھی ارشاد کیا جا چکا ہے کہ صبر کے معنی ہیں استقامت و پا مردی ۔ اس لئے اس آیت مین اسے ضعف اور تسلیم کے مقابلہ میں لایا گیا ہے اور ضمناً صابر اور نیکو کار شخص کے سامنے ہزارہا مشکلات کھڑی ہیں ۔ اگر اس میں استقامت نہ ہو گی تو وہ بہت جلد ہی اپنا کام چھوڑ دے گا ۔
۲۔ حقیقی مجاہد بجائے اس کے کہ وہ اپنی شکست کا سبب دوسرے کو قرار دے یا اسے وہمی عوامل کا نتیجہ قرار دے ، وہ اپنی ذات میں اس کا سر چشمہ تلاش کرتے ہیں اور اپنے اشتباہات کی تلافی کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ شکست کا لفظ اپنی زبان پر بھی نہیں لاتے اور اس کے بجائے اپنے نفسوں پر زیادتی کا ذکر کرتے ہیں بخلاف ہمارے کہ ہم آج کی دنیا میں کوشش کرتے ہیں کہ ضعف و کمزوری کے پہلو کو نظر انداز کر دیں جو ہماری نا کامیوں کا سر چشمہ ہیں اور ان سب کو خارجی اسباب کا نتیجہ سمجھتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم کبھی ان کمزوریوں کو ختم نہیں کر سکتے ۔
۳۔ درج بالا آیت میں دنیا وی جزا کو ” ثواب الدنیا “ کہا گیا ہے جبکہ آخرت کی جزا کو ”حسن ثواب الآخرة “ سے تعبیر کیا گیا ہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آخرت کی جزادنیا وی جزا سے بہت زیادہ امتیاز رکھتی ہے کیونکہ دنیاوی جزا کتنی ہی اچگی کیوں نہ ہو وہ آخر فنا ہو جائے گی اور خلاف مزاج چیزوں کے ساتھ ملی ہوئی ہوگی ۔ جب کہ آخرت کی جزا سر تا پا بہتر ۔ خالص اور ہر قسم کی تکلیف سے پاک ہو گی۔

 ۱۴۹۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا إِنْ تُطیعُوا الَّذینَ کَفَرُوا یَرُدُّوکُمْ عَلی اٴَعْقابِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خاسِرینَ ۔
۱۵۰۔ بَلِ اللَّہُ مَوْلاکُمْ وَ ہُوَ خَیْرُ النَّاصِرینَ ۔
۱۵۱۔سَنُلْقی فی قُلُوبِ الَّذینَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِما اٴَشْرَکُوا بِاللَّہِ ما لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطاناً وَ مَاٴْواہُمُ النَّارُ وَ بِئْسَ مَثْوَی الظَّالِمینَ ۔
ترجمہ
۱۴۹۔اے ایمان والو ! اگر ان لوگوں کی اطاعت کرو گے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تمہیں پیچھے کی طرف دھکیل دیں گے اور آخر کار تم نقصان اٹھانے والے ہو جاوٴ گے ۔
۱۵۰۔ ( وہ تمہارا سہارا نہیں ہیں ) بلکہ تمہارا سہارا اور سر پرست خدا ہے اور وہ بہترین مددگار ہے ۔
۱۵۱۔ چونکہ وہ (کفار )بلا دلیل کچھ چیزوں کو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں ۔ اس لئے بہت جلد ان کے دلوں پر ہم رعب و خوف طاری کریں گے اور ان کا ٹھکانا آگ ہے اور ظالموں کا ٹھکانا کس قدر برا ہے ۔
تفسیر

 

شخصیت پرستی کی ممانعت بار بار خطرے سے آگاہی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma