جہاں گردی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
گذشتہ لوگوں کی تاریخ کا مطالعہجنگ احد کے نتائج

گذشتہ لوگوں کی کے جو نشانات زمین کے مختلف خطوں میں قدیم ادوار سے باقی ہیں ، وہ زندہ اسناد اور بولنے والی تاریخ ہیں ۔ یہاں تک کہ ہم ان کے متعلق لکھی ہوئی تاریخ کی نسبت ان سے زیادہ بہرہ ور ہو سکتے ہیں کیونکہ ان نشانات سے ہم ان اقوام کی جسمانی ساخت ، ان کا زاویہ فکر اور ان کی قدرت و عظمت کو بآسانی جان سکتے ہیں جبکہ صفحات تاریخ صرف وقوع پذیر واقعات کی تصویر کشی کرتے ہیں ۔ ستمگروں کے محلات کی ویرانی ، اہرام مصر کی تعجب خیز عمارتیں ، بابل کے برج ، کسریٰ کے محل ، قوم سبا کے آثار تمدن اور اس طرح کی بیسوں نشانیاں جو اس عالم کے گذشتہ وکنار میں بکھری پڑی ہےں ۔ ان میں سے ہر ایک نشانی زبان حال سے ان لوگوں کی تاریخ بیان کرتی ہے اور بے زبانی کی زبان میں باتیں کرتی ہے ۔ یہ حقیقت اس وقت آشکار ہو جاتی ہے جب کوئی نکتہ سنج شاعران محلات کے خرابوں میں جا کھڑا ہو تا ہے تو وہ اپنی روح میں ایک ضطراب محسوس کرتا ہے اور ہیجان انگیز اشعار کہتا ہے ، جیسا کہ خاقانی اور دوسرے عالمی شہرت یافتہ شعراء نے کسریٰ وغیرہ کے ٹوٹے پھوٹے محلات کے اندر سے یہ آوازیں دل کے کانوں سے سنی ہیں اور انہیں ادبی شاہکاروں کی زینت بنایا ہے ۔۱#
بر دیدہدیدہ من خندی کا ینجاز چہ می گوید خندند بر آن دیدہ کاینجا نشود گریاں
یعنی وہ میفی آنکھوں پر ہنسا کہ یہاں کیوں روتی ہےں اور وہ ان آنکھوں پر ہنستی ہےں جو یہاں نہ روئیں۔
جم عبرت مردم شد ، افسرزش گم شد سر خشت سرخم شد ، ہاں ای سر باہش ہاں
یہ تخت جمشید آج باعث عبرت ہے کہ آج اس پر بیٹھنے والا حاکم موجود نہیں ہے ۔
این پندخموشان است گر پند زبان خواہی رو آیہ ”اور ثنا“ از مکتب قرآن خوان
یہ تو خاموش لوگوں کی نصیحت ہے اور اگر تو زبان کی نصیحت چاہتا ہے تو مکتب قرآن سے ”اور ثنا“کی آیت پڑھ۔
ان زندہ تاریخی آثار میں سے ایک کا مطالعہ کرنا ضیغم تاریخی کتاب پڑھنے کے برابر ہے یہ مطالعہ انسان کی روحانی بیداری کے لئے ایک موٴثر چیز ہے کیونکہ جب ہم ان آثار کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اچانک ایسا لگتا ہے کہ ان ویرانوں میں زیر خاک بوسیدہ ہڈیاں زندہ ہو گئی ہیں اور پہلے جو ش ولولہ کا مشاہدہ کر رہی ہیں لیکن جب ہم دوبارہ ان کی طرف نگاہ کرتے ہیں تو انہیں خاموش فراموش شدہ دیکھتے ہیں ۔ ان دو خالتوں کا موازنہ اس راز کو طشت از بام کرتا ہے کہ خود سر افراد کتنے کوتاہ نظر ہیں کہ جو بہت جلدی گذر جانے والی ہوسرانیوں کے لئے ہزارہا بد کاریوں کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ اس لئے قرآن مجید حکم دیتا ہے کہ مسلمان روئے زمین پر سیر وسیاحت کریں اور گزشتہ لوگوں کے آثار کا مشاہدہ کر کے ان سے عبرت حاصل کریں ۔
اسلام میں بھی جہاں گردی اور سیر و تفریح کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے لیکن آج کے ہوس پرست سیاحوں کی طرح نہیں بلکہ گذشتہ لوگوں کے آثار و انجام کے مطالعہ اور گوشہ ہائے عالم میں عظمت خدا کے مشاہدہ کے لئے اور اسی کا نام قرآن نے ”سیردانی الارض “ رکھا ہے اور کئی ایک آیات میں اس کا حکم دیا ہے ۔مثلاً
۱۔قُلْ سیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ کانَ عاقِبَةُ الْمُجْرِمینَ (نمل۔۶۹)
یعنی ان سے کہیں کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوا ۔
۲۔قُلْ سیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بدءَ الْخلقَ (عنکبوت۔۲۰
یعنی کہو کہ زمین میں گھوم پھر کر دیکھو کہ خدا نے کیسے تخلیق کی ۔
۳۔اٴَ فَلَمْ یَسیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَتَکُونَ لَہُمْ قُلُوبٌ یَعْقِلُونَ بِہا ۔۔۔۔ (حج ۔۴۶)
کیا یہ لوگ زمین پر چلے پھرے نہیں تاکہ ان کے دل اس سے کچھ عقل حاصل کرتے
یہ آیت کہتی ہے کہ یہ معنوی اور روحانی سیاحی اور زمین کی سیر انسان کے دل کو دانائی ، آنکھوں کو بینائی اور کان کو سماعت عطا کرتی ہے اور اسے سکوت و جمود سے خلاصی دلاتی ہے ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ اسلامی حکم و قانون بہت سے دیگر قوانین کی طرح طاق نسیاں کی نذر کر دیا گیا ہے ۔ اب مسلمان اسے بھی نظر التفات سے نہیں دیکھتے یہاں تک کہ بعض علماء نے اپنی فکر کا دائرہ صرف گرد و پیش تک محدود رکھا ہے ۔ وہ گویا اس عالم کے علاوہ کسی اور عالم میں زندگی بسر کرتے ہیں اور دنیا کے اجتماعی انقلابات و وسائل سے بے خبر ہیں اور ان جزوی اور کم اثر کاموں میں اپنے آپ کو مشغول رکھا ہے جو اصولی اور بنیادی کاموں کے مقابلہ میں خاص قدرت و قیمت نہیں رکھتے ۔ اس دنیا میں پوپ اور عیسائیوں کے بڑے بڑے پادری صدیوں کی گوشہ نشینی اور علیحدگی کے بعد زمین کی سیر و سیاحت کے لئے نکلتے ہیں تا کہ وہ ضروریات زمانہ کو سمجھیں ۔ تو اس صورت میں کیا مسلمانوں کو قرآن کے اس حکم پر عمل پیرا نہیں ہونا چاہیے اور اپنے محدود فکری تنگ دائرہ سے نہیں نکلنا چاہیے تا کہ علم اسلام اور مسلمانوں میں ایک انقلاب و حرکت کار فرما ہو ۔
ہذا بَیانٌ لِلنَّاسِ وَ ہُدیً وَ مَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقینَ ۔
اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ جو کچھ گذشتہ آیت میں بیان ہو چکا ہے وہ تمام انسانوں کے لئے ایک واضح اعلان اور تمام پرہیز گاروں کے لئے ہدایت اور واعظ و نصیحت کا ایک بہترین ذریعہ یعنی باوجود یہ کہ یہ بیانات تمام انسانوں کے لئے ہمہ گیر پہلو رکھتے ہیں لیکن ان سے ہدایت کا ثمر صرف پرہیز گار ہی حاصل کر سکتے ہیں ۔

۱۳۹۔ وَ لا تَہِنُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَ اٴَنْتُمُ الْاٴَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ۔

۱۴۰۔ إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُہُ وَ تِلْکَ الْاٴَیَّامُ نُداوِلُہا بَیْنَ النَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اللَّہُ الَّذینَ آمَنُوا وَ یَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَداء َ وَ اللَّہُ لا یُحِبُّ الظَّالِمینَ ۔
۱۴۱۔وَ لِیُمَحِّصَ اللَّہُ الَّذینَ آمَنُوا وَ یَمْحَقَ الْکافِرینَ ۔
۱۴۲۔اٴَمْ حَسِبْتُمْ اٴَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللَّہُ الَّذینَ جاہَدُوا مِنْکُمْ وَ یَعْلَمَ الصَّابِرینَ ۔
۱۴۳۔وَ لَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اٴَنْ تَلْقَوْہُ فَقَدْ رَاٴَیْتُمُوہُ وَ اٴَنْتُمْ تَنْظُرُونَ۔
ترجمہ
۱۳۹۔ اور سست نہ ہو جاوٴ اور حزن و ملال نہ کرو اور تم ہی بر تر ہو اگر تم ایمان والے ہو ۔
۱۴۰۔ اگر تمھیں ( میدان احد میں ) زخم لگے ہیں ( اور تمہیں نقصان پہنچا ہے ) تو اس گروہ کو بھی (میدان بدر میں ) اسی طرح زخم لگ چکے ہیں اور ہم (شکست و کامیابی کے) ان دنوں کو لوگوں میں الٹ پھیر کرتے رہتے ہیں ( کیونکہ یہ اس جہان کی زندگی کی خاصیت ہے ) یہ اس لئے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ پہچانے جائیں اور خدا تم میں سے قربان ہونے والوں کو منتخب کر لے اور خدا ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ۔
۱۴۱۔اور اس لئے کہ خدا صاحب ایمان لوگوں کو خالص قرار دے (اور وہ الگ ہو جائیں ) اور کافروں کو رفتہ رفتہ نابود کر دے ۔
۱۴۲۔ کیا تمہارا گمان ہے کہ ( تم صرف دعویٰ و ایمان کی بنا پر )جنت میں داخل کر دئے جاوٴ گے جبکہ ابھی تک خدا نے تم میں سے مجاہدین اور ماہرین کو مشخص اور جدا نہیں کیا ۔
۱۴۳۔ اور تم موت ( اور راہ خدا میں شہادت ) کی تمنا کرتے تھے جبکہ ابھی تمہارا اور اس کا آمنا سامنا نہیں ہوا تھا اور تم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وہ تمہیں نظر آرہی تھی (لیکن تم اپنے تئیں اس کے اس کے حوالے کرنے کو تیار نہ تھے ، تمہارے گفتار و کردار میںکتنا فرق ہے )۔

شان نزول

ان آیات کی شان نزول کے بارے میں کئی ایک روایات ہیں ۔ مجموعی طور پر ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ان آیات کا ضمیمہ ہیں جو جنگ احد کے بارے میں پہلے آچکی ہیں ۔ یہ آیات جنگ احد کے اسباب و نتائج کا بہترین تجزیہ پیش کرتی ہیں اور ضمنی طور پر مسلمانوں کی روحانی تقویت اور ان کی تسلی کا سامان بھی فراہم کرتی ہیں ۔ کیونکہ جیسا بیان کیا گیا ہے کہ جنگ احد کچھ مسلمانوں کی نافرمانی اور جنگی اصولوں سے انحراف کی وجہ سے شکست پر منتج ہوئی اور اس میں اسلام کی چند درخشاں شخصیات نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں سے سر فہرست پیغمبر اکرم کے چچا حضرت حمزہ کا نام گرامی آتا ہے ۔ پیغمبر اکرم اسی رات اپنے صحابہ کے ہمراہ شہداء کی لاشوں کے قریب گئے ۔شہدا کی ارواح مقدسہ کی عظمت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ ایک ایک شہید کی لاش مبارک کے پاس بیٹھتے اور گریہ کرتے بعد میں ان سب کی لاشوں کو کوہ احد کے دامن میں بہت ہی رنج و ملال کے ساتھ دفن کیا گیا ۔ ان حساس لمحات میں درج بالا آیات کا نزول ہوا کیونکہ اس موقع پر مسلمان روحانی تقویت اور شکست کے نتائج سے معنوی فائدہ حاصل کرنے کے شدید محتاج تھے ۔

 


۱#۔خاقانی اپنے ایک مشہور قصیدہ میں جبکہ وہ ایوان مدائن میں آنسو بہا رہا تھا ، کہتا ہے :
 
گذشتہ لوگوں کی تاریخ کا مطالعہجنگ احد کے نتائج
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma