قرآن مجید کا ایک انفرادی اسلوب ہے کہ یہ گذشتہ ادوار کو موجودہ اور زمان حاضر کو گذشتہ تاریخ سے مربوط کرتا ہے اور حقائق کق سمجھنے کے لئے موجودہ نسل کا گذرے ہوئے لوگوں کے ساتھ فکری و ثقافتی ربط لازمی اور ضروری قرار دیتا ہے کیونکہ ان دو زمانوں (ماضی اور حال ) کے پختہ اوتبار سے آنے والوں کی ذمہ داری واضح ہوتی ہے جوسا کہ زیر نظر آیت میں کہتا ہے کہ ” قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسیرُوا فِی الْاٴَرْضِ “خداکی کچھ سنتیں (تعلیمات) گذشتہ اقوام میں تھیں ۔ ان سنتوں میں مومن ومجاہد اور متحد و بیدار مغز افراد کی پیشرفت اور بلند پروازی کی نشاندہی کی گئی ہے اور اسی طرح بے ایمان اور گناہ کی نجاست سے آلودہ اقوام کی شکست و ریخت کی بھی تصویر کشی کی گئی ہے جو کہ تاریخ بشریت میں ثبت ہے ۔
تاریخ ہر قوم کے لئے زندگی سے کم اہمیت نہیں رکھتی ۔ یہ تاریخ کا کمال ہے کہ وہ گذشتہ لوگوں کو اخلاقی خصوصیات ان کے برے بھلے کا اور ان کے نظریات و افکار ہمارے سامنے دہراتی ہے اور مختلف معاشروں کی ترقی و تنزلی اور کامیابی و نا کامی کے اسباب کی نشاندہی کرتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ لوگوں کی تاریخ انسانی معاشروں کی معنوی و روحانی زندگی کا آئینہ ہے اور آنے والوں کی بیداری کا سبب ہے ۔ بنا بریں قرآن مجید مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ جاوٴ زمین میں چلو پھرو اور گزشتہ قوموں ، سر براہوں ، سرکش فرعونوں اور جبار بادشاہوں کی طاغوتیت اور بربریت کے آثار میں غورو فکر کرو اور ددیکھو کہ جب انہوں نے خدا کا انکار کیا اور خدا کے پیغمبروں کو جھٹلایا اور زمین میں ظلم و فساد کی بنیاد رکھی تو ان کا انجام کیاہوا ۔ گذشتہ لوگوں کے آثار آنے والوں کے لئے پندو نصیحت کا سامان ہیں اور لوگ ان سے مستفید ہو کر زندگی کی راہ سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔