اکثر علماء اسلام کا عقیدہ ہے کہ یہ دونوں اس وقت وجود خارجی رکھتے ہیں اور قرآنی آیات کا ظاہری معنیٰ بھی اس کی تاکید کرتا ہے ۔ نمونے کے طور پر :
(۱) محل بحث آیت اور دیگر کثیر آیات میں” اُعِدّت “(تیار کی جا چکی ہے ) استعمال ہوا ہے یا بعض دوسری تعبیرات جو اسی مادہ سے ہیں جو بعض مقا مات پر بہشت کے بارے میں اور بعض جگہ دوزخ کے بارے میں آئی ہیں ۔۱#
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بہشت و دوزخ اس وقت تیار موجود ہیں اگر چہ انسانوں کے نیک وبد اعمال کے نتیجہ میں ان میں وسعت پیدا ہوتی رہتی ہے
( غور کریں )
(۲) معراج سے متعلق سورہ النجم کی آیات میں یوں ہے :
وَ لَقَدْ رَآہُ نَزْلَةً اٴُخْری ۔عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَہی ۔عِنْدَہا جَنَّةُ الْمَاٴْوی ۔
دوسری مرتبہ پیغمبر نے جبرئیل کو سدر ة المنتہٰی کے پاس دیکھاجہاں دائمی جنت ہے ( والنجم ۔۱۳ تا۱۵)۔
یہ تعبیر جنت کے وجود پر دوسری شہادت ہے۔
کَلاَّ لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیَقینِ ۔لَتَرَوُنَّ الْجَحیمَ ۔ثُمَّ لَتَرَوُنَّہا عَیْنَ الْیَقینِ ۔
اگر تمہیں علم الیقین ہوتا تو دوزخ کا مشاہدہ کرتے پھر اسے عین الیقین کے ساتھ دیکھتے ۔
معراج سے مربوط اور دیگر آیات میں بھی اس مسئلہ کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ 2#