ایک اشتباہ اور اس کا ازالہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
یہ گروہ کیسے فلاح پائے گاخشنا اور سزا دینا پیغمبر کے ہاتھ میں نہیں

ایک اشتباہ اور اس کا ازالہ

یہاں دو نکات توجہ طلب ہیں:
(۱) نابغہ ٴ روزگار مفسر مولف” المنار“کا فدیہ ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کو حصول کمیابی کے لئے مادی وسائل سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں ایک نا قابل فراموش درس دیتی ہے اور وہ یہ کہ اگر خدا انہیں کمیابی کی نوید سنادیتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمان مادی وسائل ، سامن حرب ضرب اور منصوبہ بندی کو فرا موش کر دیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور کمیابی کے لئے پیغمبر کی دعا کا انتظار کریں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے :
”لیس لک من امر شیءٍ “
یعنی کامیابی کامعاملہ تیرے سپرد نہیں بلکہ وہ مشیت ایزدی کے تابع ہے۔ لہٰذا خدا نے ان کے لئے جو راستے مقرر کئے ہیں ان سے استفادہ کیا جائے اور پیغمبر کی دعا بھی اگر چہ موثر ہے لیکن اس میں استثنائی پہلو موجود ہے اور وہ معین موقع کے ساتھ مخصوص ہے ۔ موٴلف موصوف کی یہ گفتگو اگر چہ منطق و حکمت سے لبریز ہے لیکن یہ آیت ان کے مطالب سے مناسبت نہیں رکھتی جو کفار کی سزا یا توبہ کے بارے میں ہیں ۔ لہٰذا اسے اس آیت کی تفسیر نہیں کہا جا سکتا ۔
(۲) یہ آیت مخالفین اسلام کے بارے میں عفو وبخشش یا سزا کے متعلق پیغمبر سے ہر قسم کے اختیارات سلب کر رہی ہے ۔ لیکن یہ اس بات کی نفی نہیں کرتی کہ عفو و در گذر کے لئے دعا اور شفاعت موٴثر ہیں ۔ کیونکہ آیت بالا کا مقصد یہ ہے کہ آپ خود سے کوئی کام انجام نہیں دے سکتے البتہ خدا وند تعالیٰ کے حکم و اذن سے معافی دے سکتے ہیں اور سزا بھی دے سکتے ہیںاور کامیابی کے عوامل بھی فراہم کر سکتے ہیں حتیٰ کہ پروردگار عالم کے اذن و اجازت سے حضرت عیسیٰ کی طرح مُردوں کو بھی زندہ کر سکتے ہیں ۔ جو لوگ جملہ ””لیس لک من امر شیءٍ “
کے حوالے سے پیغمبر اکرم کی طاقت کا انکار کرتے ہیں اور ان کے سبب اختیارات پر اصرار کرتے ہیں ، انہوں نے در حقیقت قرآن کی دیگر آیات کو فراموش کر دی ہے قرآن مجید سورہٴ نساء آیت ۶۴ میں کہتا ہے :
وَ ما اٴَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ لِیُطاعَ بِإِذْنِ اللَّہِ وَ لَوْ اٴَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَہُمْ جاؤُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّاباً رَحیماً۔
اگر وہ لوگ جب اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے ، تمہارے پاس آجاتے اور معافی طلب کرتے اور پیغمبر ان کے لئے طلب مغفرت کرتے تو خدا کو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔
اس آیت کی رو سے آپ کی استغفار کو گناہ کی بخشش کا ایک ایک عامل شمار کیا گیا ہے ۔
آئندہ کے مباحث میں مناسب آیات کے ذیل میں اس مطلب پر مزید روشنی ڈالی جائے گی۔

 ۱۲۹۔ وَ لِلَّہِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ یَغْفِرُ لِمَنْ یَشاء ُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَشاء ُ وَ اللَّہُ غَفُورٌ رَحیمٌ ۔
ترجمہ
۱۲۹۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے ۔ وہ جسے چاہتا ہے (اور مناسب سمجھتا ہے ) بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب دے دیتا ہے اور خدا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

یہ گروہ کیسے فلاح پائے گاخشنا اور سزا دینا پیغمبر کے ہاتھ میں نہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma