آغاز جنگ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
مسلمانوں کی دفاعی تیاریاں کون پکارا کہ محمد قتل ہو گئے ہیں

دونوں لشکر ایک دوسرے کے سامنے صف بستہ ہوکر جنگ کے لئے آمادہ ہو گئے اور یہ دونوں لشکر اپنے نوجوانوںکو ایک خاص انداز سے بر انگیختہ کرتے تھے۔ ابو سفیان کعبہ کے بتوں کے نام لے کر اور خوبصورت عورتوں کے ذریعے اپنے جنگی نوجوانوں کی توجہ مبذول کر کے ان کو ذوق و شوق دلاتا تھا جب کہ پیغمبر اسلام خدا کے اسم مبارک اور انعامات اعلیٰ کے حوالے سے مسلمانوں کو جنگ کی ترغیب دیتے تھے ۔ اچانک مسلمانوں کی صدائے اللہ اکبر سے میدان اور دامن کوہ کی فضا گونج اٹھی جبکہ میدان کی دوسری طرف قریش کی لڑکیوں نے دف اور سارنگی اشعار گا گا کر قریش کے جنگجو احساسات کو ابھارا ۔ جنگ کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں نے ایک شدید حملہ سے لشکر قریش کے پرخچے اڑا دئے اور وہ حواس باختہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے اور لشکر اسلام نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا ۔ خالد بن ولید نے جب قریش کی یقینی شکست دیکھی تو اس نے چاہا کہ درہ کے راستے سے نکل کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کیا جائے۔ لیکن تیر اندازوں نے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا قریش کے قدم اکھڑتے دیکھ کر تازہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے دشمن کو شکست خوردہ دیکھ کر مال غنیمت جمع کرنے کے لئے اچانک اپنی پوزیشن چھوڑ دی ۔ ان کی دیکھا دیکھی درہ پر تعینات تیر اندازوں نے بھی اپنا مورچہ چھوڑ دیا ۔ ان کے کمانڈر عبداللہ بن جبیر نے انہیں آپ کا حکم یاد دلایا مگر سوائے چند (تقریباً دس افراد ) کے کوئی اس اہم جگہ پر نہ ٹھہرا۔
حکم پیغمبر کی مخالفت کا نتیجہ یہ نکلا کہ خالد بن ولید نے درہ خالی دیکھ کربر تیزی سے عبداللہ بن جبیر پر حملہ کیا اور اسے اس کے ساتھیوں سمیت قتل کر دیا ۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا ۔ مسلمانوں نے ہر طرف چمکیلی تلواروں کی تیز دھاروں کو اپنے سروں پر دیکھا تو حواس باختہ ہو گئے اور اپنے آپ کو منظم نہ رکھ سکے ۔ قریش کے بھگوروں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو وہ بھی پلٹ آئے اور مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ اسی موقعے پر لشکر اسلام کے بہادر افسر سید الشھدا حضرت حمزہ (ع) نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا ۔سوائے چند شمع رسالت کے پروانوں کے باقی مسلمانوں نے وحشت زدہ ہو کر میدان کو دشمن کے حوالہ کر دیا ۔ اس خطرناک جنگ میں جس نے سب سے زیادہ خدا کاری کا مظاہرہ کیا اور پیغمبر پر ہونے والے ہر حملہ کا دفاع کیا وہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے ۔ حضرت علی (ع) بڑی جراٴت اور بے جگری سے جنگ کر رہے تھے یہاں تک کہ آپ کی تلوار ٹوٹ گئی اور پیغمبر اکرم نے اپنی تلوار آپ (ع) کو عنایت فرمائی جو ذوالفقار کے نام سے مشہور ہے ۔ بالآخر آپ ایک مورچہ میں ٹھہر گئے اور حضرت علی (ع) مسلسل آپ کا دفاع کرتے رہے یہاں تک کہ بعض مورخین کی تحقیق کے مطابق حضرت علی (ع) کے جسم کو ساٹھ زخم آئے اور اسی موقع پر قاصد وحی نے پیغمبر سے عرض کیا : اے محمد ! یہ ہے مواسات و معانت کا حق ۔ تو آپ نے فرمایا (ایسا کیوں نہ ہو کہ ) علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں ۔ تو جبرئیل نے اضافہ کیا : میں تم دونوں سے ہوں ۔ امام صادق (ع) ارشاد فرماتے ہیں کہ پیغمبر نے قاصد وحی کو یہ کہتے ہوئے دیکھا کہ ”لا سَیفَ الاّ ذُوالفقَار وَلاَ فتیٰ الاّ علی “(ذوالفقار کے علاوہ کوئی تلوار نہیں اور علی کے سوا کوئی جوانمرد نہیں )۔
اس اثنا میں یہ آواز بلند ہوئی کہ محمد قتل ہو گئے۔

مسلمانوں کی دفاعی تیاریاں کون پکارا کہ محمد قتل ہو گئے ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma