وہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
اہل کتاب کے اس گروہ کے نیک اعمال کی بہترین جزا ہوگی اغیار کو راز دار نہ بناوٴ

” إِنَّ الَّذینَ کَفَرُوا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اٴَمْوالُہُمْ وَ لا اٴَوْلادُہُمْ مِنَ اللَّہِ شَیْئا“
گذشتہ آیت میں جن حق جو اور با ایمان اافراد کی ستائش کی گئی ہے ۔ ان کے مقابلہ میں بے ایمان اور ستمگر لوگ ہیں ان کی حالت ان دو آیات میں بیان کی گئی ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے ، وہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ ہر گز اپنے مال و دولت اور اولاد کی کثرت کے گھمنڈ میں خدا کی سزا سے چھٹکارہ نہیںپا سکتے کیونکہ روز جزاء صرف نیک عمل ،صدق و ایمان اور خلوص نیت ہی انسان کے کام آئے گی نہ کہ اس جہان کے مادی امتیازات ۔
” یوم لا ینفع مال و لا بنون الامن اتی اللّہ بقلب سلیم “
اس دن مال اولاد ذرہ برابر فائدہ نہیں دیں گے مگر یہ کہ وہ پاک و صاف دل لے کر بارگاہ الہی میں حاضر ہو ۔
(الشعراء آیہ ۸۸ ۔۸۹ )
مادی وسائل میں سے صرف دولت اور اولاد کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لئے ہوا ہے کہ اہم ترین مادی سرمایہ ایک تو افرادی قوت ہے جس کی طرف اولاد سے اشارہ کیا گیا ہے اور دوسرا اقتصادی سرمایہ ہے اور دیگر مادی وسائل کا سر چشمہ یہی دونوں چیز ہیں ۔
قرآن واضح طور پر اعلان کر رہا ہے کہ صرف مال و متاع اور افرادی قوت کے بل بوتے پر خدا کے ہاں امتیاز حاصل نہیں کیا جا سکتا اور انہی پر بھروسہ کرنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے مگر یہ کہ انہیں ایمان اور خلوص نیت کے ساتھ صحیح راستوں میں خرچ کیا جائے ، ورنہ بصورت دیگر ان کے مالکوں کا انجام کار دائمی عذاب ہے۔ (اٴُولئِکَ اٴَصْحابُ النَّارِ ہُمْ فیہا خالِدُونَ )۔
” مَثَلُ ما یُنْفِقُونَ فی ہذِہِ الْحَیاةِ الدُّنْیا کَمَثَلِ ریحٍ فیہا صِرٌّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “
صراورا صررا ایک ہی اصل سے ہیں اور ان کے معنیٰ شدت کے ساتھ جڑواں چیز کو باندھنے کے ہیں لیکن یہان اس سے مراد ہوا کی شدت و سختی ہے چاہے وہ ہوا چالانے والی ہو یا ٹھنڈی اور خشک کرنے والی ۔
اس آیت میں ان کی ریا کارانہ سخاوت اور خرچ کرنے کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے اور ایک بہترین مثال کے ذریعے ان کے انجام کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔
قرآن کریم کفار کے خرچ کرنے کو سخت قسم کی جلا دینے والی یا بہت سرد اور خشک کر دینے والی ہوا سے تشبیہ دیتا ہے جو کسی ذراعت پر چل پڑے اور اسے خشک کردے ۔ البتہ ہوا کی فطرت و طبیعت جلادینے والی نہیں ہے چنانچہ نسیم و بہار شگوفوں پر نوازش کرتی ہے ۔ غنچوں کے دہن کو کھول دیتی ہے اور درختوں کے سانچوں میں روح پھونک کر انہیں بار آور کردیتی ہے ۔ اسی طرح انفاق اور خرچ کرنے کا سر چشمہ بھی ایمان و خلوص ہو تو اسی طرح ثمر آور ہے ۔ وہ اجتماعی مشکلات کو بھی حل کر دیتا ہے اور احسان کرنے والے کے دل میں ایک دیر پا اثر بھی چوڑ جاتا ہے اور اس کے قلب میں اچھی صفات اور فضئل کے سرچشمے پھوٹ پڑتے ہیں ۔لیکن اگر یہ حیات آفرین باد نسیم طوفان بن جائے یا بہت زیدہ ٹھنڈی ہوا میں تبدیل ہو جائے تو وہ جس پھول اور سبزہ پر چلے گی اسے تباہ کر دے گی ۔
بے ایمان اور گناہ آلود افراد کا چونکہ انفاق میں صحیح مقصد نہیں ہو تا اس لئے خود نمائی اور ریا کاری کی روح کو جلا نے والی خشک ہو ا ان کے انفاق کی زراعت پر چل پڑتی ہے اس قسم کے اخراجات نہ اجتماعی مشکلات کا سد باب کر سکتے ہیں ( چونکہ زیادہ تر یہ بے جا صرف ہوتے ہیں ) اور نہ خرچ کرنے والے کے لئے کوئی اخلاقی ثمرہ دیتے ہیں ۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ ارشاد ہوا ہے :
حرث قوم ظلموا یعنی اس جلانے اور خشک کرنے والی ہوا کا نشانہ ایسے لوگوں کی زراعت ہے جو اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ ذراعت کے لئے وقت اور جگہ کے انتخاب میں غور و فکر سے کام نہیں لیتے اور انہوں نے ایسی زمین میں تخم ریزی کی ہے کہ جو طوفانی ہواوٴں کی زد میں تھی اور ایسا وقت چنا ہے جو گرم ہوا کے چلنے کا تھا ۔اس طرح انہوں نے اپنے اوپر خود ظلم کیا ہے ۔ یوں ہی بے ایمان افراد انفاق کرتے وقت اور جگہ کے انتخاب میں اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں اور اپنا سرمایہ نا مناسب مقام پر برباد کرتے ہیں ۔ گذشتہ تفسیل اور آیت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تشبیہ در حقیقت دو علیحدہ علیحدہ چیزوں کے درمیان ہے ایک تو ان کے انفاق کو بے موقع و بے محل زراعت سے تشبیہ دی گئی ہے اور دوسری خرچ کرنے کی وجہ اور علت کو ٹھنڈی اور جلانے والی ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
بنا بر ایں آیت میں کچھ تقدیر ضرور ہے اور ”مثل ماینفقون “ کے معنی یہ ہیںکہ ان کے انفاق کے اسباب و علل کی مثال خشک ، سرداور جلانے والی ہوا کی طرح ہے (غور کیجئے گا )۔
بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت ان اموال کی طرف اشارہ کرتی ہے جو دشمنان اسلام دین کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے صرف کرتے تھے اور اس کے ذریعے وہ مخالفین اسلام کو رسول اسلام کے خلاف اکساتے تھے یا وہ اموال مراد ہیں جو یہودی اپنے علماء کو کتب آسمانی میں تحریف کرنے کے عوض دیتے تھے ۔ لیکن واضح ہے کہ آیت کے مفہوم میں عمومیت ہے اور یہ ان لوگوں کے علاوہ اس قسم کے باقی افراد کے لئے بھی ہے ۔
”وَ ما ظَلَمَہُمُ اللَّہُ وَ لکِنْ اٴَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ “
آیت کے آخر میں کہا گیا ہے کہ خدا نے اس سلسلہ میں ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور وہ اپنا سر مایہ خود برباد کرتے ہیں کیونکہ فاسد اور برے کام کا نتیجہ فاسد اثر کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے ۔


۱۱۸۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِکُمْ لا یَاٴْلُونَکُمْ خَبالاً وَدُّوا ما عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضاء ُ مِنْ اٴَفْواہِہِمْ وَ ما تُخْفی صُدُورُہُمْ اٴَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْآیاتِ إِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُونَ
۱۱۹۔ ہا اٴَنْتُمْ اٴُولاء ِ تُحِبُّونَہُمْ وَ لا یُحِبُّونَکُمْ وَ تُؤْمِنُونَ بِالْکِتابِ کُلِّہِ وَ إِذا لَقُوکُمْ قالُوا آمَنَّا وَ إِذا خَلَوْا عَضُّوا عَلَیْکُمُ الْاٴَنامِلَ مِنَ الْغَیْظِ قُلْ مُوتُوا بِغَیْظِکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلیمٌ بِذاتِ الصُّدُور
۱۲۰۔ إِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْہُمْ وَ إِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَةٌ یَفْرَحُوا بِہا وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا لا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئاً إِنَّ اللَّہَ بِما یَعْمَلُونَ مُحیطٌ۔
ترجمہ
۱۱۸۔ اے ایمان والو!اپنوں کے علاوہ کسی کو راز دار نہ بناوٴ ۔ وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانے کے بارے میں کوتاہی نہیں کریں گے وہ تمہاری تکلیف اور رنج پر خوش ہوتے ہیں ان کے دل کی عداوت اور دشمنی ان کے منہ سے نکل پڑتی ہے اور جو کچھ ان کے دلوں میں ہے وہ اس سے بھی شدید تر ہے ۔ ہم نے آیات

( اور ان سے محفوظ رہنے کی تدابیر ) تمہارے لئے واضح کر دی ہےں بشرطیکہ تم عقل اور خرد سے کام لو ۔
۱۱۹۔ تم عجیب لوگ ہو کہ انہیں دوست رکھتے ہو لیکن وہ تمہیں دوست نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہو (لیکن وہ تمہاری آسمانی کتابوں پر ایمان نہیں رکھتے ) اور جس وقت وہ تم سے ملتے ہیں تو ( جھوٹ موٹ ) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں لیکن جب وہ تنہائی میں ہوتے ہیں تو شدید غیظ و غضب سے اپنی انگلیاں کاٹنے لگ جاتے ہیں ۔( ان سے ) کہہ دو کہ تم اپنے غصہ میں جل مرو خدا سینوں میں چھپے ہوئے (اسرار) سے آگاہ ہے ۔
۱۲۰۔ اگر تمہیں کوئی راحت ملتی ہے تو انہیںبرا لگتاہے اور اگر تمہیں کوئی نا خوش گوار حادثہ پیش آجائے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں لیکن تم اگر (ان کے مقابلہ میں ) ثابت قدمی اور پرہیزگاری اختیار کروگے تو ان کی (خائن) سازشیںتمہیںکوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ خدا اس چیز پر احاطہ رکھتا ہے جو وہ انجام دیتے ہیں۔

شان نزول

ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب کچھ مسلمان یہودیوں سے قرابتداری و ہمسائیگی رشتہٴ رضاعت یا قبل اسلام کے عہدو پیمان کی وجہ سے دوستی رکھتے تھے اور ان کے ساتھ اس خلوص و محبت سے پیش آتے تھے یہاں تک کہ مسلمانوں کے بھیدان پر ظاہر کر دیتے تھے ۔ اس طریقہ سے یہودی مسلمانوں کے رازوں سے آگاہ ہو جاتے تھے حالانکہ وہ اندرونی طور پر مسلمانوں کے سخت دشمن تھے اگر چہ ظاہری طور پر اپنے آپ کو ان کےدوست ظاہر کرتے تھے ۔ اس آیت میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی کہ چونکہ وہ لوگ تمہارے دین میں نہیںآئے اس لئے انہیں اپنا راز دار نہ بناوٴ کیونکہ وہ تمہارے بارے میں کسی برائی سے دریغ نہیں کریں گے ۔ ان کی خواہش ہے کہ تم ہمیشہ مصیبت میں رہو۔

اہل کتاب کے اس گروہ کے نیک اعمال کی بہترین جزا ہوگی اغیار کو راز دار نہ بناوٴ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma