ایک اہم سوال اور اس کا جواب

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
حق کی دعوت اور فساد کا مقابلہچند اہم نکات

یہاں یہ سوال پید اہوتا ہے کہ ” منکم امة“ کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ یہ امت بعض مسلمانوں میں سے تشکیل پاتی ہے نہ کہ سب کے سب یہ کام کریں ۔ تو اس طرح سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری عمومی پہلو کھو بیٹھے گی۔ بلکہ وہ صرف ایک خاص گروہ کی ذمہ داری ہوگی اگر چہ انتخاب اور جمیعت کو ترتیب دینا تمام لوگوں کا فرض ہے بالفاظ دیگر یہ واجب کفائی ہے نہ کہ واجب عینی ۔
حالانکہ قرآن مجید کی دیگر آیات سے ثابت ہوتا ہےکہ یہ دونوں ذمہ داریاں عمومی پہلو رکھتی ہیں ۔ یعنی واجب عینی ہیں نہ کہ کفائی ، مثلاً بعد میں آنے والی آیات میں ارشاد ہوتا ہے ۔
کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے نفع کے لئے پیدا کیا گیا ہے کیونکہ تم انہیں اچھی چیزوں کا حکم دیتے ہو او ربری چیزوں سے روکرتے ہو۔
اسی طرح سورہ عصر میں ارشاد ہوتا ہے :
تمام لوگ خسارے میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان رکھنے کے ساتھ صالح عمل کرتے ہیں اور حق و صبر کی وصیت کرتے ہیں ۔
ان جیسی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ذمہ داریاں کسی خاص گروہ کے ساتھ خصوصیت نہیں رکھتیں بلکہ یہ عام ہیں ۔
اس کا جواب یہ ہے :
ان جیسی تمام آیات میں غور و خوض کر کے اس سوال کا جواب مل سکتا ہے ۔ کیونکہ ان سے پتہ چلتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہیں عن المنکرکے دومرحلے ہیں ۔ ایک انفرادی مرحلہ ہے ، اس میں ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ تنہا دوسروں کے اعمال کی نگہداشت کرے اور دوسرا مرحلہ اجتماعی ہے اس کے لئے ایکگروہ کا فریضہ ہے کہ وہ معاشرتی خرابیوں کو ختم کرنے کے لئے متحد ہو کر مشترکہ طور ہر کو شش کرے۔
پہلی قسم میں ہرشخص پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس طرح تمام لوگ ذمہ دار ہوں گے اور چونکہ اس میں انفرادی پہلو ہے لہٰذا اس کی روشنی فرد کی توانائی تک محدود ہے ۔ لیکن دوسری واجب کفائی ہے ۔ یہ چونکہ ایک گروہ کی ذمہ داری ہے لہٰذا اس کا دائرہ اثر بھی وسیع ہے اور اس لئے فطری طور پر یہ کام حکومت اسلامی ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے ۔ یہ دو صورتیں ( خرابی اور فساد کا مقابلہ کرنا اور حق کی طرف دعوت دینا ) اسلامی قوانین کا شاہکار شمار ہوتی ہیں ۔ حکومت اسلامی کے نظام میں تقسیم کا ر کا معاملہ ، اجتماعی حالت اور حکومتی اداروں کی صورت حال ایک نگران گروہ کے وجود کو لازمی قرار دیتے ہیں ۔
گذشتہ ادوار میں اسلامی ممالک میں اس آیت کی روشنی میں برائیوں کو روکنے اور اجتماعی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لئے ایسے ادارے تشکیل پاتے رہے ہیں ۔ آج کل بھی حجاز وغیرہ میں ایسے ادارے موجود ہیں۔۱#
ایسے اداروں کو حسبہ اور ان کے مامور ین کو محتسب یا ” آمرین بمعروف “ کہتے ہیں ۔ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں میں ہونے والے ہر قسم کے برے کام کو روکیں اور حکومتی اداروں میں ہونے والے ہر قسم کے ظلم و فساد کی روک تھا م کریں اور اسی طرح ولوگوں میں نیک اور پسندیدہ کاموں کا شوق پیدا کریں
وسیع اختیارات کے حامل ان اداروں کا وجود محدود قدرت کے حامل فرد کے لئے امر المعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرنے سے کوئی تضاد نہیں رکھتا۔
چونکہ یہ بحث قرآن مجید کی اہم مباحث میں سے ہے اور بہت سی آیات میں اس کا تذکرہ ہے لہٰذا ضروری ہے کہ یہاں اس کے بعض پہلووٴں کا تفصیلی جائزہ لیاجائے ۔

حق کی دعوت اور فساد کا مقابلہچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma