انہیں اپنے درمیان رخنہ اندازی کرنے کی اجازت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
حج کی اہمیت تقویٰ اور پر ہیز گاری کی دعوت

یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تُطِیعُوا فَرِیقًا مِنْ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ یَرُدُّوکُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ کَافِرِینَ ۔
اس کے بعد روئے سخن غافل مسلمانوں کی طرف کرتے ہوئے ان کو متبنہ کیا گیا کہ اگر وہ دشمن کی زہر آلود باتوں میں آگئے ، انہیں اپنے درمیان رخنہ اندازی کرنے کی اجازت دی اور ان کے وسوسوں سے متاثر ہوئے تو بعید نہیں کہ ان سے ایمان کا رشتہ ختم ہو جائے اور وہ کفر کی طرف پلٹ جائیں ۔ کیونکہ دشمن اول تو یہ کوشش کرتا ہے کہ ان کے درمیان دشمنی و عدالت کی آگ بھڑکائے اور انہیں ایک دوسرے سے لڑوادے۔لیکن یہ مسلم ہے کہ وہ صرف اسی پر اکتفانہیں کرتا بلکہ وہ اپنے وسوسوں کو جاری و ساری رکھتا ہے تاکہ انہیں اسلام سے مکمل طور پر بیگانہ کردے ۔
گذشتہ بیان سے عیاں ہو تا ہے کہ مذکورہ آیت میں کفرکی طرف پلٹ جانے سے مراد ” حقیقی کفر اور اسلام سے مطلق بیگانگی“ ہے اور ممکن ہے کہ کفر سے مراد زمانہ جاہلیت کی دشمنیاں اور عداوتیں ہوں جو کفر کا حصہ ہیں ۔ کیونکہ ایمان محبت اور اخوت کا سر چشمہ ہے اور کفر پراگندگیاور عداوت کامنبع ہے-
و کیف تفکرون و انتم تتلیٰ علیکم اٰیات اللہ و فیکم رسولہ
اس کے بعد مومنین سے ایک تعجب خیز سوال ہو تا ہے کہ کس طرح ممکن ہے کہ تم کفر کی راہ اختیار کرو حالانکہ پیغمبر بھی تمہارے درمیان موجود ہیں اور آیات خدا کی بھی مسلسل تلاوت ہوتی ہے اور باران ِ وحی کے حیات بخش قطرات تمہارے دلوں پر پڑتے ہیں ۔ حقیقت میں یہ جملہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر دوسرے لوگ گمراہ ہوں تو زیادہ تعجب نہیں ۔ باعث تعجب تو یہ ہے کہ جو افراد پیغمبر کی صحبت میں بیٹھتے ہیں اور ہمیشہ عالم وحی سے ان کا تعلق رہتا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ گمراہ ہو جائیں اور اگر ایسے لوگ گمراہ ہو ں تو یہ خود ہی کوتا ہی کرنے والے ہیں اور اس کا عذاب بہت درد ناک ہوگا۔
ان آیات کے آخر میں مسلمانوں کو وصیت کی گئی ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے وسوسوں سے چھٹکارہ حاصل کریں اور صراطِ مستقیم کی ہدایت کے لئے پروردگار عالم کا دامن تھام لیں اور اس کی پاک ذات اور قرآن مجید کی مقدس آیات سے تمسک رکھیں اور انہیں صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ جو شخص خدا سے تمسک رکھے اسے راہ راست کی ہدایت حاصل ہوجائے گی۔
یہ آیات کئی لطیف نکات سے معمور ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ پہلی آیات جہاں روئے سخن یہودیوں کی طرف ہے میں بالواسطہ خطاب کیا گیا ہے کیونکہ پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان سے کہیں ، جس پر لفظ” قل “ ( کہہ دو ) دلالت کرتا ہے لیکن آخری دو آیات جہاں خطاب مومنین سے ہے ، میں خطاب بلا واسطہ ہے اسی وجہ سے اس کی ابتداء لفظ قل سے نہیں کی گئی اور اس سے صاحبِ ایمان لوگوں پر خدا کا لطف و کرم ظاہر ہوتا ہے ۔


۱۰۲۔ یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَتَمُوتُنَّ إِلاَّ وَاٴَنْتُمْ مُسْلِمُونَ۔
۱۰۳۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ اٴَعْدَاءً فَاٴَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَاٴَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَةٍ مِنْ النَّارِ فَاٴَنْقَذَکُمْ مِنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ۔

ص۴۰ نہیں لکھا گیاہے .........................

حج کی اہمیت تقویٰ اور پر ہیز گاری کی دعوت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma