حج کی اہمیت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
خانہ کعبہ کی خوصوصیات انہیں اپنے درمیان رخنہ اندازی کرنے کی اجازت

و من کفر فان اللہ غنی عن العالمین
آیت کے آخری حصہ میں حج کی تاکید و اہمیت کو واضح کرنے کے لئے ارشاد ہورہا ہے کہ جو لوگ کفر اختیار کرکے اس خدا ئی حکم کی پرواہ نہ کریں اور اس کی مخالفت کریں تو وہ خود اپنے تئیں نقصان پہنچاتے ہیں کیونکہ خدا تمام جہانوں سے بے نیاز ہے ۔
لفظ کفر کے اصلی معنیٰ چھپانے کے ہیں اور دینی اصطلاح میں اس کا ایک وسیع معنیٰ ہے کیونکہ حق سے ہر طرح کی مخالفت اس میں شامل ہے چاہے مرحلہٴ اصول میں ہوں یا فروعی احکام میں ۔ اب اگر چہ اس کا استعمال اصول کی مخالفت میں ہونے لگا ہے مگر یہ اس بات کی دلیل نہیںکہ یہ اسی میں منحصر ہے چنانچہ آیت مذخورہ میں ترک حج کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اسی بنا پر حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک روایت میں اس آیت میں کفر کا مفہوم ترکِ حج بیان فرمایا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں ایمان کی طرح کفر کے بھی کئی مدارج و مراحل ہوتے ہیں جن میں ہر ایک مخصوص احکام کا حامل ہے ۔ اس حقیقت کی طرف متوجہ ہونے سے کفر و ایمان سے مربوط آیات و روایات کے بہت سے اشتباہات دور ہوسکتے ہیں ۔ لہٰذا اگر سود کھانے والوں کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت ۲۷۵ میں اور جادو گروں کے متعلق سورہ بقرہ کی آیت ۱۰۲ میں کفر کالفظ آیاہے تو اس سے بھی یہی مقصود ہے ۔
بہر صورت اس آیت سے دو مطلب نکل سکتے ہیں :
پہلا یہ کہ حج زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس کے ترک کو کفر سے تعبیر کیاگیا ہے ۔ مر حوم صدوقۺ نے کتاب من لایحضر ہ الفقیہ میں رسالمآب سے رویات بیان کی ہے کہ آپ سے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا :
یاعلی تارک الحج وھو مستطیع کافر یقول اللہ تبارک و تعالیٰ و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا و من کفر فان اللہ غنی عن العالمین یا علی! من سوف الحج حتی یموت بعثہ اللہ یوم القیامة یہودیا او نصرانیا۔
یاعلی (ع) جو حض کو ترک کرے باوجودیکہ وہ استطاعت رکھتا ہو تو وہ کا فر شمار ہوگا ۔ کیونکہ خدا فرماتا ہے کہ استطاعت رکھنے والے لوگوں پر خدا کے گھر کی طرف حج بجالانے کے لئے جانا لازمی اور ضروری ہے اور جو کفر اختیار کرے ( یعنی اسے چھوڑ دے) تو اس نے اپنا نقصان کیا ہے اور خدا سے بے نیاز ہے ۔ اے علی(ع) ! جو حج میں تاخیر کرے یہاں تک کہ دنیا سے چل بسے تو خدا اسے قیامت کے دن یہودی یا نصرانی محشور کرے گا ۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس اہم فریضہ کی انجام دہی تمام دینی پروگراموں کی طرح لوگوں کی تر بیت اور نفع کے لئے ہے اور خدا جو تمام سے بے نیاز ہے یہ اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہے ۔


۹۸۔قُلْ یَااٴَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللهِ وَاللهُ شَہِیدٌ عَلَی مَا تَعْمَلُونَ ۔
۹۹۔ قُلْ یَااٴَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَہَا عِوَجًا وَاٴَنْتُمْ شُہَدَاءُ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ۔
۱۰۰ یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تُطِیعُوا فَرِیقًا مِنْ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ یَرُدُّوکُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ کَافِرِینَ ۔
۱۰۱۔ وَکَیْفَ تَکْفُرُونَ وَاٴَنْتُمْ تُتْلَی عَلَیْکُمْ آیَاتُ اللهِ وَفِیکُمْ رَسُولُہُ وَمَنْ یَعْتَصِمْ بِاللهِ فَقَدْ ہُدِیَ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ۔
ترجمہ
۹۸۔ ( اے پیغمبر ! ان سے کہو: اے اہل کتاب ! تم کیوں ( دیدہٴ و دانستہ ) اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کا شاہد حال ہے ۔
۹۹۔ کہو: اے اہل کتاب ! یہ کیا ہے کہ جو کوئی اللہ پر ایمان لانا چاہتا ہے تم اسے اللہ کی راہ سے روکتے ہواور اسے ٹیڑھی چال چلا نا چاہتے ہو۔ حالانکہ تم حقیقت ِ حال سے بے خبر نہیں ہو ۔ یاد رکھو جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے ۔
۱۰۰۔ ایماندارو! اگر تم اہل کتاب میں کسی گروہ ( کہ جن کا کام نفاق اور تمہارے درمیان کنیہ و عدالت کی آگ بھڑکانا ہے )کی باتوں پر کار بند ہوگئے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ تمہیں ایمان سے کفر کی طرف لوٹا دیں گے۔
۱۰۱۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم ( اب پھر ) کفر کی راہ اختیار کرو ۔ جب کہ تمہارا حال یہ ہے کہ اللہ کی آیتیں تمہیں سنائی جارہی ہیں اور اس کا رسول ( تعلیم و رہنما ئی ) کے لئے تم میں موجود ہے ۔ ( لہٰذا خدا سے تمسک رکھو) اور یاد رکھو کہ جو کوئی مضبوطی سے اللہ کا ہو رہا تو بلاشبہ اس پر سیدھی راہ کھل گئی ( نہ تو اس کے لئے لغزش ہے اور نہ کشتگی کا اندیشہ)۔

شان نزول

ان آیات کے شا ن نزول کے سلسلے میں جو کچھ شیعہ اور سنی تصنیفات میں نقل ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ شامی بن قیس ایک یہودی تھا ۔ وہ ضعیف العمر، تاریک دل اور کفر و عناد میں کم نظیر تھا ایک دن وہ مسلمانوں کے ایک مجمع کے پاس سے گزرا تا اس نے دیکھا کہ اوس و خزرج جو سالہا سال ایک دوسرے کے خالف نبرد آزما رہے ان کے بعض افراد انتہائی صلح و آشتی اور محبت و خلوص سے ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مجلس کی فضا انس و محبت سے معطر ہے اور شدید اختلافات کی جو آگ زمانہ جاہلیت میں ان میں شعلہ زن تھی وہ یکسر بجھ چکی ہے ۔
یہ حالت دیکھکر وہ حسد کے مارے جل اٹھا اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ اگر یہ لوگ حضرت محمد کی پیروی کر کے اتنے آگے بڑھتے رہے تو یہودیت کے لئے بڑا خطرہ ہے ۔ اسی دوران اس کے ذہن میں ایک سازش آئی اور اس نے ایک یہودی نوجواب کو حکم دیا کہ وہ ان کے ایک گروہ سے میل جول رکھے اور اوس و خزرج کے درمیان خونیں واقعات کی یاد تازہ کرے اور ان کی نظروں کے سامنے ان واقعات کی تصور کشی کرے ۔

 

خانہ کعبہ کی خوصوصیات انہیں اپنے درمیان رخنہ اندازی کرنے کی اجازت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma