خانہ کعبہ کی خوصوصیات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
مسجد الحرام کی توسیع حج کی اہمیت

ان دو آیات میں پہلی عبادت گاہ ہونے کے علاوہ خانہ کعبہ کی چار اور خصوصیات بیان ہوئی ہیں :
مبارکاً
مبارک کا معنی بابر کت اورفائدہ مند ہے ۔ کعبہ اس لحاظ سے مبارک ہے کہ وہ مادی اور روحانی دونوں طرح سے بہت ہی بر کت والی زمین پر واقع ہے ۔ اس مقدس سر زمین کی رو حانی بر کتیں ،خدا نی جذبات حرکت و جنبش اور خصوصاً حج کے موقع پر وحدت و اتحاد کی فضا کے آثار کسی سے پوشیدہ نہیں اور اگر صرف حج کی ظاہری رسومات اور شکل و صورت کے پہلو پر اکتفاء نہ کی جائے بلکہ اس کی روح اور فلسفہ زندہ ہو تو اس کی حقیقی برکت مزید واضح اور روشن ہو گی ۔ اگر چہ یہ سر زمین مادی لحاظ سے خشک اور بے آب و گیاہ ہے اور طبعی طور پر وہ کسی طرح بھی کوائف زندگی سے مناسبت نہیں رکھتی پھر بھی طویل عرصے سے یہ ایک آباد اور متحرک شہر رہا ہے ۔ خصوصاً تجارت کے لئے شروع سے اس کی مرکزیت قائم ہے ۔
ھدی للعالمین
کعبہ عالمین کے لئے رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے اور لوگ دور افتادہ علاقوں سے خشکی کے اور در یائی راستوں کے روندتے ہوئے اس عظیم عبادت گاہ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور شان و شوکت سے ان مراسم حج میں شریک ہوتے ہیں جو حضرت ابراہیم (ع) کے زمانے سے مروّج ہیں ۔ حتی کے زمانہ جاہلیت کے عرب بھی خانہ کعبہ کا احترام کرتے تھے اور مراسم حج کو دین ابراہیم (ع) سمجھ کر بجالاتے تھے اگر چہ اس میں انہوں نے اپنی کچھ خرافات بھی کرلی تھیں اور اپنے ان ناقص مراسم کے با وجود کافی حد تک اپنے غلط کاموں سے وقتی طور پر ہاتھ کھینچ لیتے تھے ۔ اس طرح سب لوگ حتی بت پرست بھی اس عظیم گھر کی ہدیات سے بہرہ ور ہوتے تھے ۔ اس مقدس گھر کی روحانی اور معنوی کشش سب کو مجبوراً متاٴثر کرلیتی ہے ۔
فِیہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاہِیمَ
اس گھر میں خدا ہرستی ۔ توحید اور روحانیت و معنویت کی واضح نشانیاں نظر آتی ہیں ان میں ایک اس کا دوام اور بقا ء ہے ان طاقتور دشمنوں کے مقابلہ میں جو اس کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔ دوسری نشانی حضرت ابراہیم (ع) جیسے عظیم المرتبت پیغمبر کے وہ آثارہیں جو اس کے قرب و جوار میں باقی رہ گئے ہیں ۔ مثال کے طور پر زمزم ، صفا و مروہ ، رکن(کعبہ کے چاروں کونوں کو رکن کہتے ہیں )، حطیم ( حجر اسود اور خانہ کعبہ کے در وازے کے درمیان کی جگہ کو حطیم کہتے ہیں ، حطیم اس لئے کہتے ہیں کہ یہاں اژدہام بہت ہوتا ہے اور یہ حضرت آدم (ع) کی توبہ کی جگہ بھی ہے )،حجر اسود اور حجر اسماعیل ( حجر اسماعیل ایک محصوص جگہ ہے جو شمال مغرب میں قوس کی شکل میں ہے ۔)، ان میں سے ہر ایک گذشتہ زمانوں کی ایک مجسم تاریخ ہے جو ان کی عظیم اور دائمی یادوں کو زندہ رکھتی ہے ۔
ان نشانیوں میں سے ایک مقام ابراہیم (ع)کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ایسی جگہ جہاں حضرت ابراہیم (ع) کی تعمیرکعبہ اور مراسم حج کی انجام دہی یا عام لوگوں کو ان عظیم مراسم کے پورا ہونے کی دعوت دینے کے لئے کھڑے ہوتے تھے ۔ بہر حا ل یہ ان اہم ترین قدیم نشانیوں میں سے ہے جو بے نظیر قربانیوں کی یادوں اور ان کے اخلاص و جامعیت کو زندہ کرتی ہےں ۔ مقام ابراہیم سے مراد خاص وہی جگہ ہے جہاں اس وقت وہ مخصوص پتھر ہے جس میں حضرت ابراہیم (ع) کے قدم کا نقش ِ مبارک ہے یا اس سے تمام حرم مکہ مراد ہے اور یا تمام موا قف حج ہیں ۔ اس سلسلہ میں مفسرین حضرات کے نظرات مختلف ہیں ۔ لیکن اصول کافی میں امام جعفر صادق (ع) سے ایک روایت منقول ہے جو پہلے احتمال کی تائید کرتی ہے ۔
ومن دخلہ کان امن-
حضرت ابراہیم (ع) نے تعمیر کعبہ کے بعد شہر مکہ کے لئے جائے امن ہونے کی خدا وند عالم سے در خواست کی تھی اور یہ دعا مانگی تھی:
خدا یا !اس زمین کو جائے امن و امان قرار دے( براہیم ْ ۳۵) خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم (ع) کی دعا کو مستجاب کیا اور اسے ایک مرکز ِ امن قرار دیا ۔ یہ جگہ روح کے آرام و اطمنان اور ان لوگوںکے امن و امان کا سبب ہے جو وہاں آتے ہیں اور اس سے روحانی تقویت حاصل کرتے ہیں اور مذہبی قوانین کے لحاظ سے اس کی امنیت اس طرح محّرم شمار ہوتی ہے کہ وہاں ہر قسم کی جنگ و جدال اور مقابلہ و مبارزہ ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔
بالخصوص اسلامی نقطہٴ نظر سے کعبہ ایک جائے امن اور پناہ گاہ کے حوالہ سے پہچانا جاتا ہے یہاں تک حکم ہے کہ اس خطہٴ ارض میں رہنے والے جانور بھی امن امان میں ہونے چاہئیں اور کسی کو ان سے سروکار نہیں ہونا چاہئیے اور جو انسان اس میں جاکر پناہ گاہ حاصل کریں وہ بھی امن و امان میں ہیں ۔ حتی کہ قاتل اور جارح ہی کیوں نہ ہوں ان سے بھی یہاں تعرض نہیں کیا جاسکتا ، مگر خانہ کعبہ کے احترام سے غلط فائدہ نہ اٹھا یا جائے اور مظلوم لوگوں کے حقوق پامال نہ ہوں ۔ اگر مجرم افراد وہاں جاکر پناہ لیں تو حکم یہ دیا گیا ہے کہ ان پر کھانے پینے میں سختی کی جائے تاکہ وہ مجبور ہو کر وہاں سے باہر نکلیں ااور انہیں حدود حرم سے باہر کیفر کردار تک پہنچا یا جائے۔
وَلِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا
اس جملے میں تمام لوگو ں کو حج کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اور اسے لوگوں کے ذمہ خدا ئی قرض قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ وَلِلَّہِ عَلَی النَّاس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے لئے لوگوں کے ذمہ ہے ۔ لفظ ”حج“کے لغوی معنی ”قصد و ارادہ “ہیں اسی مناسبت سے کو ” محجة “ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ انسان کو اپنے مقصد تک پہنچا دیتا ہے اور دلیل و بر ہان کو حجت اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ مقصود کو روشن کردیتی ہے ۔ باقی یہ بات کہ ان مخصوص رسومات کو حج سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں مراسم میں شرکت کے لئے چلتے وقت خانہ خدا کی زیارت کا قصدکیا جاتاس ہے ۔ اسی بناء پر آیتِ مذکورہ میں حج کی اضافت بیت کی طرف ہے ۔
جیسا کہ اس سے قبل بھی اس بات کی طرف اشاہ کی اگیا ہے کہ حج کے مراسم پہلی دفعہ حضرت ابراہیم (ع) کے دور میں رائج ہوئے اور اس کے بعد ایک سنت کی شکل اختیار کی ۔ یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا سلسلہ جاری و ساری رہا ۔ بعد ازاں اسلام نے اس سے جاہلیت کے خرافات کو دور کرکے اسے خالص اور مکمل حج کی شکل دی۔ ۱#
البتہ نہج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ اور دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے ہے کہ فریضہٴ حج حضرت آدم (ع) کے زمانے سے شروع ہوا تھا لیکن اس نے حضرت ابراہیم (ع) کے زمانے میں مزید دستوری شکل اختیار کی ہے ۔
ہر وہ شخص جو استطاعت حاصل کرلیتا ہے اس پر زند گی بھر میں صرف ایک مرتبہ حج واجب ہوتا ہے اور مندرجہ بالا آیت بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ اس میں حکم مطلق ہے اور اس سے ایک دفعہ کی انجام دہی سے اطاعت ہوجاتی ہے ۔ حج کے وجوب کے لئے صرف ایک شرط لگائی گئی ہے اور وہ ہے استطاعت و قدرت ۔ جیسا کہ اشارہ ہورہا ہے : من استطاع الیہ سبیلاًجو خانہ کعبہ کی طرف جانے کی قدرت رکھتا ہو۔ البتہ اسلامی روایات اور فقہی کتب میں استطاعت کی تفسیر میں یہ چیزیں شامل کی گئی ہیں زاد راہ، سواری ، جسمانی توانائی راستے میں امن اور حج سے واپسی کے بعد گزر اوقات کی طاقت، لیکن دراصل یہ سب چیزیں اس آیت میں مندرج ہیں کیونکہ اصل میں اتطاعت کے معنی ہیں توانائی اور قدرت اور اس میں یہ تمام امور شامل ہیں ۔
اس آیت سے ضمنی طور پر یہ پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ قانون دیگر اسلامی قوانین کی طرح صرف مسلمانوں کے لئے مختص نہیں ہے بلکہ تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اسے انجام دیں اور مشہوراصول ” الکفار مکلفون بالفروع کما انھم مکفون بالاصول(کفار فروعات کے بھی اسی طرح مکلف ہیں جس طرح اصول کے ) کی تائید مذکورہ آیت اور دیگر دلیلوں سے بھی ہوتی ہے ۔ اگر چہ ان اعمال و عبادات کی صحت کی شرط یہ ہے کہ پہلے وہ اسلام قبو ل کریں اور اس کے بعد انہیں انجام دیں لیکن یہ مخفی نہ رہے کہ اسلام قبول نہ کرنا ان ذمہ داریوں کی جوابدہی کو نہیں روکتا۔ ان عظیم مراسم کی اہمیت ، فلسفہ حج اور اس کے انفرادی و اجتماعی آثار پر سورہ بقرہ کی آیت ۱۹۴ سے لے ۲۰۳ تک تفصلی گفتگو ہو چکی ہے ۔ ۲#


۱#بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حج پہلی دفعہ دس ہجری میں فرض ہوا ۔ اسی سال پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ تمام جگہ کے لوگوں کو اطلاع دیں اور انہیں خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے آمادہ کریں ۔ مراسم ِ عمرہ اس سے پہلے بھی پیغمبر اکرم اور کچھ مسلمان ادا کر چکے تھے ۔
۲#متعلقہ آیات کے ضمن میں تفسیر نمونہ کی دوسری اور پہلی جلد کا مطالعہ فرمائیں ۔

 

مسجد الحرام کی توسیع حج کی اہمیت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma