۳۔ عرش اور حاملان عرش الٰہی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
پیام امام امیرالمؤمنین(ع) جلد 1
۲۔ ملائکہ کی اقسام4۔ فرشتوں کا معصوم ہونا

۳۔ عرش اور حاملان عرش الٰہی

قرآن مجید کی آیتوں میں تقریباً بیس مرتبہ عرش الٰہی کا تذکرہ ہوا ہے جبکہ اس کے بارے میں اسلامی روایات اور حدیثوں میں اس سے زیادہ تذکرہ ملتا ہے، بعض حدیثوں کے مطابق، عرش الٰہی کی عظمت اس قدر ہے کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا، جیسا کہ بعض روایتوں میں آیا ہے:
تمام آسمان، سب زمینیں اور جو کچھ بھی ان کے اندر موجود ہے، عرش الٰہی کے مقابلہ میں عظیم بیابان میں پڑی ہوئی ایک انگوٹھی کی طرح ہے ۔
اسی طرح بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ الله کے بزرگترین فرشتے اگر قیامت تک تیزی سے پرواز کریں تو بھی ساق عرش تک نہیں پہنچ سکتے ۔
نیز آیا ہے کہ خداوند عالم نے عرش کے لئے ہزار زبانیں خلق کی ہیں اور الله کی تمام صحرائی یا دریائی مخلوق کی صورتیں عرش ان کے اندر موجود ہیں ۔
روایات میں آیا ہے کہ جس وقت عرش کو پیدا کیا گیا تو خداوندعالم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کو اٹھائیں لیکن وہ اسے وہ اُٹھا نہیں سکے، پھر فرشتوں پر فرشتے پیدا کئے، مگر سب کے سب عاجز رہ گئے، خداوندعالم نے اپنی قدرت سے اُسے سنبھالا پھر اُن آٹھ فرشتوں کوحکم دیا جنھیں عرش الٰہی کو اٹھانے پر مقرر کیا گیا تھا کہ اسے اٹھائیں، انھوں نے عرض کیا: جس مقام پر وہ سب فرشتے عاجز ہوجائیں تو پھر ہماری کیا بساط ہے؟ اُس وقت حکم ہوا کہ الله کے نام ”لاحول ولاقوة الّا بالله العلی العظیم“ کے ذکر اور محمد وآل محمد پر درود کے ذریعہ مدد لیں، انھوں نے ایسا ہی کیا اور اُن کے لئے وہ کام آسان ہوگیا۔ (1)
یہ سب اشارے اور کنائے عرش الٰہی کی عظمت کو بیان کرتے ہیں، اب رہا یہ سوال کہ ”عرش“ کیا ہے؟ تو اس سلسلہ میں دانشمندان کے درمیان ابھی گفتگو باقی ہے، البتہ تفصیل سے اس بحث میں داخل ہونا ہمیں اصل مقصد سے دور کردے گا، اسی وجہ سے ہم ایک مختصر اور گویا اشارے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں:
بادشاہ اور سلاطین کے یہاں دو طرح کے تخت ہوتے تھے، چھوٹا تخت جس پر عام دنوں میں بیٹھتے اور اپنی حکومت کے امور انجام دیتے تھے اور بلند پایوں والا تخت جو خاص دن،عام ملاقات، مہم اور بڑے پرورگراموں سے مخصوص ہوتا تھا، عربی زبان میں پہلے تخت کو ”کرسی“ اور دوسرے کو ”عرش“ کا نام دیا جاتا ہے اور اکثر اوقات لفظ ”عرش“ کو قدرت وطاقت اور مکمل قبضہ کے معنی میں کنایہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اگرچہ حقیقت میں کوئی بلند پایہ تخت بھی موجود نہ ہو، اس مشہور جملہ ”ثَلَّ عَرشُہُ؛اس کا تخت کرگیا“ میں جس میں عرش کے معنی، قدرت کا ہاتھوں سے نکل جانے کے ہیں، کنایہ کے معنی بخوبی دکھائی دیتے ہیں ۔
خداوندعالم جو عالم کون ومکان کا سلطان ہے مذکورہ دوقسم کے تخت حکومت اور حکمران تخت کا مالک ہے (البتہ چونکہ وہ نہ جسم ہے اور نہ جسمانیات کے زمرے میں آتا ہے ، لہٰذا یہاں پر عرش اور کرسی کے کنائی معنی مراد ہیں ۔
بہرحال، یہ الٰہی تخت حکومت کیا ہے؟ منجملہ اس کے لئے جو تفسیر ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ عالم مادہ کا مجموعہ، آسمان، زمینیں، منظومے اور کہکشائیں سب کے سب اس کی کرسی اور چھوٹے تخت کے مانند ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ”وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَوٰاتِ وَالْاَرْضَ؛ اس کی کرسی تمام آسمانوں اور زمینوں پر مشتمل ہے“ جبکہ ”عرش الٰہی“ سے مراد ماوراءِ طبیعت (مادہ غلیظ اور سخت) کا عالَم ہے جو فقط یہی نہیں کہ عالم مادہ پر محیط ہے بلکہ مادی کائنات اس کے مقابل میں نہایت چھوٹی اور بے اہمیت ہے ۔
لیکن حاملان عرش، اس معنی میں یقیناً نہیں ہیں کہ کچھ غول پیکر اور قول جثّہ فرشتے اس بلند تخت کے پایوں کو جس پر خداوندعالم نے تکیہ کیا ہے، اپنے کاندھوں پر اٹھارکھا ہے؛ چونکہ عرش کے( اس طرح کے موقعوں پر جیسا کہ اوپر اشارہ ہوچکا ہے) کنائی معنی ہیں نیز وہ عقلی قرائن جو نشاندہی کرتے ہیں کہ خداوندعالم جسم وجسمانیت سے مبّرا ہے، اس بات کے شاہد ہیں ۔
لہٰذا اس بنا پر حاملان عرش، وہ بہت بڑے اور بلند مقام فرشتے ہیں جن کا کوئی مشابہ اور مثل نہیں ہے اور عالم ماوراء طبیعت (جس معنی میں اوپر کہا گیا ہے جو خدا وندعالم کا عظیم عرش ہے) کے امور کی تدبیر اور ہر جگہ اس کے حکم کی تعمیل کرسکتے ہیں اور اگر آپ مولا کے الفاظ میں غور فرمائیں جن میں اُن کی عظمت اور بزرگی اس صورت میں بیان ہوئی ہے کہ اُن کی گردنیں آسمانوں سے باہر نکلی ہوئیں، پیر زمین کے نچلے طبقہ پر ٹھہرے ہوئے، ان کے اعضاء اطراف واقطار عالم سے باہر نکلے ہوئے اور ان کے شانے پروردگار عالم کے عظیم عرش کے ستون کے لئے مناسب ہیں تو یہ سب الفاظ اور عبارتیں اس عظیم کائنات کے امور کی تدبیر پر اُن کی قدرت کو واضح اور نمایاں کردیتی ہیں ۔
صحیح ہے کہ ہمیں الفاظ کو اُن کے حقیقی معنی پر محمول کرنا چاہیے لیکن جہاں پر مسلّمعقلی قرائن اور شواہد موجود ہوں وہاں پر کنایہ کے معنی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا بالکل ویسے ہی جیسے ہم ”ید الله فوق ایدیھم“ میں کہتے ہیں ۔
ہاں البتّہ انھوں نے اپنی قدرت وطاقت سے نہیں بلکہ یقیناً الٰہی قوت وطاقت سے اس مہم کام کو اپنے شانوں پر لے رکھا ہے اور اسی حالت میں وہ اس کی تسبیح وتقدیس کرتے ہیں اور سورہٴ غافر کی ساتویں آیت کے مطابق موٴمنین کے لئے استغفار کرتے ہیں: ”الَّذِینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُونَ بِہِ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِینَ آمَنُوا“۔

 

 


۱۔ منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ: ج۲، ص۳۲۔۳۵ (مرحوم علامہ مجلسیۺ نے عرش اور کرسی سے متعلق روایتوں کو بحارالانوار کی جلد ۵۵ میں تفصیل سے تحریر کیا ہے منجملہ مذکورہ روایتوں کو صفحہ۵،۱۷، اور ۵۵ پر ذکر کیا ہے) ۔

۲۔ ملائکہ کی اقسام4۔ فرشتوں کا معصوم ہونا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma