مولائے متقیان کے کلام کا یہ حصّہ (جیسا کہ پہلے اشارہ ہوچکا ہے) گذشتہ کلام کی تکمیل اور اُسی کا باقی حصّہ ہے ۔
یہاں پر بھی (پہلے سے کوئی فیصلہ کئے بغیر) پہلے حضرت کے کلام میں آنے والی نہایت دقیق اور عمیق عبارتوں کو سمجھیں گے، پھر اس کے بعد گفتگو کریں گے کہ تخلیق کائنات کے بارے میں دور حاضر کے دانشمندوں کے نظریات پر اُسے کیسے تطبیق دیا جائے ۔
مولا امیرالمومنین علیہ السلام اپنے کلام کے اس حصّہ میں چند مرحلوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:
نسب سے پہلے آپ یہ فرماتے ہیں: ”الله سبحانہ نے ایک اور ہوا چلائی اور دوسرا طوفان پیدا کیا (اس طوفان کی چار خصوصیت تھیں“ (ثُمَّ اٴَنْشَاٴَ سُبْحَانَہُ ریحاً اعْتَقَمَ (۱)مَھَبَّہَا (۲)) ۔ نہ بادل ہی تھا جو آپس میں رابطہ پیدا کرتا اور بارش برساتا اور نہ کوئی پھول ہی تھا جو اُسے بارور کرتا یعنی اس میں تولیدی صلاحیت نہیں تھی ۔
”وہ ہوا ہمیشہ پانی کے ساتھ رہتی ارو اس سے جدا نہیں ہوتی تھی“ (وَاٴدَامَ مُرَبَّھَا )(۳) عام ہواوٴںکے برخلاف جن میں دوام نہیں ہوتا، کبھی چلتی ہیں اور کبھی رُک جاتی ہیں ۔
”وہ ہوا جس کے جھونکے بہت ہی قوی اور طاقتور تھے (یہ ہوا معمولی ہواوٴں اور طوفانوں سے بہت مختلف تھی)“ (وَاٴعْصَفَ(۴) مَجْرَاھَا ) ۔
”وہ ہوا جو دور دراز مرکز سے متصل تھی (معمولی ہواوٴں کی طرح نہیں جواکثر نزدیکی سرچشموں سے نشاٴت پاتی ہیں)“ (وَاٴبْعَدَ مَنْشَاھَا) ۔
دوسرے مرحلہ میں حضرت، اس طوفانی ہوا کو دیئے گئے حکم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، فرماتے ہیں: ”اس کو حکم دیاگیا ہے کہ دریا کے گہرے پانی اور اس کے ذخیرہ کو متواتر ایک دوسرے پر مارتی اور کوٹتی رہے“ (فَاٴمَرَھَا بِتَصْفِیْقِ(5) الْمَاءِ الزخار) ۔
”دریاوٴں کی موجوں اور لہروں کو ہر سمت میں چلایا“ (وَإثَارَةِ مَوْجِ الْبِحَارِ) ۔
”اس عظیم طوفان نے اس پانی کو سقّوں کی مشک کی طرح متھ ڈالا “ (فَمَخَضَتْہُ(6) مَخْصَ السِّقَاءِ) ”اور اس کو شدّت کے ساتھ فضا کی طرف بلند کردیا“ (وَعَصَفَتْ بِہِ عَصْفَھَا بِالْفَضَاءِ) ۔
”اس طوفان نے پانی کے پہلے حصّہ کو آخری حصہ پر اُلٹ دیا اور ٹھہرے ہوئے حصّہ کو متحرک پانی کی طرف لے گیا“( تَرُدُّ اٴوَّلَہُ إلیٰ آخِرِہِ وَسَاجیَہُ(7) إلیٰ مَائِرِہِ(8)) ۔
تیسرے مرحلہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ”وہ پانی ایک دوسرے کے اوپر جمع ہوکر اوپر آگئے“ (حَتّی عَبَّ عُبَابُہُ(9)) ۔ ”پانی ۔ کے جمع ہونے والے ذخیرہ نے اپنے اندر سے کچھ جھاگ باہر پھینک دیا“ (وَرَمی بِالزَّبَدِ رُکَامُہُ(10))
آخرکار چوتھے مرحلہ میں: ”خداوندعالَم نے یہ جھاگ، اوپر کی وسیع فضا اور پھیلی ہوئی کشادہ ہوا میں بلند کردیئے“ (فَرَفَعَہُ فِی ھَواءٍ مُنْفَتِقٍ وَجَوٍّ مُنْفَھِقٍ(11)) ۔
”اور اُس سے سات آسمان پیدا کئے اور اُن میں نظم برقرار کیا“ (فَسَوَّی مِنْہُ سَبْعَ سَمَوَاتٍ) ۔
”یہ ایسے عالَم میں تھا کہ اس کی نچلی سطح کو ایک ٹھہری ہوئی موج کی طرح قرار دیا اور اس کے اوپر کا حصّہ ایک محفوظ چھت کی طرح بلند بنادیا“ (جَعَلَ سُفْلَاھُنَّ مَوْجاً مَکْفُوفا (12) وَعُلْیَاھُنَّ سَقْفاً مَحْفُوظاً وَسَمْکا (13) مَرفُوعاً) ۔
”حالانکہ اس کا نہ کوئی ستون تھا جو اُسے سہارا دے سکے اور نہ کوئی کیل اور رسّی تھی جو اُسے منظم کرسکے اور باندھ سکے“ (بِغَیرِ عَمَدٍ(14) یَدْعَمُھَا (15) وَلَادِسَارٍ یَنْظِمُھَا (16)) ۔
آخر کار پانچواں اور آخری مرحلہ آگیا: ”خداوندعالَم نے آسمان کو تابندہ نجوم اور درخشاں ستاروں کے نور سے مزیّن کیا“ (ثُمَّ زَیَّنَھَا بِزِیْنَةِ الْکَوَاکِبِ وِضِیَاءِ الثَّوَاقِبِ(17)) ۔ ”اور اس میں روشن چراغ ضوفگن (تابندہ آفتاب) اور نور افشاں ماہتاب کو ایک متحرک فلک، گھومنے والی چھت اور جنبش کرنے والی تختی میں رواں دواں کیا“ (وَاٴجری فِیھَا سِراجاً مُسْتَطِیرا (18) وَقَمَراً مُنِیْراً فِی فَلَکٍ دَائِرٍ وَسَقْفٍ سَائِرٍ وَرَقِیْمٍ(19) مَائِرٍ) ۔