آغاز خلقت میں طوفان کا کردار

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
پیام امام امیرالمؤمنین(ع) جلد 1
ساتواں حصّہ۱۔ عصر حاضر کے نظریات پر اس کلام کی اجمالی تطبیق

مولائے متقیان کے کلام کا یہ حصّہ (جیسا کہ پہلے اشارہ ہوچکا ہے) گذشتہ کلام کی تکمیل اور اُسی کا باقی حصّہ ہے ۔
یہاں پر بھی (پہلے سے کوئی فیصلہ کئے بغیر) پہلے حضرت کے کلام میں آنے والی نہایت دقیق اور عمیق عبارتوں کو سمجھیں گے، پھر اس کے بعد گفتگو کریں گے کہ تخلیق کائنات کے بارے میں دور حاضر کے دانشمندوں کے نظریات پر اُسے کیسے تطبیق دیا جائے ۔
مولا امیرالمومنین علیہ السلام اپنے کلام کے اس حصّہ میں چند مرحلوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:
نسب سے پہلے آپ یہ فرماتے ہیں: ”الله سبحانہ نے ایک اور ہوا چلائی اور دوسرا طوفان پیدا کیا (اس طوفان کی چار خصوصیت تھیں“ (ثُمَّ اٴَنْشَاٴَ سُبْحَانَہُ ریحاً اعْتَقَمَ (۱)مَھَبَّہَا (۲)) ۔ نہ بادل ہی تھا جو آپس میں رابطہ پیدا کرتا اور بارش برساتا اور نہ کوئی پھول ہی تھا جو اُسے بارور کرتا یعنی اس میں تولیدی صلاحیت نہیں تھی ۔
”وہ ہوا ہمیشہ پانی کے ساتھ رہتی ارو اس سے جدا نہیں ہوتی تھی“ (وَاٴدَامَ مُرَبَّھَا )(۳) عام ہواوٴںکے برخلاف جن میں دوام نہیں ہوتا، کبھی چلتی ہیں اور کبھی رُک جاتی ہیں ۔
”وہ ہوا جس کے جھونکے بہت ہی قوی اور طاقتور تھے (یہ ہوا معمولی ہواوٴں اور طوفانوں سے بہت مختلف تھی)“ (وَاٴعْصَفَ(۴) مَجْرَاھَا ) ۔
”وہ ہوا جو دور دراز مرکز سے متصل تھی (معمولی ہواوٴں کی طرح نہیں جواکثر نزدیکی سرچشموں سے نشاٴت پاتی ہیں)“ (وَاٴبْعَدَ مَنْشَاھَا) ۔
دوسرے مرحلہ میں حضرت، اس طوفانی ہوا کو دیئے گئے حکم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، فرماتے ہیں: ”اس کو حکم دیاگیا ہے کہ دریا کے گہرے پانی اور اس کے ذخیرہ کو متواتر ایک دوسرے پر مارتی اور کوٹتی رہے“ (فَاٴمَرَھَا بِتَصْفِیْقِ(5) الْمَاءِ الزخار) ۔
”دریاوٴں کی موجوں اور لہروں کو ہر سمت میں چلایا“ (وَإثَارَةِ مَوْجِ الْبِحَارِ) ۔
”اس عظیم طوفان نے اس پانی کو سقّوں کی مشک کی طرح متھ ڈالا “ (فَمَخَضَتْہُ(6) مَخْصَ السِّقَاءِ) ”اور اس کو شدّت کے ساتھ فضا کی طرف بلند کردیا“ (وَعَصَفَتْ بِہِ عَصْفَھَا بِالْفَضَاءِ) ۔
”اس طوفان نے پانی کے پہلے حصّہ کو آخری حصہ پر اُلٹ دیا اور ٹھہرے ہوئے حصّہ کو متحرک پانی کی طرف لے گیا“( تَرُدُّ اٴوَّلَہُ إلیٰ آخِرِہِ وَسَاجیَہُ(7) إلیٰ مَائِرِہِ(8)) ۔
تیسرے مرحلہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ”وہ پانی ایک دوسرے کے اوپر جمع ہوکر اوپر آگئے“ (حَتّی عَبَّ عُبَابُہُ(9)) ۔ ”پانی ۔ کے جمع ہونے والے ذخیرہ نے اپنے اندر سے کچھ جھاگ باہر پھینک دیا“ (وَرَمی بِالزَّبَدِ رُکَامُہُ(10))
آخرکار چوتھے مرحلہ میں: ”خداوندعالَم نے یہ جھاگ، اوپر کی وسیع فضا اور پھیلی ہوئی کشادہ ہوا میں بلند کردیئے“ (فَرَفَعَہُ فِی ھَواءٍ مُنْفَتِقٍ وَجَوٍّ مُنْفَھِقٍ(11)) ۔
”اور اُس سے سات آسمان پیدا کئے اور اُن میں نظم برقرار کیا“ (فَسَوَّی مِنْہُ سَبْعَ سَمَوَاتٍ) ۔
”یہ ایسے عالَم میں تھا کہ اس کی نچلی سطح کو ایک ٹھہری ہوئی موج کی طرح قرار دیا اور اس کے اوپر کا حصّہ ایک محفوظ چھت کی طرح بلند بنادیا“ (جَعَلَ سُفْلَاھُنَّ مَوْجاً مَکْفُوفا (12) وَعُلْیَاھُنَّ سَقْفاً مَحْفُوظاً وَسَمْکا (13) مَرفُوعاً) ۔
”حالانکہ اس کا نہ کوئی ستون تھا جو اُسے سہارا دے سکے اور نہ کوئی کیل اور رسّی تھی جو اُسے منظم کرسکے اور باندھ سکے“ (بِغَیرِ عَمَدٍ(14) یَدْعَمُھَا (15) وَلَادِسَارٍ یَنْظِمُھَا (16)) ۔
آخر کار پانچواں اور آخری مرحلہ آگیا: ”خداوندعالَم نے آسمان کو تابندہ نجوم اور درخشاں ستاروں کے نور سے مزیّن کیا“ (ثُمَّ زَیَّنَھَا بِزِیْنَةِ الْکَوَاکِبِ وِضِیَاءِ الثَّوَاقِبِ(17)) ۔ ”اور اس میں روشن چراغ ضوفگن (تابندہ آفتاب) اور نور افشاں ماہتاب کو ایک متحرک فلک، گھومنے والی چھت اور جنبش کرنے والی تختی میں رواں دواں کیا“ (وَاٴجری فِیھَا سِراجاً مُسْتَطِیرا (18) وَقَمَراً مُنِیْراً فِی فَلَکٍ دَائِرٍ وَسَقْفٍ سَائِرٍ وَرَقِیْمٍ(19) مَائِرٍ) ۔

 


۱۔ ”اعتقم“ ”عُقْم“ (بروزن ”قُفل“) سے مشتق ہے، اس کے معنی خشکی کے ہوتے ہیں جو اثر کو قبول کرنے سے مانع ہوتی ہے، ”عقیم “ اس عورت کو کہا جاتا ہے جو بچہ نہیں جنتی اور مرد کے نطفہ کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، البتہ یہ لفظ تنگی اور مضیق ہونے کے معنی میں بھی آیا ہے، (مفردات، لسان العرب اور مقاییس اللغة).
۲۔ ”مَھَبَّ“ ”ھُبوب“ (بروزن ”سجود“)سے مشتق ہے اور بیدار ا ہونے، تلوار لہرانے اور عام طور پر ہیجانی کیفیت طاری ہونے کے معنی میں آتا ہے اسی وجہ سے ہوا چلنے اور طوفان آنے کے لئے بھی بولا جاتا ہے ۔
۳۔ ”مُرَبَّ“ ”ربّ“ سے مشتق ہے، اصل میں تربیت کے معنی میں ہے اور مربی (تربیت کرنے والا)، مالک اور خالق کے لئے بھی ”رب“ کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے (یہ ایسا مصدر ہے جوفاعل کے معنی میں آتا ہے) اور جب باب ”افعال“ (ارباب) سے آئے تو استمرار اورملازمت کے معنی میں ہوتا ہے (اس لئے کہ تربیت، استمرار کے بغیر امکان پذیر نہیں ہوتی) لہٰذا اس بناپر ”مُرب“ جو مصدر میمی ہے دوام اور بقاء کے معنی میں ہے ۔
۴۔ ”اعصف“، ”عَصْف“ (بروزن ”عصر“) سے مشتق ہے اور جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ سرعت، حرکت اور شدّت کے معنی میں ہے ۔
5۔ ”تصفیق“ ”صفق“ (بروزن ”سقف“) سے مشتق ہے اور ایک چیز کو دوسری پر اس طرح مارنے کے معنی میں ہے کہ اس سے آواز بلند ہوجائے، اسی وجہ سے ہتھیلی بجانے کو تصفیق کہا جاتا ہے، یہاں پر ہلانے اور پانی کو ایک دوسرے پر مارنے کے معنی میں آیا ہے (لسان العرب، مقاییس اللغة، شرح عبدہ) ۔
6۔ ”مَخَضَ“ ”مَخْض“ (بروزن ”قرض“) سے مشتق ہے، اصل میں بہنے والی چیزوں کو اُن کے برتن میں ہلانے کے معنی میں آتا ہے لہٰذا جب کسی مشک ، یا متھینی میں دہی ڈال کر مکھّن نکالنے کے لئے ہلایا اور متھا جائے تو اس وقت کے لئے اس لفظ کو استعمال کیا جاتا ہے ۔
7۔ ”ساجی“ ”سَجْو“ (بروزن”سَہْو“) سے مشتق ہے، اور سکون وارام کے معنی میں اتا ہے ۔
8۔ ”مائر“ ”موٴر“ (بروزن ”فوْر“) سے مشتق ہے، اصل میں تیزی سے جاری ہونے کے معنی میں آتا ہے، یہ لفظ سڑک کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے چونکہ اُس پر لوگ متحرک رہتے اور رفت وآمد کرتے رہتے ہیں ۔
9۔ ”عُباب“ کا مصدر ”عبّ“ ہے اور وقفہ دیئے بغیر تیزی سے پانی پینے کے معنی میں ہے، اسی وجہ سے پانی کی فراوان مقدار ، زیادہ بارش اور عظیم سیلاب کو ”عُباب“ کہا جاتا ہے، جبکہ یہاں پر ایک پانی کی دوسرے پانی پر تہہ جمنے کے معنی میں آیا ہے ۔
10۔ ”رُکام“ زیادہ مقدار میں جمع ہونے کے معنی میں ہے جس کی طرف پہلے اشارہ ہوچکا ہے ۔
11۔ ”مُنْفَھِق“ ”فَھْق“ (بروزن ”فرق“)سے مشتق ہے اور پھیلنے اور وسعت کے معنی میں آیا ہے، اسی وجہ سے درّہ کے پھیلے ہوئے حصّے اور پانی سے بھر ہوئے ظرف کو ”منفہِق“ کہتے ہیں ۔
12۔ ”مکفوف“ کفّ“ (بروزن ”سدّ“) سے مشتق اور قبض واقباض اور کسی چیز کو جمع کرنے کے معنی میں ہے، ہاتھ کے نچلے حصّہ کو ”کف“ کہا جاتا ہے اس لئے کہ اس کے ذریعہ قبض واقباض یعنی لین دین کیا جاتا ہے اور نابینا کو ”مکفوف“ کہا جاتا ہے، چونکہ اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ۔
13۔ ”سَمْک“ اصل میں رفعت اور بلندی کے معنی میں آیا ہے، گھر کی چھت کو اسی وجہ سے ”سمک“ کہا جاتا ہے چونکہ بلند ہوتی ہے ۔
14۔ ”عمَد“ (بروزن ”سبَد“) و ”عُمُد“ (برورزن”شُتر“) دونوں ”عمود“ کی جمع اور ستون کے معنی میں ہیں ۔
15۔ ”یَدْعَم“ ، ”دعم“ (بروزن ”فَھْم“) سے مشتق اور کسی چیز کو اٹھائے رکھنے کے معنی میں ہے، اسی طرح ”دِعام“ اور ”دعامہ“ اُن لکڑیوں (بَلِّیّوں) کے معنی میں آتے ہیں، جس سے دیوار بنانے کے لئے پیڑ باندھی جاتی ہے ، یہ الفاظ ہر اُٹھانے والی چیز اور شخص کے لئے بولے جاتے ہیں ۔
16۔ ”دسار“ کیل کے معنی میں اور اسی طرح رسّی کے معنی میں ہے جس سے کسی چیز کو مضبوطی سے باندھتے ہیں ۔
17۔ ”ثواقِب“، ”ثَقْب“ (بروزن ”سقْف“) سے مشتق اور سوراخ کرنے، پھاڑنے اور کسی چیز میں نفوذ کرنے کے معنی میں ہے، درخشاں ستاروں کو اس لئے ”ثواقب“ کہا جاتا ہے کہ گویا اُن کا نور آنکھوں میں سوراخ کرکے اُن میں نفوذ کرجاتا ہے یا اس لئے کہ اُن کا نور آسمان سے گذر کر ہم تک پہنچتا ہے ۔
18 ”مستطیر“ ”طَیْر“ سے مشتق ہے، اصل میں اس کے معنی، ہوا میں کسی چیز کے ہلکا ہونے کے ہیں، پھر بعد میں ہر تیز رفتار چیز اور پرندوں کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اور ”مستطیر“ منتشر اور پھیلے ہوئے کے معنی میں ہے، یہ لفظ صبح کے اُس وقت کے لئے بھی بولا جاتا ہے کہ جب سورج کی کرنیں افق میں چاروں طرف پھیل جاتی ہیں ۔
19۔ ”رَقِیم“ ”رَقْم“ (بروزن ”رزم“) سے مشتق ہے اور اصل میں خط وکتابت کے معنی میں ہے، لفظ ”رقیم“ کتاب کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور آسمان کو اس لئے ”رقیم“ کہا جاتا ہے کہ وہ کتاب کے ایک صفحہ کی طرح ہے جو ستاروں کے نقش ونگار سے بھر گیا ہے ۔ (مقاییس اللغة، مفردات اور لسان العرب)
ساتواں حصّہ۱۔ عصر حاضر کے نظریات پر اس کلام کی اجمالی تطبیق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma