تخلیق کائنات کے متعلق بحث

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
پیام امام امیرالمؤمنین(ع) جلد 1
چوتھا حصہتمام موجودات کی فطری اور تکوینی ہدایت

ابھی تک اس خطبہ میں جو سب سے اہم بات بیان کی گئی وہ خدا کی معرفت اس کی شناخت اور اس کے مختلف صفات کی طرف اشارہ تھا جو انسان کی معرفت کا پہلا مرحلہ ہے اور اس فراز کے بعد تخلیق کائنات ، خلقت کے آغاز کی کیفیت اور زمین و آسمان کے عجائب و غرائب کے متعلق بیان کیا ہے ،اگر چہ یہ بھی خدا وند عالم کے گذشتہ صفات کے سلسلہ میں ایک تکمیلی بحث ہے۔
اس حصہ کے شروع میں فرماتے ہیں : اس نے خلق کو ایجاد کیا بغیر کسی فکر کی جولانی کے اور بغیر کسی تجربہ کے جس سے فائدہ اٹھانے کی اسے ضرورت پڑی ہواور بغیر کسی حرکت کے جسے اس نے پیدا کیا ہو اور بغیر کسی ولولہ اور جوش کے جس سے وہ بیتاب ہوا،(انشا(۱) الخلق انشاء و ابتداء بلا رویة(۲) اجالھا(۳) و لا تجربة استفادھا ولا حرکة احدثھا و لا ہمامة (۴) نفس اضطراب فیھا) ۔
یہاں پر امام (علیہ السلام) خلقت الہی کو مخلوقات کے کاموں سے بطور کلی جدا شمار کرتے ہیں کیونکہ جب انسان کسی کام کو انجام دینا چاہتا ہے اور اس کام کو پہلے کبھی انجام نہ دیا ہو تو پہلے اس کے بارے میں فکر کرتا ہے اور پھر اپنی ایجاد کے ذریعہ اس کو شروع کرتا ہے اور اگر وہ کام پہلے کبھی انجام پاچکا ہوتا ہے تو دوسروں کے تجربہ یا اپنے تجربہ سے فائدہ اٹھاتا ہے اور کبھی کبھی اس کے ذہن و فکر میں ایک بہت بڑی حرکت ہوتی ہے اور وہ اس مسئلہ کے مقدمات پر غور و فکر کرتا ہے اور پھر اس کے نتیجہ تک پہنچتا ہے اور کبھی کبھی شک و تردید میں متزلزل رہتا ہے اور آخر کار اس کام کے ایک سرے کو انتخاب کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔
خدا وند عالم کی ذات میں تخلیق کائنات کے وقت ان چاروں حالتوں میں سے کوئی ایک حالت بھی نہیں پائی جاتی ، نہ اس کو غور و فکر کی ضرورت ہے اور نہ پہلے تجربہ کی ، نہ وہ اس کے مقدمات اور نتیجہ پر غور و فکر کرتا ہے اور نہ اپنے ارادہ میں شک و تردید اور متزلزل کی کیفیت میں رہتا ہے۔ اس کا ارادہ کرنا یعنی موجودات کو ایجاد کرنا ہے ” انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون“ اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہوجا اور وہ شے ہوجاتی ہے (5) ۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ یہ چاروں حالتیں ان اشخاص سے مربوط ہوتی ہیں جن کا علم و قدرت محدود ہوتا ہے اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان کو سوچ بچاریا دوسروں کے تجربہ یا ان کے اندر اضطراب و تردید پایا جاتا ہے۔ لیکن جس کا علم بے نہایت اور قدرت نامحدود ہے اس کو تخلیق کے وقت یہ حالات پیش نہیں آتے ہیں۔
مندرجہ بالا باتوں سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ حرکت سے مراد وہی نفس کے اندر غور و فکرکرنے کی حرکت ہے ۔
لیکن بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ حرکت سے مراد جسمانی خارجی حرکت ہے جو کہ اجسام کا لازمہ ہے اور خدا وند عالم ، جسم و جسمانیات سے بہت بلند و بالا ہے۔
لیکن پہلے معنی زیادہ مناسب نظر آتے ہیں ، کیونکہ عبارت میں دوسری تینوں حالتوں کا سیاق وسباق کسی کام کوانجام دینے سے پہلے غور و فکر کرنے او رارادہ کرنے سے متعلق ہیں۔
خلاصہ یہ کہ خداوند عالم کے افعال بندوں کے افعال سے بالکل جدا ہیں ، کیونکہ وہ اشیاء کے مصالح و مفاسد اور تخلیق کے نظام پر قدرت تام و کامل رکھتا ہے اور یقین کے ساتھ ارادہ کرتا ہے اور بغیر کسی شک و تردید، تزلزل اور تجربہ کے موجودات کو وجود کا لباس پہنا تا ہے ۔ تخلیق کے شروع میں بھی ایسا ہی ہے اور تخلیق کے بعد بھی۔
اس کے بعد موجودات کی تخلیق اور اشیاء کی تدبیر کی طرف منظم و مرتب پروگرام کے تحت اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے: خدا وند عالم نے ہر چیز کی تخلیق کو اس کے وقت کے حوالے کیا(کیونکہ اس کی تخلیق تدریجی اور منظم و مرتب پروگرام کے تحت ہوئی تھی تاکہ وہ اپنی با عظمت تدبیر اور قدرت بے نظیر کو آشکار کرے) ۔ (احال الاشیاء لاوقاتھا) ۔
موجودات کی تخلیق کے مسئلہ کے بعد اس کے خاص داخلی نظام اور ترکیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بے جوڑ چیزوں میں توازن و ہم آہنگی پیدا کی(ولام (6) بین مختلفاتھا) ۔
عالم تخلیق کے عجائبات میں سے ہے کہ خداوند عالم نے مختلف اشیاء اور موجودات کو ایک دوسرے سے اس طرح متصل اور ان میں توازن و ہماہنگی پیدا کی ہے کہ گویا یہ سب ایک ہی ہیں۔ سرد و گرم،تاریک و روشنائی، موت و زندگی ، پانی اور آگ کو آپس میں جوڑ دیا ہے ۔ ہرے درخت میں آگ کو خلق کیا اور انسان و حیوان اور نباتات کو ایک مختلف مادہ سے مختلف طبیعتوں میں خلق کیاہے ، یہاں تک کہ روح اور جسم (جو کہ دو مختلف عالم سے بنے ہیں ایک مجرد ، نورانی اور بہت ہی لطیف ہے اور دوسرا مادی، تاریک اور خشن ہے) کے درمیان ایک عمیق پیوند قرار دیا ہے۔
اس کے بعد مزید فرماتے ہیں: خدا وند عالم نے ان میں طبیعت اور غرایز کو قرار دیا اورہر چیز کو جدا گانہ طبیعت و مزاج کا حامل بنایا(و غرز (7) غرائزھا) ۔
حقیقت میں یہ خداوند عالم کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے جو ہر موجود میں اس کی ضرورت کے اعتبار سے اس کی طبیعی صورت میں ایجاد کردی گئی ہے تاکہ وہ کسی دوسرے محرک کی ضرورت کے بغیر اپنے راستہ کو اختیار کرلے اور اپنی ذات کے اندر سے مخصوص پروگرام کی طرف گامزن ہو کیونکہ اگر موجودات کے اندر داخلی غریزہ نہ ہوتا تو اشیاء کے آثار ہمیشہ باقی نہ رہتے اور موجودات کے اوپر بے نظمی اور بے سروسامانی حکومت کرتی۔
آج کے زمانے میں انسان یا دوسرے موجودات کی ذاتی ہئیت کو دو مختلف چیزوںسے تعبیر کیا جاتا ہے ، کبھی فطرت سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں خدا شناسی انسان کی فطرت ہے اور کبھی غریزہ (طبیعت) سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان میں جنسی طبیعت پائی جاتی ہے، یا کہتے ہیں کہ حیوانات کی حرکت میں عام طور سے غریزی(فطری)پہلو پایا جاتا ہے ۔ حقیقت میں یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی دانشوروں نے بنیاد رکھی ہے ۔ ایک ایسی فطرت و طبیعت کے متعلق استعمال کرتے ہیں جس میں غور و فکر کا پہلو پایا جاتا ہے (فطرت) اور دوسرے ان طبیعت اور فطرت کے متعلق استعمال کرتے ہیں جس میں غیر فکری یا عاطفی پہلو پایا جاتا ہے (غریزہ) ۔ لیکن لغوی معنی کے اعتبار سے دونوں کے معنی تخلیق اور ایجاد کے ہیں۔
اس حصہ کے آخری جملہ میں فرماتے ہیں : اور ان طبیعتوں کے لئے مناسب صورتیں ضروری قرار دیں(والزمھا اشباحھا) (8) ۔
نہج البلاغہ کے مفسرین نے اس جملہ کی دومختلف تفسیریں بیان کی ہیں۔ بعض مفسرین جیسے ”ابن ابی الحدید“ کا عقیدہ ہے کہ مذکورہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خداوند عالم نے ان غرایز کو موجودات میں ثابت اور برقرار کیا ہے (اس بناء پر ”الزمھا“ کی ضمیر ، غرایزکی طرف پلٹتی ہے)لہذا مذکورہ جملہ موجودات میں غرایز کے ثابت ہونے پر تاکید کررہا ہے۔
لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وجودسے مراد ہر موجود کیلئے خاص امتیازات ہیں۔ یعنی خداوند عالم نے ہر چیز کو کچھ خصوصیات دیں اور کیونکہ خداوند عالم کے ذہن میں کلی طور پر موجود تھیں لہذا بعد میں ان کو خارج میں جزئیات اور اشخاص کی صورت میں قرار دیا(اس تفسیر کی بناء پر ”الزمھا“ کی ضمیر، اشیاء کی طرف پلٹتی ہے)بعض نے دونوں تفسیروں کو دو احتمال کے طور پر ذکر کیا ہے۔
لیکن چونکہ پہلی تفسیر میں ضمیروں کی ہماہنگی محفوظ نہیں ہے اور اس کے علاوہ جملہ تاکیدی سمجھا جاتا ہے نہ کہ نیا اور جدید مطلب ، لہذا دوسری تفسیر صحیح معلوم دیتی ہے۔
اس بات کی وضاحت کہ خداوند عالم نے ہر موجود میں دو خصوصیت رکھی ہیں وہ خصوصیات جو ان کی ذات میں پوشیدہ ہیں جس کو امام علیہ السلام نے غرایز سے تعبیر کیا ہے اور وہ خصوصیات جو ظاہر اور نمایاں ہیں جیسے زمان ، مکان اور تمام جزئیات۔ اور اس کو ”الزمھا اشباحھا“ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس طرح اپنی حکمت کے مطابق ہر موجود کیلئے ظاہری اور باطنی خصوصیات مقرر فرمائیں تاکہ ہر موجود اپنے خاص وظیفہ کو انجام دے سکے اور دوسرے موجودات سے اپنی پہچان کرا سکے۔



۱۔ ”انشاء“ کا مادہ ”انشاء“ ہے ، اس کے متعدد معانی ذکر ہوئے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہاں پر اس کے معنی ایجاد کے ہیں۔
۲۔ مقاییس اللغہ کے بقول ”رویة“ کے معنی سیراب ہونے کے ہیں لیکن دقت کے ساتھ غور و فکر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، گویا اپنی فکر کو اس مسئلہ کے متعلق سیراب کرتا ہے یا مسئلہ کو اپنی فکر سے سیراب کرتا ہے اور فکر کرنے کا حق ادا کرتا ہے۔
۳۔ ”اجال“ کا مادہ ”جولان“ ہے اور اس کے معنی حرکت کرنے اور گردش کر نے کے ہیں۔
۴۔ نہج البلاغہ کے شارحین اور مفسرین نے ”ھمامة“ کے مختلف معنی ذکر کئے ہیں:بعض نے اس کے معنی کسی چیز کے متعلق داخلی تمایل کے بیان کئے ہیں یعنی اس کے فقدان کی وجہ سے انسان ناراض ہوتا ہے (شرح ابن میثم بحرانی، ج۱، ص ۱۳۲) ۔
بعض نے اس کے معنی کسی کام میں شک و تردید کرنے کے بیان کئے ہیں(منہاج البراعة، ج ۱، ص ۵۱) ۔
بعض نے کسی مطلب کو اہمیت دینے کے بیان کئے ہیں(شرح مغنیہ، ج ۱، ص ۲۷) ۔
ابن ابی الحدید نے اپنی مشہور شرح میں ”ہمامہ“ کو ”مجوسیوں“ کے اعتقاد ات میں شمار کیا ہے ، وہ لوک معتقد تھے کہ نور اعظم کاارادہ، ظلمت و تاریکی سے جنگ کرتے وقت متزلزل تھا اور اس کی ذات سے ایک چیز خارج ہوئی جس کا نام ”ھمامة“ تھا۔
لیکن لغت میں ”ھمامة“ کے معنی ضعف، فتور اور سستی کے ہیں لہذا ہر کمزور و ناتوان مرد و عورت کو ”ھم“ اور ”ھمة“ کہتے ہیں ، تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ عبارت ”ھمامہ“ کے معنی عزم و ارادہ میں شک و تردید ، سستی اور ناتوانی کے ہیں، اس طرح سے کہ انسان کسی کام کا ارادہ نہ کرسکے یا زحمت ومشقت کے ساتھ ارادہ کرنے پر قادر ہوتا ہے۔
5۔ سورہ ی
س، آیت ۸۲۔
6۔ ”لام“ و ”لائم“ کا مادہ ”لام“ ہے اور اس کے معنی جمع کرنے، اصلاح اور کسی چیز کو دوسری چیز کے ساتھ شامل کرنے اور جوڑنے کے ہیں اور اسی وجہ سے زرہ کو ”لامہ“ (رحمة کے وزن پر) کہتے ہیں کیونکہ اس کے حلقہ آپس میں ملے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جوڑے ہوتے ہیں۔
7۔ ”غرز“ کا مادہ ”غرز“ (قرض کے وزن پر )ہے اور اصل میں اس کے معنی سوئی چبھونے یا بٹھانے اورکسی چیز میں داخل کرنے کے ہیں، اس کے بعد وہ ان طبیعتوں پر اطلاق ہونے لگا جو انسان اور زندہ موجودات میں ودیعت کی ہیں ، گویا یہ طبعیت اور غرایز ، انسان کے وجود کی سرزمین میں پودے کا مانند لگا دیا ہے۔

8۔ ”اشباح“، ”شبح“ کی جمع ہے (بعض اہل لغت کی تصریح کے مطابق) اور اصل میں یہ شخص کے معنی میں ہے اور آشکار، نمایاں اور ظاہر چیز کے معنی میں بھی آتا ہے اور روز مرہ کے استعمالات میں ایسے موجود کو ”شبح“ کہتے ہیں جو صاف طور سے ظاہر نہ ہو اور اچانک ظاہر ہوجائے۔
چوتھا حصہتمام موجودات کی فطری اور تکوینی ہدایت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma