اشارہ
تاریخ اسلام میں اٹھنے والے سوالوں میں سے ایک سوال چھے آدمیوں کی شوریٰ ہے ، جس کو خلیفہ دوم نے اپنے بعد خلیفہ منتخب کرنے کیلئے تشکیل دی ۔
یہ واقعہ اس خاص شکل میں نہ پہلے کبھی رو نما ہوا اور نہ اس کے بعد کسی نے اس پر عمل کیا ، اس حوالہ سے یہ واقعہ انفرادی حیثیت رکھتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ خلیفہ دوم نے کس معیار اور کس دلیل کی بنیاد پر اس طرح کا قدم اٹھایا؟
انہوں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) کی سنت پر عمل نہیں کیا کیونکہ شیعہ امامیہ کے عقیدہ کی بناء پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے بعد حضرت علی (علیہ السلام) کو امت اسلامی کی امامت کے لئے منصوب کیا تھا ۔اور اہل سنت کی رائے کے مطابق آپ نے امر خلافت کو ( کسی خاص فر دکومنتخب کئے بغیر)لوگوں کے سپرد کر دیا تھا ۔
اس کے علاوہ خلیفہ دوم نے پہلے خلیفہ کے طریقہ پر بھی عمل نہیں کیا اس لئے کہ انہوں نے عمر کو اپنی جانب سے لوگوں کا خلیفہ معین کر دیا تھا، لیکن خلیفہ دوم نے ایک نیا طریقہ اپنایا جو کسی دوسرے نے اختیار نہیں کیا تھا ۔انہوں نے حکم دیا کہ ان چھے آدمیوں کو ایک گھر میں جمع کردیا جائے اور ایک مسلح لشکر ان پر مسلط کیا جائے تاکہ یہ لوگ تین دن کے اندر اپنے درمیان سے کسی کو خلیفہ کے عنوان سے منتخب کر لیں ، ورنہ ان سب کو قتل کر دیا جائے!!
یہ طریقہ کارنہایت ہی حیرت انگیز ہے،اس کے متعلق بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں، اور ایک تحقیق کرنے والا ذہن اس کے جواب کا متلاشی رہتا ہے ۔
تاریخ کے اس اہم واقعہ کے اطراف و جوانب کی تحقیق کے لئے ہم اہل سنت کی مقبول کتابوں سے استناد کرتے ہوئے اس کے چند زاویوں پربحث کریں گے:
۱۔ خلیفہ دوم کا حکم ۔
۲۔ حضرت عمر کی موت اور شوریٰ کی تشکیل ۔
۳۔ اس کا رد عمل ۔
۴۔ تحلیل اور تحقیق ۔
پہلی بحث: خلیفہ دوم کا فرمان
جب خلیفہ دوم زخمی ہو گئے اور بسترمرگ پر پہنچ گئے ، تو ان سے کہا گیا : اے امیرالمومنین !کاش آپ اپنے بعد کسی کو خلافت کے لئے انتخاب کرتے ! تو انہوں نے جواب دیا : کس کو خلیفہ معین کروں؟ ہاں؛ اگر ابوعبیدہ جراح زندہ ہوتا اس کی تائید کر دیتا ، اگر خدا اس کا سبب معلوم کرتا تو کہہ دیتا : کہ میں نے پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے ابوعبیدہ کے بارے میں سنا تھا کہ آپ نے فرمایا:” وہ اس امت کے امین ہیں“، اور اگر حذیفہ کا آزاد کردہ غلام سالم زندہ ہوتا تو اس کو خلیفہ بنا دیتا ، اور اگر اللہ اس کا سبب پوچھتا تو کہہ دیتا کہ میں نے تیرے پیغمبر سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا : ” سالم خدا سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے“ (۱) ۔
کسی نے کہا کہ اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر کو منتخب کر دو ، تو عمر نے جواب میں کہا : خدا تجھے موت دے ، تونے اس مشورے میں خدا کو مد نظر نہیں رکھا ؛ کس طرح میں اس شخص کو خلیفہ بنا دوں جو اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا (بے ارادہ اورکمزور انسان ہے) ۔
پھر انہوں نے کہا کہ میںاس بارے میں غور کروں گا ،اگر میں خود کسی کو خلیفہ مقرر کردوںتو کوئی حرج نہیںہے،کیونکہ جو مجھ سے بہتر تھا (ابوبکر کی طرف اشارہ ہے) اس نے بھی یہی کیا تھا ۔ اور اگرمیں لوگوں کے لئے کسی کو خلیفہ نہ بھی بناؤں (اور انہیں آزاد چھوڑ دوں ) تو بھی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ جومجھ سے بہتر تھا (پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم)کی طرف اشارہ ہے ) اس نے بھی یہ ہی عمل انجام دیا تھا؛ بہرحال خدا اپنے دین کو تباہ نہیں ہونے دیگا ۔
کچھ دن کے بعد پھر عمر کے پاس آئے ، اورخلافت کے لئے کسی شخص کی تائید کا مطالبہ کیا ،تو انہوں نے کہا : ” قد کنت اجمعت بعد مقالتی لکم ان انظر فاولی رجلا امرکم ھو احراکم ان یحملکم علی الحق(و اشار الی الحق)“۔تم لوگوں سے بات کرنے کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ میں تمہارے امور کی زمام ایسے شخص کے حوالے کروں جو تم کو بہترین طریقہ سے حق کی طرف لے جاسکے، اور اس وقت علی (علیہ السلام ) کی طرف اشارہ کیا)
اس کے بعد کہا : لیکن میں خلافت کو تمہارے اوپر زبردستی تھوپنا نہیں چاہتا ( کسی خاص شخص کی تائید نہیں کرتا) ۔ لیکن میں تمہیں ایک گروہ کی طرف راہنمائی کرتا ہوں یہ افراد وہ ہیں جن کے بارے میں رسول خدا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا: ”یہ لوگ اہل بہشت ہیں “۔ میں ان لوگوں میں سے تمہارے لئے چھے افراد کا انتخاب کرتاہوں اور وہ یہ ہیں” علی ، عثمان ، عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص ، زبیر بن عوام اور طلحة بن عبید اللہ “ ان افراد میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ، جب یہ لوگ اپنے درمیان سے کسی کو والی منتخب کر لیں ، تو تم لوگ اس کا تعاون اور مدد کرنا ۔
پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے چچا جناب عبا س نے علی(علیہ السلام) سے کہا: ”اے علی تم ان کے ساتھ اس شوری میں شامل مت ہونا “تو علی (علیہ السلام ) نے جواب میں فرمایا: ” میں اختلاف اور تفرقہ کو پسند نہیں کرتا“ جناب عباس نے فرمایا: اگر آپ نے اس شوریٰ میں شرکت فرمائی تو دل آزار چیز کا سامنا کرنا پڑے گا“۔
صبح کو عمر نے علی ، عثمان، عبدالرحمن بن عوف، اور زبیر کو بلوایا( اس وقت طلحہ مدینہ میں نہیں تھا) اور ان سے کہا: میں نے غور فکرکیا اور تم لوگوں کو قوم کا بزرگ پایا ہے؛ اس لئے امر خلافت تم لوگوں کے درمیان ہی رہنا چاہیے ، جب رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) دنیا سے گئے تو وہ آپ لوگوں سے راضی تھے ۔اگر تم لوگ متحد رہے تو مجھے تمہارے لئے لوگوں سے کوئی خوف نہیں ہے، لیکن اگر تم نے اختلاف کیا تو مجھے تمہارے متعلق خوف رہے گا،اس لئے کہ اس کی وجہ سے لوگوں میں اختلاف ہو جائے گا ۔ اس کے بعد عمرنے ان کو حکم دیا کہ جاؤ اور مشورہ کرو ۔
لہذا یہ لوگ چلے گئے اور شوریٰ میں بیٹھ گئے، آہستہ آہستہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگی ، اس وقت عمر نے کہا: اب تم اس کو چھوڑ دو اور جب میں دنیا سے چلا جاؤں تو تمہارے پاس مشورہ کرنے کے لئے تین دن ہونگے ، ان تین دنوں صھیب لوگوں کو نماز پڑھائے گا ،اور چوتھا دن ہونے سے پہلے تم اپنے امیر کا انتخاب کر لینا ۔اس مدت میں عبد اللہ بن عمر بھی مشورے میں تمہارے ساتھ رہے گا، لیکن اس کو امر خلافت میںدخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہوگا،لیکن طلحہ تمہار ا شریک رہے گا اگر طلحہ ان تین دنوں میں آجائے تو اس کو بھی داخل ہونے کی اجازت دینا ۔اگر طلحہ نہ آئے تو پھرتم ہی اس کا فیصلہ کرلینا ۔اس کے بعد کہا : میں گمان کرتا ہوں کہ خلافت کی ذمہ داری علی(علیہ السلام) اورعثمان دونوں میں سے کسی ایک کو ملے گی،اگر زمام خلافت عثمان کے ہاتھ میں آئی تو عثمان نرم مزاج آدمی ہے ( لہذا عثمان خلافت کے لئے مناسب نہیں ہے) اور اگر خلافت علی کو ملی تو علی شوخ مزاج (ہنسی مذاق کرنے والے ہیں) ہے ۔ لیکن خلافت کے لئے مناسب ترین وہ آدمی ہے جو لوگوں کو حق کے راستے پر گامزن رکھ سکے ۔اگر یہ لوگ سعد کو چن لیں تو وہ خلافت کے لئے زیادہ مناسب ہے، لیکن اگر سعد کا انتخاب نہ ہوا تو پھر منتخب ہونے والا سعد کی مدد ضرور حاصل کرے،اور عبدا لرحمن بن عوف بھی سمجھدار ،ہوشیار اور اچھی فکر کا حامل ہے، ا للہ اس کا نگہبان ہے! تم اس کی باتوں کو سننا(۲) ۔
چند دیگر نکات:
۱۔ دینوری کی روایت کے مطابق حضرت عمر نے یہ بھی کہا :” اگر ابوعبیدہ جراح یا سالم زندہ ہوتے تو میں ان کو خلیفہ بنا دیتا“ ۔ خالد بن ولید کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ” اگر خالد بن ولید زندہ ہوتا تو میں اس کو مسلمانوں کے لئے والی قرار دیتا“اس لئے کہ رسول خدا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اس کو اللہ کی شمشیروں میں ایک شمشیر شمار کیا تھا ۔
۲۔ عبد اللہ بن عمر نے نقل کیا ہے کہ عمر نے اصحاب شوریٰ سے کہا : اگر وہ علی (علیہ السلام )کو خلیفہ بنا دیں تو وہ لوگوں کو اللہ کے راستے پر لے جائیں گے ، چاہے ان کی گردن پر تلوار ہی کیوں نہ رکھ دی جائے ۔عبد اللہ نے کہا: تم جب اس بات کو جانتے ہو تو پھر علی کو خلیفہ کیوں نہیں بناتے ؟ عمر نے جواب میں کہا : اگر میں علی کو خلیفہ بنا دوں تو اس کی پیروی کروں گا جو مجھ سے بہتر تھا ( ابوبکر کی طرف اشارہ ہے)اور اگر کسی کی تائید نہ کروں تو بھی کوئی بات نہیں ہے کیوں کہ ان کی پیروی کرونگا جو مجھ سے بہتر تھے (پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف اشارہ ہے) اس لئے کہ انہوں نے بھی کسی کی تائید نہیں کی تھی(۴) ۔
۳۔ ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے کہ طلحہ بھی اس وقت مدینہ میں حاضر تھا، عمر نے ان چھ لوگوں کو بلایا اور کہا:” میں تم لوگوں میں ایک شوریٰ بناتا ہوں تاکہ تم اپنے درمیان سے کسی ایک کو خلافت کے لئے انتخاب کرو ۔“
اس کے بعد ان سے کہا:”میں جانتا ہوں کہ تم میںسے ہر ایک خواہش مند ہے کہ میرے بعد خلیفہ ہو جائے “ سب خاموش رہے،عمر نے اس جملہ کو دوبارہ دہرایا ، اس وقت زبیر نے جواب دیا : ہم تجھ سے کم نہیں ہیں نہ دین کے حوالے سے کم ہیں اور نہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسم ) سے قرابت کے حوالے سے (۵) ۔
پھر عمر نے ان میں سے ہر ایک کے عیب بیان کرنے شروع کئے :زبیر کے بارے میں کہا ” تو ایک دن انسان اوردوسرے دن شیطان بنتا ہے ۔“
طلحہ سے کہا : جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) دنیا سے گئے توتجھ سے ناراض تھے ، تیرے اس جملہ کی وجہ سے جو تونے آیت حجاب کے نازل ہونے کے بعد کہا تھا ۔(۶)
سعد ابن ابی وقاص سے کہا: ” تو جنگجو آدمی ہے ( خلافت تیرے لئے مناسب نہیں ہے)،قبیلہ بنی زہرہ ( سعد کے قبیلہ کی طرف اشارہ ہے) کجا اور خلافت کجا؟“
عبد الرحمن بن عوف سے اس طرح کہا : اگر مسلمانوں کے آدھے ایمان کو تیرے ایمان سے تولا جائے تو تجھے ان پر برتری مل سکتی ہے لیکن خلافت کمزور آدمی کو کبھی نہیں ملتی ۔“
ٓاس کے بعد علی (علیہ السلام ) کی طرف رخ کیا اور کہا:” تمہاری کمی یہ ہے کہ تمہارے مزاج میں شوخی پائی جاتی ہے، اگر تم لوگوں کے والی بن گئے تو ان کو راہ حق ، واضح اور روشن شاہراہ کی ہدایت کروگے ۔“
آخر میں عثمان سے کہا :گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ قریش نے خلافت تیرے ہاتھ میں دے دی ہے اور تو بنی امیہ کو لوگوں کے سروں پر سوار کر رہا ہے اور بیت المال ان کے حوالے کر رہا ہے (اور مسلمانوں کی شورش کی وجہ سے ) عرب کے بعض بھیڑیے تجھے بستر میں قتل کر رہے ہیں ۔(۷)
یقینا حیرت کی بات ہے کہ عثمان اس عظیم مشکل کے باوجود جس کی طرف عمر نے بھی اشارہ کیا ، خلیفہ بنا دیئے جاتے ہیں، اور علی کو ایک معمولی بہانے (شوخ مزاج ) سے الگ کر دیا جاتا ہے ، (جبکہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے) ۔
۴۔عبد اللہ ابن عمر کا بیان ہے : عثمان ، علی (علیہ السلام)، زبیر ، عبد الرحمن بن عوف اور سعد ، عمر کے پاس آئے ، انہوں نے ان لوگوں کو دیکھا اور کہا: میں نے لوگوں میں خلافت کے لئے تمہاری طرف رخ کیا ہے ، تاکہ وہ اختلاف کا شکار نہ ہوں ۔مگر یہ کہ تم خود ان کو اختلاف سے دوچار کرو ۔
اس کے بعد مزید کہا : تم تینوں (عثمان، عبد الرحمن اور علی )اپنے آپ میں کسی ایک کو منتخب کرلو، اور اس وقت عثمان سے کہا ” اگر تو خلیفہ ہو گیا تو اپنے رشتہ داروں کو لوگوں پر سوار مت کرنا“ ۔ اس کے بعد عبد الرحمن کی طرف رخ کیا اور کہا کہ ” اگر تو خلیفہ بن گیا تو اپنے رشتہ داروں کو لوگوں پر مسلط نہ کر نا، “اور آخر میں علی( علیہ السلام ) کی طرف متوجہ ہو کر کہا :” اگر تم خلافت تک پہنچ جاؤ تو بنی ہاشم کو لوگوں پر مسلط نہ کر نا“ (۸) ۔
۵۔ دینوری نے نقل کیا ہے، حضرت عمر نے عبد الرحمن کی منقصت میں اس طرح کہا : ” تو اس امت کا فرعون ہے“۔ طلحہ کے بارے میں کہا:” طلحہ متکبر اور مغرور قسم کا آدمی ہے، اگر یہ خلافت تک پہنچ گیا تو خلافت کی انگوٹھی اپنی بیوی کو پہنا دیگا“۔ ( اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کا تابع ہے ) (۹) ۔
خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ
عمر نے اعضاء شوری کے انتخاب کے بعد ابو طلحہ انصاری سے کہا :” پچاس مسلح افراد کا انتخاب کر و اس کے بعد شوری کے افراد کو کمرے میں داخل کردو ،تاکہ وہ اپنے درمیان کسی ایک کو خلیفہ چن لیں“۔اس کے بعد کہا : تم ان کے سروں پر کھڑے رہنا اگر ان پانچوں نے اپنے آپ میں کسی ایک کو منتخب کر لیا اورکوئی ایک اس کی مخالفت کرے تو اس کے سر کو جسم سے جدا کردینا ، اور اگر چار آدمی کسی کا نتخاب کریں اور دو مخالفت کریں تو دونوںکی گردن مار دینا، اور اگر تین آدمی ایک طرف اور تین دوسری طرف ہو جائیں تو عبداللہ ابن عمر کو حکم قرار دینا ،جس گروہ کا وہ انتخاب کرے دوسرا اس کو قبول کرلے، اگر اس کو قبول نہ کریں تو تم اس گروہ کی طرف ہو جانا جس میں عبد الرحمن بن عوف شریک ہو ، اگر باقی تین لوگ مخالفت کریں تو ان کو قتل کر دینا (۱۰) ۔
بلاذری نے اس طرح نقل کیا ہے : عمر نے ابو طلحہ انصاری سے کہا:ان لوگوں کے پاس تین دن سے زیادہ خلیفہ بنانے کا وقت نہیں ہے، ان تین دنوں تک صھیب لوگوں کو نماز پڑھائے، اگر ان تین دنوں میں طلحہ آجائے تو اس کو ان کے ساتھ کر دینا ورنہ یہ پانچ افراد ہی خلیفہ معین کرینگے (۱۱) ۔
علی ( علیہ السلام )کی پیشین گوئی ، عمر کی موت اور تشکیل شوریٰ
بلاذری نے نقل کیا ہے کہ عمر کے دنیا سے گزر جانے کے بعد علی (علیہ السلام ) نے اپنے چچا عباس سے عمر کے بیان کے بارے میں کہا : اگر شوری کے افراد برابر سے دو گروہ میں تقسیم بھی ہو جاتے ہیں تو بھی عبد الرحمن انہیں کے ساتھ ہے ” (آپ نے ناراضگی کا اظہار کیاد اور فرمایا): واللہ لقد ذھب الامر منا ، خدا کی قسم ! امر (خلافت ) ہمارے ہاتھوں سے چلا گیا ۔ عباس نے کہا : آپ یہ کس لئے فرما رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :” سعد بن ابی وقاص اپنے چچا زاد بھائی (۱۲ ) عبد الرحمن کی کبھی مخالفت نہیں کریگا ، اور عبد الرحمن عثمان کا داماد ہے آپس میں اختلاف نہیں کرینگے ۔(۱۳)، اگر طلحہ اور زبیرمیرے ساتھ بھی رہیں تو بھی ہمیں کوئی فایدہ نہیں ہوگا ( چونکہ عبد الرحمن کا وجود ان کے ساتھ ہوگا)(۱۴) ۔
دوم : عمر کی موت اور شورا کی تشکیل
عمر کی موت کے بعد جب اس کو سپرد خاک کر دیا ، اراکین شوری ایک گھر میں جمع ہو گئے ، ابو طلحہ انصاری ان کی دیکھ بھال کر رہا تھا، طلحہ اس وقت مدینہ میں نہیں تھا ۔
عبد الرحمن بن عوف نے اعضاء شورا سے کہا : تم میں سے کون اپنے آپ کو الگ کرنے پر تیار ہے، تاکہ جو تم میں سے برتر ہے اس کو منصب ولایت مل جائے ؟
کسی نے اس کا جواب نہیں دیا ، اس نے خود کہا : میں اپنے آپ کو الگ کرتا ہوں ۔
پھر کچھ باتوں کے بعد زبیر سے کہا کہ کسی کو ووٹ دو ،اس نے کہا کہ میں علی (علیہ السلام) کو ووٹ دیتے ہوئے اپنے آپ کو الگ کرتا ہوں، اس وقت عبد الرحمن نے سعدبن ابی وقاص سے کہا کہ اپنا ووٹ مجھے دیدے ، کچھ گفتگو کے بعداس کو اس بات پر راضی کر لیا ۔ اب عبد الرحمن کے پاس دو ووٹ ہو گئے ( ایک اپنا ووٹ اور دوسرا سعد کا ووٹ )اس کے بعد عبد الرحمن نے عثمان اور علی (علیہ السلام )کے ساتھ بات کی تاکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کومنصرف ہو نے پر راضی کرے ، بہت دیر تک علی (علیہ السلام ) کے ساتھ گفتگو کرتا رہا، اس کے بعد عثمان کے ساتھ کافی دیر مشورہ کرتا رہا ۔
صبح کو (نماز صبح کے بعد) عبد الرحمن نے مھاجرین ، اسلام میں سبقت کرنے والے فراد ، انصار کے بزرگوں اورلشکر کے سرداروں کو بلوایا، مسجد لوگوں سے لبریز ہو گئی ، عبد الرحمن نے حاضرین سے کہا: مختلف شہروں سے آئے ہوئے لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے وطن واپس چلے جائیں، لیکن واپس جانے سے پہلے وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا امیر کون ہے ۔
سعید بن زید (۱۵)نے کہا : ہم تم کو خلافت کے لئے بہتر سمجھتے ہیں، عبد الرحمن نے کہا اس کے علاوہ کوئی اور کچھ کہے، عمار نے کہا : ”ان اردت الا یختلف المسلمون فبایع علیا “؛ اگر چاہتے ہو کہ مسلمانوں میں اختلاف پیدا نہ ہو تو علی کی بیعت کر لو ۔
مقداد ابن اسود کھڑے ہوے اور کہا:” صدق عمار ان بایعت علیا قلنا سمعنا و اطعنا“؛ عمار نے سچ کہا ہے ، اگر تم علی کی بیعت کر لو تو ہم سمعا وطاعتا قبول کر لیں گے ۔
ابن ابی سرح (۱۶)نے کہا: ان اردت الا تختلف قریش فبایع عثمان ؛ اگر چاہتے ہو کہ قریش اختلاف نہ کریں تو عثمان کی بیعت کرو ۔
عبد اللہ بن ابی ربیعہ (۱۷) نے کہا : صدق ان بایعت عثمان قلنا سمعناو اطعنا؛ اس نے صحیح کہا اگر تم عثمان کی بیعت کرتے ہو تو ہم سمعا و طاعتا قبول کر لیں گے ۔
عمار یاسر نے ابن ابی سرح سے کہا : متی کنت تنصح المسلمین ؛ تو کب سے مسلمانوں کا خیر خواہ ہو گیا؟ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان کچھ گفتگو ہوئی اور عمار یاسر نے علی (علیہ السلام ) کی طرف داری میں باتیں کہیں ؛ اور کچھ قریش نے جناب عمار پر حملہ کیا، یہاں تک کہ سعد بن ابی وقاص نے عبد الرحمن سے کہا ” اس سے قبل کہ لوگ فتنہ و آشوب میں گرفتار ہو جائیں کام کو تمام کردے ۔
عبد الرحمن نے پہلے علی (علیہ السلام ) کو بلایا اور کہا: ” علیک عھد اللہ و میثاقہ لتعملن بکتاب اللہ و سنة رسولہ و سیرة الخلیفتین من بعدہ“تمہیں عہد الہی کو پورا کرنا ہوگا (جو میں تم سے عہد و پیمان لے رہا ہوں) کتاب خدا ،سنت رسول اور دونوں خلفاء کی سیرت پر عمل کرنا ہوگا ۔
امیر المومنین (علیہ السلام) نے جواب دیا” ارجو ان افعل و اعمل بمبلغ عملی و طاقتی ۔ امید کرتا ہوں ( کتاب خدا اور سنت رسول خدا کے علاوہ) اپنے علم و قدرت (اوراجتہا د ) کے ساتھ عمل کروں (نہ کہ دونوں خلیفہ کی سنت پر عمل کروں) ۔
اس کے بعد عبد الرحمن نے عثمان کو بلایا اور یہ ہی بات اس سے کہی، تو عثمان نے جواب میں کہا ” ہاں میں اسی طرح عمل کرونگا، لھذا عبد الرحمن نے ان کی بیعت کر لی (۱۸) ۔
دوسری روایت کے مطابق علی (علیہ السلام) نے صراحت کے ساتھ عبد الرحمن کے جواب میں فرمایا: بلکہ میں کتاب خدا، سنت رسول (ص) اور اپنی اجتہادی رائے کے مطابق عمل کرونگا؛ اس وقت عبد الرحمن نے عثمان سے کہا اور اس نے اس کی بات کو مان لیا ۔ اس درخواست کو عبد الرحمن نے تین بار پیش کی اور ہر بار علی (علیہ السلام ) نے یہی جواب دیا، اور عثمان نے اس کا مثبت جواب دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عبدالرحمن نے اپنا ہاتھ عثمان کے ہاتھ میں دے دیا اور کہا : السلام علیک یا امیرالمومنین (۱۹) ۔
تاریخ یعقوبی میں واضح تعبیر کے ساتھ بیان ہوا ہے: تاریخ یعقوبی کے مطابق ، علی (علیہ السلام ) نے عبد الرحمن کے جواب میں کہا : ” اسیر فیکم بکتاب اللہ و سنة نبیہ مااستطعت؛ جہاں تک مجھ میںطاقت ہے میں تمہارے درمیان کتاب خدا اور سنت پیغمبرکے مطابق عمل کروں گا“ ، لیکن عثمان نے عبدالرحمن کے جواب میں کہا: ”لکم ان اسیر فیکم بکتاب اللہ و سنتہ نبیہ و سیرة ابی بکر و عمر ؛ میں تمہارے درمیان کتاب خدا ، سنت پیغمبر اور ابوبکر و عمرکی سیرت پر عمل کرونگا“ اور یہ درخواست علی (علیہ السلام ) اور عثمان کے سامنے دو بار تکرار کی گئی اور دونوں نے وہی جواب دیئے ، تیسری مرتبہ علی (علیہ السلام ) نے فرمایا:” کتاب خدا اور سنت رسول کے ہوتے ہوئے کسی کی سیرت کی ضرورت نہیں ہے لیکن تو مجھ سے امر خلافت کو الگ کرنا چاہتا ہے“ ”ان کتاب اللہ و سنتہ لا یحتاج معھما الی اجیری احد ، انت مجتھد ان تزوی ھذالامر عنی “ ( اس کے بعد عبد الرحمن نے عثمان کی طرف رخ کیا اور اس بات کی تکرار کی عثمان نے قبول کرلی جس کے نتیجہ میں اس نے عثمان کی بیعت کر لی(۲۰) ۔
ایک روایت کے مطابق طلحہ بھی شوری کی نشت میں حاضر تھا ، عبد الرحمن بن عوف نے اعضاء شوریٰ سے کہا: تم اپنے امر کو تین لوگوں کے حوالے کردو، زبیرنے کہا : میں اپنا ووٹ علی (علیہ السلام ) کو دیتا ہوں، سعد نے کہا: میں اپنا ووٹ عبد الرحمن کے حوالے کرتا ہوں، طلحہ نے کہا کہ میں اپناووٹ عثمان کو دیتا ہوں، عبد الرحمن نے کہا: میں اپنے آپ کو خلافت سے الگ کرتا ہوں ، لیکن تم دونوں میں کون اپنے آپ کو خلافت سے الگ کرنے کو تیار ہے ؟؛ علی (علیہ السلام ) اور عثمان خاموش ہو گئے ، عبد الرحمن نے دونوں سے تنہائی میں گفتگو کی اور عہد و پیمان لیا کہ جس کو بھی وہ امیر بنادے دوسرا اس کی اطاعت کرے ( اورپھر اسی مکر وحیلے کے ساتھ ) عثمان کی بیعت کر لی ۔
سوم : رد عمل
عثمان کے انتخاب سے قریش کے اشراف اوربنی امیہ کے بزرگ لوگ خوش ہو گئے ، اس لئے کہ عثمان اسی قبیلہ سے تھا(۲۲) اور چونکہ اس نے پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے زمانہ اور اپنے مسلمان ہونے کے دوران کسی مشرک اور پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دشمن کو قتل نہیں کیا تھا ۔ اس لئے قریش کے مختلف قبیلے اس سے نارض نہیں تھے ۔لہذا نقل ہوا ہے کہ عبد الرحمن نے جس وقت خلافت کے اراکین اور بزرگ افراد سے مشورہ کیا تو پتہ چلا کہ اکثر لوگ عثمان کی جانب مایل ہیں ۔
اس خوشی کے آثار ابوسفیان کے کلام میں بھی ظاہر ہوئے ہیں اس نے ایک دن صراحت کے ساتھ عثمان سے کہا : ”صارت الیک بعد تیم وعدی ، فادرھا کالکرة، واجعل اوتادھابنی امیة، فانما ھو الملک ولا ادری ما جنة ولا نار“۔ قبیلہ تیم (ابوبکر) اور قبیلہ عدی(عمر ) کے بعد خلافت تم تک آئی ہے ، اب اس کو اپنے قبیلہ میں ایک گیند کی مانند گھماتے رہنا، اور اس کی بنیادیں بنی امیہ کو قرار دے، ( یاد رکھ) یہ صرف حکومت ہے (اسلامی خلافت نہیں)میں تو جنت و دزخ کو بھی نہیں مانتا ہوں (۲۴) ۔
مغیرہ ابن شیبہ ، جس کی دشمنی اہل بیت (علیہم السلام ) کے ساتھ روز روشن کی طرح واضح ہے، نے عبد الرحمن سے کہا: ” تم نے عثمان کی بیعت کرکے بہت اچھا کام کیا “ اورعثمان سے بھی کہا: ”لو بایع عبد الرحمن غیرک مارضینا ۔ اگر عبد الرحمن تمہارے علاوہ کسی اور کی بیعت کرتا تو ہم کبھی راضی نہ ہوتے“(۲۵) ۔
لیکن دوسری جانب علی( علیہ السلام ) اور دوسرے پاک و پاکیزہ مسلمان جیسے مقداد وغیرہ اس انتخاب سے ناراض تھے ۔طبری لکھتا ہے: جب عبد الرحمن ،عثمان کی بیعت کر چکا ، تو علی (علیہ السلام ) نے عبد الرحمن سے خطاب کیااورکہا: حبوتہ حبودھر، لیس ھذا اول یوم تظاھرتم فیہ علینا، فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون ، واللہ ما ولیت عثمان الا الامر الیک ۔ تمہاری یہ حرکت پہلی بار نہیں ہے کہ تم نے ہماری مخالفت پر کمر باندھی ہے، میں صبر کروں گا، اور اس کے سامنے اللہ کی مدد کا سہار لوں گا ۔ خدا کی قسم تونے خلافت عثمان کو نہیں دی ہے بلکہ تو یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے بعدخلافت کو تیرے حوالے کر دے ۔
عبد الرحمن نے جب یہ سنا تو اس نے آنحضر ت کو دھمکی دی اور کہا : ” لا تجعل علی نفسک سبیلا؛ مجھے کوئی قدم اٹھانے پر مجبور نہ کرو(اپنے قتل کا سبب نہ بنو)“۔
مقداد نے بھی اس حادثہ کے بعدکہا: ” ما رایت مثل ما اوتی الی اھل ھذا البیت بعد نبیھم ۔ میں کسی ایسے خاندان کو نہیں جانتا کہ نبی کے گزر جانے کے بعد اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیاہو ، جیسا برتاو اس خاندان کے ساتھ کیا گیا“۔
عبد الرحمن نے مقداد کو دھمکی دی اور کہا کہ اپنا خیال رکھ لوگوں میں فتنہ برپا نہ کر (۲۶) ۔
دوسری روایت کے مطابق ، جب عبد الرحمن نے عثمان کو خلیفہ معین کر دیا اور اس کی بیعت کرلی تو علی (علیہ السلام ) نے فرمایا:خدعة و ایما خدعة ؛ مکاری ، اور کیسی گندی مکاری تھی(۲۷) ۔
بلاذری لکھتا ہے: اصحاب شوری نے عثمان کی بیعت کر لی ، لیکن علی نے عثمان کی بیعت نہیں کی؛ عبد الرحمن نے علی (علیہ السلام )کی طرف رخ کیا اور کہا: ”بایع و الا ضربت عنقک؛ بیعت کر و ورنہ تمہاری گردن مار دوں گا“۔
اس کے بعد علی (علیہ السلام) اس نشت سے اٹھ کر چلے گئے ، اصحاب شوریٰ علی (علیہ السلام )کے پیچھے چلے اور ان سے کہا: ”بایع و الا جاھدناک؛ بیعت کرلو ورنہ ہم تم سے نبرد آزما ں ہو جائیں گے، اس دھمکی کے بعد علی (علیہ السلام ) واپس آ گئے اور عثمان کی بیعت کر لی(۲۸) (مترجم : یہ روایت ہمارے مکتب کے خلاف ہے) ۔
شوری کے واقعات کے بارے میں علی (علیہ السلام ) کا بیان
علی (علیہ السلام ) شوری کے واقعہ کے بارے میں سب سے پہلے یہ بیان فرماتے ہیں: ”حتی اذا مضی لسبیلہ جعلھافی جماعة زعم انی احدھم“انہی حالات میں دوسرا(خلیفہ دوم)بھی اپنی راہ لگااور(مرتے وقت)خلافت کو ایک جماعت (شوری)میں محدود کرگیااور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا ۔ اس کے بعد مزید فرماتے ہیں : ”“۔ فیا للہ و للشوری متی اعترض الریب فی مع الاول منھم، حتی صرت اقرن الی ھذہ النظائر!اے اللہ مجھے اس شوری سے کیا لگاؤ؟ ان میں کے سب سے پہلے (ابوبکر)کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں (اعضائے شوری)میں بھی شامل کرلیا گیا ہوں ۔
اس وقت آپ نے شوری کے ساتھ اپنی ہمراہی اوراس میں شامل ہونے کی وضاحت فرمائی : ”لکنی اسفقت اذ اسفوا، و طرت اذ طاروا“۔ مگر میں نے (اسلام کی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے ساتھ )یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک ہوکر پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں ۔
اس کے بعد امیرالمومنین ( علیہ السلام ) شوری کے نتیجہ کو روشن فرماتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”فصفا رجل منھم لضغنہ ، و مال الآخر لصھرہ،مع ھن و ھن“۔ ان میں سے ایک شخص تو کینہ و دشمنی کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسرا دامادی اور بعض نا گفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر (عثمان کی طرف)جھک گیا(۲۹) ۔
بعض مورخین کا بیان ہے، کینہ پرروری کی خاطر جس نے علی (علیہ السلام) سے روگردانی کی تھی وہ طلحہ تھا؛ لیکن بعض افراد معتقد ہیں کہ اس جلسہ میں طلحہ موجود نہیں تھا ، اس سے مراد سعد بن ابی وقاص ہے (۳۰) لیکن جو شخص رشتہ داری کی بنیاد پر عثمان کی طرف مایل ہوا وہ عبد الرحمن بن عوف تھا؛ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، عبد الرحمن کی شادی عثمان کی بہن ” ام کلثوم “ سے ہوئی تھی ۔
اور یہ جملہ ” مع ھن وھن “ نازیبا امور کی طرف اشارہ ہے جن کی تصریح نا ممکن ہے (۳۱) اور ممکن ہے اس جملے میں عبدا لرحمن کے ہدف کی طرف اشارہ ہو، جیسا کہ عثمان کوووٹ دینے کی وجہ حضرت علی (علیہ السلام) نے اپنے بیان فرمائی: عبد الرحمن کی رائے عثمان کے حق میں ا س لئے ہے تاکہ عثمان اپنے بعد خلافت عبدالرحمن کے حوالہ کردے
دوبارہ مسلمانوں کی مصلحت کا خیال کرنا
علی (علیہ السلام )چھے افراد کی شوریٰ کے میں خلیفہ نہ ہو سکے تو آپ نے اعتراض کرنے کے بعد عثمان کی بیعت کر لی؛ لیکن اس لئے نہیں کہ وہ منصب کے لئے موزوں تھا، بلکہ آپ نے بیعت ا س لئے کی تاکہ آشوب اور اندرونی مشکلات کے پیدا ہونے کا سد باب ہو جائے،اور اس طرح آپ نے اس امر میں مدد کرنے کا راستہ اختیار کیا ۔
علی (علیہ السلام ) نہج البلاغہ کے خطبہ ۷۴ میں اس کا پس منظر اس طرح بیان فرماتے ہیں:
ابن ابی الحدید معتزلی لکھتا ہے: عبد الرحمن اور بقیہ حاضرین جب عثمان کی بیعت کر چکے، تو سب سے پہلے علی ( علیہ السلام ) تھے جنہوں نے عثمان کی بیعت سے انکار کیا ، اور فرمایا:” میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں ، جس دن پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت باندھا تھا، کیا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے میرے علاوہ کسی اورکے ساتھ عقد اخوت پڑھاتھا ؟“ سب نے جواب دیا: نہیں! اس کے بعد آپ نے فرمایا: ” آیا میرے علاوہ کوئی ہے جس کے لئے پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے فرمایا ہو ”من کنت مولی فھذا مولاہ ؛ جس کا میں مولی ہوں اس کے یہ علی مولی ہیں “ سب نے جواب دیا : نہیں! پھر آپ نے فرمایا:” آیا میرے علاوہ کوئی ہے جس کے لئے پیغمبراکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے یہ ارشاد فرمایا ہو :انت منی بمنزلة ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی ؛ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ھارون کو موسی سے تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا“ سب نے جواب دیا نہیں: نہیں ۔
آپ نے سوال کیا:” آیا کوئی ہے جو پیغمبر کے نزدیک سورہ برائت کے ابلاغ کے لئے مورد اطمئنان تھا، جس کے بارے میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے ارشاد فرمایا ہو : اس سورہ کو ( منی میں مشرکوں کے درمیان ) میرے یا اس کے علاوہ جو مجھ سے ہے ، ابلاغ نہیں کرسکتا“ سب نے جواب دیا: نہیں ۔
آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ اصحاب رسول خدا ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) بارہا میدان جنگ سے فرار کرتے رہے ،لیکن میں نے کبھی فرار نہیں کیا؟ سب نے کہا : یہ صحیح ہے۔
آپ نے فرمایا: ہم میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے قرابت داری میںکون زیادہ نزدیک ہے؟سب نے کہا : آپ سب سے زیادہ نزدیک ہیں ۔ اس موقع پر عبدالرحمن بن عوف نے علی علیہ السلام کے کلام کو قطع کیا ، اور کہا :” اے علی لوگ عثمان کے علاوہ کسی پر راضی نہیں ہیں، اس لئے تم خود کو مشکل میں مت ڈالو اور اپنے لئے خطرہ (شمشیر)مول مت لو ۔ اس کے بعد عبد الرحمن نے پچاس آدمیوں کے گروہ کی طرف رخ کیا جس کا سردار ” ابوطلحہ “ تھا ، اور کہا: اے ابو طلحہ ! عمر نے تمہیں کیا حکم دیا تھا ؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے انہوں نے حکم دیا تھا کہ جو بھی مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرے اسے قتل کردینا ۔اس وقت عبد الرحمن نے علی ( علیہ السلام ) کی طرف رخ کیا اور کہا: اب تم بیعت کر لو ورنہ ہم عمر کے حکم کو آپ کے متعلق اجراء کریں گے!
علی (علیہ السلام ) نے فرمایا: لقد علمتم انی احق الناس بھا من غیری ؛ وواللہ لاسلمن ما سلمت امور المسلمین ولم یکن فیھا جورالا علی خاصة، التماسا لاجر ذلک و فضلہ ،و زھدا فیما تنافستموہ من زخرفہ و زبرجہ ؛ تم لوگ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہو کہ میں خلافت کے لئے سب سے زیادہ مناسب ہوں ( تم لوگ مجھے اپنے منافع کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہو ) لیکن خدا کی قسم جب تک مسلمانوں کے مصالح میرے سامنے ہیں، مجھ پر ستم بھی ہوتا رہے میں خاموشی اختیار کروں گا، اور اس طرح اپنے رب کی جانب سے اجر و ثواب سے سرفراز ہو تا رہوں گا،جبکہ تم لوگوں نے ایک دوسرے سے زر و جواہرات کی خاطررشتے بنائے ہیں، اور میں تمہارے مقابلہ میں تقوی اختیار کر رہا ہوں ، اس کے بعد آپ نے ہاتھ کو آگے بڑھایا اور بیعت کر لی (۳۲) ۔
یہ بات واضح ہے کہ علی (علیہ السلام ) منصب خلافت کو لشکر کشی یا جھگڑے سے حاصل کرنا نہیں چاہتے تھے (جبکہ یہ انکا حق تھا) آپ اپنے آپ پر ظلم و ستم کو برداشت کرسکتے تھے مگر کسی بھی قیمت پر مسلمانوں میں تفرقہ اور اسلام کی نابودی گوارا نہیں کر سکتے تھے ۔لیکن دوسری طرف علی علیہ السلام نے بیعت سے انکار کرکے اور اراکین شوری کے ساتھ احتجاج فرماکر اپنی حقانیت کو ایک بار پھر سے تاریخ میں ثبت کر دیا ، اور دوسری جانب بعض اصحاب کی دشمنی اور کینہ پروری کو ائندہ آنے والوں کے لئے واضح کر دیا ۔
طلحہ کا کردار
طبری اور ابن اثیر نے نقل کیا ہے کہ جس روز عثمان کی بیعت کی گئی ، طلحہ مدینہ میںوارد ہوا؛ اس سے کہا گیا کہ عثمان کی بیعت کرو! اس نے کہا : کیا تمام قریش عثمان پر راضی ہیں؟ انہوں نے کہا : ہاں تمام قریش اس پر راضی ہیں، اس وقت طلحہ عثمان کے پاس آیا اور کہا: کیا لوگوں نے تمہاری بیعت کر لی ہے؟ عثمان نے جواب دیا : ہاں ، طلحہ نے کہا : جیسا لوگوں نے کیا ہے میں بھی اس سے روگردانی نہیں کرسکتا ، اس کے بعد اس نے عثمان کی بیعت کرلی(۳۳) ۔
لیکن بلاذری لکھتا ہے : طلحہ ”سرات “ (۳۴) کے علاقے میں اپنے مال کی رسیدگی کے لئے گیا ہوا تھا ، اور عمر کے زخمی ہو نے کے بعد ایک آدمی کو بہت تیزی کے ساتھ ا اس ماجرے کی خبر دینے کے لئے بھیجا گیا ؛ طلحہ یہ خبر سنتے ہی تیزی کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوا ، لیکن طلحہ اس وقت پہنچا جب لوگ عثمان کی بیعت کر چکے تھے ،طلحہ یہ ماجرا دیکھ کر اپنے گھر میں بیٹھ گیا اور باہر نہیں آیا اور کہا: مثلی لا یفتات علیہ ولقد عجلتم و انا علی امری ؛میری موجودگی کے بغیر یہ فیصلہ نہیں ہونا چاہیے تھا،تم نے جلدی سے کام لیا ہے جبکہ میں کام سے گیا ہوا تھا ۔
جب عبد الرحمن اس واقعہ سے با خبر ہوا تو طلحہ کے پاس آیا ، اور اسلام کی عزت کو عظیم شمار کرتے ہوئے، تفرقہ سے پرہیز کرنے کے لئے کہا ( اور اس کو بیعت کرنے پر آمادہ کیا) (۳۵)۔
چھارم : نقد اور تحلیل
چھے آدمیوں کی شوری اور عثمان کے انتخاب کی روش کو مد نظر رکھتے ہوئے چند نکات قابل توجہ ہیں:
۱۔ خلیفہ دوم نے بستر مرگ پر اس بات کا اظہار کیا کہ اگر حذیفہ کا آزاد شدہ غلام زندہ ہوتا تو وہ اس کو خلافت کے لئے منتخب کرتے ۔ جب کہ انہوں نے اور ابوبکر نے سقیفہ کے روز انصار کے سامنے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ خلافت قریش اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے رشتہ داروں میں ہونی چاہیے، اور اس بنیاد پر سعد بن عبادہ کو خلافت سے الگ کر دیا تھا ، لیکن اس مقام پر وہ آرزو کر تے ہیںکہ کاش سالم زندہ ہوتا تو خلافت اس کو دے دیتے ،جبکہ سالم کے بارے میں مورخین اور علماء رجال نے وضاحت کی ہے کہ اسکا تعلق فارس سے تھا(۳۷) ۔
اس کے علاوہ جو فضایل ابوعبیدہ جراح اور سالم کے انہوں نے بیان کئے ہیں کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان فضایل کی خاطر خلافت ان کے سپر کر دیتے، یہ فضائل ان سے زیادہ علی( علیہ السلام) میں پائے جاتے تھے ،لیکن انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف نہیں کیا ، اور آپ کے لئے خلافت کی تایید نہیں کی ۔
اسی طرح اگر معیار خلافت ، لیاقت اور اسلام میں سبقت ہونا ہوتا(قومیت کو نظر انداز کرتے ہوئے)تو عمار یاسر بھی مجاھدین اور اسلام لانے میں سبقت رکھتے تھے ، جن کے والدین بھی سختی کے ساتھ شھید ہوئے،ان کا نام کیوں نہیں لیا گیا؟!
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ خلیفہ نے ان دونوں کا نام اس لئے پیش کیا تھا چونکہ یہ دونوں خلیفہ کے ساتھ سقیفہ میں موجود تھے، حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ خالد بن ولید کو بھی خلافت کے لئے مناسب سمجھتے تھے جبکہ خالد نے اسلام لانے والوں میں بھی سبقت نہیں کی، اور اس کے علاوہ مالک ابن نویرہ کا قتل اور اسی شب ان کی زوجہ کے ساتھ زناکا حادثہ بھی خالد کے ہاتھوںوجود میں آیا، جس نے حضرت عمر کو کافی غضبناک کیا تھا ، اور وہ چاہتے تھے کہ خالد کو رجم کیا جائے ،لیکن ابوبکر نے اس بات کی تائید نہیں کی (۳۹) ان تمام باتوں کے باوجود وہ اس کو خلافت کے لئے مناسب سمجھتے تھے!
۲۔ عمر حضرت علی (علیہ السلام ) کو منصب خلافت کے لئے موزوں سمجھتے تھے اور اس بات کے معتقد تھے کہ اگر علی کو خلافت مل جائے تو وہ لوگوں کو راہ حق سے منحرف نہیں ہونے دیں گے،لیکن اس کے باوجود انہوں نے یہ بہانہ کرتے ہوئے کہ وہ نہیں چاہتے کہ خلافت کو لوگوں پر تحمیل کریں ، یایہ بہانے کرتے ہوئے کہ علی (علیہ السلام) شوخ مزاج ہیں، آپ کی تائید کرنے سے پرہیز کیا ۔
اگر ہم انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ چونکہ خلیفہ دوم کا مزاج بہت زیادہ سخت اورکڑوا تھا، لہذا وہ کسی نرم اورخوش مزاج انسان کو پسند نہیں کرسکتے تھے،لیکن یہ بات واضح ہے کہ علی (علیہ السلام ) مسلمانوں کے لئے مہربان اور خوش رفتار تھے ، لیکن اس کے مقابلہ میں اسلام کے دشمنوں اور ظلم کرنے والوں کے ساتھ اسی طرح سخت مزاج اور جنگجو تھے ، آپ نے پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے زمانے میں اور اس کے بعد اپنی پانچ سالہ خلافت کے دور میں اپنے اس مزاج کا مظاہرہ کیا ، اور قرآن نے بھی اس بات کا حکم دیا ہے ۔
اس کے علاوہ ” خلافت کو لوگوں پر تحمیل نہ کرنے “کا بہانہ بھی قابل قبول نہیں ہے ، اس لئے کہ وہ خود اس سے پہلے سقیفہ کے واقعہ میں ابوبکر کی خلافت کو لوگوں پر تحمیل کر چکے ہیں ، جبکہ اکثر افراد، علی (علیہ السلام ) سے وابستہ تھے اور ان کی خلافت کا خیر مقدم کر رہے تھا ۔
۳۔سوال یہ ہے کہ اس خاص شکل کی شوری کس بنیاد پر تشکیل دی گئی؟ اگر اس کا معیار خلافت میں خداوند عالم کے حکم کے مطابق مشورہ کے ذریعہ عمل کرنا ہے ، تو پھر خلیفہ دوم کو چاہیے تھا کہ بزرگوں کے مشورے سے کسی ایک کے لئے خلافت کی تائید کردیتے ۔ نہ یہ کہ اس امر کو شوری کے سپرد کرتے ، اور وہ بھی چند افراد پر مشتمل شوری ۔
در حقیقت خلیفہ دوم کا یہ کام لوگوں کے مشورے پر عمل کرنے پر مبنی نہیں ہے؛بلکہ ایک ایسی ہیئت کا تشکیل دینا ہے جس میں اپنی رائے کے مطابق اپنے درمیان کسی کو خلیفہ بنا سکیں ،اور اس طرح کا مشورے کا اسلام سے کوئی ربط نہیں ہیں ۔
دوسری طرف اس شکل میں شوری کو تشکیل دینا ،نہ عام لوگوں کے انتخاب کی وجہ سے ہے اور نہ امت کے خبیر افراد کی طرف رجوع کرنا ہے، اگر ایسا ہوتا تو مہاجرین و انصار کے دیگر بزرگوں سے بھی مشورہ کیا جاتا ، اور چھ افراد میں اس کو محدود نہ کیا جاتا ۔
ان بعض افراد کے انتخاب کرنے کی بنیاد قبایلی اور قومی واقعات سے مشابہ ہے کسی کے لایق اور سزاوار ہونے سے مشابہ نہیں ہے ۔گویا کہ خلیفہ دوم تین بانفوذ قبیلوں یعنی بنی ہاشم، بنی امیہ اور بنی زہرہ کو اس شوری کے لئے منتخب کررہے ہیں ۔کیونکہ خود انہوں نے (بعض اقوال کے مطابق) شوری کے افراد کے بعض عیوب کا بیان کیا ہے جس سے ان کی لیاقت اورکمزوری ثابت ہوتی ہے ۔
مثلا زبیر کے بارے میں کہا : تو ایک دن انسان اور دوسر ے دن شیطان بن جاتا ہے، سعد بن ابی وقاص کوجنگجویا کار آزمودہ جنگی شمار کیا ، نہ یہ کہ وہ خلافت کے لئے موزوں ہے؛ اور عبد الرحمن کو یہ کہا کہ خلافت تجھ جیسے کمزور انسان کو نہیں ملنی چاہیے ،عثمان کو کہا کہ وہ بنی امیہ کو ان کے ظلم کی وجہ سے لوگوں پر مسلط کر دیگا، اور عمومی شورش کے سبب اپنے کو قتل تک پہنچا دیگا، اور طلحہ کو اس کی زوجہ کا مطیع شمار کیا ( ان کے ثبوت پہلے ذکر کئے جا چکے ہیں) ۔
۴۔ خلیفہ دوم کا یہ حکم کہ ان چھے افراد میں سے اگر کسی کو منتخب نہ کیا جائے توان کو قتل کردیا جائے یا اقلیت اگر اکثریت کی مخالفت کرے توان کو قتل کردیا جائے ،کسی بھی شرعی بنیاد پر نہیں تھا ۔
ممکن ہے کہ شوری کے اراکین کسی ایک کو بھی خلیفہ معین نہ کر سکیں ، توخلیفہ دوم کے لئے یہ ممکن تھا کہ اس صورت میں خلیفہ معین کرنے کے لئے کوئی دوسرا قدم اٹھاتے، نہ یہ کہ ان چھ افرادکے لئے جو اصحاب پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )بھی تھے قتل کا حکم صادر کرتے ۔
اس کے علاوہ اگر کوئی اراکین میں منتخب شدہ خلیفہ کی موافقت نہ کرے اور اس کی بیعت نہ کرے ، تو اس کی گردن کیوں قلم کی جائے ؟ اس لئے کہ بیعت نہ کرنا خلیفہ کے مقابلہ میں خروج کرنے کے مساوی نہیں ہے،جس طرح علی (علیہ السلام) کے دور خلافت میں بعض افراد جیسے سعد بن ابی وقاص ، عبداللہ بن عمر ، حسان بن ثابت اور زید بن ثابت نے بیعت نہیں کی اور علی (علیہ السلام ) نے ان کو آزاد چھوڑ دیا (۴۱) ۔
۵۔ خلیفہ دوم اراکین شوری سے کہتے ہیں : تم وہ افراد ہو جن سے پیغمبر ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) راضی تھے ، لیکن اس کے باوجود وہ طلحہ سے کہتے ہیں تونے حجاب کے بارے میں جو جملہ کہا تھا ، اس کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تجھ سے ناراض رہے اور دنیا سے اس حال میں گئے کہ تجھ سے ناراض تھے ،در حقیقت خلیفہ دوم اپنی پہلی گفتگو کو دوسرے جملے سے نقض کر رہے ہیں!
۶۔ خلافت کے مساوی ہونے کی صورت میں عبد الرحمن بن عوف کوحکم قرار دینابھی تعجب خیز ہے اس لئے کہ عبد الرحمن بن عوف کو یہ امتیاز کس بنیاد پر دیا گیا ، جبکہ ماضی میں عبد الرحمن بن عوف کبھی بھی فضائل میں علی (علیہ السلام ) کو نہیں پہنچ سکا ۔ اگر اس کا امتیاز ماضی میں اس کا جہاد ہے تو وہ ہرگز علی (علیہ السلام ) کے پایہ کو نہیں پہنچ سکتا ، علی(علیہ السلام) کا جہاد ہمیشہ سنگین رہا ہے ۔
۷۔ اراکین شوری کا انتخاب اس طرح کیا تاکہ علی (علیہ السلام ) کو خلافت سے محروم کردیا جائے، جیسا کہ خود علی (علیہ السلام) نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے ، اس لئے کہ ایک طرف سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمن بن عوف دونوں ایک قبیلہ سے تھے ، اور وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ متحد تھے ، دوسری جانب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے عثمان اور عبد الرحمن کے درمیان عقد اخوت باندھ دیا تھا (۴۲)، اور اس کے علاوہ عبد الرحمن عثمان کا داماد بھی تھا ۔
طلحہ چونکہ قبیلہ ”تیم “ سے تھا ، اوراسی قبیلہ سے خلیفہ اول تھا ، اس کے علاوہ ابوبکر کا داماد بھی تھا ،کیونکہ ام کلثوم ابوبکر کی بیٹی اور عایشہ کی بہن اس کی زوجہ تھی(۴۳) ، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قبیلہ کا رجحان اور اس کے علاوہ سقیفہ میں جو کچھ ہو چکا تھا اس کو مد نظر رکھتے ہوئے، طلحہ کبھی بھی علی (علیہ السلام) کی حمایت نہیں کر سکتا تھا، اس لئے صرف زبیر علی (علیہ السلام ) کی طرف مایل ہو سکتا تھا ،چونکہ کہ اس کی ماں (صفیہ ) بنی ہاشم سے تھی اوراس طرح وہ علی( علیہ السلام )کا پھوپھی زاد بھائی تھا ۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کے چچا جناب عباس نے علی (علیہ السلام) سے شوری میں داخل نہ ہونے کی درخواست کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے یہ لوگ کسی بھی حال میں خلافت علی (علیہ السلام ) کو نہیں دیں گے ۔
انہوں نے اس انداز سے شوری کو تشکیل دیا کہ خردمند افراد نے آغاز ہی میں پیشین گوئی کر دی تھی کہ خلافت کی رداء عثمان کے دوش پر ڈالی جائے گی .دلچسپ بات یہ ہے کہ خود خلیفہ دوم نے بھی عثمان کی خلافت کے لئے پیشین گوئی کی تھی!
ابن سعد کتاب ”الطبقات “ میں لکھتے ہیں: سعید بن عاص اموی کہتا ہے: میں ایک بار عمر کی خلافت کے دور میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان سے درخواست کی کہ میرے گھر کی زمین میں کچھ اضافہ کر دیں ۔ عمر اس کے اگلے دن میرے گھر آئے اور اپنے پیر سے اس نے ایک خط کھینچا، اور میرے گھر کی زمین میں کچھ اضافہ کردیا، میں نے کہا اے امیرالمومنین ! مجھے کچھ اور زمین دے دیجیے اس لئے کہ میرے اہل و عیال زیادہ ہیں! انہوں نے جواب دیا: ابھی تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے، لیکن میں تمہیں ایک راز کی بات بتاتا ہوں(سیلی الامر بعدی من یصل رحمک و یقضی حاجتک) بہت جلد میرے بعد وہ حاکم ہوگا جو تم سے رشتہ داری کی خاطر تیرے ساتھ رعایت سے کام لیگا اور تمہاری درخواست کے مطابق تمہیں عطاکریگا ۔
سعید اس کے بعد کہتا ہے : عمر کے دور تک میں صبر کرتا رہا، یہاں تک کہ عثمان شوری کے ذریعہ خلیفہ بن گیا ، اور اس نے میرے رشتہ دار ہونے کی رعایت کی اور مجھ پر بہت احسان کیا اور میرے مطالبہ کو پورا کردیا ۔
عثمان کا احسان سعید بن عاص کے ساتھ یہاں تک پہنچا کہ ولید بن عقبہ کو عزل کرنے کے بعد کوفہ کی تولیت اس کے سپرد کردی ۔ (۴۴)
یقینا حیرت کی بات یہ ہے کہ خلیفہ دوم اس طرح کی پیشین گوئی کر تے ہیں اور ایک منظم منصوبہ کے تحت عثمان کو خلافت تک لے آتے ہیں، اس لئے بہت سی روایات کے مطابق ابوبکر نے اپنے احتضار کے وقت عثمان کو بلایا تاکہ وہ خلافت کے بارے میں وصیت لکھے ابوبکر نے وصیت میں عثمان سے کہا:” لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم ، یہ وصیت ابوبکر نے مسلمانوں سے کی ہے ، اما بعد
ابوبکر اسی عالم میں بے ہوش ہو گئے ، عثمان نے یہ جملہ خود سے لکھا : اما بعد، فانی قد استخلفت علیکم عمر بن الخطاب ، ولم الکم خیرا ؛ میں عمربن خطاب کو تمہارے لئے خلیفہ قرار دیتا ہوں، میں نے تمہارے حق میں کسی بھی خیر اور بہتری سے غفلت نہیں کی ہے!
جس وقت عثمان نے ان جملوں کو لکھا ،ابوبکر کو ہوش آگیااور عثمان نے ابوبکر سے کہا کہ اس کو پڑھو! ابوبکر نے اس پورے نوشتہ کو پڑھا ۔اور تکبیر کہی اور کہا : میں سمجھتا ہوں کہ ( تم نے جلدبازی سے کام لیا اور عمر کا نام اس لئے لکھ دیاکہ )تم ڈر گئے تھے کہ اگر میں ہوش میں نہ آیا اور مرگیا تو لوگ اختلاف کے شکار نہ ہو جائیں، عثمان نے جواب دیا کہ جی ایسا ہی تھا، اس کے بعد ابو بکر نے عثمان کے حق میں دعا کی(۴۵) ۔
خلیفہ دوم ایک طرف تو عثمان کے نام کی تصریح نہیں کرتے ہیں تاکہ جانبداری کی تہمت نہ لگ جائے، لیکن دوسری طرف عثمان کی محبت اور احسان کا جو انہوں نے ان کے ساتھ سن ۱۳ ہجری میں کیا تھا اس کی تلافی ۲۳ ہجری میں کر رہے ہیں ۔ (ھل جزاء الاحسان الا الاحسان )
حضرت امیرالمومنین علی (علیه السلام) کو معلوم تها کہ خلافت آپ کو نهیں ملے گی لیکن پهر بهی آپ اس شوری میں گئے.
اس کی دو بهترین دلیلیں ہوسکتی ہیں :
(الف) امیر المومنین اپنے آپ کو خلافت اور امامت کے لئے موزوں سمجھتے تھے اور ضروری سمجھتے تھے کہ آپ اس مجلس میں شرکت کریں اوراپنی حقانیت کو دلیلوں کے ساتھ ثابت کریں ۔ اگر آپ شرکت نہ فرماتے تو ممکن تھا لوگ یہ کہہ دیتے ، چونکہ آپ خود کو اس منصب کے لائق نہیں سمجھتے تھے اس لئے شرکت نہیں فرمائی ۔ یا اگر وہ شرکت کر تے تو ہم انہیں خلیفہ قبول کر لیتے ۔یہ بات واضح ہے کہ علی (علیہ السلام) اس بات کو جانتے تھے کہ وہ جانشینی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے لئے سب سے زیادہ بہتر اور مناسب ہیں ، اور وہ اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے بعد روز اول سے لوگوں کی رہبری کے لئے آپ کا تقرر ہونا چاہیے ،( لیکن آپ کو برسوں تک اس منصب سے دور رکھاگیا)اور لوگوں کی رہبری کے لئے آپ اس اعلی منصب کو حاصل کریں، اور آپ کی جد و جہد نے ایک بار پھر آپ کو حقانیت کے ساتھ اس منصب تک پہنچا دیا۔ ساتھ ساتھ خلیفہ دوم اور شوری کے بعض منتخب افرادکی مکاری کو اس مقام سے محرومی کے ذریعہ روشن کر دیا ۔ آیندہ آنے والے افراد اس نکتہ کے ذریعہ جو تاریخ میں محفوظ ہے، فیصلہ کر سکتے ہیں ( کہ صاحبان حق افراد کون ہیں)
(ب) امیر المومنین نے اس مجلس میں اپنے حضور کو تفرقہ کا سد باب جانا ہے ، یعنی جس طرح آپ نے ماضی میں اب تک اسلامی وحدت اور اس کے مصلحتوں کو مد نظر رکھاہے اسی طرح امت مسلمہ کو تفرقہ اور اختلاف سے محفوظ اور متحد رکھنے کی خاطراس منتخب شوری میں آپ نے شرکت فرمائی۔
۹۔ قابل غور بات : عثمان اورامام علی (علیہ السلام) کے چاہنے والے وہاں پر موجود تھے؛ جیسا کہ ہم پڑھ چکے ہیں کہ وہی لوگ جیسے عمار یاسر اور مقداد جو کامیاب ترین صاحبان ایمان ،سابق الاسلام ، اور صاحبان افراد تھے ؛جو علی علیہ السلام کی طرفداری کر رہے تھے ، لیکن ان کے مقابل وہ افراد جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی آخری دم تک مخالفت کرتے رہے، مجبوراور مصلحتا اسلام لائے تھے ، جن میں بعض کے خون کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حلال قرار دیا تھا ، وہ لوگ عثمان کی طرفداری کر رہے تھے ۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس جماعت نے جو معاشرتی منصب سے دور تھی ، اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دشمن رہی ہے، علی (علیہ السلام) میںکیا دیکھا جس کی وجہ سے اس نے علی (علیہ السلام) کی خلافت کا انکار اورآپ کی مخالفت کی ، اور عثمان میں کون سی خاص بات نظر آئی کہ اچانک اس کی طرفداری کرنا شروع کر دی ؟ اس طرح کے سوالوں کے تاریخ نے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جوابات دیے ہیں ، عثمان کے دور خلافت میں قریش کے بزرگان کی خیانتوں اور غبن ، اور اس کے مقابلے میں دور خلافت امیر المومنین میں ان کا علی (علیہ السلام) سے نبردآزماں ہونا، ان کی بدنیتی سے پردہ اٹھا دیتا ہے ۔
اھل سنت کے معروف دانشمند اور نہیج البلاغہ کے برجستہ شارح ، خطبہ ۷۴ کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں: عثمان کی بیعت ایک میدان جنگ کی مانند ہے ، قریش کے قبایل (وہی افراد کہ جنہوں نے اسلام کے مقابلہ میں گھماسان جنگیں لڑی تھیں) اور ان افراد کے درمیان کہ جنہوں نے کمال ذوق اور شوق کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا۔جن لوگوں نے عثمان کے لئے خلافت کی راہیں ہموار کی تھیں اور اپنی بیعت سے اس کو قوت بخشی تھی، ان کے نزدیک خلافت قریش کی حکومت کے سوا کچھ نہ تھی ، ان کی نگاہ میں ایسا ہر گز نہیں تھا کہ خلافت ایک اسلامی حکومت ہے جو ضعیف و ناتواں افراد کی حمایت اور محروم افراد کا دفاع کرتی ہے۔
اس کے بعد موصوف فرماتے ہیں: وہ گفتگو جو ایک گھر کے باہر خلیفہ کے تقرر کے لئے اس اجتماع میں لوگوں کے درمیان ہوئی اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لوگوں کی اکثریت علی (علیہ السلام) کے ساتھ تھی اورصرف قریش کی وہ جماعت جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے جنگ کرتی آئی ہے ، علی (علیہ السلام) کی مخالف تھی۔
اس کے بعد ایک مختصر جملہ تحریر فرماتے ہیں” و بنفس العصبیة والحقد اللذین حاربوا بھما محمدا ، حاربوا بھما علیا؛ انہوں نے جس تعصب اور کینہ کے ذریعہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے جنگ کی تھی انہیں دونوں چیزوں کے ذریعہ علی (علیہ السلام) سے بھی جنگ کی اور ان کی مخالفت کی۔
شیخ محمد عبدہ اس گفتگو کو اس طرح نقل کرتے ہیں( جس کو ہم طبری کے حوالے سے نقل کر چکے ہیں) اور آخر میں تحریر فرماتے ہیں: آخر کار عبد الرحمن قرشی نے عثمان کی بیعت کر لی اور جس وقت عمار ناراض ہو کر اس جگہ سے اٹھے تو تمام قریش نے ان کی توہین کی اور انہیں خود سے دور کیا۔(۴۶)
۱۰۔ علی ((علیہ السلام)) کو خلافت سے محروم رکھنے،اور عثمان کو خلافت دینے میں عبد الرحمن بن عوف کی جال سازی نہایت ہی عیارانہ تھی ۔وہ اپنے کو تہمت سے بچانے کے لئے اور اپنے آپ کو جدا ثابت کرنے کے لئے پہلے علی ((علیہ السلام)) کو بلاتا ہے ، اور آپ کی بیعت کرنے کے لئے اس قسم کی شرط رکھتا ہے کہ اسے یقین تھا کہ آں حضرت اسے ہر گز قبول نہیں کریں گے؛یعنی شرط رکھتا کہ آپ (کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر عمل کرنے کے ساتھ) شیخین کی سیرت پر عمل کریں گے،اس لئے کہ عبد الرحمن بن عوف اس بات کو اچھی طرح جانتا تھا کہ شیخین کے دور خلافت میں آپ ہمیشہ ان کے عمل پر تنقید کرتے آئے ہیں ، اس کے علاوہ آپ اپنے آپ کو رسول خدا کی جانب سے منصوب سمجھتے ہیں، اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ علی (علیہ السلام) فضایل و مناقب کے حوالے سے ان سے بہت زیادہ برتر ہیںاوردونوں خلیفہ مشکل کے وقت آپ کی طرف رجوع کرتے تھے ، یہ ممکن نہیں ہے کہ افضل مفضول کی سیرت پر عمل کرے ۔
دوسری جانب عبدالرحمن بن عوف بخوبی واقف تھا کہ علی( (علیہ السلام)) ایک سچے انسان ہیں ، وہ خلافت کو حاصل کرنے کے لئے کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لے سکتے ؛ کہ آج عمر و ابوبرکی سیرت پر عمل کرنے کا وعدہ کر لیں اور بعد میں جب حکومت مل جاے اپنی رائے کے مطابق عمل کریں، جب عبد الرحمن بن عوف نے علی (علیہ السلام) سے منفی جواب سنا تو عثمان کو بلایا اور یہی شرط اس کے سامنے رکھی ، جیسے ہی عثمان نے مثبت جواب دیا فورا اس کی بیعت کر لی ۔ یہی وہ مقام ہے کہ جس کو علی (علیہ السلام) نے مکر و فریب کا نام دیا ہے۔
دو اہم نکتے :
پہلانکتہ : اگرچہ عثمان نے وعدہ کیاتھاکہ ابوبکراور عمر کی سیرت کے مطابق عمل کریں گے، لیکن تاریخ شاھد ہے کہ انہوںنے ایسا نہیں کیا ، اس کے علاوہ حکم بن ابی العاص اوراس کے بیٹے مروان جن کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے مدینہ سے جلا وطن کر دیاتھا ، ابوبکر اور عمر نے بھی ان کو (مدینہ) واپس آنے کی اجازت نہیں دی تھی ، لیکن عثمان نے (اپنے دور خلافت میں) ان کے ساتھ محبت کا برتاو کیا اور ان کو مدینہ واپس بلایا، اور ان کو ھدیے پیش کیٴے یہاں تک کہ مروان کو اپنا مشاور اعظم بنا لیا(۴۷) اس کے ساتھ ساتھ اپنے رشتے داروں کو بیت مال سے مال و ثروت عطا کئے اوراپنے خاندان کے نااھل افراد کو (حکومت میں) منصب عطا کئے ، اور گزشتہ سیرت پرعمل کرنے سے اعراض کیا۔(۴۸)
دوسرا نکتہ: علی (علیہ السلام) اس بات کے معتقد تھے کہ عبد الرحمن نے عثمان کی بیعت اسلئے کی تاکہ عثمان اپنے بعداس کو خلیفہ بنا سکے ، اور اس وقت آپ نے فرمایا تھاکہ ” واللہ کل یوم ھو فی شان ؛خدا ہر دن ایک نئی شان رکھتاہے “(۴۹) آپ کا اشارہ اس بات کی طرف تھاکہ خدا تجھے تیرے مقصد میں کامیاب ہونے کا موقع کبھی نہیں عطا کریگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ ہی دنوںکے اندر عثمان اور عبد الرحمن میں اختلاف ہوگیا، ابن عبد ربہ لکھتاہے کہ جب عثمان نے اپنے خاندان کے نااھل جوانوں کو شھروں کی گورنری کے لئے منتخب کیا اور ان کو بزرگوں کے اوپرفوقیت دی ؛ تو اس وقت عبد الرحمن پر اعتراض کیاگیاکہ یہ تیرے (غلط) فیصلے کا نتیجہ ہے ، عبد الرحمن نے کہا مجھے گمان بھی نہیں تھاکہ ایسا ہوجائے گا، اس وقت عبد الرحمن عثمان کے پاس آیا اور اس کو سرزنش کیا ،کہا میں نے تم کو خلافت اس شرط پردی تھی کہ تم ہمارے درمیان ابوبکراورعمر کی سیرت پرعمل کروگے؛ لیکن تم ان کی سیرت کی مخالفت کر رہے ہو، اورا پنے خاندان کی طرف خاص توجہ دے رہے ہو ،اور ان کو مسلمانوں پر مسلط کردیاہے!
عثمان نے جواب دیا: عمر نے اپنے رشتہ داروں کو اللہ کی خاطر حکومت سے الگ رکھا ، اور میں بھی اللہ کی خاطر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی ،بخشش اور عطا سے کام لے رہاہوں ۔( دونوں کا کام خدا کی خاطر ہے!!)
یہ سن کر عبد الرحمن ناراض ہو گیا اور کہا : ” للہ علی ان لا اکلمک ابدا“ میں خدا کے ساتھ پیمان باندھتا ہوں کہ ہر گز تمہارے ساتھ بات نہیں کروںگا ۔اور اس نے اسی طرح کیا اور مرتے دم تک عثمان سے بات نہ کی ، یہاں تک کہ جب وہ بیمار تھا اور عثمان اس کی عیادت کو گئے تو عبد الرحمن نے اپنے چہرے کو دیوار کی طرف پھیر لیا اور ان سے بات تک نہ کی (۵۰)
بلاذری نقل کرتاہے کہ عبدالرحمن نے مرنے سے پہلے وصیت کی کہ عثمان اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائے ، اس لئے عبد الرحمن کے مرنے کے بعد زبیر نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ بعض افراد کا کہناہے کہ سعد ابن ابی وقاص نے عثمان کی نماز جنازہ پڑھائی۔(۵۱)
۱۱۔جیسا کہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں علی ((علیہ السلام) ) نے اس بار بھی اپنے میل اوررجحان سے خلیفہ وقت کی بیعت نہیں کی ، در حقیقت آپ کی بیعت دھمکی کے سبب تھی ،اور آپ نے وحدت مسلمین کی حفاظت کی خاطر اس کو قبول فرما یاتھا۔اس بنیاد پرہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ علی ((علیہ السلام) ) میزان حق اورحدیث ثقلین کے کامل ترین مصداق ہیں، اور عثمان کی خلافت ناجایز خلافت تھی ،حیلے اور مکاری کی بنیاد پراس کو حاصل اور زور و زبردستی کے ساتھ اس کااجراء کیا گیا۔
۱۲۔چھ افراد پرمشتمل شوری کاوجود میں آنا اور عثمان کا منتخب ہونا تاریخ اسلام کاایک اہم مسئلہ ہے،جودقت اور تحقیق کا طلبگارہے ۔ خلیفہ دوم کے اس عمل کا پہلا نتیجہ یہ تھاکہ انہوں نے اپنے ان پانچ افراد کو علی (علیہ السلام) کاہم پلہ اورامر خلافت کے لئے شایستہ قراردیا۔اور اس کے بعد شوری کے باقی افرادکو چونکہ شوری کے اعضاء تھے ، اسلامی معاشرے میں اہمیت دی جانے لگی۔یہی وجہ ہے کہ علی ((علیہ السلام) )کے دور خلافت میں معاویہ نے زبیرکے نام ایک خط لکھا اور اس میں اس کوشام جانے کے لئے کہا تاکہ وہ اورشام والے خلیفہ کے عنوان سے اس کی سے بیعت کریں۔(۵۲)بعض جگہ تاریخ میں آیا ہے کہ معاویہ نے زبیر کو خط لکھا کہ میں نے تمہارے لئے اور تمہارے بعد زبیر کے لئے بیعت لے لی ہے ، اس لئے عراق کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دینا۔(۵۳)
دوسرا افسوس ناک نتیجہ جو عثمان کے انتخاب سے وجود میں آیا وہ یہ ہے کہ بنی امیہ کو بہت تقویت مل گئی ،جنہوں نے فتح مکہ کے بعد رسول اللہ سے دشمنی کی قسم کھائی تھی ، اور اسلام کی پرشکوہ فتح کے بعد ظاہرا وہ مسلمان ہوگئے تھے،اچانک ان کوطاقت مل گئی ،مروان بن حکم عثمان کامشاور اعظم بن گیا،اورمعاویہ کو شام میں پہلے سے زیادہ تقویت حاصل ہوگئی ، اوردوسرے افراد جیسے عبداللہ بن عامر اور عبد اللہ بن ابی سرح ، جو اسلام کی مخالف پارٹی میں تھے ،جن میںپیغبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے بعض لوگوںکے خون کو حلال قرار دیاتھااورانہوں نے خوف کی خاطر اسلام کو قبول کرلیا۔اور اسی طرح ولید ابن عقبہ جس کی مذمت میں سورہ حجرات کی چھٹی آیت نازل ہوئی (۵۴)،ایسے افراد کو مختلف شہروں کی گورنری مل گئی ۔اور اس کے مقابلے میں مشہور صحابی جناب ابوذر کو ربذہ کی طرف جلاوطن کردیاگیااورآپ اسی عالم غربت میں دنیاسے چلے گئے ۔(۵۵) اسی طرح دوسرے جلیل القدر صحابی عبد اللہ بن مسعود کو اذیت ، توھین ، ضرب اورگالیوں سے دوچارہونا پڑا۔ (۵۶)
خلیفہ دوم نے جبکہ اس بات کی پیش بینی کر رہے تھے کہ اگر عثمان خلیفہ بن گئے تو اپنے رشتہ داروں کو لوگوںپرمسلط کر دیں گے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے خلافت کے جال کو اس طرح بچھایاکہ عثمان کے علاوہ خلافت کسی اور تک نہ جا سکے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ بنی امیہ کا تقویت پانا ، اوراسی طرح جنگ جمل اور جنگ صفین کا پیش آنا ،ان سب کاایک نیتجہ یہ نکلتا ہے ، کہ ان تمام باتوں کے سبب علی (علیہ السلام) کی حکومت کمزور ہوگئی ، اس لئے کہ جنگ جمل کے موقع پر مروان بن حکم اوربنوامیہ کے دوسرے افراد موجود تھے ، اور معاویہ بھی طلحہ اور زبیرکوجنگ کے لئے تحریک کر رہا تھا۔
در حقیقت جنگ صفین کا ماحصل معاویہ کی بغاوت اور اس کا علی (علیہ السلام) کے مقابلہ میں لشکرجمع کرناتھا ،اور اسی جنگ کے قلب سے خوارج پیدا ہوئے اور جنگ نہروان اسی لیے در پیش ہوئی ، اوراس طرح ابن ملجم خارجی علی ((علیہ السلام)) کا قاتل بن گیا۔
امیر المومنین((علیہ السلام)) کی شھادت اور امام حسن( (علیہ السلام) )کے بعض اصحاب کی خیانت کاری کے نتیجے میں معاویہ کے لئے حملے اور لشکرکشی کا زمینہ فراہم ہو گیا اوراس طرح وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ،اور زمام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لی ، اور بنی امیہ کی حکومت کی بنیاد ڈال دی، جس کا بد ترین نتیجہ یہ ہو ا کہ اس کی حکومت کے خاتمہ پر یزید کی ولی عہدی وجود میں آئی ، اور امام حسین (علیہ السلام) کی شھادت ، کربلہ کا ماجراء ، مدینہ پرحملہ اورکعبے میں آگ کا لگنا وغیرہ در پیش ہوا۔
اگر کربلا اور عاشورا کی تاریخ کی تحلیل کی جائے تواس کا سلسلہ چھ افرادپر مشتمل شوریٰ پرختم ہوتا ہے، یعنی عثمان کے خلیفہ بننے کے سبب اموی محاذ قوی ہو گیا ، جس کے اثرات آج تک باقی ہیں، تاریخ اسلام کے جسم نازنین پر اس کا دیاہوا گہرا زخم آج بھی باقی ہے ، اور اس کے آثرات ابھی تک ختم نہیں ہو سکے۔
چھ افراد پر مشتمل شوری کی تشکیل کا جوفوری نتیجہ سامنے آیاوہ یہ ہے کہ عثمان کو خلافت مل گئی ،اس نے اپنے دور حکومت میں اپنے رشتہ داروں کوہرطرح نوازا، اور بنی امیہ کے محاذ کو قوی بنایا۔اور اس کے مقابلے میں جو نتیجہ طویل مدت تک باقی رہا وہ یہ ہے کہ آج بھی اسلام اور امت اسلام اس دردمیں مبتلا ہے ،اس کے علاوہ اہل بیت (علیھم السلام ) کی قوت کمزور ہوگئی، امیرالمومنین ((علیہ السلام)) پرحملہ ہوا، اور ابوسفیان ومروان کی اولادیں لوگوں کے جان و مال پرمسلط ہوگئیں،اور اسلامی اقدار پر حملے کرنے لگیں ۔
معاویہ کے دور میں حدیث سازی کا کام ، (۵۷)اور اس کے بیٹے یزید کے دور خلافت میںدین میں بہت سی بدعتوں کا ایجاد ہونا، علی ((علیہ السلام) ) کو ممبروں سے سب و شتم کرنا ، کربلا کا ہولناک واقعہ اور ان کی حکومت کی خراب کاری کے آثار ،مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا شگاف پیدا ہونا ، اور مختلف فرقوں کا وجود میں آنا یہ سب چھ افراد پر مشتمل شوری کے طولانی مدت والے نتایج ہیں ،جن سے امت اسلامی ہمیشہ متاثر رہی ہے اور اس نا مناسب انتخاب کے عذاب سے امت مسلمہ آج تک دو چار ہے ۔( ان نتایج کی تحقیق کے لئے ایک مستقل کتاب در کار ہے )۔
اس بحث کے خاتمے میں ہم ابن ابی الحدید معتزلی کابیان جو--”چھ افراد پر مشتمل شوریٰ“ کے بارے میں ہے پیش کرتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں ”فان ذلک کان سبب کل فتنة وقعت و تقع الی ان تنقضی الدنیا“؛ہر فتنہ جواب تک وجود میں ایا ہے اور دنیا کے خاتمے تک وجود میں آیٴیگا، اس کا سر چشمہ وہی شوریٰ ہے۔(۵۸)
خلاصہ اور نتیجه
اس مقالہ میں تاریخ اسلام کے ان سوالات کو زیر بحث لایا گیا ہے ، جو چھ افراد پر مشتمل شوری پر وارد ہوتے ہیں، جسے خلیفہ دوم نے اپنے بعد خلیفہ معین کرنے کی خاطر تشکیل دیا تھا۔یہ سوالات اس لئے پیدا ہوتے ہیں چونکہ خلیفہ دوم کا عمل معروف اصولوں کی بنیاد پر نہیں تھا، اس لئے کہ ان کا یہ عمل نہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کے عمل کے مطابق تھا اور نہ ہی خلیفہ اول کی سیرت کے مطابق تھا۔اس کے علاوہ اگر دقت سے دیکھا جائے تو اسلام اور عمل پیغمبر کی رو سے” مشورے“ کے مطابق بھی نہیں تھا اس لئے کہ اس صورت میں ضروری یہ تھا کہ خلیفہ دوم قوم کے بزرگ افراد سے مشورہ کرتے اور کسی فرد کو اپنے بعد خلیفہ معین کرتے(جبکہ انہوں نے ایسانہیں کیا)۔
۱۔ذہن میں ایک سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ خلیفہ دوم نے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چھ افراد کی شوریٰ کو کیوں معین کیا جبکہ دوسرے بزرگ اصحاب پیغمبر بھی موجود تھے ، وہ بھی اس شوریٰ میں شامل ہو سکتے تھے ۔
۲۔دوسری جانب اھل سنت کی معروف کتابوں سے یہ بات ثابت ہے کہ خلیفہ دوم نے شوریٰ کے اراکین کا اس طرح انتخاب کیا ، جس سے یہ پیش بینی ہو گئی تھی کہ علی (علیہ السلام) کو ہر حال میںحق خلافت سے محروم کر دیا جائے گا،اور خلافت عثمان کو ملیگی ۔ جبکہ تنھا علی ((علیہ السلام)) اور عباس نے پیش بینی نہیں کی تھی بلکہ اس سے پہلے حضرت عمر خود سعید بن عاص کو اس بات کی خوش خبری دے چکے تھے ۔!
۳۔خلیفہ دوم نے اس انتخاب کے ذریعہ عثمان کو اس کی محبت کی جزابھی دی اور اپنے آپ کو جانبداری کی تہمت سے محفوظ بھی کر لیا!
۴۔ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ خلیفہ دوم کا یہ حکم کہ ”اگر تین دن میں شوری کے چھ افراد خلیفہ معین نہ کر سکیں تو سب کو قتل کر دیا جائے ، اور اگراقلیت مخالفت کرے اور اکثریت موافقت تو اقلیت کو قتل کر دیا جائے“ مذھب کی کس بنیاد پر تھا ۔؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ دوم کا یہ حکم ان کی سخت مزاجی (جس کے تحت انہوں نے ساری زندگی گزاری ہے)کے سبب تھا، جو عقل و شرع کے مطابق ہرگز نہیں تھا۔
۵۔رائے برابر ہونے کی صورت میں عبد الرحمن کی رائے کو سب کی رائے پر برتری دینا۔دوسرے افراد کے لئے یہ ماجرا مبھم ہے ، شاید عثمان کے محاذ کو قوی بنانے کے لئے ہو۔
۶۔ عبد الرحمن کی سیاست اور حیلے کا مقصد علی(علیہ السلام) کو خلافت سے محروم اور عثمان کوخلافت سے نوازنا ، اوراس کے علاوہ خلیفہ دوم کے نقائص کو کمال میں تبدیل کرنا تھا، اس نے بیعت کے لئے اس طرح کی شرط لگائی کہ وہ جانتا تھاعلی(علیہ السلام) اس شرط کو ہر گز قبول نہیں کریں گے؛اس لئے کہ علی( (علیہ السلام) )نہ صرف یہ کہ ان میں سب سے زیادہ صاحب علم اور کتاب و سنت سے آگاہی رکھتے تھے، وہ جانتے تھے کہ ان کوکس طرح عمل کرنا ہے۔اس کے علاوہ آپ ہمیشہ گزشتہ دونوںخلفاء کی سیرت پر نقاد بھی رہے ہیں ، اور آپ ان کی سیرت پر عمل کرنے کی شرط کو ہرگز قبول نہیں کرسکتے تھے۔چنانچہ عبد الرحمن اس بات کو اچھی طرح جانتا تھا کہ علی (علیہ السلام)اصول اوراقدار کے پایبند ہیں اور دیگر سیاست مداروں کی طرح جھوٹا وعدہ نہیں کریںگے، کہ جھوٹے وعدے کے ذریعہ خلافت حاصل کریں اور منصب حاصل کرنے کے بعد اپنی راہ پر چلیں،اس طرح عبد الرحمن نے اپنی نجس سیاست کے ذریعہ علی (علیہ السلام) کو خلافت تک پہنچنے سے باز رکھا۔
۷۔جیساکہ امیر المومنین(ع) کے شوری میں داخل ہونے کی کیفیت کو بیان کیا جا چکا ہے ، اور یہ بھی بیان کیا گیا کہ آپ اپنے آپ کو اس منصب کے لئے حقدار سمجھتے تھے ، اس لئے آپ نے ضروری سمجھا کہ اس شوریٰ میں شرکت فر مائیںاوراپنی حقانیت کی دلیل پیش کریں،اس کے علاوہ آ پ کا اس شوری میں شریک ہو نے کا مقصد یہ بھی تھا کہ اسلامی معاشرے میں اتحاد باقی رہے ۔
۸۔ اس مقالے کے دوسرے حصے میں ہم نے عثمان اور علی (علیہ السلام) کے حامیوںکی تحلیل کی ہے؛ کہ عثمان کے بہترین طرفدار قریش کے وہ بزرگ افراد تھے جن کی دشمنی رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اسلام سے روز روشن کی طرح واضح رہی ہے، جو صرف خوف اور لالچ کی بنیاد پر اسلام لائے تھے۔وہ خلافت کوتنھا حکومت اور سلطنت جانتے تھے، نہ یہ کہ خلافت دین کی ترویج ، قرآن اورمعارف الھی کامر کز ہوتی ہے۔ لیکن علی (علیہ السلام) کے طرفدار سابق الاسلام ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کی راہ میں مصیبت و آزار برداشت کرنے اور اپنے دل و جان کو مکتب اسلام پر قربان کرنے والے افراد تھے ، اور خلافت کو ناامید اور مایوس افراد کی خدمت اور نشر اسلام کا ذریعہ سمجھتے تھے۔
۹۔مقالے کے خاتمہ میں بیان کیا گیاہے کہ چھ ادمیوں کی شوریٰ کی تشکیل کا مقصد ،عثمان کے دور خلافت میں بنی امیہ کے محاذ کو تقویت پہنچانا تھا،اوراس کی کم مدت اور طولانی مدت کے آثار کی تحلیل بھی بیان کی گئی ،جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کے بعد جو بھی فتنے وجود میں آئے ہیں ان کی جڑیں وہیں جا کر ملتی ہیں،اورامت اسلامی آج بھی اس شوری اور نامناسب انتخاب کے زخم اپنے سینے پر لئے ہے۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.