زیر نظر آیات میں حق کے طرفدارون کے اصلاحی طرز عمل کے جزئیات کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ یہ آیات گزشتہ آیات کی بحث کو مکمل کرتی ہیں ۔
زیر نظر پہلی آیت میں استفہام ِ انکاری کی صورت میں فرمایا گیا ہے : کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ تیرے پر وردگار کی طرف سے جو کچھ تجھ پر نازل ہوا ہے حق ہے ، اس شخص جیسا ہے جو نابینا ہے (اٴَفَمَنْ یَعْلَمُ اٴَنَّمَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ الْحَقُّ کَمَنْ ھُوَ اٴَعْمَی) ۔
یہ کیسی عمدہ تعبیر ہے ۔ یہ نہیں فرمایا کہ جو شخص جانتا ہے کہ یہ قرآن بر حق ہے کیا وہ اس کی مانند ہے کہ جو نہیں جانتا بلکہ فرمایا کیا جو جانتا ہے وہ اندھے کی طرح ہے ؟ یہ تعبیر ایک اس امر کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ اس حقیقت کو نہ جاننا کسی بھی طرح ممکن نہیں سوائے اس کے کہ انسان کے دل کی آنکھ بالکل بے کارہوچکی ہو ورنہ کیسے ممکن ہے کہ چشم بینا رکھنے والا رخ آفتاب نہ دیکھ سکے اور اس قرآن کی عظمت بالکل نورِ آفتاب کی مانند ہے ۔
اسی لئے آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے : صرف وہی لوگ نصیحت پاتے ہیں جو اولو الالباب ہیں اور صاحبان ِ فکر و نظر ہیں ( إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اٴُوْلُوا الْاٴَلْبَابِ) ۔
”الباب “ جمع ہے ”لب “ کی جو ہر چیز کے ”مغز“ کے معنی میں ہے ۔ اسی بناء پر” اولو الالباب “ کا متضاد بے مغز ، کھوکھلے اور وہ افراد ہیں جن کے اندر کچھ نہ ہو۔
بعض عظیم مفسرین کے بقول یہ آیت لوگوں کو حصولِ علم اورجہالت کا زیادہ سے زیادہ مقابلہ کرنے کی تاکید کرتی ہے کیونکہ اس میں بے علم اور دانش سے محروم افراد کو نابینا قرار دیا گیا ہے ۔
اس کے بعد ” اولو الالباب “ کی تفسیر کے طور پر صاحبانِ حق کے طرز عمل کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں سب سے پہلے ایفائے عہد کرتے ہیں اور پیمان شکنی نہیں کرتے ( الَّذِینَ یُوفُونَ بِعَھْدِ اللهِ وَلاَیَنقُضُونَ الْمِیثَاقَ) ۔
اس میں شخص نہیں کہ” عہد اللہ “( عہد الہٰی ) کا ایک وسیع مفہوم ہے ۔ اس میں فطری عہد و پیمان کہ جو خدا نے تضاجائے فطرت کے مطابق انسان سے لئے ہیں وہ بھی شامل ہیں ۔ مثلاً توحید اور حق عدالت سے انسان کی فطری محبت کا عہد ۔ اسی طرح عقلی عہد پیمان یعنی وہ عہد کہ جو غور و فکر سوچ بچار اور قوتِ عقل کے نتیجے میں ناگزیر ہو جاتے ہیں جیسے عالم ہستی اور مبداء و معاد کے حقائق کا ادراک انہیں غور و فکر کے نتیجے میں کرلیتا ہے ۔
اسی طرح اس میں شرعی پیمان شامل ہیں یعنی وہ پیمان جو پیغمبر نے مومنین سے لیا ہے کہ وہ احکام ِ خدا وندی کی اطاعت کریںگے اور اس کی نا فرمانی اور گانہ ترک کردیںگے ۔
یونہی وہ پیمان کہ جو انسان دوسرے انسانوں سے باندھتا ہے عہد الہٰی کے مفہوم میں شامل ہیں کیونکہ خدا ہی کا حکم ہے کہ یہ پیمان بھی پورے کئے جائیں بلکہ ایسے پیمان تشریعی بھی ہیں اور عقلی بھی ۔
اہل شعور کے لائحہ عمل کا دوسرا حصہ رشتہ ناتوں کی حفاظت اور پاسداری ہے ، جیسا کہ فرمایا گیا ہے : یہ وہی لوگ ہیں جو ان رشتوں اور رابطوں کو قائم کھتے ہیں جن کی حفاظت کرنے کا خدا نے حکم دیا ہے (وَالَّذِینَ یَصِلُونَ مَا اٴَمَرَ اللهُ بِہِ اٴَنْ یُوصَلَ ) ۔
اس سلسلے میں اس سے زیادہ وسیع تعبیر نہیں مل سکتی کیونکہ انسان کا تعلق خدا سے بھی ہے ، انبیاء سے بھی ہے ، اوررہبروں سے بھی ہے ۔ انسان کا رابطہ باقی تمام انسانوں کے ساتھ بھی ہے چاہے وہ دوست ہوں ، ہمسائے ہیں ، رشتہ دار ہوں ، دینی بھائی ہوں یا ہم نوع ہوں ۔
اس کا تعلق خود اپنے ساتھ ہے ۔ مندرجہ بالا حکم میں تمام رشتہ ناتوں کو محترم شمار کیاگیا ہے ۔ سب کا حق ادا کرنا چاہئیے اور ایسا کام انجام نہیں دینا چاہئیے جس سے ان میں سے کسی ایک سے تعلق منقطع ہونے تک جا پہنچے ۔
درحقیقت انسان ایک ایسا موجود نہیں جو دوسرے سے کٹ کر او رجدا ہو کررہ سکے بلکہ اس ک اوجود سر تا پا رشتے ناتوں ، تعلق اور رابطوں سے تشکیل پاتا ہے ۔
ایک طرف سے اس کا تعلق پیدا کرنے والے کی بارگاہ سے ایسا ہے کہ اگر یہ اسے منقطع کرلے تو نابود ہو جائے ۔ جیسے ایک بلب کا رابطہ اگر بجلی پیداکرنے والے مبداء سے کٹ جائے ۔ لہٰذا جیسے تکوینی لحاظ سے انسان اس عظیم مبداء سے تعلق رکھتا ہے چاہیئے کہ تشریعی اعتبار سے بھی اس کے ساتھ اطاعت کا رشتہ برقرار رکھے۔
دوسری طرف اس کا رشتہ پیغمبر اور امام سے رہبر، راہنما اور پیشوا کے حوالے سے ہے اور ارگ یہ رشتہ ٹوٹ گیا تو انسان بے راہ رو اور سر گرداں ہو جائے گا۔ تیسری طرف انسان کا ایک رشتہ پورے انسانی معاشرے سے بھی ہے خصوصاً ان افراد سے جو اس پر زیادہ حق رکھتے ہیں جیسے ماں ، باپ ، رشتہ دار ، دوستاور مربی۔
چوتھی طرف اپنی ذات سے بھی اس کا ایک تعلق ہے اس لحاط سے وہ اپنے مصالح کی حفاظت اور اپنی ترقی اور کمال تک پہنچنے کا ذمہ دار ہے ۔
در حقیقت ان تمام رشتوں اور رابطوں کو بر قرار رکھنا ”یصلون ماامر اللہ بہ ان یوصل“ کا مصداق ہے اور ان میں سے کسی کو منقطع کرنا“ ما امر اللہ بہ ان یوصل“ کو منقطع کرنا ہے کیونکہ خدا نے ان تمام کے ”وصل “ کاحکم دیا ہے ۔
جو کچھ ہم نے کہا ہے کہ اس سے ان احادیث کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے جو آیت کی تفسیر میں کبھی خاندان اور رشتہ داروں سے تعلق کو قائم رکھنے کاکہتی ہیں ، کبھی امام اور پیشوائے دین سے مر بوط رہنے کا کہتی ہیں ، کبھی آل محمد سے رابطے کا حکم دیتی ہیں اور کبھی تمام اہل ایمان سے تعلق کوکہتی ہیں ۔
مثلاً ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مر وی ہے کہ آپ سے ” الذین یصلون ما امر اللہ بہ ان یوصل“ کی تفسیر کے بارے میں سوا ل کیا گیا تو۔
فقال قرابتک
فرمایا : تیرے اپنے قریبی مراد ہیں ۔ ( نور الثقلین جلد ۲ ص ۴۹۴) ۔
ایک اور حدیث میں اما م صادق علیہ السلام ہی سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :
نزلت فی رحم اٰل محمد و قد یکون فی قرابتک
یہ جملہ آل محمد کے رشتے کے بارے میں ہے نیز تیرے اپنے قریبوں کے بارے میں بھی ہے ۔
یہ بات جاذب نظر ہے کہ اس حدیث کے آخر میں ہے کہ امام نے فرمایا:
فلاتکونن ممن یقول للشیء انہ فی شیءً واحد
تو ایسا شخص نہ ہو جا کہ جو آیت کے معنی کو ایک ہی مصداق میں منحصر کردے ۔ ( نور الثقلین جلد ۲ ص ۴۹۴) ۔
نیز ایک تیسری حدیث بھی اسی عظیم راہنما سے مروی ہے جس میں آپ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا :
ھو صلہ الامام فی کل سنة بما قل او کثر ثم قال وما ارید بذٰلک الا تزکیتکم
اس سے مراد مسلمانوں کے امام اور پیشوا سے ہر سال مالی امداد کے ذریعے رشتہ بر قرار رکھنا ہے چاہے وہ کم ہو یا زیادہ ۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا:
اس کام سے میری مراد صرف یہ ہے کہ تمہیں پا ک و پاکیزہ کروں ۔ (نور الثقلین جلد ۲ ص ۴۹۵) ۔
حامیان حق کا تیسرا اور چوتھا طرز عمل یہ ہے کہ ” وہ اپنے پر وردگا رسے ڈرتے ہیں اور قیامت کی عدالت کے حساب کی برائی سے خوف کھاتے ہیں (وَیَخْشَو نَ رَبّھُمْ وَیَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ ) ۔
اس سلسلے میں کہ” خشیت“اور ” خوف “ میں کیا فرق ہے جب کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ ” خشیت“ وہ خوف ہے جو دوسرے کے احترام اور علم ویقین کی بنیاد پر ہو ۔ لہٰذا قرآن میں یہ حالت علماء سے مخصوص شمار کی گئی ہے ۔ ارشاد الہٰی ہے :
انما یخشی اللہ من عبادہ العلمائ
بندگان خدا سے صرف علماء اس سے خشیت رکھتے ہیں ۔( فاطر۔ ۲۸) ۔
لیکن قرآن میں یہ لفظ جہاں جہاں استعمال ہوا ہے ان بہت سے مواقع کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ لفظ بالکل ” خوف“ کے مترادف کے طور پر آیا ہے اور اس کا ہم معنی ہے ۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیاپر وردگار سے ڈرنا اس کے حساب و کتاب اور عذاب و سزا سے ڈرنے کے علاوہ کوئی اور خوف ہے ، اور اگر ایسا ہے تو پھر ” یخشون ربھم “ اور ” یخافون سوء الحساب“ کے درمیان کیا فرق ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ خدا سے ڈر نا ہمیشہ او رلازما ً اس کے عذاب اور حساب کتاب سے ڈر نے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ یہ خوف اس کے مقام کی عظمت کا احساس ہے اور بندگی کی ذمہ دای کے سنگین ہونے کے خیال سے (یہاں تک کہ سزا اور عذاب کی طرف توجہ کے بغیر بھی یہ احساس پیدا ہو سکتا ہے )اہل ایمان کے دلوں میں یہ احساس خود بخود ایک خوف اور وحشت کی حالت پیدا کردیتا ہے ۔ وہ خوف جو ایمان کی پیدا وار ہے ، عظمت الہٰی سے آگہی کا نتیجہ ہے اور اس کی بار گاہ میں احساس ِ مسئولیت کی بدولت ہے ( سورہ ٴ فاطر کی آیہ ۲۸ ممکن ہے اسی معنی کی طرف اشارہ ہوا ) ۔
ایک اور سوال یہاں ”سوء الحساب “ کے حوالے سے سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ کیا قیامت میں واقعاً محاسبہ اعمال کے موقع پر بعض افراد کو ” بد حسابی“ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
گزشتہ چند آیات کے ذیل میں ہم اس سوال کا جواب ذکر کر چکے ہیں ۔ وہاں بھی بالکل یہی لفظ استعمال ہوا ہے ۔ وہاں ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس سے مراد کسی در گزر کے بغیر تمام جزئیات کا باریک بینی سے حساب لیا جانا ہے ۔ اصطلاحا ً جسے بال کی کھال اتارنا کہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک جاذب نظر حدیث بھی وارد ہوئی ہے جو وہاں بیان کی جاچکی ہے ۔
نیز جیسا کہ ہم نے وہاں کہا ہے کہ یہ احتمال بھی ہے کہ ”سوء الحساب “ سے مراد ایسا محاسبہ ہ وکہ جس میں سر زنش بھی شامل ہو ۔ بعض نے ”سوء الحساب “ کی تفسیر ” سوء الجزاء“ یعنی بری سزا کے طور پر کی ہے ۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں کا حساب چکا دو یعنی اسے سزا دو ۔
ہم نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ ”سوء الحساب“ کا ایک جامع مفہوم ہے اور اس میں یہ تمام معانی شامل ہیں ۔
ان کا پانچواں طرزِ عمل تمام مشکلات کے مقابلے میں صبرو استقامت ہے ، وہ مشکلات کہ جو اطاعت ، ترکِ گناہ دشمن کے خلاف جہاد اور ظلم و سر کشی کے مقابلے کے راستے میں پیش آتی ہیں ۔ ۱
وہ صبر و استقامت بھی پر وردگار کی رضا اور خوشنودی کی خاطر ہو۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے پر وردگار کی رضا اور کوشنودی حاصل کرنے کے لئے صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں ( وَالَّذِینَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّھِمْ ) ۔
ہم بار ہا صبر کے معنی کہ جو استقامت کے وسیع مفہوم کاحامل ہے ، کے بارے میں وضاحت کر چکے ہیں ۔ رہا ”وجہ ربھم “ تو اس کے دو میں سے ایک معنی ہیں ۔
پہلا یہ کہ ”وجہ “ ایسا مواقع پر ” عظمت “ کے معمنی میں ہے جیسے کسی اہم نظرے اور رائے کے بارے میں کہا جاتا ہے :
ھٰذا وجہ الراٴی
یعنی یہ اہم رائے ہے ۔
اور یہ شاید اس بناء پر ہے کہ اصل میں ”وجہ “ کا معنی ہے ”چہرہ “ اور انسان کا چہرہ ظاہری بدن کا اہم ترین حصہ ہے کیونکہ بینائی ، شنوائی اور گویا ئی جیسے اہم اعجاز اس میں موجود ہیں ۔
دوسرا یہ کہ ”وجہ رب“ یہاں ” پر وردگار کی رضا“ کے معنی میں ہے ۔ یعنی وہ لوگ حق تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تمام مشکلات کے مقابلے میں صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں ۔ اس معنی میں ”وجہ “ استعمال اس بناء پر ہے کہ جب انسان کسی کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ا س کے چہرے کو اپنی طرف متو جہ کرتا ہے ( اس بناء پر ” وجہ “ یہاں کنایتاًآیا ہے ) ۔
بہر صورت یہ جملہ اس مر کے لئے واضح دلیل ہے کہ صبر و شکیبائی بلکہ کلیة ہر عمل خیر اسی صورت میں قدر و قیمت رکھتا ہے جب ”ابتغاء وجہ اللہ “ اور خد اکے لئے ہو اور اگر اس کے کوئی اور اسباب ہوں مثلاً ریا کاری اورلوگوں کی توجہ حاصل کرنا کہ وہ سمجھیں کہ یہ بڑا صابر اور نیکو کار شخص ہے یا حتی اپنے غرورکے پیش نظر کوئی کام انجام دے تو پھر اس کی کوئی وقعت اور قدر و قیمت نہیں ہے ۔
بعض مفسرین کے بقول کبھی انسان نا گوار حوادث پر صبر کرتا ہے تاکہ لوگ کہیں کہ یہ کس قدر صابر اور صاحب ِ استقامت ہے ، کبھی اس خوف سے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ کیسا کم ظرف آدمی ہے، کبھی اس لئے کہ دشمن اسے طعنہ نہ دیں ، کبھی اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ بے تابی اور داد فریاد یہاں فضول ہے کبھی اس لئے کہ لوگوں کے سامنے اپنی مظلومیت پیش کرے تاکہ لوگ اس کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہو ں ان امور میں سے کوئی بھی نفس انسانی کے کمال کی دلیل نہیں ہے ۔ لیکن جس وق حکم ِ خدا کی اطاعت کی بناء پر اور اس لئے کہ زندگی میں رونما ہونے والے ہر حادثے کی کوئی وجہ ، حکمت اور مصلحت ہوتی ہے کوئی شخص صبر و استقامت سے کام لیتا ہے اور اس طرح وہ اس حادثے کی عظمت کو ختم کردیتا ہے ، کفر ان میں زبان نہیں کھولتااور ایسا کوئی کام نہیں کرتاجو جزع و فزع کی دلیل بنے تو یہی وہ صبر ہے کہ جس کی طرف آیت بالامیں اشارہ کیا گیا ہے اور یہی صبر ” ابتغا وجہ اللہ “ شمار ہوتا ہے ۔
ان کا چھٹا طرز عمل یہ ہے کہ ”وہ نماز قائم کرتے ہیں “ (وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ ) ۔
نماز قائم کرنا اگر چہ عہد الہٰی کے وفا کرنے کے مصادیق میں سے ہے بلکہ خدائی رشتوں کی حفاظت کا ایک زندہ مصداق ہے اور ایک لحاظ سے صبر واستقامت کے مصادق میں سے ہے لیکن ان کلی مفا ہیم کے بعض مصادیق بہت اہم ہیں جو انسانی سر نو شت میں بہت زیادہ موثر ہیں لہذا ان کی خصوصی طور پرنشاند ہی کی گئی ہے۔
اس سے بڑھ کر اہم کیا بات ہوگی کہ انسان ہر صبح شام خدا سے اپنے رابطے او ر تعلق کی تجدید کرے ، اس کے ساتھ راز و نیاز کے لئے کھڑا ہو ، اس کی عظمت اور اپنی ذمہ داریوں کو یاد رکھے اور اس عمل کے ذریعے اپنے قلب و روح سے گناہ کا غبار اور زنگ دھوڈالے اور پانے قطرہ وجود کے ہستی حق کے بیکراں سمندر سے ملحق ہونے کا شرف حاصل کرے ،جی ہاں !نماز میں یہ تمام اثرات وبرکات موجود ہیں ۔
اس کے بعد حق جو افراد کا ساتواں طرز عمل اسی طرح سے بیان کیاگیا ہے :وہ ایسے لوگ ہیں کہ ہمارے عطا کردہ رزق سے پنہان و آشکار خرچ کرتے ہیں
(وَاٴَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاھُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَةً ) ۔
انفاق او ر زکوٰة کا مسئلہ صرف اسی آیت میں نماز کے بعد بیان نہیں ہوا بلکہ بہت سی آیات قرآن میں زکوة کو نماز کے پہلو میں رکھا گیا ہے کیونکہ ان میں سے ایک چیز انسان کے رشتے کو”خدا“ سے مستحکم کرتی ہے اور دوسری ”مخلوق“ سے تعلق کو۔
یہاں اگر ہم ”ممارزقناھم“ کی طرف توجہ دیں تو وہ ہر قسم کی عنایت و بخشش کے بارے میں چاہے مال ہو یا علم ،طاقت و حیثیت ہویا اجتماعی اثر و رسوخ ایسا ہونا ضروری بھی ہے کیونکہ انفاق اور خرچ کرنے کا ایک پہلونہیں ہو چاہئیے ،بلکہ یہ خرچ تمام پہلووٴںسے اور تمام نعمات سے ہونا چاہئیے۔
”سراوعلانة“(پنہان اورآشکار )یہ تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے مصارف میں اس حقیقت کی طرف بھی نظر رکھتے ہیں کیونکہ کبھی ایساہوتا ہے کہ اگر انفاق مخفی طور پر ہوتو وہ زیادہ موثر ہوتا ہے ۔ مثلاًاگر دوسرے کی حیثیت کا تقاضا ہو کہ اسے مخفی رکھا جائے یا انفاق کرنے والا ریا اور دکھا وے سے بچنا چاہتا ہو اور کبھی انفاق آشکار طور پر کیا جائے تو اس کا اثر زیادہ وسیع ہوتا ہے مثلاً ایسے مواقع پر جبکہ ایسا کرنا دوسروں کی تشویق کا باعث بنے اور انہیں اس عمل کی اقتدا کی ترغیب دے او انفاق کرنے کا ایک عمل ایسے سینکڑوں اور ہزاروں کاموں کا سبب بنے ۔
یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مثبت عمل کی انجام دہی کے لئے قرآن کس قدر باریک بینی سے کام لیتا ہے وہ صرف اصل کام کی طرف توجہ نہیں کرتا بلکہ تاکید کرتا ہے کہ اصل عمل بھی خیر ہو اور اس کے انجام پانے کی کیفیت بھی اچھی ہو ( ایسے مواقع پر جہاں ایک کام کی انجام دہی مختلف کیفیات سے ممکن ہو) ۔
آخر میں ا س کا آٹھواں اور آخری طرز عمل بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ وہ ”حسنات“( نیکیوں) کے ذریعے اپنی” سیئات “(برائیوں) کو ختم کردیتے ہیں (وَیَدْرَئُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ) ۔
اس معنی میں کہ وہ ایک گناہ اور لغزش کے ارتکاب پر صرف پشیمان ہونے اور ندامت و استغفار پر قناعت نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر تلافی کے لئے قدم اٹھاتے ہیں اور جس قدر ان کا گناہ اور لغزش زیادہ ہو اسی قدر حسنات اور نیکیاں بھی زیادہ انجام دیتے ہیں تاکہ اپنے اور معاشرے کے وجود سے گناہ کی آلودگی کو حسنات کو پانی سے دھو ڈالیں ۔
”یدرؤن“ ” درء “ ( بروزن ”زرع“)کے مادہ سے دفع کرنے کے معنی میں ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ وہ برائی کی تلافی برائی کے ذریعے نہیں کررتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اگر کسی شخص کی طرف سے انہیں برائی پہنچے تو اس کے حق میں نیکی انجام دے کر اسے شرمندہ ہونے او تجدید نظر پر آمادہ کریں ۔جیسا کہ سورہ فصلت کی آیہ۳۵ میں ہے :
ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک و بینہ عداوة کانہ ولیّ حمیم
بدی کو اس طریقہ سے اپنے سے دور کرجو زیادہ اچھا ہے کیونکہ اس موقع پر وہ شخص جس کے اور تیرے درمیان عداوت ہے اپنا چہرہ یوں بدل لیتا ہے گویا وہ تیرا مخلص اور پکا دوست ہے ۔
بہر حال اس میں کوئی مانع نہیں کہ زیر بحث آیت دونوں مفاہیم لئے ہوئے ہو۔ احادیث اسلامی میں بھی کچھ احادیث دونوں تفاسیر بیان کرتی ہیں ۔
ایک حدیث پیغمبر اکرم سے منقول ہے ، آپ معاذ بن جبل سے فرماتے ہیں :
فاذا عملت سیئةفاعمل بجنبھا حسنة تمحھا۔
جب کوئی برا کام کر بیٹھو توا س کےساتھ ہی کوئی نیک کام انجام دو جو اسے محو کردے۔
مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
عاتب اخاک بالاحسان الیہ واردو شرہ بالانعام علیہ۔
اپنے بھائی کو کوئی غلط کام انجام دینے پر نیکی کے ذریعے سر زنش کرو اور اس کے شرکو انعام اور احسان کے ذریعے اس کی طرف پلٹا دو۔۲
البتہ ان طرف توجہ رہے کہ یہ ایک اخلاقی حکم ہے جو بعض مواضع سے مخصوص ہے کہ جہاں اس قسم کی طرز عمل موثر ہوتا ہے ورنہ حد جار ی کرنا اور بدکاروں کو سزا دینا اسلام کے قوانین میں سے ہیں اور ان تمام افراد کے لئے یکساں طو پر ہے کہ جواس کے دائرے میں آتے ہیں ۔
مختلف طرز عمل کے بعد ” اولو الباب “صاحبان فکر و نظر ،طرفداران حق او ر ایسے طریقوں پر عمل کرنے والوں کے انجام کا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : دوسرا گھر جو نیک او اچھی عاقبت کا حامل ہے ، ان کے لئے (اٴُوْلَئِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ ) ۔۳
بعد والی آیت میں اس نیک انجام اور عاقبت ِ خیر کی توضیح کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ان کا انجام کا جنت کے دائمی باغات ہیں کہ جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے صالح اور نیک آباوٴ و اجداد ، ازواج اور اولاد بھی ( جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِھِمْ وَاٴَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیَّاتِھِمْ ) ۔
اور جو چیز ان عظیم اور بے پایا ں نعمتوں کی تکمیل کرتی ہے یہ ہے کہ ” ہر دروازے سے ان کے ئے فرشتے داخل “(وَالْمَلَائِکَةُ یَدْخُلُونَ عَلَیْھِمْ مِنْ کُلِّ بَابٍ) ۔
اورانہیں کہیں گے ”تم پر سلام ہو تمہارے صبر و استقامت کی بناء پر (سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ) ۔ذمہ داریوں کی انجام دہی میں اور شدائد و مصائب بر داشت کرنے میں تمہارا صبر و استقامت ہے جو اس اسلامی کا باعث ہوا ہے ۔یہاں انتہائی امن، آرام اور چین و سکون سے رہوگے ۔ یہاں نہ جنگ و جدال ہے ،نہ نزاع ہے، نہ سختی ،نہ مخالفت ہے او رنہ جھگڑا ،ہر جگہ امن ہی امر ہے اور تمام چیزیں تمہارے سامنے تبسم کناں ہیں اور ایسا آرام و سکون جس میں اضطراب ِقلب کا شائبہ تک نہیں وہ یہیں پر ہے ۔
آخر میں ارشاد ہوتا ہے یہ کیسا اچھا انجام اور کیسی اچھی عاقبت ہے ( فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ) ۔