ان کے انحراف کے اسباب میں سے دوسری چیز تکبر اور ہٹ دھرمی ہے کہ جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہوا ہے، کیونکہ عام طور پر متکبر لوگ ہی ہٹ دھرم ہوتے ہیں،کیونکہ تکبر انھیں حق سے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی اجازت نہیں دیت، یہی بات ان کی ہٹ دھرمی کا سبب بن جاتی ہے اور وہ ہر واضح دلیل اور روشن برہان کا اسی طرح سے انکار کرتے ہیں خواہ ان کا وہ انکار بدیہیات کے انکار تک پہنچ جائے جیسا کہ ہم نے بارہا خود اپنی ٍٍٍٍٍٍآنکھوں سے متکبر اور خود خواہ افراد میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے ۔
قرآن اس مقام پر بعض بت پرستوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نصر بن حارث، عبداللہ بن ابی امیہ اور نوفل بن خویلد تھے انھوں نے پیغمبر سے یہ کہا تھا کہ ہم صرف اس صورت میں ایمان لائےں گے جب خدا کی طرف سے ہم پر چار فرشتوں کے ساتھ ہم پر خط نازل ہوگا، قرآن کہتا ہے: اگر اسی طرح جیسا کہ ان کا مطالبہ ہے کسی کاغذ کے صفحہ پر ہی کوئی تحریر یا اس کی مانند کوئی اورچیز کوئی تم پر نازل کردے اور مشاہدہ کرنے کے علاوہ اسے اپنے ہاتھ چھوئیں بھی پھر بھی وہ یہی کہیں گے کہ یہ تو ایک کھلا ہوا جادو ہے (وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَابًا فِی قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوہُ بِاٴَیْدِیھِمْ لَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ ھَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِینٌ) ۔
یعنی ان کی ہٹ دھرمی کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ وہ روشن ترین محسوسات کا بھی یعنی ان باتوں کا بھی جو دیکھنے اور چھو نے سے معلوم ہوسکتی ہے انکار کردیتے ہیں اور جادو کا بہانہ کر کے اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے روگرداں ہوجاتے ہیں ۔
حالانکہ وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں حقائق کے ثبوت کے لئے ان نشانیوں کے دسویں حصہ پر ہی قناعت کرلیتے ہیں اور اسے ہی قطعی اور مسلم جان لیتے ہیں، یہ بات صرف اس وجہ سے ہے کہ خود خواہی، تکبر وشدید ہٹ دھر می نے ان کی روح پر سایہ ڈال رکھا ہے ۔
ظنی طور پر اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ ”قرطاس“ کا معنی ہر وہ چیز ہے کہ جس پر لکھتے ہیں خواہ وہ چیز کاغذ ہو یا چمڑا یا تختیاں آج قرطاس صرف کاغذ کا کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جن چیزوں پر لکھا جاتا ہے ان میں سے کاغذ کا ہی سب سے زیادہ رواج ہے ۔
۸ وَقَالُوا لَوْلاَاٴُنزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَلَوْ اٴَنزَلْنَا مَلَکًا لَقُضِیَ الْاٴَمْرُ ثُمَّ لاَیُنظَرُونَ
۹وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَا یَلْبِسُونَ
۱۰وَلَقَدْ اسْتُھْزِءَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْھُمْ مَا کَانُوا بِہِ یَسْتَھْزِئُون ۔
ترجمہ
۸۔ انھوں نے کہا کہ اس کے اوپر فرشتہ کیوں نہ نازل (تاکہ لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینے میں اس ک مدد کرتا) لیکن اگر ہم کوئی فرشتہ بھیج دیتے (اور اصل امر محسوس طور پر مشاہدہ میں آجاتا) تو پھرتو معاملہ صاف ہوجاتا (اور ایسی صورت میں اگر وہ مخالفت کریں گے)تو پھر انھیں مہلت نہیں دی جائے گی
( اور وہ سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے) ۔
۹۔اور اگر اسے فرشتہ قرار دیتے تو یقینا سے بھی ایک مرد کی صورت میں ہی لاتے پھر بھی (ان کے خیال کے مطابق تو) ہم معاملہ کو ان پر مشتبہ ہی چھوڑ دیتے جیسے وہ دوسروں پر معاملہ مشتبہ بناتے ہیں ۔
۱۰۔ (اس حالت سے پریشان نہ ہو )تجھ سے پہلے بھی بہت سے پیغمبروں کا مذاق اڑا گیا تھا، لیکن آخر کار جس چیز کا وہ مذاق اڑا تے تھے اسی نے ان کا دامن پکڑ لیا( اور ان پر عذاب الٰہی نازل ہوگیا) ۔