سورہٴ بقرہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
ترجمه قرآن کریم

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔

۱۔  ا لم

۲۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ پرہیزگاروں کی ہدایت کی بنیاد ہے۔

۳۔  پرہیزگار وہ ہیں جو غیب(جس کا حواس ادارک نہیں کرسکتے) پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور ان نعمتوں اور عطیوں میں سے جو ہم نے انیہں بطور روزی دیے ہیں خرچ کرتے ہیں۔

۴۔  یہ وہ لوگ ہیں کہ جو کچھ آپ(ص) سے قبل (انبیاء گذشتہ پر) نازل ہوچکا ایمان رکھتے ہیں۔

۵۔  انہیں خدا نے ہدایت کی ہے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔

۶۔  جو لوگ کافر ہوگئے ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انیہں (عذاب خدا سے) ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

۷۔  خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اوران کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے، اور ایک بڑا عذاب ان کے انتظار میں ہے۔

۸۔  کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم خدا اور روز قیامت پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں۔

۹۔  وہ چاہتے ہیں کہ خدا اور مومنین کو دھوکہ دیں مگر وہ اس طرح اپنے سوا کسی کو فریب نہیں دیتے لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔

۱۰۔  ان کے دلوں میں ایک طرح کی بیماری ہے اور خدا کی اس بیمار کو بڑھا دیتا ہے۔ اور ان کی کذب بیانیوں کی وجہ سے درد ناک عذاب  ان کے انتظار میں ہے۔

۱۱۔  جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو بس اصلاح کرنے والے ہیں۔

۱۲۔  آگاہ رہو یہ سب مفسدین ہیں لیکن اپنے آپ کو مفسدنہیں سمجھتے۔

۱۳۔  اور جب ان سے کہا جائے کہ دوسرے لوگوں کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کیاہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں۔جان لو کہ یہ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن جانتے ہیں۔

۱۴۔  اور جب ایماندار لوگوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم  توایمان لا چکے ہیں لیکن جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بس تمہارے ساتھ ہیں (ان سے تو) ہم تمسخر کرتے ہیں۔

۱۵۔  خدا وند عالم ان سے تمسخر کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی میں رکھے ہوئے ہے تاکہ وہ سرگرداں رہیں۔

۱۶۔  یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی ہے حالانکہ یہ تجارت ان کے لئے نفع بخش نہیں ہے اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں۔

۱۷ ۔  وہ (منافقین) اس شخص کے مانند ہیں جس نے آگ روشن کی ہو (تاکہ تاریک بیابان میں اسے راستہ مل جائے) مگر جب آگ سے سب اطراف روشن ہوگئے تو خدا وند عالم نے (طوفان بھیج کر) اسے خاموش کردیا اورایسی وحشتناک تاریکی مسلط کی جس میں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

۱۸۔  وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں لہذا( خطا کاری کے راستے سے پلٹیں) گے نہیں۔

۱۹۔  یا پھر ان کی مثال ایسی ہے کہ بارش شب تاریک میں گھن گرچ، چمک اور بجلیوں کے ساتھ (راہگیروں کے سروں پر ) برس رہی ہور اور وہ موت کے خوف سے اپنے کانون میں انگلیاں ٹھونس لیں تاکہ بجلی کی آواز سے بچیں اور یہ سب کافر خدا کے احاطہٴ قدرت میں ہیں۔

۲۰۔  قریب ہے کہ بجلی کی خیرہ کرنے والی روشنی آنکھوں کو چندھیا دے۔ جب بھی بجلی چمکتی ہے اور(صفحہٴ بیابان کو) ان کے لئے روشن کردیتی ہے تو وہ (چند گام) چل پڑتے ہیں اور جب وہ خاموش ہوجاتی ہے تورک جاتے ہیں اور اگر خدا چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں تلف کردے (کیونکہ) یقینا ہر چیز خدا کے قبضہ اقتدار میں ہے۔

۲۱۔  اے لوگو !  اپنے پروردگار کی پرستش و عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ اور اللہ کے لئے شریک قرار نہ دو او رتم جانتے ہی ہو۔

۲۲۔  وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان (فضائے زمین) کو تمہارے سروں پر چھت کی طرح قائم کیا، آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ میوہ جات کی پرورش کی تاکہ وہ تمہاری روزی بن جائیں جیسا کہ تم جانتے ہو(ان شرکاء اور بتوں میں سے نہ کسی نے تمہیں پیدا کیا اور نہ تمہیں روزی دی لہذا بس اسی خدا کی عبادت کرو)۔

۲۳-اگر تمہیں اس چیز کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے (پیغمبر ) پر نازل کی ہے کوئی شک و شبہ ہے تو (کم از کم ) ایک سورہ اس کی مثل لے آؤ اور خدا کو چھوڑ کر اپنے گواہوںکو بھی اس کام کی دعوت دو ،اگر تم سچے ہو ۔

۲۴-اگر تم یہ کام  نہ کرسکے اور کبھی کر بھی نہ سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسانوں کے بدن اور پتھر ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔

۲۵ ۔ایمان لانے والوں اور نیک عمل بجالانے والوں کو خوشخبری  دےدیجیے کہ ان کے لئے بہشت کے باغات ہیں جہاں درختو ں کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ جب انہیں ان میں سے پھل دیا جائے گا تو کہیں گے یہ وہی ہے جو پہلے بھی ہمیں دیا گیا تھا ( لیکن یہ اس سے کس قدر بہتر ہے) اور جو پھل ان کو پیش کئے جا ئیں گے (خوبی وزیبائی میں ) یکساں ہیں اور ان کے لئے اس میں پاکیزہ بیویاں ہیں اور وہ ہمیشہ رہیں گے۔

۲۶۔خدا وندعالم مچھر یا  اس سے بڑھ کر کو ئی مثال دینے میں ججھکتا نہیں ہے (اسلئے کہ  ) جو لوگ ایمان لاچکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ پرودگار کی طرف سے حقیقت ہے لیکن جنہوں نے راہ کفر اختیار کیا ہے(ا س موضوع کوبہانہ بناکر۔)

کہتے ہیں کہ خدا کا مقصد اس مثال سے کیا تھا، خدااس سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدیت کر تا ہے لیکن  صرف فاسقوں کو گمراہ کر تا ہے ۔

۲۷۔ فاسق وہ ہیں جو خدا سے محکم عہد وپیمان کرنے کے بعد اسے توڑ دیتے ہیں وہ تعلق جسےخدا نے برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اسے قطع کردیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ۔ یہی لوگ خسارے میں ہیں ۔

  ۲۸۔ تم خداسے کیونکر کفر کرتے ہو حالانکہ تم بے روح جسم تھے اس نے تمہیں زندگی دی پھر وہ تمہیں مارے گا اور دوبارہ تمہیں زندہ کرے گا اس کے بعد اسی کی طرف لوٹ جاوٴگے (اس بناء پر نہ تمہاری زندگی تمہاری طرف سے ہے اور نہ موت جوکچھ تمہارے پاس ہے خداہی کی  طرف سے ہے )

۲۹۔  وہ خدا جس نے زمین کی تمام نعمتوں کو تمہارے لئے پیدا کیا ہے ۔پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمانو ں کی صورت میں مرتب کیا اور وہ ہر چیز سے آ گا ہے ۔

۳۰۔جب آپ کے پروردگار نے فرشتو ں سے کہا کہ میں روئے زمین پرایک جانشین اور حاکم مقرر کر نےوالا ہوں تو فرشتوں نے کہا (پروردگارا ) کیاتو ایسے شخص کو مقرر کرے گا جو زمین پر فساد اور خونریزی کرے گا ( کیوں آدم  سے پہلے زمین کے دوسرے موجودات جو عالم وجود میں آچکے ہیں ان کی طبیعت اور مزاج جہان مادہ کے حکم کا پابند ہے لہذا وہ فساد اور خونریزی کے گناہ ہی میں مبتلا تھے لیکن خلقت انسان کا مقصد اگر عبادت ہے تو ) ہم تیری تسبیح کرتے اور حمد بجالا تے ہیں ( اس پر پروردگار عالم نے فرمایا : میں کچھ ایسے حقائق  کو جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے ۔

۳۱۔ پھر علم اسماء ( علم اسرار خلقت اور موجودات کے نام رکھنے کا علم )سب کا سب آدم  کو سکھایا پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا : اگر سچ کہتے ہو تو بتاؤ ان کے نام کیا ہیں ۔

۳۲۔ فرشتوں نے کہا تو پاک و منزہ ہے جو تو نے ہمیں تعلیم دی ہے ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تو حکیم ودانا ہے ۔

۳۳۔ فرمایا : اے آدم! انہیں ان ( موجودات ) کے ناموں اور اسرار ) سے آگاہ کردو جب انہوں نے انہیں آگاہ کردیا تو خدا نے فرمایا : میں نہ کہتا تھا کہ میں آسمان اور زمین کا غیب جانتا ہوں اور تم جن چیزوں کو ظاہر کرتے اور چھپاتے ہو انہیں بھی جانتا ہوں ۔

۳۴۔ اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم  کے لئے سجدہ( اورخضوع )کرو تو شیطان کے علاوہ سب نے سجدہ کیا؛ اس نے انکار کر دیا اور تکبر کر کے ( نافرمانی کی وجہ سے ) کافروں میں سے ہو گیا ۔

۳۵۔ اور ہم نے کہا اے آدم  ! تم اپنی بیوی کے ساتھ جنت میں سکونت اختیار کرلو اور ( اس کی نعمتوں میں سے ) جو چاہو کھاؤ (لیکن ) اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ ستمگاروں میں سے ہوجاؤ گے ۔

۳۶۔ پس شیطان ان کی لغزش کا سبب بنا اور جس (بہشت ) میں وہ رہتے تھے انہیں وہاں سے نکال دیا اور ( اس وقت ) ہم نے ان سے کہا سب کے سب ( زمین کی طرف ) چلے جاؤ اس حالت میں کہ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہو گے زمین تمہاری ایک مدت معین کے لئے قرار گاہ ہے اور فائدہ اٹھانے کا وسیلہ ہے

۳۷۔پھر آدم نے اپنے پر ودگا ر سے کچھ کلمات حا صل کئے اور (ان کے ذریعہ)توبہ کی اور خدا وندعالم نے ان کی توبہ قبو ل کرلی ،کیونکہ خداوند عالم  توبہ کو قبول کرنے والا اور رحیم ہے ۔

۳۸ ۔ہم نے کہا سب کے سب(زمین کی طرف )اتر جاوٴ ۔جس وقت میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے گی اس وقت جولوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے لئے نہ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے ۔

۳۹۔اورجو لوگ کافر ہو جائیں گے اور ہمار ی آیات کی تکذیب کریں وہ اہل دوزخ ہوں گے  اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔

۴۰ ۔اے اولاد اسرئیل !جو نعمتیں میں نے تمہیں عطا کی ہیں انہیں یا درکھو اور میرے ساتھ جو تم نے عہد وپیما ن با ندھا ہےاسے پورا کرو تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ کئے ہو ئے عہد و پیما ن کو پو را کروں (اور ذمہ داری کی انجام دہی نیز عہد وپیمان کی پابندی میں )صرف مجھ سے ڈراکرو۔

۴۱۔ اورجو کچھ (قرآن)  میں نے نازل کیا ہےاس پر ایما ن لاوٴ جب کہ اس کی پیش کر دہ نشانیاںجو کچھ تمہاری کتابوںمیں ہے اس سے مکمل مطابقت رکھتی ہیں اور اب تم اس کے پہلے منکر نہ بنو اور میری آیا ت کو کم قیمت پر فروخت نہ کرو ، (تھوڑ ی سی آمدنی کے لئے ان نشانیوںکو مت چھپاوٴجو قرآن اور پیغمبر اسلام کے متعلق تمہاری کتابوں میں مو جود ہیں ) اور (لوگوں سے ڈرنے کے بجائے )صرف میری (مخالفت ) سےڈرو ۔

۴۲۔اور حق کو باطل سے نہ ملاوٴ اور حقیقت جاننے کے باجود اسے نہ چھپاوٴ۔

۴۳۔اور نماز قائم کرو زکٰوة ادا کرو اور رکوع کرنے والوں ساتھ رکوع کرو(  یعنی نماز جماعت کے ساتھ پڑھو )۔

 (۴۴)۔کیا تم لوگوں کو نیکی کی اور اس پیغمبر  پر جس کی صفات واضح طور پر تورات میں آئی ہیں ایمان لانے کی دعوت دیتے ہو لیکن اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم  ( آسمانی)  کتاب پڑھتے ہو ۔ کیا تم عقل و فکر سے کام نہیں لیتے۔

(۴۵)۔ صبر اور نماز سے استعانت حاصل کرو ( استقامت اور اندرونی خواہشات پرقابو کرکے پروردگار کی طرف توجہ  کرنےسے قوت حاصل کرو )اور خشوع کرنے والوں کے علاوہ دوسروں پر یہ کام گراں ہے ۔

(۴۶( ۔(یہ) وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ خدا سے ملاقات کریں گے اور اسی کی جانب لوٹ جائیں گے

۴۷۔اے بنی اسرائیل ! جن نعمتون سے میں نے تمہیں نوازا ہے انہیں یاد کرو اور یہ بھی یاد کرو کہ میں نے تمہیں عالمین پر فضیلت بخشی ہے۔

۴۸۔اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص دوسرے سزا اپنے اوپر نہیں لے گااورنہ کسی کی سفارش قبول کی جائے گی ، نہ ہی تاوان و بدلہ قبول ہوگا اور نہ ہی ان کی مدد کی جاسکے گی ۔

 ۴۹۔   نیز (  یاد کرو اس وقت کو) جب ہم نے تمہیں فرعونیو ں کے چنگل سے رہائی بخشی جو مسلسل تمہیں سخت ترین طریقے سے تکلیف وآزار پہنچاتے تھے تمہارے بیٹوں کے سر کاٹ لیتے اور تمہاری عورتوں کو (کنیزی کے لئے )زندہ رہنے دیتے اور اس میں تمہارے پرور دگار کی طرف سے تمہاری سخت آزمائش تھی ۔

۵۰ -اور( اس وقت کو یاد کرو )جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شگافتہ کیا اورتمہیں نجات دے دی لیکن فرعونیوں کوغرق کر دیا جب کہ تم دیکھ رہے تھے ۔

۵۱۔اور (اس وقت کویاد) کرو  جب ہم نے موسٰی سے چالیس را توں کا وعدہ کیا( اور وہ تم سے جدا ہوکر  احکام الہی کو حاصل کرنے کے لئے چالیس راتوں کے لئے وعدہ گاہ پر آئے ( پھر تم نے بچھڑے کو (عبادت کے لئے ) منتخب کرلیا ۔ حالانکہ اس کام سے تم اپنے ہی اوپر ظلم کر رہے تھے ۔

۵۲۔ پھر ہم نے اس کام کے بعد تمہیں بخش دیا کہ شاید تم اس نعمت کا شکر کرو ۔

۵۳۔ نیز ( یاد کرو اس وقت کو ) جب ہم نے موسٰی کو کتاب دی جو حق و باطل کی تشخیص کا ذریعہ تھی کہ شاید تم ہدایت حاصل کرلو ۔

۵۴۔ اور( وہ وقت بھی یاد کرو  )جب  موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم تم نے بچھڑے کا انتخاب کرکے اپنے اوپر ظلم کیا ہے ۔

توبہ کرو اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے نفسوں کو قتل کرو ۔تمہارے پروردگار کی بارگاہ میں یہ کام تمہارے لئے بہتر ہے پھر خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی ۔ کیونکہ وہ توبہ کو قبول کرنے والا اورحیم ہے۔

۵۵۔ اور یا د کرو  اس وقت  کو) جب تم نے کہا اے موسٰی  ! ہم خدا کو آشکار ( اپنی آنکھوں سے ) دیکھے بغیر تم پر ہر گز ایمان نہیں لائیں گے ۔ اسی حالت میں تمہیں بجلی نے آن لیا جب کہ تم دیکھ رہے تھے ۔

۵۶۔ پھر ہم نے تمہیں موت کے بعد زندگی بخشی کہ شاید خدا کی نعمت کا شکر بجالاؤ

۵۷۔ اور ہم نے  تمہارے اوپر بادلوں کو سایہ قرار دیااور من(درختوں کا لذیذشیرہ )وسلوی (بٹیر کی طرح کے  پرندہ)کے ساتھ تمہاری تواضع کی ۔ (اور ہم نے کہا )ان پاکیزہ نعمتوں سے جو ہم نے  تمہیں دیں ہیں کھاوٴ۔انہوں نے ہم پر تو کوئی ظلم نہیں کیابلکہ اپنے نفسوں پرہی ظلم کرلیاہے ۔

۵۸۔اور (یاد کرو اس و قت کو )جب ہم نے کہا :اس بستی(  بیت المقدس )میں  داخل ہوجاوٴ اور اس کی فراواں نعتو ں سے جتنا چاہو کھا وٴاور  ( عبادت گاہ بیت المقدس کے)دروازے سے خضوع وخشوع کے ساتھ داخل ہو جا وٴاو رکہو :خدایا !ہمارے گناہوں کوبخش دے،تاکہ ہم تمہیں بخش دیں اورہم نیک لو گو ں کو زیادہ بدلہ دیں گے۔

۵۹ ۔ لیکن ظالم لوگوں نے اس قول  کو بدل دیا اور اس کی جگہ ایک اور (استہزاء آمیز )جملہ کہنے لگے لہذا ہم نے ستمگروں پر اس نافرمانی کے باعث آسمان سے عذاب بھیجا۔

۶۰ ۔ اور وہ زمانہ  بھی یاد کرو) جب موسی ٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب کیا تو ہم نے انہیں حکم دیا کہ اپنے عصا کو مخصوص پتھر پر مارو !تواچانک اس سے بارہ چشمے ابلنے لگے( اس طرح کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے ) سب لوگ اپنے اپنے مخصوچشمے کو پہچانتے تھے ، ( اور ہم نے کہا خدا کی روزی میں سے کھاؤ پیو اور زمین پر فساد کی کوشش نہ کرو  ۔

۶۱۔ اور( اس وقت کویاد کرو) جب تم نے کہا : اے موسٰی ! ہم اس کے لئے ہر گز تیار نہیں کہ ایک ہی قسم کی غذا پر اکتفا ء کریں اپنے خدا سے دعاء کرو کہ ہمارے لئے زمین سے اگنے والی سبزیوں میں سے اور ککڑی ، لہسن مسور اور پیاز اگائے ۔ موسٰی  نے کہا : کیا  تم بہتر غذا کے بدلے پست غذا ا  نتخاب کرتے ہو؟ !( اب اگر ایسا ہی ہے تو کوشش کرو اور اس بیابان سے نکل کر ) کسی شہر میں داخل ہوجاؤ کیونکہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ تو وہیں ہے ۔ خدا وند عالم نے ذلت و محتاجی ( کی مہر) ان کی پیشانی پر لگا دی ؛اور نئے سرے سے وہ غضب پروردگار میں مبتلا ہو گئے ؛کیونکہ وہ آیات الہی سے کفر کرتے اور ناحق انبیاء کا قتل کرتے تھے اور یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ وہ گنہگار،سرکش اور حد سے بڑح جانے والے تھے ۔

۶۲۔وہ لوگ جو ایمان لائے  (مسلمان)اوریہود نصاری اور صائبین (حضرت یحی ،حضرت نوح یا حضرت ابراہیم کے پیرو کا ر ) (ان میں سے )جو بھی خدا اور آخرت کے دن پرایمان لائے اور عمل صالح بجالائے ان کی جزا واجر ان کے پرور دگار کے ہاںمسلم ہے اور ان کے لئے آئند ہ یاگزشتہ کسی قسم کا خوف وغم نہیں ہے۔( اور ہر دن کے پیروکا ر جو اپنے عہد میں اپنی ذمہ د اریا ں ادا کرتے ہیں ان کے لئے اجر ہے )۔

۶۳۔اور ( وہ وقت کہ )جب ہم نے تم سے عہد لیا اورکوہ طورکوتمہارے سروں کے اوپر مسلط کردیا اور (تمہیں کہا کہ ) جو کچھ آیات و احکام کی صورت میں ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے تھامو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو اور ( اس پر عمل کرو ) شاید اس طرح تم پرہیزگار بن جاؤ ۔

۶۴ اس کے بعد پھر تم نے روگردانی کی اور اگر تم پر خد ا کا فضل و رحمت نہ ہوتا تو یقیناً تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوتے ۔

۶۵۔ جنہوں نے ہفتہ کے دن کے بارے میں حکم کی نافرمانی اور گناہ کیا ۔ تمہیں ان کی حالت کا علم ہے کہ انہیں ہم نے دھتکار ے ہوئے بندروں کی شکل میں کر دیا ۔

 ۶۶۔ ہم نے عذاب کے اس واقعہ کو اس زمانے کے لوگوں کے لئے اور بعد میں آنے والوں کے لئے درس عبرت قرار دیا ہے اور پرہیز گاروں کے لئے اسے نصیحت بنایا ہے ۔

۶۷۔  اور ( اس وقت کو یاد کرو ) جب موسیٰ  نے اپنی قوم سے کہا : خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو ( اور اس کے بدن کا ایک ٹکڑا اس مقتول کے ساتھ لگاؤ جس کا قاتل نہیں پہچانا جارہا تھا تاکہ وہ زندہ ہو کر اپنے قاتل کا تعارف کرائے اور یہ شور و غو غا ختم ہو ) وہ کہنے لگے تم ہم سے مذاق کرتے ہو ؟( موسیٰ  نے کہا میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں میں سے ہوجاؤ  ں!( اور کسی سے مذاق و استہزا کروں ) ۔

۶۸۔ وہ کہنے لگے ( تو پھر ) اپنے خدا سے یہ کہو کہ ہمارے لئے واضح کرے کہ یہ کس قسم کی گائے ہونا چاہیے ۔ اس نے کہا : خدا فرماتا ہے کہ گائے نہ بوڑھی ہو کہ جو کام سے تھک گئی ہو اور نہ بالکل جوان ہو بلکہ اس کے درمیان ہو جو کچھ تمہیں حکم دیا گیا ہے ( جتنی جلدی ہوسکے ) اسے انجام دو ۔

۶۹۔ وہ کہنے لگے : اپنے خدا سے کہو ہمارے لئے واضح کرے کہ اس کا رنگ کیسا ہو ۔ موسی ٰ نے کہا :خدا فرماتا ہے کہ وہ زرد رنگ کی ہو ، ایسے رنگ کی جو دیکھنے والوں کو مسرور کردے ۔

۷۰۔ وہ کہنے لگے: اپنے خدا سے کہیئے  کہ وہ  ہمارے لئے واضح کرے کہ وہ کس قسم کی گائے ہو کیونکہ یہ گائے تو ہمارئے لئے مبہم ہوگئی ہے اور اگر خدا نے چاہا تو ہم ہدایت پالیں گے ۔

۷۱۔ اس نے کہا : خدا فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ تو اتنی سدھائی ہوئی ہوکہ زمین جوتے اور نہ ہی کھیتی سینچے ، بھلی چنگی اور ایک رنگ کی ہو جس میں کوئی دھبہ تک نہ ہو ۔ وہ کہنے لگے اب ( جاکے ) تم نےٹھیک ٹھیک بیان کیا (اور پھر انہوں نے  ایسی گائے  کو با زحمت تلاش کیا ) اور اسے ذبح کیا حالانکہ وہ مائل نہ تھے کہ اس کام کو انجام دیں ۔

۷۲ ۔ اور جب تم نے ایک شخص کوقتل کردیا ، پھر ( اس کے قاتل کے بارے میں ) تم میں پھوٹ پڑگئی اور خدا نے ( اس حکم کے ذریعہ جو مندرجہ بالا آیات میں آیا ہے ) اسے  آشکار کردیا جسے تم چھپا رہے تھے ۔

۷۳۔ پھر ہم نے کہا کہ اس گائے کا ایک ٹکرا مقتول کے مارو ( تاکہ وہ زندہ ہوکر قاتل کی نشاندہی کردے ) ، اس طرح خدا مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی آیات دکھاتا ہے کہ شاید تم سمجھ سکو ۔

۷۴۔ پھر اس واقعے کے بعد تمہارے دل پتھر کی طرح سخت ہوگئے بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت، کیونکہ کچھ پتھر تو وہ ہیں جن سے نہریں جاری ہوتی ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ جن میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور ان میں سے پانی کے قطرات ٹپکتے ہیں، اور ان میں سے بعض خوف خدا سے ( پہاڑ کی بلندی سے ) نیچے گر جاتے ہیں ( لیکن تمہارے د ل نہ خوف ِ خدا سے دھڑکتے ہیں اور نہ ہی وہ علم و دانش اور انسانی احساسات کے سر چشمہ ہیں ) اور خدا تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے ۔

۷۵۔ کیا تم  (مسلمانوں)یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہارے آئین پر  ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کلام خدا کو سنتا تھا اور سمجھنے کے بعد اس میں تحریف کردیتا تھا، جب کہ وہ لوگ علم و اطلاع بھی رکھتے تھے ۔

۷۶۔ اورجب مومنین سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب ایک دوسرے سے خلوت کرتے ہیں( تو ان میں سے بعض، بعض سے اعتراض کرتے ہوئے ) اور کہتے ہیں: کہ تم ان مطالب کومسلمانوں کے سامنے کیوں دہراتے ہو جو خدا نے ( رسول ِ اسلام کی صفات کے بارے میں تم سے بیان کئے ہیں کہ کہیں ( قیامت  کے دن ) بارگاہ الہٰی میں تمہارے خلاف وہ ان سے استدلال کریں ،کیا تم سمجھتے نہیں ہو ۔

۷۷۔ کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ان کے اندرونی اور بیرونی اسرار سے واقف ہے ۔

۷۸۔ اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب خدا کو چند خیالات اور آرزوؤں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے اور انہون نے فقط اپنے گمانوں سے وابستگی اختیار کرلی ہے

۷۹ ۔ افسوس اور ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو کچھ مطالب اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے تاکہ انہیں تھوڑی سی قیمت پر فروخت کرسکیں ۔ افسوس ہے ، ان پر اس سے جو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور جو کچھ وہ کماتے ہیں ان پر اس کے لئے بھی افسوس ہے ۔

۸۰ ۔ اور انہوں نے کہا : چند دن کے سوا آتش جہنم ہم تک نہیں پہنچے گی ۔(اے رسول) کہہ دیجئے: کیا تم نے خدا سے عہد وپیمان لیا ہوا ہے کہ خدا اپنے پیمان کی ہرگز خلاف ور زی نہیں کرے گا یا پھر تم خدا کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ۔

۸۱۔ ہاں جو لوگ گناہ کمائیں اور گناہ کے اثرات ان کے سارے جسم پر محیط ہوں  گےوہ اہل جہنم ہیں اورہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔

۸۲۔ اوروہ لوگ جو ایمان لاچکے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں وہ اہل جنت ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔

۸۳۔   اور (یاد کرو اس وقت کو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لیا کہ تم خدائے یگانہ کے سوا کسی عبادت نہیں کروگے اور ماں باپ، ذوی القربی، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیکی کروگے اور لوگوں سے اچھے پیرائے میں بات کروگے، نیز نماز قائم کروگے و زکوة ادا کروگے،لیکن عہد و پیمان کے با وجود چند افراد کےسوا تم سب نے روگردانی کی اور (ایفائے عہد سے) پھر گئے۔

۸۴۔     اور (وہ وقت کہ) جب ہم نے تم سے پیمان لیا کہ ایک دوسرے کا خون نہیں بہاوگے اور ایک دوسرے کو اپنی سرزمین سے باہر نہیں نکالوگےتوتم نے اقرارکیا اور تم خود (اس پیمان پر) گواہ تھے۔

۸۵۔    پھر تم ہو کہ ایک دوسرےکوقتل کرتے ہو اور اپنے میں سے ایک گروہ کو اپنی سرزمین سے باہر نکال دیتے ہو اور گناہ و ظلم کا ارتکاب کرتے ہوئے ان پر تسلط حاصل کرتے ہو (اور یہ سب اس عہد کی خلاف ورزی ہے جو تم نے خدا سے باندھاہے) لیکن اگر ان میں سے بعض قیدیوں کی شکل میں تمہارے پاس آئیں اور فدیہ دے دیں تو انہیں آزاد کردیتے ہو حالانکہ انہیں باہر نکالنا ہی تم پر حرام ہے، کیا تم آسمانی کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لے آتے ہو اور کچھ سے کفر اختیار کرتے ہو جوشخص (احکام و قوانین خدا میں تبعیض کا) یہ عمل انجام دیتاہے اس کے لئے اس جہان کی رسوائی اور قیامت میں سخت ترین عذاب کی طرف بازگشت کے سوا کچھ نہیں اور خدا تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

۸۶۔    یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کے لئے آخرت کو بیچ دیاہے لہذا ان کی سزا میں تخفیف نہیں ہوسکتی اور کوئی ان کی مدد بھی نہیں کرے گا۔

۸۷۔    ہم نے موسی کو کتاب (تورات) دی اور پھر یکے بعد دیگرے انبیاء بھیجے اور عیسی بن مریم کو واضح د لیلیں بخشیں اور روح القدس کے ذریعے ہم نے ان کی تائید کی ۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ جس وقت بھی کوئی پیغمبر تمہاری خواہش کے خلاف کوئی چیز لایا تم اس کے مقابلے میں تکبر کرتے رہے ( اور اس پر ایمان لانے سے پرہیز کرتے رہے اور اسی پربس نہیں کی ) ان میں سے ایک گروہ کی تم نے تکذیب کی اور ایک گروہ کو قتل کردیتے رہے۔

۸۸۔ (آپ کی دعوت کے جواب میں وہ بطور استہزاء و تمسخر ) کہتے ہیں: ہمارے دل غلاف کے اندر ہیں (اور ہم تمہاری باتوں میں سے کچھ نہیں سمجھتے) اور ہاں ایسا ہی ہے) خدا نے ان کے کفر کی بناء پر انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے (اسی لئے وہ نہیں سمجھتے اور کسی چیز کا ادراک نہیں کر پاتے) اور ان میں سے بہت تھوڑے لوگ ایمان لاتے ہیں۔

۸۹۔ اور جب خداکی طرف سے ان کے پاس ایک ایسی کتاب آئی ہے جو ان نشانیوں کے مطابق تھی، جو ان (یہودیوں) کے پاس ہیں، جبکہ اس ماجرے سے پہلے وہ خود( اس پیغمبر اور اس کی کتاب کے ظہور کی بشارت دیتے تھے) وہ اس پیغمبر کی مددسے اپنے دشمنوں اور مشرکین پر فتحیاب ہوں گے ان سب امور کے با وجود جب وہ (کتاب اور وہ پیغمبر) جسے پہلے پہچان چکے تھے، ان کے پاس آئے تو اس سے کافر ہوگئے۔ پس خدا کی لعنت ہو ان کافروں پر۔

۹۰۔ انہوں نے اپنے  نفسوں کو بُری قیمت پر بیچاہے کیونکہ برے کام کی وجہ سے وہ ان آیات سے کافر ہوگئے ہیں جو خدا کی بھیجی ہوئی ہیں اور خدا اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتاہے اپنے فضل سے اپنی آیات نازل کرتاہے، لہذا ان پریکے بعد دیگرے( خدا کا) غضب نازل ہوا اور کافروں کے لئے ذلیل و خوار کرنے والی سزا  ہے۔

۹۱۔  اور جب ان سے کہاجاتاہے: کہ جو کچھ خدا نے نازل کیاہے اس پر ایمان لے آؤتو وہ کہتے ہیں ہم تو اس چیز پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوئی اور اس کے علاوہ سے کفر اختیار کر لیتے ہیں جب کہ وہ حق ہے اور ان آیات کی تصدیق کرتاہے جو ان پرنازل ہوچکی ہیں؛(اے رسول) کہہ دیجئے :کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو پھر اس سے پہلے انبیاء کوقتل کیوں کیا کرتے تھے۔

۹۲۔ نیز موسی تمہارے لئے سب معجزات لے کر آئے (تو پھر کیوں تم نے) بعد ازاں بچھڑے کو منتخب کرلیا اور اس عمل سے تم نے اپنے اور پر ظلم کیا۔

۹۳۔ اور تم سے ہم نے وہ پیمان لیا اور تم پر کوہ طور کوبلند کیا (اور تم سے کہا) یہ قوانین و احکام جو ہم نے تمہیں دیئے ہیں انہیں مضبوطی سے تھا مے رکھوا اور سنو (اطاعت کرو)تم نے کہا ہم نے سن لیاہے اور پھر نافرمانی کی ہے اور کفر کے نتیجے میںبچھڑے کی محبت سے تمہارے دلوں کی آبیاری ہوئی اگر تم ایمان رکھتے ہو تو کہہ دو کہ تمہارا ایمان تمہیں کیسا برا حکم دیتاہے۔

۹۴۔ کہہ دو اگر (جیسا کہ تم دعوی کرتے ہو) خدا کے ہاں آخرت کا گھر دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے مخصوص ہے تو پھر مرنے کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔

۹۵۔  لیکن وہ برے اعمال کی صورت میں جو آگے بھیج چکے ہیں ان کے باعث کبھی مرنے کی تمنا نہیں کریں گے اور خدا ظالموں سے پوری طرح آگاہ ہے۔

۹۶۔ انہیں سب لوگوں سے زیادہ حریص یہاں تک کہ مشرکین سے بھی بڑھ کر لالچی (دولت جمع کرنے اور اس دنیا کی) زندگی پر پاؤگے (یہاں تک کہ) ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ ہزار سال عمر پائے حالانکہ یہ طولانی عمر (بھی) اسے خدا کے عذاب سے نہیں بچاسکے گی اور خدا ان کے اعمال کو دیکھتاہے۔

۹۷۔ (وہ کہتے ہیں: چونکہ وہ فرشتہ جو تم پر وحی لے کر آتاہے جبرائیل ہے اور ہماری جبرائیل سے دشمنی ہے۔ لہذا ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے) کہہ دیجئے: جو جبرائیل کا  دشمن ہے (در حقیقت خدا کا دشمن ہے کیونکہ)  اس نے حکم خدا سے آپ کے دل پر قرآن اتاراہے وہ قرآن جو گذشتہ آسمانی کتب کی تصدیق کرتاہے اور مومنین کیلئے ہدایت و بشارت ہے۔

۹۸۔ جو شخص خدا، فرشتوں ، خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں، جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہے (خدا اس کا دشمن ہے کیونکہ ) خدا کافروں کا دشمن ہے۔

۹۹۔ تیرے لئے ہم نے روشن نشانیاں بھیجیں اور سوائے فاسقین کے کوئی ان کا انکار نہیں کرسکتا۔

۱۰۰۔ اور کیا ایسا نہیں ہے جب بھی (یہودی خدا و رسول سے) کوئی پیمان باندھتے ان میں سے ایک گروہ اسے توڑدیتا تھااور ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے تھے۔

۱۰۱۔   اور جب بھی خدا کی طرف سے کوئی رسول ان کی طرف آیا جب کہ وہ ان نشانیوں کے مطابق بھی تھا جو ان کے پاس تھیں تو ان میں سے ایک جماعت نے جو عامل کتاب (اور عالم ) لوگوں پر مشتمل تھی خدا کی کتاب کو ایسے پس پشت ڈال دیا گو یا وہ اس سے بالکل بے خبر تھے۔

۱۰۲۔   (یہودی) اس کی پیروی کرتے ہیں جو سلیمان کے زمانے میں شیاطین لوگوں کے سامنے پڑھتے تھے سلیمان (نے) کبھی بھی جادو سے اپنے ہاتھ نہیں رنگے اور وہ ) کافر نہیں ہوئے۔ لیکن شیاطین نے کفر کیاہے اور لوگوں کو اس جادو کی تعلیم دی۔اور (یہود) جوکچھ بابل کے دہ فرشتوں ہاروت  اور ماروت پر نازل ہوا اس کی پیروی کرتے تھے وہ دونوں کسی کو کوئی بھی چیز سکھانے سے پہلے اسے کہتے تھے کہ ہم تیری آزمایش کا ذریعہ ہیں، کہیں کافر نہ ہوجانا (اور ان تعلیمات سے غلط فائدہ نہ اٹھانا) لیکن وہ لوگ  ان دو فرشتوں سے وہ مطالب سیکھتے تھے جن کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال سکیں (نہ یہ کہ اس تعلیم سے جادو کے اثر کو باطل کرنے کے لئے استعمال کریں) مگر وہ حکم خدا کے بغیر کبھی کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ وہ صرف انہی حصوں کو سیکھتے جو ان کے لئے نقصان دہ تھے اور انہیں ان کا کوئی فائدہ نہ تھا اور یقینا وہ یہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسے مال و متاع کا خریدار ہو اسے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا اور کاش وہ یہ جانتے کہ کس قدر قبیح اور ناپسندیدہ تھی وہ چیز جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو بیچتے تھے۔

۱۰۳۔    اوراگر وہ  ایمان لے آتے اور پرہیزگاری کو اپنا شیوہ بناتے تو خدا کے پاس جو اس کا بدلہ تھا وہ ان کے لئے بہتر تھا۔

۱۰۴۔   اے ایمان والو! (جب پیغمبر سے قرآن کی آیات سمجھنے کے لئے مہلت مانگوتو)  (راعنا ) نہ کہا کرو بلکہ (انظرنا) کہا کرو  (کیونکہ پہلا لفظ (ہمیں مہلت دیجئے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتاہے اور ہمیں بیوقوف بنائیے  کا معنی بھی دیتاہے جو دشمنوں کو بات کرنے کا موقع فراہم کرتاہے) اور جو کچھ تمہیں حکم دیاجاتاہے اسے سنو: اور کافروں (نیز استہزا کرنے والوں) کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۱۰۵۔  اہل کتاب کفار اور اسی طرح مشرکین پسند نہیں کرتے  ہیں کہ خدا کی طرف سےتمہیں کوئی خیر و برکت نصیب ہو، حالانکہ خدا جسے چاہتاہے اپنی خاص رحمت سے  نوازتاہے اور خدا بخشنے والا اور بڑےفضل والا ہے۔

۱۰۶۔ ہم کسی آیت کو منسوخ نہیں کرتے یا (اس کے نسخ کو) تاخیر نہیں ڈالتے مگر یہ کہ اس کی جگہ اس سے بہتر یا اس جیسی کوئی آیت لے آتے ہیں۔ کیاتم نہیں جانتے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

۱۰۷۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمینوں کی ملکیت خدا کے لئے ہے (اور وہ حق رکھتاہے کہ  مصلحت کے مطابق احکام میں ہر قسم کا تغیر و تبدل کرسکے) اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئی سرپرست اور یار و مددگار نہیں ہے (اور وہی ہے جو تمہارے تمام مصالح کا تعین کرتاہے)۔

۱۰۸۔    کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اس طرح کے (نا معقول) سوال کرو جو اس سے پہلے موسی سے کئے گئے تھے؟ (اور اس بہانے سے ایمان لانے سے روگردانی کرو) ۔ جو شخص ایمان سے کفرکا تبادلہ کرے اور ایمان کے بجائے اسے قبول کر لے) تووہ (عقل و فطرت کی )راہ مستقیم سے گمراہ ہوچکاہے۔

۱۰۹۔  بہت سے اہل کتاب اس حسد کی بناء پر جو ان کے وجود میں جڑ پکڑچکاہے یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں اسلام و ایمان کے بعد پہلی حالت کی طرف پھر لے جائیں۔ حالانکہ ان پر حق مکمل طور پر واضح ہوچکاہے پھربھی تم انہیں معاف کردو اور ان سے درگذر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا فرمان (جہاد) بھیجے ۔ یقینا خدا ہرچیز پر قدرت رکھتاہے۔

۱۱۰۔ نماز قائم کرو اور زکوة ادا اور تم ہر کارخیرکو جو اپنے لئے (دار آخرت کی طرف) آگے بھیجتے ہو اسے خدا کے ہاں موجود پاؤگے۔ خدا تمہارے اعمال سے آگاہ ہے۔

۱۱۱۔ وہ کہتے ہیں یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ ہرگز کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ یہ تو صرف ان کی تمنا ہے کہیے کہ اگر سچے ہو تو (اس دعوی پر) اپنی دلیل پیش کرو۔

۱۱۲۔ جی ہاں! جو بھی خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرلے اور نیکوکار ہو تو اس کا اجر اس کے پروردگار کے پاس مسلم ہے۔ ان کے لئے کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

۱۱۳۔  یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں کی (خدا کی ہاں) کوئی حیثیت و وقعت نہیں اور عیسائی (بھی) کہتے ہیں کہ یہودیوں کی کوئی حیثیت نہیں (اور وہ باطل پر ہیں) حالانکہ دونوں گروہ خدا کی کتاب پڑھتے ہیں (اور انہیں ایسے تعصبات اور کینوںسے علیحدہ رہنا چاہیے)۔ نادان (اور مشرک )لوگ بھی ان کی سی باتیں کرتے ہیں۔ خداوند عالم قیامت کے دن ان کے اختلاف کا فیصلہ کرے گا۔

۱۱۴۔ اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو مساجد میں خدا کا نام لینے سے روکتاہے اور ان کی ویرانی و بر بادی میں کو شاں ہے۔ مناسب نہیں ہے کہ خوف و وحشت کے بغیر یہ لوگ ان مقامات میں داخل ہوں (بلکہ مسلمان انہیں ان مقامات مقدسہ سے روک دیں اور انہیں وہاں نہ آنے دیں) ان کے لئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔

۱۱۵۔ مشرق و مغرب اللہ ہی کے لئے ہیں۔ جد ھر بھی رخ کرو خدا موجود ہے اور خدا بے نیاز و دانا ہے۔

۱۱۶۔ (یہود، نصاری اور مشرکین) کہتے ہیں خدا کا بیٹا ہے، وہ اس چیز سے پاک و منزہ ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کاہے اور سب اس کے سامنےسرنگوں ہے (سب اس کے بندے ہیں اور کوئی بھی اس کا فرزند نہیں)۔

۱۱۷۔ آسمانوں اور  زمین کو وجود بخشنے والاوہی ہے اور جب کسی چیز کو وجود عطا کرنے کا فرمان جاری کرتاہے تو اس کیلئے کہتاہے ہوجا اور وہ فورا ہوجاتی ہے۔

۱۱۸۔  بے علم افراد کہتے ہیں خدا ہم سے بات کیوں نہیں کرتا اور خود ہم پر کیوں کوئی آیت و نشانی نہیں نازل کرتا؟ ان سے پہلے بھی لوگ ایسی باتیں کرتے تھے؛ ان کے دل اور افکار ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔ لیکن ہم (کافی تعداد میں اپنی) آیات اور نشانیاں (حقیقت کے متلاشی) اہل یقین کے لئے روشن اور واضح کرچکے ہیں۔

۱۱۹۔  ہم نے آپ کو حق کے ساتھ (اہل دنیا کو اچھائیوں اور برائیوں کے مقابلے میں) بشارت اور تہدید کے لئے بھیجا اور (اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد) تو اہل جہنم کی گمراہی پر جواب دہ نہیں ہے۔

۱۲۰۔  یہود و نصاری آپ سے اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے  جب تک آپ (ان کی غلط خواہشات کے سامنے طرح سرتسلیم خم نہ کریں اور) ان کے (تحریف شدہ) مذہب کی پیروی نہ کریں۔ کہیے ہدایت کامل صرف خدا کی ہدایت ہے۔ اگر آگاہی کے بعد بھی ان کی ہوا و ہوس کی پیروی کی تو خدا کی طرف سے تمہارے لئے کوئی سرپرست و مددگار نہ ہوگا۔

۱۲۱۔ و ہ لوگ (یہود و نصاری) جنہیں ہم نے آسمانی کتاب دی ہے اور وہ اسے غور سے پڑھتے ہیں۔ پیغمبر اسلام پر ایمان لے آئیں گے اور جوان سے کفر اختیار کریں گے وہ خسارے میں ہیں۔

۱۲۲۔  اے بنی اسرائیل میں نے تمہیں جو نعمت دی ہے اسے یاد کرو اور یہ بھی یاد کرو کہ میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی ۔

۱۲۳۔  اس دن سے ڈر و جب کسی شخص کو دوسرے کی جگہ پر بدلہ نہیں دیاجائے گااور اس سے کوئی عوض قبول نہ کیاجائے گا،کوئی شفاعت و سفارش اس کے لئے فائدہ مند نہ ہوگی اور نہ ہی (کسی طرف سے) ایسے لوگوں کی مدد کی جائے گی۔

۱۲۴۔(وہ وقت یاد کرو) جب خدانے ابراہیم کو مختلف طریقوں سے آزمایا اور وہ ان سے عمدگی سے عہدہ  برآںہوئے تو خدا نے ان سے کہا: میں نے تمہیں لوگوں کا امام و رہبربنا دیا۔ ابراہیم نے کہا: میری نسل اور خاندان میں سے (بھی ائمہ قرار دے)۔ خدا نے فرمایا: میرا عہد (مقام امامت) ظالموں کو نہیں پہنچتا (اور تماری اولاد میں سے جو پاک اور معصوم ہیں وہی اس مقام کے لائق ہیں)۔

۱۲۵۔ (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے خانہ کعبہ کو انسانوں کے لوٹ آنے کا مقام ، مرکز اور جائے امن قرار دیا اور (اسی مقصد کی تجدید کے لیے تم) مقام ابراہیم کو اپنے لئے نماز کی حیثیت سے انتخاب کرو۔ نیز ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کا طواف کرنے والوں، اس گھرکے خادموں اور اس میں سجدہ کرنے والوں (نماز گزاروں) کے لئے اسے پاک و پاکیزہ رکھو۔

۱۲۶۔  (اور یاد کرو اس وقت کو) جب ابراہیم نے عرض کیا: پروردگارا! اس سرزمین کو شہر امن قرار دے اور اس کے رہنے والوں کو جو خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، انہیں (قسم قسم کے) میووں سے روزی دے۔ (ہم نے ابراہیم کی اس دعا کو قبول کیا) خدا نے  کہا:جو کافر ہوگئے ہم انہیں تھوڑا سا فائدہ دیں گے پھر انھیں آگ کے عذاب کی طرف کھینچ کے لے جائیں گے اور ان کا انجام کتنا براہے۔

۱۲۷۔ اور (یاد کرو اس وقت کو) جب ابراہیم اور اسماعیل خانہ کعبہ کی بنیادیں بلند کررہے تھے (اور کہتے تھے) اے ہمارے پروردگار! تو ہم سے قبول فرما کہ توسننے والا اور جاننے ولا ہے۔

۱۲۸۔  پروردگار! ہمیں اپنے فرمان کے سامنےسرتسلیم خم کرنے والا قرار دے اور ہماری اولاد میں سے ایسی امت بنا جو تیرےحضور سر سلیم خم کرنے والی ہوں اورہمیں اپنی عبادت کا راستہ دکھا اور ہماری تو بہ قبول فرما کہ تو توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔

۱۲۹۔  پروردگار! ان کے در میان انہی میں سے ایک نبی مبعوث فرماجو انہیں تیری آیات سنائے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کرے، کیونکہ تو توانا اور حکیم ہے (اور تو اس کام پر قدرت رکھتاہے)۔

۱۳۰۔ نادان و بیوقوف لوگوں کے سوا کون شخص (اس پاکیزگی اور روشنی کے با وجود) دین ابراہیم سے روگردانی کردے گا۔ اس دنیا میں ہم نے انہیں منتخب کیاہے اور آخرت میں بھی وہ صالحین میں سے ہیں۔

 ۱۳۱۔ (یاد کرو وہ وقت) جب اس کے پروردگار نے اس سے کہا: اسلام لے آؤ (اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرو تو اس نے پروردگار کے فرمان کو دل و جان سے قبول کرلیا اور) کہا میں عالمین کے پروردگار کے سامنے سرتسلیم خم کرتاہوں۔

۱۳۲۔ ابراہیم اور یعقوب نے (اپنی عمر کے آخری اوقات میں) اپنے بیٹوں کو اس دین کی وصیت کی (اور ہر ایک نے اپنے فرزندوں سے کہا) اے میرے بیٹو! خدانے اس آئین پاک کو تمہارے لئے منتخب کیاہے اور تم دین اسلام کے علاوہ کسی پر نہ مرنا۔

۱۳۳۔  کیا تم موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا؟ جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا:تم میرے بعد کس کی پرستش کروگے؟ انہوں نے کہا: آپ کے خدا کی اور اس اکیلے خدا کی جو آپ کے آباء ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا خداہے اور ہم اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔

۱۳۴۔ (بہر حال) وہ ایک امت تھے کہ گذشتہ زمانے میں ان کے اعمال ان سے مربوط تھے اور تمہارے اعمال بھی خود تم سے مربوط ہیں اور ان کے اعمال کی باز پرس کبھی تم سے نہ ہوگی۔

۱۳۵۔ (اہل کتاب) کہتے ہیں: یہودی بن جاؤ یا عیسائی تا کہ ہدایت پالو۔ کہہ دیجئے (یہ تحریف شدہ مذاہب ہرگز ہدایت بشر کا سبب نہیں بن سکتے) بلکہ ابراہیم کے خالص دین کی پیروی کرو وہ ہرگز مشرکین میں سے نہ تھے۔

۱۳۶۔ کہیے ہم خدا پر ایمان لائے ہیں اور اس پر جو ہم پر نازل ہواہے اور اس پر بھی جو ابراہیم ، اسمعیل ، اسحاق، یعقوب اور بنی اسرائیل کے دیگر انبیاء اسباط پر نازل ہواہے اور اسی طرح جو کچھ موسی اور عیسی اور دوسرے پیغمبروں کے پاس پروردگار کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان میں کوئی فرق نہیں سمجھتے اور خدا کے حکم کے سامنے سرتسلیم کرتے خم کرتے ہیں (نسلی تعصبات اور ذاتی اغراض ہمارے لئے سبب نہیں بنتیں کہ ہم بعض کو قبول کریں اور بعض کو چھوڑ دیں)۔

۱۳۷۔ اگر وہ بھی اس پر ایمان لے آئیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو ہدایت یافتہ ہوجائیں گے اور اگر روگردانی کریں گے تو وہ حق سے جداہوں گے اور خدا تم سے ان کے شر کو دور کرے گا کہ وہ سننے والا اور داناہے۔

۱۳۸۔ خدائی رنگ (ایمان، توحید اور اسلام کا رنگ قبول کریں) اور خدائی رنگ سے کون سا رنگ بہتر ہے اور ہم صرف اس کی عبادت کرتے ہیں۔

۱۳۹۔ اے رسول کہہ دیجئے: کیا تم ہم سے خدا کے بارے میں گفتگو کرتے ہو حالانکہ وہی تمہارا اور ہمارا پروردگار ہے، ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں اور ہم تو خلوص سے اس کی عبادت کرتے ہیں (اور ہم مخلص موحد ہیں)۔

۱۴۰۔ کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم، اسمعیل ، اسحاق ، یعقوب اور اسباط یہودی یا عیسائی تھے۔ کہیئے تم بہتر جانتے ہو یا خدا (اور با وجودیکہ تم جانتے ہو کہ وہ یہودی یا عیسائی نہ تھے کیوں حقیقت چھپاتے ہو) اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم و ستمگر ہے جو اپنے پاس موجود خدائی شہادت کو چھپائے ؛حالانکہ خدا تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

۱۴۱۔ (بہرحال) وہ ایک امت تھے جو گزرگئے۔ جو انہوں نے کیاہے وہ ان کے لئے ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ تمہارے لئے ہے۔ تم ان کے اعمال کے جواب دہ نہیں ہو۔

یہاں سے قرآن کریم کے دوسرا پارہ شروع ہوتا ہے :

۱۴۲۔ عنقریب کم عقل لوگ کہیں گے (مسلمانوں کو) ان کے پہلے قبلہ سےکس چیز نے روگردان کیاہے؟ کہہ دو: مشرق و مغرب اللہ کے لئے ہے۔ وہ جسے چاہتاہے سیدھی راہ کی ہدایت کرتاہے۔

 ۱۴۳۔ (جیسے تمہارا قبلہ در میانی ہے) اسی طرح خودتمہیں بھی ہم نے ایک در میانی امت بنایاہے (جوہر لحاظ سے افراط و تفریط کے در میان حد اعتدال میں ہے) تا کہ لوگوں کے لئے تم ایک نمونے کی امت بن سکو اور پیغمبر تمہارے سامنے نمونہ ہواور ہم نے وہ قبلہ (بیت المقدس) کہ جس پر تم پہلے تھے فقط اس لئے قرار دیا تھا کہ وہ لوگ جو پیغمبر کی پیروی کرتے ہیں جاہلیت کی طرف پلٹ جانے والوں سے ممتاز ہوجائیں؛ اگر چہ یہ کام ان لوگوں کے سوا جنہیں خدانے ہدایت دی ہے دشوار تھا (یہ بھی جان لوکہ کہ تمہاری وہ نماز یں جو پہلے قبلہ کی طرف رخ کرکے ادا کی تھیں صحیح ہیں) اور خدا ہرگز تمہارے ایمان (نماز) کو ضائع نہیں کرتا کیونکہ خدا لوگوں پر رحیم اور مہربان ہے۔

۱۴۴۔ ہم تمہارے چہرے کو دیکھتے ہیں جسے تم آسمان کی طرف پھیرتے ہو (اور قبلہ نما کے تعیین کے لئے فرمان خدا کے انتظار میں رہتے ہو)۔ لہٰذا اب تمہیں اس قبلہ کی طرف جس سے تم خوش ہو پھیر دیتے ہیں،تو اب تم اپنا چہرہ مسجد الحرام کی طرف کرلو اور تم (مسلمان) جہاں کہیں ہو اپنے چہرے اس کی طرف پھیردو؛ اور وہ لوگ  جنہیں آسمانی کتاب دی گئی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ حکم جو ان کے پروردگار کی طرف سے صادر ہواہے درست ہے (کیونکہ وہ اپنی کتب میں پڑھ چکے ہیں کہ رسول اسلام دو قبلوں کی طر ف نماز پڑھیں گے) اور (وہ جو ایسی نشانیاں چھپاتے ہیں) خداوند عالم ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

۱۴۵۔ قسم ہے کہ اگرتم کسی قسم کی آیت (دلیل اور نشانی) ان اہل کتاب کے لئے لے آؤ تو یہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے؛ اور تم بھی اب کبھی ان کے قبلہ کی پیروی نہیں کروگے اور ان میں سے بھی کوئی  ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی نہیں کرے گا اور اگر تم علم و آگاہی کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کرو  تو مسلما ستمگروں اور ظالموں میں سے ہوجاؤگے۔

۱۴۶۔ وہ لوگ جنہیں ہم نے آسمانی کتب دی ہے وہ اس (پیغمبر ) کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوںکو اگر چہ ان میں سے ایک گروہ حق کو پہچاننے کے با وجود اسے چھپاتاہے۔

۱۴۷۔(قبلہ کی تبدیلی کا یہ فرمان) تمہارے پروردگار کا حکم حق ہے لہذا  ہرگز تردد و شک کرنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ۔

۱۴۸۔  ہر گروہ کا ایک قبلہ ہے جسے خدا نے اس کے لئے معین کیاہے (اس بنا پر اب قبلہ کے بارے میں زیادہ گفتگو نہ کرو اور اس کی بجائے ) نیکیوں اور اعمال خیر میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرو، تم جہاں کہیں بھی ہوگے، خد ا تمہیں (قیامت کے دن) حاضر کرے گا، کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے۔

۱۴۹۔  تم جس بھی جگہ (شہر اور مقام) سے نکلو (جب وقت نماز ہوتو) اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کرلو، یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حکم حق ہے اور خدا تمہارے کردار سے غافل نہیں ہے۔

۱۵۰۔ اور تم جہاں سے بھی نکلو اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کرلو اور تم (مسلمان) جہاں کہیں ہو اپنا رخ اس کی طرف کرو  تا کہ لوگوں کے پاس تمہارے خلاف کوئی دلیل و حجت نہ ہو۔ ان لوگوں کے سوا جو ظالم(ہٹ دھرم) ہیں ان سے نہ ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرو  اور اپنی نعمت تم پر مکمل کروں تا کہ تم ہدایت حاصل کرلو۔

۱۵۱۔ جس طرح (قبلہ کی تبدیلی کے ذریعے ہم نے تم پراپنی نعمت کا مل کی اسی طرح) ہم نے تمہارے در میان تم  میں سے ہی رسول بھیجا تا کہ وہ تمہیں ہماری آیات پیش کرے،مہاری پرورش و تربیت کرے،تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور جو کچھ تم نہیں جانتے تمہیں بتائے۔

۱۵۲۔ لہٰذاتم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو اورمیری (نعمتوں کا)کفر ان نہ کرو۔

۱۵۳۔ اے ایمان والو! زندگی کے سخت ترین کے موقع پر) صبر و استقامت اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ کیونکہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

۱۵۴۔ جو راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو، وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے۔

۱۵۵۔ یقینا ہم تم سب کی خوف، بھوک، مالی و جانی نقصان اور پھلوں کی کمی جیسے امور سے آزمائش کریں گے، اور صبر واستقامت دکھانے والوں کو بشارت دیجئے۔

۱۵۶۔ وہ لوگ جنہیں جب کوئی مصیبت آن پہنچے تو کہتے ہیں ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ جائیں گے۔

۱۵۷۔ یہ وہی لوگ ہیں کہ الطاف و رحمت الہی جن کے شامل حال ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔

۱۵۸۔ صفا و مروہ خدا کے شعائر اور نشانیوں میں سے ہیں؛ لہذا جولوگ خانہ خدا کا حج کریں یا عمرہ بجالائیں ان کے لئے کوئی ہرج نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کا طواف کریں (اور سعی کریں)اور جو لوگ حکم خدا کی بجاآوری کے لئے اعمال خیر بجالائیں خدا ن کا قدردان ہے اور ان کے کردار سے آگاہ ہے۔

۱۵۹۔ جو لوگ ان واضح دلائل اور ذرائع ہدایت کو چھپاتے ہیں جنہیں ہم نے نازل کیا جب کہ ان لوگوں کے لئے ہم نے کتاب میں بیان(بھی) کردیاہے، ان پر خدا لعنت کرتاہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت بھیجتے ہیں اور نفرین کرتے ہیں۔

۱۶۰۔ مگر وہ جو توبہ کرتے ہیں اور لوٹ آتے ہیں اپنے برے اعمال کی اصلاح کرکے نیک اعمال انجام دیتے ہیں اور جو کچھ چھپاتے تھے اسے آشکار کرتے ہیں تو میں ان کی توبہ قبول کرتاہوں کہ میں تو بہ قبول کرنے والا ا و ر رحیم ہوں۔

۱۶۱۔ جو لوگ کافر ہوئے اور حالت کفر ہی میں مرگئے ان پر خدا، فرشتے اور تمام انسان لعنت کرتے ہیں۔

۱۶۲۔ وہ اس میں ہمیشہ( کے لئے زیر لعنت اور رحمت خدا سے دور )رہیں گے۔ ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی نہ انہیں کوئی مہلت دی جائے گی۔

۱۶۳۔ تمہارا خدا اور معبود اکیلا خدا ہے، جس کے علاوہ کوئی معبود اور لائق پرستش نہیں ہے، کیونکہ وہی بخشنے والا اور مہربان ہے۔اورحمت عام اور رحمت خاص کا مالک وہی ہے)۔

۱۶۴۔ آسمانوں اور زمین کی خلقت میں، رات دن کے آنے جانے میں، انسانوں کے فائدے کے لئے دریا میں چلنے والی کشتیوں میں، خدا کی طرف سے آسمان سے نازل ہونے والے اس پانی میں جس نے زمین کو موت کے بعد زندگی دی ہے ،اور ہر طرح کے چلنے والے اس میں پھیلے ہوئے ہیں، ہواؤں کے چلنے میں اور بادلوں میں جو زمین و آسمان کے در میان معلق ہیں (خدا کی ذات پاک اور اس کی یکتائی کی) ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو عقل و فکر رکھتے ہیں۔

۱۶۵۔   بعض لوگ خدا کو چھوڑ کر اپنے لئے کسی اور معبود کا انتخاب کرتے ہیں، انہیں اس طرح دوست رکھتے ہیں جیسے خدا کو رکھنا چاہئے ،اور ان سے محبت کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں انہیں (اس محبت کی نسبت جو مشرکین کو اپنے معبودوں سے ہے) خدا سے شدید عشق و محبت ہے ؛اور جنہوں نے ظلم کیاہے (اور خدا کے علاوہ کسی اور کو معبود قرار دے لیاہے) جب وہ عذاب خدا کو دیکھیں گے تو جان لیں گے کہ تمام قدرت خدا کے ہاتھ ہے (نہ کہ ان خیالی معبودوں کے ہاتھ جن سے وہ ڈرتے ہیں) اور خدا کا عذاب اور سزا شدید ہے۔

۱۶۶۔ اس وقت (انسانی و شیطانی معبود اور) رہبر اپنے پیروکاروں سے بیزار ہوں گے؛ وہ عذاب خدا کا مشاہدہ کریں گے اور ان کے باہمی تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔

۱۶۷۔ تب پیروکار کہیں گے کاش ہم دوبارہ دنیا کی طرف پلٹ جائیں تا کہ ہم بھی ان سے اسی طرح بے بیزاری اختیار کریں جس طرح آج یہ ہم سے بیزار ہیں۔ (ہاں) یونہی خدا انہیں ان کے اعمال حسرت دکھائے گا (اور انہیں اپنے اعمال سراپا یاس دکھائی دیں گے) اور وہ ہرگز (جہنم کی) آگ سے خارج نہیں ہوں گے۔

۱۶۸۔اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال اور پاکیزہ ہے اسے کھاؤ اور شیطان کے نشان پاکی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔

۱۶۹۔ وہ تمہیں فقط برائیوں اور انحرافات کا حکم دیتاہے؛ نیز (کہتاہے کہ ) جن امور کو تم نہیں جانتے انہیں خدا کی طرف منسوب کردو۔

۱۷۰۔ جب انہیں کہاجاتاہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے نازل ہواہے اس کی پیروی کرو، تو کہتے ہیں: ہم تو اس  چیز کی پیروی کریں گے جس پرہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایاہے۔ کیا ایسا نہیں کہ ان کے آباء و اجداد نہ کسی چیز کو سمجھتے تھے اور نہ ہی ہدایت یافتہ تھے۔

۱۷۱۔ کافروں کو دعوت دینے میں (تمہاری) مثال اس شخص کی سی ہے جو (بھیڑوں اور دیگر جانوروں کو خطرات سے بچانے کے لئے)آواز دیتاہے لیکن وہ صدا اور پکارکے سوا کچھ نہیں سنتے وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں، اس لئے کچھ نہیں سمجھ سکتے۔

۱۷۲۔ اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں دیاہے اس میں سے پاک و پاکیزہ چیزیں (شوق سے) کھاؤ اور اگر خداہی کی عبادت کرتے ہو تو اس کا شکر بجالاؤ۔

۱۷۳۔ اس نے تم پر مردہ جانور، خون، سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر (ذبح کرتے وقت) غیر خدا کا نام لیاگیا ہو حرام کیا ہے؛لہٰذا جو شخص مجبوری کے عالم میں، اگر وہ سرکشی و زیادتی کرنے والا نہ ہو ان میں سے کچھ کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۷۴۔ وہ لوگ جو اسے چھپاتے ہیں جسے خدانے کتاب میں نازل کیاہے اور وہ اسے تھوڑی سی قیمت پر بیچ دیتے ہیں ایسےلوگ سوائے آگ کے کچھ نہیں کماتے ؛ اور قیامت کے دن خدا ان سے بات نہیں کرے گا؛ نہ ہی انہیں پاک کرے گا ؛اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۱۷۵۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت اور عذاب کو بخشش کے بدلےخرید لیاہے؛ عذاب الہی کے مقابلے میں واقعا یہ کتنے بے پروا ہی اور سرد مہری کا شکار ہیں۔

۱۷۶۔یہ (سب کچھ) اس لئے ہے کہ خدانے (آسمانی) کتاب کو حق (کی نشانیوں اور واضح دلائل ) کے ساتھ نازل کیا ہے؛ اور جو اس میں اختلاف کرتے ہیں (اور حق کو چھپانےتحریف کرنے  سے اختلاف پیدا کرتے ہیں ) گہرےشگاف (اور پراگندگی) میں پڑے ہیں۔

۱۷۷۔ نیکی یہی نہیں کہ (نماز کے وقت) اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو؛ اور تمام گفتگو قبلہ اور اس کی تبدیلی کے بارے میں کرتے رہو اور اپنا سارا وقت اسی میں صرف کردو) بلکہ نیکی (اور نیکوکار) وہ لوگ ہیں جو خدا، روز قیامت، ملائکہ، آسمانی کتاب اور انبیاء پر ایمان لائے اور (اپنا) مال اس سے پوری محبت کے با وجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، ضروتمند مسافروں، سوال کرنے والوں اور غلاموں پرخرچ کرتے ہیں ، نماز قائم کرتے، زکوة اداکرتے، جب عہد و پیمان باندھتے تو اسے پورا کرتے اور بے کسی، محرومی، بیماری اور میدان جنگ غر ض ہر عالم میں استقامت و صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو سچ بولتے ہیں (اور ان کی گفتار، کردار اور اعتقاد میں ہم آہنگی ہے) اور یہی پرہیزگار ہیں۔

۱۷۸۔اے ایمان والو! مقتولین کے بارے میں حکم قصاص تمہارے لئے لکھ دیاگیاہے؛ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ، پس اگر کوئی اپنے (دینی) بھائی کی طرف سے معاف کردیاجائے (اور حکم قصاص خونبہا سے بدل جائے) تو مقتول کے ولی کو چاہئیے کہ پسندیدہ طریقے کی پیروی کرے (اور دیت کی وصولی میں دیت دینے والے کی حالت کو پیش نظر رکھے) اور قاتل بھی ولی مقتول کو اچھے طریقے سے دیت ادا کرے (اور اس کی ادائیگی میں حیل و حجت سے کام نہ لے) تمہارے پروردگار کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے ؛اور اس کے بعد بھی جو تجاوز کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۱۷۹۔اور قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے؛ اے صاحبان عقل و خرد! تمہیں تقوی و پرہیزگاری کی راہ اختیار کرنا چاہئیے۔

۱۸۰۔ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے تو چاہئیے  اسےکہ وہ ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے شائستہ طور پر وصیت کرے؛ یہ حق ہے پرہیزگاروں پر۔

۱۸۱۔ پھر جس نے وصیت سن کراسے بدل ڈالا اس کا گناہ (وصیت) بدلنے والے پرہے۔ خدا تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔

۱۸۲۔ جس شخص کو خوف ہو کہ وصیت کرنے والے نے انحراف (بعض ورثہ کی طرف ایک طرفہ میلان) یا گناہ (کسی غلط چیز کے لئے وصیت ) سے کام لیاہے اور وہ وارثین کے در میان صلح کرادے تو اس پر کچھ گناہ نہیں (اور اس پروصیت کے تبدیلی کا قانون لاگونہ ہوگا) خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۸۳۔اے ایمان والو! روزہ تمہارے لئے لکھ دیا گیاہے جیسے تم سے پہلے لوگوں کے لئے لکھا گیاتھا، تا کہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔

۱۸۴۔چند گنے چنے دن (روزہ رکھو) اور تم میں سے جو لوگ بیمار ہوں یا مسافر ہوں وہ ان کی بجائے دوسرے دنوں میں (روزوں کی) گنتی پوری کرلیں ؛اور جولوگ یہ کام انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے، (مثلا دائمی مریض اور بوڑھے مرد و عورتیں )ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے کے ذریعہ کفارہ دیں، اور جو لوگ کار خیر کے بجالانے میں فرمان خدا کی اطاعت کرتے ہیں تو وہ ان کے لئے بہتر ہے؛ اور روزہ رکھنا تمہارے لئے نفع بخش ہے اگر تم جانونتے ہوتے۔

۱۸۵۔ وہ رمضان کامہینہ ہے ،جسم میں قرآن نازل ہوا جس میں لوگوں کے لئے راہنمائی اور ہدایت کی نشانیاں ہیں اور جو حق و  باطل کے درمیان جدائی ڈالتا ہے ؛ لہٰذا تم میں سے جو شخص حاضر ہو اسے روزے رکھنا چاہیئے ، اور وہ شخص جو بیمار یا مسافر ہے تو وہ دوسرے دنوں میں اسی مقدار کے برابر روزے رکھے ، خدا تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے زحمت نہیں؛ مقصدیہ ہے کہ روزے پورے پونا چاہیئے ؛ اور خدا کی اس بناء پر کہ اس نے تمہاری ہدایت کی ہے بزرگی بیان کرو؛ شاید کہ تم شکر گذار ہو جائو۔

۱۸۶ ۔اور جب میرے بندے میرے بارے میں تم سے سوال کریں (کہہ دو)کہ میں قریب ہوں ؛ دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب مجھ سے دعا کرتے ہیں ، لہٰذا میری دعوت کو قبول کریں ، اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ راستہ لیں (اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں)۔

۱۸۷ ۔ روزہ کی راتوں میں اپنی عورتوں کے ساتھ ہمبستری کرنا تمہارے لئے حلا ل ہے؛ وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو؛(اور دونوں ایک دوسرے کی زینت اور ایک دوسرے کی حفاظت کا سبب ہو)۔ خدا جانتا تھا کہ تم اپنے ساتھ خیانت کرتے تھے(اور اس ممنوع کام کو انجام دیتے تھے ؛)پھر اس نے تمہارے توبہ کو قبول کرلیا اور تمہیں بخش دیا ۔ اب ان کے ساتھ ہمبستری کرو؛ اور جس چیز کی خدا نے اجازت دی ہے اس سے فائدہ اٹھا و ، کھاو پیو یہاں تک کہ شب کی سیاہی سے صبح کی پو پھٹ جائے ،پھرروزوں کی رات تک تمام کرو ، نیز جب تمام مسجدوں میں اعتکاف کے لئے بیٹھو تو اپنی عورتوں کےساتھ جنسی ملاپ نہ کرو، یہ اللہ کی حدود ہیں لہٰذا ان کے نذدیک نہ جاو!خدا وند عالم اس طرح اپنی آیات کو لوگوں کے لئے واضح کرتا ہے ، تاکہ پرہیز گار بن جاو۔

۱۸۸۔ایک دو سرے کے اموال آپس میں باطل (و ناحق ) طریقے سے نہ کھاؤ اور گناہ کے ذریعے لوگوں کے مال کا ایک حصہ کھا نے کے لیے اس میں سے (کچھ مال) قاضیوں کو نہ دو جب کہ تم جا نتے ہو۔

۱۸۹ ۔(اے رسول )تم سے مہینہ کے چاندوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ؛ کہہ دو: کہ یہ لوگوں کی (نظام زندگی)کے وقتوں کے بیان (اور طبیعی تقویم)اور حج کے اوقات کو معین کرنے کے لئے ہیں اور نیک کام وہ نہیں ہے کہ گھروں کے بچھواڑے سے گھروں میں داخل ہو، ، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں احرام کی حالت میں رائج تھا ؛ بلکہ نیکی یہ ہے کہ پر ہیز گار بن جاو اور گھروں میں دروازوں سے جاو؛ اور تقویٰ اختیار کرو، تاکہ کامیابی حاصل کرو۔

۱۹۰ ۔ راہ خدا میں ان لوگوں کےساتھ جنگ کرو جنھوں نے تمہارے ساتھ جنگ کی ؛ اور حد سے آگے نہ بڑھو ، کیونکہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

۱۹۱ ۔ اور انھیں (= فتنہ پر ور مشرکین )کو جہاں پاو قتل کرڈالو ؛ اور جہاں سے تمہیں باہر نکالا تھا انھیں باہر نکال دو ، اور فتنہ پھیلانا قتل سے برا ہے ، اور ن کے ساتھ مسجد الحرام کے نذدیک (=جہاں تک حرم کی حدود ہیں)جنگ نہ کرو؛ مگر یہ کہ وہاں تم سے جنگ کریں۔ لہٰذا اگر وہاں تم سے جنگ کریں تو انھیں قتل کردو۔ یہ ہی ہے کافروں کی سزا۔

۱۹۲ ۔ اور اگر وہ (جنگ اور فتنہ سے )دست بردار ہو جائیں، تو خداوند عالم بخشنے وا لا اور مہربان ہے۔

۱۹۳۔اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ (اور بت پرستی اور لوگوں سے سلب آزادی کی حالت ) باقی نہ رہے، اور دین خدا کے لیے مخصوص ہوجائے ؛ پس اگر وہ (اپنی غلط روش سے) دستبردار ہو جائیں (توان سے مزاحمت نہ کرو کیونکہ) تعدی اور تجاوز ظالموں کے علاوہ کسی کا شیوہ نہیں ہے۔

۱۹۴۔حرام مہینہ حرام مہینے کے مقابلے میں ( اگر دشمن اس کا احترام نہ کریں اور تم سے لڑیں تو تم بھی مقابلہ بالمثل کا حق رکھتے ہو ) تمام حرام امور (قابل ) قصاص ہیں؛ اور (بطور عام) جوشخص بھی تم پر تجاوز کرے تو اس کی طرح تم بھی اس پر تعدی کر سکتے ہو؛ا اور خدا سے ڈرتے رہنا (اور زیادتی نہ کرنا ) اور جان لو کہ خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔

۱۹۵۔ اور راہ خدا میں خرچ کرو؛ (اور خرچ نہ کرکے ) اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی کرو کہ اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتاہے۔

۱۹۶۔حج و عمرہ کو خدا کے لیے مکمل کرو؛ اور اگر محصور ہو جاوٴ  (اور ایسی رکاو ٹیں پیدا ہو جائیں جن کے باعث مکہ میں داخل نہ ہو سکو مثلا دشمن کا خوف ہو یا کوئی بیماری لا حق ہو جائے) تو جو قربانی فراہم ہوا سے ذبح کرو( اور احرام سے خارج ہو جاؤ) اور اپنے سروں کو نہ منڈ واؤجب تک قربانی اپنے مقام تک نہ پہنچ جائے ( اور قربان گاہ میں ذبح نہ ہو جائے ) اور اگر کوئی بیمار  ہو جا ئے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف و اذیت ہو ( اور محبور ہو کروہ اپنا سر نہ مٹدوا ئے) تو اسے چاہئیے کہ روزہ ، صدقہ یا گوسفند کی صورت میں فدیہ اور کفارہ دے۔ اور جب (بیماری یا دشمن سے )ا مان  میں ہو جائیں توجو لوگ عمرہ ختم کرنے کے ساتھ ہی حج کا آغاز کر دیں تو جو قربانی انہیں میسر ہو (اسے ذبح کریں ) اور جن کے پاس نہیں ہے تو وہ تین دن حج کے دنوں میں اور سات دن واپس آکر روزے رکھیں؛ یہ پورے دس روزے ہیں (البتہ ( یہ ایسے شخص کے لیے ہے جس کے گھروا لے مسجد الحرام کے پاس نہ ہوں ( جو اہل مکہ اور اطراف مکہ میں سے نہ ہو ) اور خدا سے ڈرو اور جان لو کہ وہ سخت عتاب کرنے والا ہے۔ 

۱۹۷۔ حج معین مہینوں میں ہے اور جولوگ ( احرام اور مناسک حج شروع کر لینے سے ) حج اپنے اوپر فرض کر لیتے ہیں ( انہیں توجہ رکھنی چا ہیئے کہ ) حج میں عورتوں سے جنسی ملاپ ، گناہ اور جدال نہیں ہے  اور جوا چھے کا م تم انجام دیتے ہو، خدا انہیں جانتا ہے ۔ زاد راہ اور توشہ مہیا کرلو کیونکہ بہترین زاد و توشہ پرہیزگاری ہے اور اے صاحبان عقل مجھ سے ڈرو ۔

۱۹۸۔ کوئی گناہ اور حرج نہیں کہ تم اپنے پروردگار کے فضل سے ( اور ایام حج میں اقتصادی منافع سے) فائدہ اٹھاؤ ؛(کیونکہ حج کا ایک فلسفہ اسلامی اقتصادی معاشرے کی بنیادرکھنا بھی ہے) اور جب میدان عرفات سے کوچ کرو تو مشعر الحرام کے پاس خدا کو یاد کرو؛ اسے اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے؛ اگرچہ اس سے پہلے تم لوگ گمراہ تھے۔

۱۹۹۔ پھر اس جگہ سے کہ جہاں سے لوگ کوچ کرتے ہیں (سرزمین منی کی طرف) کوچ کرو ؛اور خدا سے طلب مغفرت کرو؛ جو بخشنے والا مہربان ہے۔

۲۰۰۔اور جب اپنے مناسک (حج) انجام دے لو تو ذکر خدا کرو جیسے(زمانہ جاہلیت میں موہوم مفاخر پر فخر و مباھات کرتے ہوئے اپنے آباء کو یاد کرتے رہے ہو بلکہ اس سے بڑھ کر ،حج کی انجام دہی میں یہاں دو طرح کے لوگ ہیں ) بعض کہتے ہیں خدایا ہمیں دینا میں بھلائی عطا کر ، ایسے لوگوں :کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔

۲۰۱۔ بعض کہتے ہیں خداوند ہمیں دینا میں بھلائی عطا کر؛ اور آخرت میں بھی اچھائی سے نواز ؛اور ہمیں ( جہنم کی ) آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔

۲۰۲۔ وہ اپنی کوشش (اور دعا) کاصلہ اور حصہ پائیں گے اور خدا جلد حساب چکا دینے والا ہے۔ 

۲۰۳۔   اور خدا کو معین دنون (۱۱،۱۲     اور ۱۳ ذی الحجہ)  میں یاد کرو؛ اور جو لوگ جلدی کریں اور (ذکر خدا کو) دودنوں میں انجام دیں ان پر کوئی گناہ نہیں اور جو تاخیر کریں( اور تین دن انجام دیں) ان پر بھی کوئی گناہ نہیں (یہ ان کے لیے ہے) جو تقوی اختیار کریں۔ نیز خدا سے ڈرو اور جان لو کہ تم اس کی طرف محشور ہوگے۔

۲۰۴۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی گفتگو دنیاوی زندگی کے لیےتمہیں بھلی معلوم ہوتی ہے؛ اور وہ جو دل میں چھپائے ہوئے ہیں خدا اس پر گواہ ہے؛ اور (جبکہ ) وہ سخت ترین دشمن ہیں۔

۲۰۵۔ (ان کی نشانی یہ ہے کہ) جب وہ رخ پھیرتے ہیں (اور تیری بارگاہ سے نکلتے ہیں) تو زمین میں فساد بر پا کرنے کے در پے ہوجاتے ہیں اور فصلوں اور چوپایوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں ( اس کے با وجو د کہ وہ جانتے ہیں کہ) خدا فساد کو پسند نہیں کرتا۔

۲۰۶۔ اور جب ان سے کہاجاتا ہے کہ خدا سے ڈرو، (تو ان کا اصرار اور ہٹ دھرمی بڑھ جاتی ہے) اور ضد اور تعصب انہیں گناہ کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں ؛بس، جہنم کی آگ ان لوگوں کیلئے کافی ہے اور (جہنم)، کیا بری جگہ ہے۔

۲۰۷۔ (علی جیسے صاحب ایمان اور فداکار جنہوں نے ہجرت کی شب پیغمبر    کے بستر پر سوکر گزاری) کچھ لوگ اپنی جان خدا کی خوشنودی کے بدلے بیچ دیتے ہیں اور خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے۔

۲۰۸۔ اے ایمان والو! سب کے سب صلح و آشتی میں داخل ہوجاؤ ؛اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو کہ وہ تو تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔

۲۰۹۔ اور اگر (ان سب ) نشانیوں کے بعدبھی تم سے لغزش ہوجائے (اور تم گمراہ ہوجاؤ) تو جان لوکہ (تم خداکی عدالت کے چنگل سے فرار اختیار نہیں کرسکتے کیونکہ) خدا توانا اور حکیم ہے۔

۲۱۰ کیا (شیطان کے پیروکار) یہ لوگ (ان تمام نشانیوں کے بعد) پھر بھی منتظر ہیں کہ خدا اور فرشتے بادل کے سائے میں ان کے پاس آئیں (اور اان کے لئے نئے دلائل پیش کریں جب کہ یہ امر محال ہے) حالانکہ جو ضروری تھا انجام پاچکا ہےاور تمام معاملات کی بازگشت خدا کی طرف ہے۔ 

۲۱۱۔ بنی اسرائیل سے پوچھ لو، ہم نے انہیں کتنی واضح نشانیاں دی اور جو شخص اللہ کی نعمت پاکر اسے تبدیل کردے (اور اسے غلط امور میں صرف کرے وہ خدا کے شدید عذاب میں گرفتار ہوگا کہ) خدا شدید العقاب ہے۔

۲۱۲ دنیاوی زندگی کو کافروں کے لیے مزین کیا گیا ہے (لہذا) وہ صاحب ایمان لوگوں کا (کہ جو کبھی کبھی تہی دست ہوتے ہیں) تمسخر اڑاتے ہیں ؛حالانکہ اہل ایمان قیامت میں ان سے بالاتر ہوں گے (کیونکہ قدریں وہاں آشکار ہوں گی اور وہاں وہ اپنی اصلی صورت میں ہوں گے) اور خدا جسے چاہتاہے بغیر حساب کے روزی دیتاہے۔

۲۱۳۔(ابتداء میں) لوگوں کا ایک ہی گروہ تھا، (اور ان کے در میان کوئی تضاد نہ تھا؛رفتہ رفتہ گروہ اور طبقات پیدا ہوتے گئے) پھر ان میں اختلافات (اور تضادات)وجود میں آئے؛ خدا نے انبیاءکو بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو بشارت دیں اور ڈرائیں نیز ان پر آسمانی کتاب بھی نازل کی جو انہیں حق کی طرف دعوت دیتی تھی، یہ کتاب لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے تھی (ایمان والوں نے تو اس سے اختلاف نہیں کیا) صرف ایک گروہ نے حق سے انحراف اور ستمگری کرتے ہوئے اس سے اختلاف کیا جب کہ انہیں کتاب دی گئی تھی ،اور واضح نشانیاں ان تک پہنچ چکی تھیں جو لوگ ایمان لاچکے تھے خدا نے اختلافی چیز میں اپنے حکم سے ان کی رہبری کی؛ (لیکن بے ایمان لوگ اسی طرح گمراہی اور اختلاف میں پڑے رہے) اور خدا جسے چاہتا ہے راہ راست کی طرف ہدایت کرتاہے

۲۱۴۔ کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں جاؤگے ،اور تمہیں وہ حوادث پیش نہیں آئیں گے جو گذشتہ لوگوں کو در پیش ہوئے؛ وہی لوگ جنہیں دشواریاں اور تکلیفیں در پیش ہوئیں اور وہ ایسے دکھ درد میں مبتلا ہوئے کہ پیغمبر اور ان کے ساتھ اہل ایمان کہنے لگے خدا کی مدد کہاں ہے (اور سب نے اس وقت اللہ سے مدد کا تقاضا کیا لیکن ان سے کہہ دیا گیا کہ) آگاہ رہو کہ خدا کی مدد قریب ہی ہے۔

۲۱۵۔(اے رسول)تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں، کہہ دو! کہ ہر خیر و نیکی (اور فائدہ بخش مادی و معنوی سرمایہ) جو تم خرچ کرتے ہو وہ ماں باپ، اقرباء، یتیموں، مسکینوںاور مسافروں کے لیے ہونا چاہئیے اور جو کار خیر بھی تم کرتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے (اور ضروری نہیں کہ اسے ظاہر کرتے پھرو، اور اِسے یا اُسے بتاتے پھرو)۔

۲۱۶۔ را ہ خدا میں جہاد کرنا تم پر فرض کیاجاچکاہے ؛جب کہ تم اس سے اکراہ کرتے ہو، اور اسے ناپسند کرتے ہو، جب کہ اسی میں تمہاری بھلائی ہوتی ہے، اورکبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ تم جسے پسند کرتے ہو اس میں تمہاری برائی ہوتی ہے لیکن خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

۲۱۷۔ ماہ حرام میں جنگ کرنے کے بارے میں تم سے سوال کیاجاتاہے۔ کہہ دیجئے کہ اس میں جنگ کرنا برا (گناہ) ہے۔ لیکن راہ خدا اور دین حق سے لوگوں کو روکنا، اللہ سے کفر اختیار کرنا، مسجد الحرام کی بے حرمتی کرنا اور اس میں رہنے والوں کو نکال دینا خدا کے نزدیک اس سےبھی بڑھ کے براہے، اور فتنہ بر پا کرنا (اور ایسے نامساعد حالات پیدا کرنا جو لوگوں کو کفر کی طرف راغب کریں اور ایمان سے روکیں) قتل سے بدتر ہے؛ مشرکین تم سے ہمیشہ لڑتے ہی رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کے بس میں ہوتو تمہیں دین سے برگشتہ کردیں لیکن جو شخص دین سے پھر جائے اور حالت کفر میں مرجائے  تو دنیا و آخرت میں اس کے (گذشتہ) تمام نیک اعمال برباد ہو جائیں گے ؛اور یہی اہل دوزخ ہیں اورسدا اس میں ر ہیں گے۔

۲۱۸۔ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اورجنہوں نے ہجرت کی اور راہ خدا میں جہاد کیا وہی رحمت خداوند ی کے امید وار ہیں اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

۲۱۹۔ تم سے شراب اورجُوےکےبارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے (مادی نگاہ سے) لوگوں کے لیے ان میں منافع (بھی) ہیں (لیکن) ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ ہے اور تم سے سوال کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں، کہہ دو :کہ تمہاری ضرورت سے جو زیادہ ہو؛ اس طرح خدا تمہارے لئے آیات کو واضح کرتاہے شاید تم فکر کرو۔

۲۲۰۔ (تا کہ) دنیا و آخرت میں (فکر کرو) اور تم سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ،کہہ دو :کہ ان کے کام کی اصلاح کرنا بہتر ہے ،اور اگر اپنی زندگی کو ان کی زندگی میں ملالو (تو کوئی حرج نہیں) وہ تمہارے دینی بھائی ہیں (اور ان سے ایک بھائی کا سا سلوک کرو) خدا مفسدین کومصلحین میں سے پہچانتا ہے ،اور اگر خدا چاہے تو تمہیں زحمت و تکلیف میں ڈال دے (اور حکم دے دے کہ یتیموں کی سرپرستی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی اور اموال کاملا ان کے مال سے جدا رکھو لیکن خدا ایسا نہیں کرتا) کیونکہ وہ توانا اور حکیم ہے۔

۲۲۱۔   مشرک اور بت پرست عورتیں جب تک ایمان نہ لے آئیں ان سے نکاح نہ کرو (اگر چہ تمہیں کنیزوں ہی سے رشتہ تزیج کیوں نہ قائم کرنا پڑے کیونکہ) ایماندار کنیزیں آزاد بت پرست عورت سے بہتر ہیں اگرچہ ان کی(خوبصورتی، دولت، شخصیت اور وقعت) تمہیں بھلی معلوم ہوتی ہو؛ اور اپنی عورتیں بت پرست مردوں سے نہ بیا ہو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں(کیونکہ) ایماندارغلام ایک بت پرست مرد سے بہتر ہے اگرچہ اس کامال (مال و مقام ) تمہیں اچھا لگے۔ وہ تو آگ کی طرف بلاتے ہیں، جب کہ خدا  اپنے اذن سے جنت اور بخشش کی دعوت دیتاہے، اور  لوگوں کے لئے اپنی آیات  واضح کرتاہے ؛ شاید وہ یاد رکھیں۔

۲۲۲۔(اے رسول) اورتم سے خون حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں،کہہ دو :کہ وہ نقصان دہ اور ناپاکی کی ایک حالت ہے، لہذا ماہواری کے دوران عورتوں سے کنارہ کشی اختیار کرو ؛(اور ان سے ہم بستری نہ کرو)، جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ؛ اور جب وہ پاکیزہ ہوجائیں تو جیسا کہ خدا نے تمہیں حکم دیاہے ان سے ملاپ کرو؛کیونکہ خدا توبہ کرنے والوں کو پسند کرتاہے، اور پاک رہنے والوں کو بھی خدا دوست رکھتاہے۔

۲۲۳۔تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں؛ جب چاہو تم ان سے ملاپ کرو (لیکن کوشش کرو کہ اس طبیعی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نیک اولاد کی پرورش کرو، اس طرح نیک تاثیر ) اپنے لیے آگےبھیجو ،اور خدا سے ڈرتے رہو ،اور جان لوکہ اس سے ملاقات ضرور ہوناہے، اورمومنین کو بشارت دو۔

۲۲۴۔ خدا کو اپنی قسموں کے لئے استعمال نہ کرو؛ اور اس لئے کہ تم نیکی کرو ، تقوی اختیار کرو اور لوگوں میں صلح صفائی کراو (ان کاموں سے بچنے کے لئے خداکی قسمیں نہ کھاو)کے  خدا سننے والا جاننے والاہے۔

۲۲۵۔ بے توجہ قسمیں کھانے پر تو خدا تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا ؛البتہ جو کچھ تم دل و دماغ سے کرتے ہو (اور وہ قسمیں جو تم ارادہ اختیار سے کھاتے ہو) اس پر ضرور باز پرس ہوگی؛ اور خدا بخشنے والا صاحب حلم ہے۔

۲۶۶۔ جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھاتے ہیں (یعنی ان سےجنسی ملاپ نہ کرنے کی قسم کھاتے ہیں) وہ چار ماہ تک انتظار کا حق رکھتے ہیں (اور ان چار ماہ کے دوران میں اپنی بیوی کے ساتھ زندگی گزارنے یا اُسے طلاق دینے کے بارے میں اپنا ارادہ اور کیفیت واضح کرلیں، اب اگر اس وقفہ میں ) رجوع کرلیں(تو کوئی حرج نہیں کہ) خدا بخشنے والا اور مہربان ہے۔

۲۲۷۔ اور اگر علیحدگی کا مصمم ارادہ کرلیں (وہ بھی اس کے پورے شرائط کے ساتھ تو بھی حرج نہیں خدا سننے والا اور جاننے والاہے ۔

۲۸۸۔ طلاق یافتہ عورتیں تین مرتبہ ماہواری دیکھنے (اور پاک ہونے) کا انتظار کریں ؛ (اور اس طرح عدت پوری کریں( اوراگر خدا اور روز جزا پر ایمان رکھتی ہیں تو اُن کے لیے حلال نہیں کہ جو کچھ خدا نے ان کے رحم میں پیدا کیاہے اسے چھپائیں؛ اور ان کے شوہر اس مدت میں اُ ن کی طرف رجوع کرنے (اور ازدواجی عہدوپیمان کی نئے سرے سے بحالی کے دوسروں سے زیادہ حق دار ہیں؛ اگر (واقعا)وہ صلح چاہتے ہیں؛ اور جیسےعورتوں کے کندھوں پر فرائض عائدہیں ایسے ہی ان کے لیئے شائستہ حقوق مقرر کئے گئے ہیں؛ اور مردان پر برتری رکھتے ہیں، اور خدا توانا اور حکیم ہے۔

۲۲۹  طلاق (جس میں رجوع ہے) دو ۲ مرتبہ ہے، (اور ہر مرتبہ ) مناسب طریقے سے اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے ؛(اور صلح کرلے) یا نیکی کے ساتھ اسے چھوڑدے ؛(اور اس سے الگ ہوجائے) اور تمہارے لیے حلال نہیں کہ انہیں جو چیزدی ہے وہ اُن سے واپس لو؛ مگر یہ کہ دونوں (میاں بیوی) اس سے ڈریں کہ وہ حدود الہی کی پاسداری نہیں کرسکیں گے، اگر انہیں خوف ہے کہ وہ حدود الہی کا لحاظ نہ کرسکیں گے تو پھر ان کے لیے کوئی حرج نہیں کہ عورت فدیہ اور عوض دے دے (اور طلاق لے لے) یہ حدود الٰہی سرہیں، ان سے تجاوز نہ کرو اور جوشخص ان سے تجاوز کرے  گاوہ ظالم ہے۔

۲۳۰۔ اگر (دو مرتبہ طلاق دینے اور پھر رجوع کرلینے کے بعد پھر) اسے طلاق دے تو اس کے بعد وہ عورت اس پر حلال نہیں ہوگی ،مگر یہ کہ اس کے علاوہ کسی شوہر سے شادی کرے (اور وہ اس سے جنسی ملاپ کرے؛بعد ازاں وہ دوسرا شوہر بھی) اسے طلاق دے دے تو کوئی حرج نہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف رجوع کریں ؛(اور عورت اپنے پہلے شوہر سے پھر سے شادی کرلے) جب کہ انہیں امید ہو کہ وہ حدود الہی کا احترام کریں گے؛ اور یہ اللہ کی حدود ہیں جنہیں خدا آگاہ لوگوں سے بیان کرتاہے۔

۲۳۱۔  جب عورتوں کو طلاق دو اور وہ عدت کے آخری دنوں کو پہنچ جائیں تو یا انہیں نیک طریقے سے اپنے ہاں رکھ لو ،اور (ان سے صلح کرلو) اور یا انہیں پسندیدہ طریقے سے چھوڑ دو؛ اور انہیں کسی طرح بھی نقصان پہنچانے اور ان سے زیادتی کرنے کے لیے ان سے صلح نہ کرو، اور جو ایسا کرے گا اس نے گویا اپنے ہی او پر ظلم کیا  ہے؛(اور ان اعمال اور قوانین سے غلط فائدہ اٹھاکر) آیات خدا کا مذاق نہ اڑاؤ،اور اپنے اوپر نازل ہونے والی نعمت الہی، کتاب آسمانی اور علم و دانش کو یاد کرو، اور انہیں ان کے ذریعہ جو  وعظ و نصیحت کی گئی ہے اسے یاد کرو، اور خدا سے ڈرو اور جان لوکہ خدا ہر چیز سے آگاہ ہے، (اور وہ ان لوگوں کی نیتوں سے باخبر ہے جو قوانین الہی سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں)۔

۲۳۲۔ اور جب عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت تمام ہوجائے تو اگر پسندیدہ طریقے اور باہمی رضا مندی سے وہ اپنے (پہلے) شوہروں سے شادی کرنا چاہیں تو انہیں اس سے نہ روکو۔ اس حکم سے تم سے بس وہ لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں ! جو خدا اور روز جزا پر ایمان رکھتے ہیں یہ (احکام) تمہارے (خاندانوں کے) نشو و نما کے لیئے زیادہ موثر اور(معاشرے کی)پاکیزگی کے لئے زیادہ مفید ہیں ،اور خدا جانتا ہے (لیکن ) تم نہیں جانتے۔

۲۳۳۔مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلاتی ہیں (یہ حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے  کی مدت کو کامل کرنا چاہے، اور اس (باپ) کے لیے جس کے وہاں بچہ پیدا ہواہے ضروری ہے وہ ان (ماؤں) کو (دودھ پلانے کی مدت میں) مناسب طریقے سے خوراک اور لباس دے ،کسی شخص کی ذمہ داری اس کی قوت و طاقت سے زیادہ نہیں ہے،(لہٰذا) نہ ماں بچے کو اس کے باپ سے اختلاف کی وجہ سے) ضرر پہنچانے کا حق رکھتی ہے اور نہ ہی باپ  کو ماں سے اختلاف (کی خاطر)بچہ کو نقصان پہنچانے کا حق ہے،اور اس کے وارث پربھی ایسا  لازم ہے (کہ وہ دودھ پلانے کی مدت میں ماں کے اخراجات مہیا کرے) اور اگر وہ دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے بچے کا دودھ (زیادہ جلدی ) چھڑوا دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے ،اور اگر (طاقت نہ رکھنے یا ماں کے راضی نہ ہونے سے) اپنے بچوں کے لیے کوئی آیالے آؤتو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ بشرطیکہ ماں کا گذشتہ حق شائستہ اور مناسب طریقے سے اداکردو ،اور خدا سے ڈرو ،اور جان لوکہ جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا سے دیکھنے والا ہے ۔

۲۳۴۔ اور تم  میں سے جو لوگ وفات پاجاتے ہیں اور اپنی بیویاں پیچھے چھوڑجاتے ہیں، تو ان بیویوںکو چار مہینے اور دس دن انتظار کرنا چاہیے (اور عدت گزار نا چاہیے ،)اور جب وہ یہ مدت پوری کرچکیں تو تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں وہ اپنے بارے میں جو چاہیں مناسب طور پر انجام دیں ،(اور اپنی خواہش کے مطابق کسی سے نکاح کرلیں) اور تم جو کچھ کرتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔

۲۳۵۔اور اس بات کا تم پر کوئی گناہ نہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ اشارے کنائے سے تم ان عورتوں سے) خواستگاری کرو (جن کے شوہر وفات پاچکے ہیں) یا بلا اظہار دل میں اس کے لیے پختہ ارادہ کرلو۔ خدا جانتاتھا کہ تم ان کی یاد میں گرفتار ہوجاؤگے (اور وہ معقول طریقے سے ظاہر ہونے والی تمہاری فطری خواہش کا مخالف نہیں) لیکن اُن سے پوشیدہ طور پر (مباشرت) کا وعدہ نہ کرو، ہاں مگر (کنایہ کے طور پر) پسندیدہ طریقے سے اظہار کرو (لیکن ہر حالت میں) ان کی عدت ختم ہونے تک شادی کا اقدام نہ کرو۔ اور جان لوکہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے خدا اُسے جانتاہے۔ اس کی مخالفت سے ڈرو ،اور جان لوکہ خدا بخشنے والا اور بردبار ہے (اور بندوں کو سزادینے میں جلدی نہیں کرتا)۔

  ۲۳۶۔  اگر مباشرت اور تعیین مہر سے قبل (بوجوہ ) عورتوں کو طلاق دے دو  تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن ( اس وقت پر )انہیں ( مناسب ہدیہ کی صورت میں ) بہرہ مند کرو! اور جس کی مالی حیثیت اچھی ہے وہ  اس کے مطابق او ر جوتنگ دست ہے وہ اپنے حسب حال شائستہ ہدیہ ( جو لینے والے اور دینے والے دونوں کے شایان شان ہو) انہیں،دے اور یہ نیکوکاروں کا لیے ضروری ہے۔  

 ۲۳۷۔ اور اگر عورتوں کو چھونے ( ان سے ہمبستری کرنے ) سے قبل طلاق دے دو ،جب کہ حق مہرمعین ہو چکا ہو تو ( ضروری ہے کہ) معین شدہ کا نصف ( انہیں دے دو، ) مگر یہ کہ وہ  ( اپنا حق ) بخش دیں ،یا ( اگر وہ صغیر ہ اور کم عقل ہیں تو ان کا حق مہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے وہ اس مہر کو بخش دے ،اور اگر تم در گذر کرو ( اور تمام مہر انہیں ادا کر د و ) تو یہ  پرہیزگاری کے زیادہ نزدیک ہے ۔ نیز در گذر اور پرہیزگاری کو اپنے درمیان سے فراموش نہ کرو، کیونکہ تم جو کچھ انجام دیتے ہو خدا وند عالم اس سے بینا ہے۔

 ۲۳۸۔ تمام نمازوں کی (وقت سے اور کامل طریقہ پر)انجام دہی اور ( خصوصاً) نماز وسطی  ( نماز ظہر ) کی ادائیگی میں کوشاں رہو اور خضوع و اطاعت کے ساتھ خدا کے قیام کرو۔

۲۳۹۔ اور اگر( جنگ یا کسی اور خطرے کی وجہ سے)  تمہیں خوف ہو تو (نماز کو) پیادہ یا سواری کی حالت میں انجام دو ؛لیکن جب حالت امن لوٹ آئے تو خدا کو یاد کرو ( اور نماز کو معمول کے مطابق ادا کرو) جیسا کہ اس نے تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دی ہےجنہیں تم نہیں جانتے تھے۔

۲۴۰۔ اورتم میں سے جو لوگ آستانہ موت تک جاپہنچتے ہیں اور اپنی بیویاں پیچھے چھوڑجاتے ہیں ان کے لئے وصیت کرنی چاہےے کہ ایک سال تک انہیں (زندگی کے اخراجات سے) بہرہ مندکریں، بشرطیکہ وہ ( شوہر کے گھر سے ) باہر نہ نکلیں ( اور نئی شادی کے لیے اقدام نہ کریں ) اور اگر وہ باہر چلی جائیں ( تو مصارف حیات لینے کا حق نہیں رکھتیں) لیکن ان پر اس بارے میں کوئی گناہ (بھی) نہیں کہ وہ اپنے لئے کوئی شائستہ اقدام کریں اور خدا توانا اور حکیم ہے۔

۲۴۱۔( شوہروں پر ضروری ہے کہ اپنی تمام مطلقہ عورتوں کومناسب ہدیہ دیں ۔ یہ پرہیزگارمردوں پرحق ہے ۔

۲۴۲۔ اس طرح خدا اپنی آیات تمہارے سامنے بیان کرتاہے کہ شاید تم غور و فکر کرو۔

۲۴۳۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے خوف سے اپنے گھروں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور وہ ہزاروں افراد تھے ( جنہوں نے طاعون کی بیماری کا بہانہ کرکے میدان میں شرکت سے پہلو تہی کی ) خدا نے ان سے کہا کہ مر جاؤ ( اور جس بیماری کا انھوںنے بہانہ کیا تھا اسی سے وہ مرگئے ) خدا نے پھر انہیں زندہ کیا ( اور ان کی اس زندگی کے واقعے کو آنے والوں کے لےے عبرت قراردیا۔) خدا تو اپنے بندوں پر احسان کرتاہے، لیکن زیادہ تر لوگ شکربجا نہیں لاتے۔

۲۴۴۔اور راہ خدا میں جنگ کرو اور جان لو کہ خدا سننے والا اورجاننے والا ہے

۲۴۵۔کون ہے جو خدا کو قرض حسنہ دے(اور بغیر احسان جتائے اسے انفاق کرے)تاکہ خدا اس کے لیےکئی  گنا کردے ،اور خدا (بندوں کی روزی کو ) محدود اور وسیع کرتا ہے؛( اور خرچ کرنے سے روزی میں کمی نہیں ہوتی)اور آخر کار تم اس کی طرف لوٹ جاوٴگے ( اور اپنا بدلہ اور جزا پا لوگے (

۲۴۶۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ بنی اسرائیل کا گروہ موسیٰ کے بعد اپنے نبی سے کہنے لگا کہ ہمارے لیے کسی فرمانروا کا انتخاب کر دیں؛ تاکہ (اس کی قیادت میں ) ہم راہ خدا میں جنگ کریں انکے پیغمبر نے کہا: کہ ہو سکتا ہے کہ تمہیں جنگ کا حکم دیا جائے اور تم (رو گردانی کرو) اور راہ خدا میں جہاد نہ کرو انہوں نے کہا کہ کیسےممکن ہے کہ ہم راہ خدا میں جنگ نہ کریں جبکہ ہمارے گھر اور اولاد ہم سے چھوٹ چکے ہیں( اور ہمارے شہروں پر دشمنوں نے قبضہ کرکے ہماری اولادکو قیدکر لیا ہے ) لیکن جب انہیں جنگ کا حکم دیا گیا توچند لوگوں کے علاوہ سب پھر گیے ٴ اور خدا ستمگروں کو جانتا ہے۔

۲۴۷۔ اوران کے نبی نے ان سے کہا: کہ خدانے طالوت کو تمہاری باد شاہی کے لیے ٴ (انتخاب کرکے بھیجا ہے؛ وہ کہنے لگے یہ ہم پر کیسے حکو مت کرسکتا ہے جبکہ ہم اس کے زیادہ اہل ہیں، اور اس کے پاس تو دولت و ثروت بھی نہیں ہے؛ اس (نبی )نے کہا کہ اسے خدا نے علم اور جسمانی طاقت میں تم پر برتری کی بنیاد پر منتخب کیا ہے خدا جسے چاہتا ہے اپنا ملک بخش دیتا ہے ،اور خدا کا احسان وسیع ہے اور وہ  (لوگوں کی اہلیت سے )آ گاہ ہے۔

۲۴۸۔اور ان کے نبی نے ان کہا: کہ اس کی حکومت کی نشانی یہ ہے کہ ,, صندوق عہد،،تمہاری طرف آے ٴگا (وہی صندوق کہ)جس میں اللہ کی طرف سے آرامش و سکون اور آل موسیٰ اور آل ہارون کی یاد گار ہیں، جب کہ فرشتوں نے اسے اٹھا رکھا ہوگا )اور اگر تم ایمان رکھتے ہو تو اس میں تمہارے لیے (واضح ) نشانی ہے

۲۴۹۔اور جب طالوت بنی اسرائیل کے لشکر کی فرمانروائی کے لیے مقرر ہو گیے اور وہ لشکر کو باہر لے گئے تو  سپاہیوں  نے ان سے کہا: کہ خدا تمہارا پانی کی ایک لہر کے ذریعے امتحان لےگا تو جو لوگ (پیاس کے وقت ) اس میں سے  لے لیں گے وہ مجھ سے نہیں ہیں، اور جو اپنے ہاتھ کی ایک چُلوسے زیادہ نہیں پئیں گے وہ مجھ سے ہیں۔ چند افراد کے علاوہ سب نے اس سے پانی پی لیا، اسکے بعد وہ( اور ان پر ایمان لانے والے اور امتحان کی کسوٹی میں پورے اترنے والے ) نہر سے گزر گئے ۔اب وہ اپنی تعداد کی کمی پر پریشان ہو گئے اور ایک گروہ کے لوگ کہنے لگے آج ہم جالوت اور اسکی فوج سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن وہ جو جانتے تھے کہ  یقیناً خدا کی ملاقات ہوگی (اور وہ قیامت پر ایمان رکھتے تھے  ) کہنے لگے کہ کتنے ہی ایسے تھوڑے لوگ تھے جوحکم خدا سے بڑے بڑےگروہوں پر غالب آگے ٴ اور کامیاب ہو گئے اور خدا صابرین ( اور استقامت دکھانے والوں ) کے ساتھ ہے ۔

۲۵۰۔اور وہ جالوت اور اسکے لشکر کے سامنے ڈٹ گئے تو کہنے لگے کہ پروردگار !ہم پرصبراور استقامت نازل فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمیں کافر قوم پر کامیابی عطا فرما۔

۲۵۱۔اس کے بعد انہوں نے خدا کے حکم سے دشمن کی فوج کو شکست سے دچار کر دیا اور داوٴ د نے (جو طالوت کے لشکر میں قوی اور شجاع نو جوان تھے ) جالوت کو قتل کر دیا۔ اور خدا نے انہیں حکو مت اورعلم و دانش عطا فرماییٴ اور جو کچھ اس (اللہ ) نے چاہا انہیں تعلیم دی، اور اگر خدا بعض لوگوں کے ذریعے بعض کو دفع نہ کرے تو زمین فساد سے بھر جائے لیکن خدا تمام جہانوں پر لطف واحسان کرنے والا ہے .

۲۵۲۔یہ خدا کی آیات ہیں جو ہم حق کے ساتھ تم پر پڑھتے ہیں، اور یقیناً تم مرسلین میں سے ہو .

 ۲۵۳۔ ہم نےان بعض رسولوں کوبعض پر فضیلت دی ہے ،ان میں سے بعض نے خدا سے (براہ راست) گفتگو کی  اور بعض کو برتر درجات عطا کئے ، اور عیسیٰ بن مریم کو ہم نے واضح نشانیاں دی ہیں اور انکی تائید ہم نے روح القدس کے ذریعے کی ( لیکن کسی پیغمبر کے مقام کی فضیلت سے امّتو کا اختلاف ختم نہ ہوا )اگر خدا چاہتا ان پیغمبروں کے بعد آنے والے لوگ واضح نشانیاں آجانے کے بعد ایک دوسرے سے جنگ و جدال نہ کرتے ( لیکن خدا لوگوں کو مجبور نہیں کیا کرتا، اور انہیں راہ سعادت اختیار کرنے کے لیے آزاد رہنے دیتا ہے )مگر ان امّتوں نے آپس میں اختلاف کیا ۔ بعض ایمان لے آے ٴ اور بعض کافر ہو گئے( اور جنگ و جدال اور اختلاف کے در پے ہو گئے )پھر بھی اگر خدا چاہتا تو وہ آپس میں جنگ نہ کرتے لیکن خدا جو چاہتا ہے اسےحکمت کی بناء پر انجام دیتا ہے ۔

۲۵۴۔اے ایمان والو!جو کچھ ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہو سکتی ہے (کہ تم اپنے لئے سعادت اور سزا سے نجات خرید سکو)اور نہ دوستی (اور عام رفاقتیں وہاں سود بخش ہونگی )اور نہ ہی شفاعت (تمہارے شامل حال ہوئی)اور کافر تو ظالم ہیں۔

۲۵۵۔اس خداے ٴ یگانہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ ہے، اور اپنی ذات سے قائم ہے،( اور باقی موجودات اس کے ساتھ قائم ہیں) اسے کبھی اونگ اور نیند نہیں آتی (اور وہ لمحہ بھر کے لئے بھی  جہان ہستی کی تدبیر سے غافل نہیں ہوتا )جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی طرف سے ہے کون ہے جو اس کے حضور اس کے فرمان کے بغیر شفاعت کرے (اس لئے شفاعت کے اہل لوگوں لئے شفاعت کرنے والوں کی شفاعت اس کے مالک مطلق ہونے میں کوئی کمی نہیں کر سکتی )جو کچھ ان (بندوں ) کے سامنے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اسے وہ جانتا ہے ( اور لوگوں کے گذشتہ اور آئندہ حالات یکساں طور پر اسکے علم میں ہیں )اور سواے ٴ اس مقدار کے جسے وہ چاہے کوئی شخص اس کے علم سے واقف نہیں ہو سکتا ، (وہ ایسی ذات ہے جو تمام چیزوں سے آگاہ ہے اور دوسروں کا محدود علم و دانش اسی کے  لامحدود علم کا پرتو ہے )اور( اس کی حکومت )آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے، اور ان (آسمانوں اور زمین ) کی نگہداری اسے خستہ نہیں کرتی ہے، اور بلندی ٴ مقام اور عظمت اسی سے مخصوص ہے

 ۲۵۶  ۔دین قبول کرنے میں کو ئی جبر واکراہ نہیں ہے (کیونکہ ) صحیح راستہ ٹیڑھے راستے سے جدا اور آشکار ہو چکا ہے اس بناء پر جو کوئی طاغوت (بت ، شیطان، اور ہرسر کش)سے منہ موڑ کرخد ا پرایمان لے آئے تو اس نے محکم کڑے کو تھا ما ہے جو ٹوٹ نہیں سکتا اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔

۲۵۷۔خدا ان لوگوں کا سر پرست ہے جو ایمان لے آئے ہیں ۔انہیں وہ تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آتا ہے (لیکن )وہ لوگ جو کافر ہو گئے ہیں ان کے اولیاء اور سرپرست طاغوت (بت ،شیطان اور ظالم سر کش لوگ )ہیں جو انہیں نور سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں وہ ہی اہل آتش ( جہنم( ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔

گذشتہ آیات میں کفر و ایمان ،حق وباطل اور راہ راست اور انحرافی راستے کی وضاحت کے بعد اب یہ آیت تکمیلی مطلب کے لئے کہتی ہے:موٴمن وکافر ہر کسی کا رہبر اور راہنما اپنا مخصوص راستہ ہے ۔موٴمنین کا رہبر اور راہنما خدا ہے ،ان کا راستہ تاریکیوں سے جدا ہو کر نور کی طرف جا تا ہے ۔لیکن کافروں کا رہبر طاغوت ہے اور ان کی راہ موٴ منین کے برعکس ہے جو نور سے ظلمت کی طرف جاتی ہے اور ان کا انجام بھی واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آگ میں رہیں گے ۔

۲۵۸۔کیا دیکھتے نہیں ہو (اور اس سے آگاہ نہیں ہو)جس نے ابراہیم کے ساتھ اس کے پروردگار کے بارے میں حجت بازی کی اور کلام کیا کیونکہ خدانے اسے حکومت دیرکھی تھی (اور وہ کم ظرفی کی وجہ سے بادہ غرور سے سرمست ہو گیا تھا )جب ابراہیم نے کہا :میرا خدا وہ ہے جو زندہ کر تا اور مارتا ہے ۔اس نے کہا میں زندہ کر تا ہو ں اور مارتا ہو ۔

 ) اس کے بعد اس نے مغالطہ پیدا کرنے کا حکم دیا اور دو قیدی حاضر کئے گئے ،اس نے ایک کی آزادی اور دوسرے کے قتل کا فرمان جاری کر دیا )ابراہیم نے کہا: خدا آفتاب کو افق مشرق سے نکالتا ہے (اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو کہ تم ہی جان ہستی پر حکمران ہو تو )تم خورشید کو مغرب سے نکال کر دکھاوٴ(یہاں)وہ کافر مبہوت ہو گیا، اور خدا ظالم قوم کو ہدایت نہیں کرتا ۔

۲۵۹  ۔یا اس شخص کی طرح جو ایک ویران آبا دی سے گذرا ، جس آبادی  کی حالت یہ تھی کہ اس کی دیواریں چھتوں پر گری پڑی تھی (اور اس میں رہنے والوں کے جسم اور ہڈیا ں ہر  طرف بکھرے پڑے تھے ۔یہ دیکھا تو وہ شخص اپنے آپ سے) کہنے لگا :خدا انہیں اب موت کے بعد کیسے  زندہ کرے گا(اسی وقت) خدا نے اسے ایک سو سال کے لئے مار دیا ۔پھر اسے زندہ کیا اوراس سے کہا :کتنی دیر ٹھرے رہے ہو ۔کہنے لگاایک دن ،یا ایک دن کا کچھ حصہ فرما یا: ( نہیں)بلکہ تم  ایک سو سال تک ٹھرے رہے ہو،اپنی غذا اور پینے کی چیز کی طرف دیکھو (جو تمہارے پاس تھی اور سالہا سا ل گز رنے کے باوجود)اس میں کوئی تغیر نہیں آیا (وہ خدا جس نے جلد خراب ہو جانے والی ان چیزوں کی اتنی طویل مدت تک حفاظت کی ہے وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے )لیکن اپنے گدھے کی طرف دیکھو (کہ وہ کیسے ریزہ ریزہ ہو چکا ہے موت کے بعد زندگی تمہارے اطمینان کے لئے ہے نیز )اس لئے بھی کہ تمہیں ہم لوگو ں کے لئے (معاد کے بارے میں ) نشانی قرار دیں اب (اپنی سواری کی )ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم انہیں کیسے اٹھاکر ایک دوسرے جوڑ دیتے ہیں، اور اس پر گوشت چڑھاتے ہیں ۔(یہ حقائق )جب اس پر آشکا ر ہو ئے تو اس نے کہا:میں جا نتا ہو ں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

۲۶۰۔اور اس وقت (کو یاد کرو)جب ابراہیم نے کہا :خدایا ! مجھے دکھاکہ تو کیسے مردو ں کو زندہ کر تا ہے۔فرمایا :کیا تم ایمان نہیں لائے ؟!کہنے لگے :کیوں نہیں ،میں چاہتا ہوں میرے دل کو اطمینا ن ہوجائے ۔فرمایا:یہ بات ہے تو چار (مختلف)پرند ے انتخاب کرلو(ذبح کرنے کے بعد ) انہیں ٹکڑ ے ٹکڑے کرلو()پھر ان کے گوشت کو آپس میں ملادو )پھر پہاڑ پر ہر ایک حصہ رکھ دو ،پھر انہیں پکارو ،وہ تیزی سے تمہارے پاس آئیں گے اور جا ن لو کہ خدا غالب اور حکیم ہے ۔(وہ مردو ں کے اجزائے بدن کوبھی جا نتاہے اور انہیں جمع کر نے کی طاقت بھی رکھتا ہے(۔

۲۶۱۔جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کر تے ہے وہ اس بیج کی مانند ہیں جس کے سا ت خوشے نکلیں ااور ہر خوشے میں سو دانے ہوںاور خدا جس کے لئے چاہتاہے (اور جو لیا قت واہلیت رکھتا ہو )کئی گنا کردیتا ہے اور خد ا(قدرت اور رحمت کے لحاظ سے )وسیع اور (تمام چیزوںسے )آگاہ ودانا ہے ۔

۲۶۲۔ جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہو اس پر کوئی  احسان نہیں جتاتے اور اذیت نہیں پہنچاتے ان کی جزا ان کے پرور دگار کے ہاں ( محفوظ ) ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔

۲۶۳۔( ضرورت مندوں کے سامنے ) پسندیدہ گفتگو اور عفو ( اور ان سے تلخ باتیں کہنے سے بچنا ) اس بخشش و عطا سے بہتر ہے جس کے بعد اذیت اور تکلیف پہنچائی جائے ،اور خدا بے نیاز اور برد بار ہے ۔

۲۶۴۔ اے ایمان والوں ! اپنی بخششوںکو احسان جتانے اور آزار پہنچانے سے اس شخص کی طرح باطل نہ کرو جو دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے ،اور خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا( اور اس کا کام) پتھر کے ٹکڑے کی طرح ہے جس پر مٹی ( کی باریک تہ ) ہو اور اس میں بیج ڈالے جائیں اور خوب بارش اس پر برسے ( اور ساری مٹی اور بیج بہا لے جائے ) اور اسے ( مٹی اور بیج سے )خالی کردے ۔ ایسے لوگ جو کام بجالاتے ہیں اس سے کوئی چیز حاصل نہیں کرسکتے اور خدا کافرقوم کو ہدایت نہیں کرتا ۔

۲۶۵۔اور ان لوگوں کا ( کام ) جو اپنا مال خدا کی خشنودی اور اپنی روح ( میں صفات انسانی ) باقی رکھنے کے لیے خرچ کرتے ہیں اس باغ کی طرح ہے جو بلند جگہ پر ہو ، اس پر تیز بارش برسے (اور وہ کھلی ہوامیں ہو اور نور آفتاب سے خوب بہرہ ور ہو ) اور اپنا پھل دو گنا دے اور اگر اس پر سخت بارش نہ  بھی برسے اور اس پر پھوار اور شبنم پڑے تب بھی  وہ ہمیشہ سر سبز و شاداب اور ترو تازہ رہے)اور تم جو کچھ انجام دیتے ہو خدا اسے دیکھتا ہے ۔

۲۶۶۔کیاتم میں سے کوئی یہ پسند کرے گاکہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کاباغ ہوجس کے درختوں کے نیچے نہریں جا ری ہو ں ۔اس با غ میں اس کے لئے ہر طرح کا پھل مو جو د ہو لیکن وہ بڑھاپےکوپہنچ چکا ہواور اس کی اولاد (چھوٹی اور) کمزور ہو(ایسے میں) آگ کا زبردست بگولہ اٹھے اور جلاڈالے (جو لوگ خرچ کر کے ریا کاری ،احسان جتلا نے اور ایذارسانی کے ذریعے اس عمل کو باطل دیتے ہیں ان کی حالت ایسی  ہی ہے )خدا اس طرح اپنی آیات کوآشکا رکر تا ہے کہ شاید تم غوروفکر کرو (اور سوچ سمجھ کر راہ حق پا لو)۔

۲۶۷۔اے ایمان والو !پاکیزہ اموال (جو تجارت کے ذریعے )تمہا رے ہاتھ آئے ہیں اور جو ہم  نے تمہا رے لئے زمین (کے خزانو ں اور کانو ں )سے نکا لے ہیں (راہ طولانی) خرچ کرو، اور خرچ کرتے وقت ردی مال کو انفاق نہ کرو، کیونکہ ایسے  اموال(کو خود تم لینے پر تیار نہیں ہووگے مگر از روی چشم پوشی و ناپسندیدگی) تم چشم پوشی اور نا پسندیدگی کے علاوہ  لینے کو تیار نہیں ہو،اور جا ن لو کہ خدا بڑا بے نیا ز اور لا ئق تعریف ہے ۔

۲۶۸۔شیطان تمہیں (انفاق کرتے وقت )تنگ دستی وفقر کے وعدے دیتا ہے، اور معصیت (اور برائیوں )کا حکم کرتا ہےلیکن خدا تم سے مغفرت وبخشش اور اضافے کاوعدہ کرتا ہے، اور خدا کی قدرت وسیع ہے، اور وہ (ہر چیز کو)جانتاہے (اس لیے وہ ا پنا وعدہ ضرورپورا کرے گا )۔

۲۶۹۔حکمت و دانش جسے چاہتا ہے (اور  اسے اس کا اہل دیکھتا ہے )عطا کرتا ہے، اور جسے حکمت ودانش  دے دی گئی اسے خیرکثیر عطا کی گئی، اورعقلمند وں کے سوا (ان حقائق کو)کوئی نہیں پا سکتا (اور نہ کوئی سمجھ سکتا ہے(.

۲۷۰۔جو چیز خرچ کرتے ہو (جن اموال کو راہ خدا میں خرچ کرنے کی ) اور جن کی نذر کرتے ہو خدا اُنہیں جانتاہے اورستمگروں کاکوئی یا رومددگار نہیں  ہے۔

۲۷۱۔اگر انفاق اور صدقات کوکھلم کھلا انجامدو تو اچھا ہے، اور اگرمخفی طور پرکرو اور حاجتمند وں کو دو یہ تمہا رے لئے زیادہ بہتر ہے اور( ایسا کر نا)تمہا رے کچھ گناہوں کو چھپا دیتا ہے ۔( اور راہ خدا میں بخشش کرنے کے ذریعے  تم بخشے جا وٴ گے)اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے ۔

۲۷۲ ۔(جبر سے ) ان کی ہدایت کرنا تمہا رے ذمے نہیں ہے۔ (اس بنا ء پر غیر مسلموں کو اسلام لا نے پر مجبور کر نے کے لیے ان پرخر چ نہ کر نا صحیح نہیں ہے)لیکن خدا جسے چاہتا ہے ( اور وہ اہلیت رکھتا ہے)ہدایت کرتاہے اور جو کچھ تم اچھی چیز وں میں سے خرچ کرتے ہو وہ تمہا رے لیے ہی ہے۔ (لیکن) اللہ کی رضا کے سوا خرچ نہ کرو اور اچھی چیزوں میں سے جو کچھ خرچ کرتے ہو وہ تمہیں دیاجا ئے گا ،اور تم پر ظلم نہیں ہوگا ۔

۲۷۳۔(تمہارا نفاق خاص طور پرایسے لو گو ں کے لیے ہو نا چاہیے )جوحاجت مند ہوں اورراہ خدا میں تنگی میں ہوں (دین خدا کی طرف ان کی رغبت کی وجہ سے وہ بے  وطن ہو گئے ہوں اور جہاد میں شرکت کی وجہ سے ان کے لیے ممکن نہ رہا ہو کہ وہ کسب وتجارت کے ذریعہ اپنے اسباب زندگی فراہم کر سکیں)سفر نہ کرسکتے ہوں (کہ سفر کے ذریعہ روزگار مہیاکرسکیں) اور ان کی خودداری کی  وجہ سے بے خبر لوگ انہیں دولت مند اور توانگر سمجھتے ہیں۔ لیکن تم انہیں ان کے چہروں سے پہنچان لو گے اور وہ اصرار کر کے ہر گز لوگوں سے کوئی چیز طلب نہیں کرتے (یہ ان کی نشانیاں ہیں )اور ہر اچھی چیز جو تم راہ خدا میں خرچ کرو خدا اس سے آگا ہ ہے ۔ 

۲۷۴۔ وہ لوگ جو شب و روز اپنے اموال پنہاں و آشکارا خرچ کرتے ہیں ، ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے ۔ ان پر کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوتے ہیں ۔

۲۷۵۔ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ تو بس اس شخص کی طرح کھڑے ہوتے ہیں جسے شیطان نے چھوکر باؤلا کردیا ہو اور وہ اپنے اعتدال کو بر قرارنہ رکھ سکتا ہو ( کبھی زمین پرگر پڑتا ہو اور کبھی کھڑا ہو جاتا ہو ) یہ سب اس لیے ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بیع بھی سود کی طرح ہے ( اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں) جب کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے ( کیونکہ دونو ں میں بہت فرق ہے ) اور اگر کسی تک خداتعالی کی طرف سےنصیحت پہنچ جائے اور وہ ( سود خوری سے) بچ جائے تو وہ سود ( جو اس کی حرمت کےحکم  سے) پہلے سے مل چکا ہے وہ اس کا مال ہے ( اور  اس حکم میں گزشتہ مال شامل نہ ہوگا ) اور اس کا معاملہ (عفو) خدا کے سپرد ہوجائے گا ،لیکن جو لوگ (سود خوری کی طرف)لوٹ جائیں وہ اہل آتش (جہنم)ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

۲۷۶۔ اللہ سود کو نابود کردے گا، اور صدقات کو بڑھائے گا ،اور خدا کسی ناشکر گزار گنہ گار کو دوست نہیں رکھتا ۔

۲۷۷۔ جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوںنے اچھے اعمال انجام دیے اور نماز قائم کی اور زکوٰة ادا کی ان کی اجرت و ثواب ان کے پروردگار کے پاس ہے۔ ان کے لیے خوف ہے نہ وہ کسی حزن و ملال مین مبتلا ہوں گے۔

۲۷۸۔اے ایمان والو !خدا سے ڈرو اورجو سود(کا تقاضا ابھی )باقی ہے اسے چھو ڑ دو اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔

۲۷۹۔اگر ایسا نہیں کرتے ہو تو پھر خدا اور رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجاوٴ؛توبہ کرلو(سود کے بغیر اصل )سر مایہ تمہا ری ہی ملکیت رہے گا ۔ تم ظلم، کرو نہ تم پر ظلم کیاجائے گا۔

۲۸۰۔ اور ا گر ( مقروض قرض)ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے اتنی مہلت دو کہ وہ ایسا کرسکے اور(اگر وہ با لکل اداکرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو )بخش دو تو بہتر ہے ۔اگر تم اس کا م کے فائدے سے )آگا ہ ہو۔

۲۸۱ ۔اور اس دن سے ڈرو جب خدا کی طرف پلٹ جاوٴ گے اور پھر ہرشخص نے جو کچھ انجا م دیاہوگااسے لوٹا دیا جا ئے گا، اور ان پر ظلم وستم نہیں ہو گا (بلکہ وہ جو کچھ بھی دیکھیں گے وہ ان کے اپنے اعمال کے نتائج ہو ں گے(

۲۸۲۔اے ایمان والو !جب ایک معین مدت کے لیے (قرض یاکسی اور معاملے کے لیے )ایک دوسرے سے لین دین کروتو اسے لکھ لیا کرو ۔اور لکھنے والے کو چاہیے کہ وہ عدل سے دستاویز لکھے۔  اور جس شخص کو اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت عطا کی ہے اسے چاہیے کہ وہ لکھنے سے گریز نہ کرے ۔اور جس کے ذمہ حق ہےوہ شخص املا کروائے اور خدا سے ڈرے او رطے شدہ معاملے میں کوئی چیز فرو گزاشت نہ کرے، اور اگر قر ض لینے والا نادان یا ضعیف ہو (یا دیوانہ ہو)اور یا گونگاہو نے کی وجہ )املا نہ کرواسکتا ہو تو اس کے ولی کو چاہیئے کہ (اس بجائے )عدل کو ملحوظ رکھتے ہوئے املا کروائے اور اپنے مردوں میں سے دوافراد کو (اس حق پر )گواہ بنائے ۔اور اگر دو مرد نہ ہو ں تو اپنے حسب اطمینا ن ایک مرد او ردو عورتیں منتخب کرلو، (یہ دونو ں عورتیں مل کر ایک گوا ہ ہو ں گی( اور یہ دو عورتیں اس لیے ہیں )تاکہ اگر ایک بھو ل جا ئے تو دوسری اسے یاد دلادے ،اور جب گوا ہوں کو شہادت کے لیے بلایاجائے تو انہیں نکا ر نہیں کرنا چاہیئے۔ اور وہ معاملہ جس کی مدت معین ہے چاہے تھو ڑا ہو یازیاد ہ اسے لکھنے پردل تنگ نہیں ہونا چاہیے (جو کچھ بھی ہو لکھ لینا چاہیئے ) یہ خدا کے نزدیک عدل کے نزدیک تر ہے ،شہادت کے لیے زیادہ سہولت اسی میں ہے اور شک وتردد (اور بحث ونزاع )کو روکنے کے لیے یہی بہتر ہے ۔ ہا ں البتہ جو لین دین دست بدست آپس میں کرتے ہو اس میں نہ بھی لکھا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے اورنقدخرید وفروخت کے وقت بھی گواہ بنا لیا کرو ۔ کا تب اور گواہ کو (حق گوئی کی وجہ سے ) کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیئے ۔ (اور نہ ان سے سختی کی جا نا چاہپیے )اور اگر ایسا کر و گے تو پرور دگار کے فرمان سے نکل جاوٴ گے ۔ خدا سے ڈرتے رہواور خدا تمہیں تعلیم دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔

۲۸۳۔ اور اگر تم سفر میں ہو اور دستاویز لکھنے کے لیے کوئی کاتب میسر نہ آئے تو کچھ رہن رکھ لو اور رہن کے طور پر دی گئی چیز قرض دینے والے کے قبضے میں رہنی چاہیے؛ اور اگر تم ایک دوسرے پر ( کامل اطیمنان رکھتے ہو ( تو پھر رہن کی بھی ضرورت نہیں ) اور جسے امین سمجھا گیا ہے ( اور بغیر کسی رہن کے اس  نے دوسرے سے کوئی چیز لے لی ہے ) اسے چاہیے کہ امانت اور( اپنا حق قرض وقت پر ) ادا کرے۔ اور اس اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے۔ اور شہادت کو نہ چھپاؤ کہ جوشخص اسے چھپائے گا اس کا دل گنہ گار ہے۔ اور جو کچھ تم انجام دیتے  ہواللہ اس سے آگاہ اور اس کا عالم ہے ۔

۲۸۴۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کا مال ہے ( لہذا جو کچھ تمہارے دل میں ہے اسے ظاہر کردو یا پوشیدہ رکھو خدا تمہارا حساب اس کے مطابق ہی کرے گا ۔ پھر جسے چاہے گا ( اور جو اہل ہوگا ) اسے بخش دے گا اور جسے چاہے گا ( اور وہ مستحق ہوگا ) اسے عذاب دے گا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

۲۸۵۔رسول اس چیز پر ایمان لائےہیں جو اس کے رب کی طرف سے نا زل ہو ئی ہے ( اور وہ ایسا رہبر ہے کہ اپنی تمام باتوں کی صداقت پر مکمل ایمان رکھتاہے)اور موٴمنین بھی سب کے سب خدااور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوںاور اس کے بھیجے ہو ئے افراد (رسولوں)پر ایمان رکھتے ہیں۔ہم اپنے رسولوں میں کسی میں کوئی فرق نہیں کرتے اور کہتے ہیں :ہم نے سنا اور ہم اطاعت  نے کی۔اے ہمارے پروردگارمغفرت تیری طرف سے ہے اور تیری ہی طرف (ہماری )باز گشت ہے ۔

۲۸۶ ۔خدا کسی شخص کو ا س کی طاقت سے زیا دہ ذمہ داری نہیں سونپتا (اسی بنا ء پرانسان )جو بھی (نیک )کا م انجا م دے اس نے اپنے لیے انجام دیا ہے اور جو (برا ) کام کرے خود اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ (موٴمنین کہتے ہیں )پروردگا !اگر ہم بھول جا ئیں یا خطا کرگزریں تو ہما را مواخذہ نہ کرنا ۔ اے ہما رے رب !کسی سنگین ذمہ داری کا بوجھ ہم پر نہ ڈالنا جیسا تونے کہ (گناہ و سر کشی کی وجہ سے )ان لوگوں پرڈالا جو ہم سے پہلے تھے ۔ اے ہمارے پروردگا ر !ایسی سزائیں نہ دے جنہیں ہم برداشت نہیں کرسکتے ؛اور ہمارے گنا ہوں کے آثار ہم  سے دھو ڈال، ہمیں بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر دے ۔توہما را مولا اور سر پرست ہے پس ہمیں کفا ر کی جما عت پر کامیابی او رکامرانی عطافرما ۔

12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma