ظالموں کی کمزور سازشیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
سوره ابراهیم / آیه 46- 52 ۱۔ زمین اور آسمان بدل جائیں گے :

ظالموں کمزور سازشیں

گزشتہ آیات میں ظالموں کی کچھ سزاوٴں کی طرف اشارہ ہو چکا ہے ۔ ان آیات میں بھی پہلے ان کے بعض کاموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور پھر ان کے لئے بعض سخت اور دردناک سزاوٴں کا ذکر ہے ۔
پہلی آیت میں ہے : انہوں نے مکر کیا اور جس قدر ان سے بن پڑتا تھا سازش اور شیطنت کی (وَ قَدْ مَکَرُوا مَکْرَھُمْ ) ۔
خلاصہ یہ کہ تیرے دشمنوں نے اسلام کو مٹانے اور نابود کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا ۔ ڈرانے دھمکانے سے لے کر اذیت و آزار اور قتل کی سازش کی ۔ نیز وہ پرا پیکنڈہ کرتے رہے اور طرح طرح کی تہمتیں لگاتے رہے ۔
لیکن ان سب کے باوجود اللہ ان کی تمام سازشوں سے آگاہ ہے اور ان کے تمام کام اس کے رکارڈ میں ہیں (وَ عِنْدَ اللَّہِ مَکْر ھُمْ ) ۔
بہر حال پریشان نہ ہو ۔ یہ نیرنگیاں ، منصوبے اور سازشیں تجھ پر اثر نہیں ڈالیں گی ” اگر وہ اپنے مکر سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیں “

 (وَ إِنْ کانَ مَکْرُھُمْ لِتَزُولَ مِنْہُ الْجِبالُ ) ۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ” مکر “ ہر قسم کی چارہ جوئی اور چارہ اندیشی کے معنی میں ہے ۔ یہ کام کبھی برائی کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی اس کے بغیر۔ اگر چہ موجودہ فارسی زبان میں یہ لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن عربی ادب کے لحاظ سے اس کا معنی عام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی یہ لفظ خدا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔
(وَ عِنْدَ اللَّہِ مَکْر ھُمْ ) کے بارے میں دو احتمال ذکر کئے ہیں ۔
بعض مفسرین مثلاً علامہ طبا طبائی نے االمیزان میں کہا ہے کہ اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ خدا ان کے تمام منصوبوں چالبازیوں اور سازشوں پر پورا احاطہ رکھتا ہے ۔
بعض دیگر مثلا ً مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ان کے مکر کی سزا خدا کے ہاں ثابت ہے لہذا یہ جملہ ” وَ عِنْدَ اللَّہِ مَکْر ھُمْ “ کی تقدی میں ہے اور لفظ ” جزاء “ جو مضاف ہے محذوف ہے ۔
البتہ پہلا معنی بلا شبہ زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ آیت کے ظاہری مفہوم سے بھی مطابقت رکھتا ہے ۔ اور کسی قسم کے حذف و تقدیر کا بھی محتاج نہیں ہے ۔
پہلا جملہ کہ جس میں ہے ۔” اگر چہ ان کا مکر پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا دے “ یہ بھی اسی تفسیر کو تقویت دیتا ہے ۔یعنی اگر چہ وہ منصوبہ بندی اور سازشوں میں بڑے طاق ہوں ، خدا ان سے زیادہ آگاہ اور زیادہ قدرت والا ہے اور ان کی سازشوں کو درہم برہم کر دیتا ہے ۔
دوبارہ روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے اور ظالموں اور بد کاروں کو دھمکی دی گئی ہے ۔ ارشادہوتا ہے : تم یہ گمان نہ کرنا کہ خدا نے انبیاء سے جو وعدہ کیا ہے اس کی خلاف ورزی کرے گا (فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّہَ مُخْلِفَ وَعْدِہِ رُسُلَہُ ) ۔ کیونکہ وعدہ خلافی تو وہ کرتا ہے جو قادر و توانا نہ ہو یا سزا و انتقام اس کی لغت میں نہ ہو لیکن ” خدا تو توانا بھی ہے اور صاحب انتقام بھی (إِنَّ اللَّہَ عَزیزٌ ذُو انتِقامٍ ) ۔
یہ آیت در حقیقت ایک گزشتہ آیت ”ولا تحسبن اللہ غافلا ً عما یعمل الظالمون“ کی تکمیل کرتی ہے ۔ یعنی اگر تم دیکھتے ہو کہ ظالموں کو مہلت ملی ہوئی ہے تو وہ اس لئے نہی ہے کہ پروردگار ان کے اعمال سے غافل ہے اور نہ اس لئے کہ وہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کرے گا بلکہ ان کے تمام حساب ایک ہی دن چکا دے گا اور انہی عادلانہ طور پر سزا دے گا ۔
لفظ ” انتقام “ موجودہ فارسی میں تلافی کرنا ، کینہ نکالنا اور معاف نہ کرنے کا مفہوم بھی لئے ہوئے ہے ۔ در اصل اس کا یہ معنی نہیں ۔ بلکہ ” انتقام “ کا مفہوم سزا دینا اور عذاب کرنا ہی ہے ۔ ایسی سزا کہ جو خدا استحقاق اور عدالت کی بنا پر دے گا بلکہ انسان کے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر خدا کی طرف سے ایسا انتقام نہ ہو تو یہ اس کی حکمت و عدالت کے خلاف ہوگا ۔
مزید فرمایا گیا ہے : یہ سزا ایسے دن دی جائے گی جبکہ یہ زمین دوسری زمین میں تبدی لہو جائے گی اور یہ آسمان دوسرے آسمانوں میں تبدیل ہوجائے گا (یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاٴَرْضُ غَیْرَ الْاٴَرْضِ وَ السَّماواتُ ) ۔
اس روز ہر چیز تباہی کے بعد پھر سے صورت پذیر ہوگی اور انسان نئے حالات کے ساتھ نئے عالم میں قدم رکھے گا ۔ ایسا عالم کہ جس کی تمام چیزیں اس عالم سے مختلف ہوں گی ” اس کی وسعت ، اس کی نعمتیں اور اس کی سزائیں سب مختلف ہوں گی ” اور اس روز جو کچھ بھی کسی کے پاس ہے وہ سب پوری طرح واحد و قہار خدا کے سامنے ظاہر ہو جائے گا (وَ بَرَزُوا لِلَّہِ الْواحِدِ الْقَھَّارِ ) ۔
” برزو“ اصل میں ” براز “ ( بر وزن ” فراز “ ) کے مادہ سے فضا اور وسیع جگہ کے معنی میں لیا گیا ہے ۔ ” برزو “ کا معنی ایسی فضا اور وسیع علاقہ میں ہونا ہے کہ جس کا لازمی نتیجہ ظاہر اور آشکار ہونا ہے ۔ اسی وجہ سے ” برزو عام طور پر ” ظہور “کے معنی میں آتاہے ( غور کیجئے گا ) ۔
روز قیامت انسان کے خدا کے سامنے ظاہر ہونے کا کیا معنی ہے ، اس سلسلے میں مفسرین نے مختلف باتیں کی ہیں ۔
بہت سوں نے اسے قبروں سے باہر نکالنے کے معنی میں لیا ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ بروز کا مطلب انسان کے اندر اور باہر کا سب کچھ ظاہر ہوجانا ہو جیسا کہ سورہ مومن کی آیہ ۱۶۔ میں فرمایا گیا ہے : یوم ھم بارزون لا یخفی علیٰ اللہ منھم شیء
وہ دن کہ جب ان کاسب کچھ آشکار ہو جائے گا اور ان کی کوئی چیز مخفی نہ رہے گی ۔
نیز سورہ طارق کی آیہ ۹۔ میں ہے :
یوم تبلی السرائر
وہ دن کہ جب ہر شخص کے اندرونی اسرارآشکار ہو جائیں گے ۔
بہر حال اس حالت میں خدا کی قہاریت کا ذکر ہر چیز پر اس کے تسلط اور سب کے اندر اور باہر پر اس کے غلبہ کی دلیل ہے ۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ کیا دنیا میں کوئی چیز خدا پر مخفی ہے کہ جو وہاں آشکار ہو جائے گی ؟۔ کیا خدا قبروں میں مردوں کے وجود سے بے خبرہے ؟ یا کیا وہ یہاں انسان کے اندرونی اسرار کو نہیں جانتا ؟
ایک نکتے کی طرف توجہ سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے ۔ وہ یہ کہ اس جہان میں ایک ہمارا ظاہر ہے اور ایک باطن ۔ بعض اوقات ہامرے علم کے محدود ہونے کی بناء پر یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ خدا ہمارے باطن کو نہیں جانتا لیکن دوسرے جہان میں ہر چیز اس طرح آشکار ہو جائے گی کہ ظاہر و باطن کا فرق نہیں ہوگا ۔ سب کچھ آشکار ہوگا ۔ یہاں تک کہ کسی کے دل میں یہ احتمال بھی پیدا نہیں ہوگا کہ ہو سکتا ہے کوئی چیز خدا سے مخفی رہ گئی ہے ۔
دوسرے لفظوں بروز و ظہور ہماری فکرو نظر کے اعتبار سے ہے کہ علم خدا کے اعتبار سے ۔
اگلی آیت میں مجرمین کی حالت ایک اور پہلو سے تصویر کشی کی گئی ہے : اس روز تو مجرموں کو دیکھے گا کہ وہ طوق و زنجیر میں جکڑے ہوں گے ۔ ان کے ہاتھ گردنوں سے بندھے ہوں گے اور وہ ایک دوسرے سے بھی بندھے ہوں گے (وَ تَرَی الْمُجْرِمینَ یَوْمَئِذٍ مُقَرَّنینَ فِی الْاٴَصْفادِ
”اصفاد “ جمع ہے” صفد“ ( بر وزن ” نمد “ ) کی اور ”صفاد “ (بروزن” معاد “) طوق کے معنی میں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ” صفاد “ خاص طور پر اس طوق و زنجیر کو کہتے ہیں جو ہاتھ اور گردن کو ایک دوسرے سے باندھ دے ۔
” مقرنین “ ”قرن “ اور ” اقتران “ کے مادہ سے اسی معنی میں ہے ۔ البتہ جب اسے باب تفعیل میں منتقل کیا جائے تو اس سے ” تکثیر “ کا مفہوم حاصل ہوتا ہے ۔ لہذا ” مقرنین “ کا معنی ہے :” وہ لوگ جو ایک دوسرے کے بہت قریب ہوں “ ۔اس لفظ سے زیر نظر آیت میں کون لوگ مراد ہیں ۔اس سلسلے میں مفسرین نے تین تفسیریں بیان کی ہیں ۔
پہلی :۔ یہ کہ اس روز مجرمین کو طوق زنجیر کے ایک لمبے سلسلے میں ایک دوسرے سے باندھا جائے گا وہ لوگ اسی حالت میں میدان حشر میں پیش ہوں گے ۔ طوق و زنجیر کا یہ سلسلہ اب گنہگاروں کے عملی فکری رشتے اور تعلق کا مظہر ہے ۔ اس تعلق کی بنا ء پر وہ اس جہان میں باہم ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھے ، ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے اور ظلم و فساد کی راہ میں ایک دوسرے کے ساتھی تھے ۔ ان کا یہ باہمی ربط وہاں طوق و زنجیر کے اس سلسلے میں مجسم ہوگا ۔
دوسری :۔ تفسیر یہ ہے کہ اس روز مجرم زنجیروں کے ذریعے شیطانوں کے ساتھی ہو جائیں گے اور اس دنیا میں ان کا باطنی تعلق اس جہان میں ایک زنجیر کے ذریعے آشکار ہو جائے گا ۔
تیسری : ۔ تفسیر یہ ہے کہ زنجیروں کے ذریعے ان کے ہاتھوں کو ان کی گردن کا قرین بنا دیا جائے گا ۔
کوئی مضائقہ نہیں کہ مجرموں کے بارے میں یہ معانی صحیح ہوں اگر چہ آیت ظاہری مفہوم زیادہ تر پہلے معنی کی تائید کرتا ہے ۔
اس کے بعد ان کے لباس کے بارے میں بتایا گیا ہے اور یہ بھی ان کے لئے ایک عذاب عظیم ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ان کے لباس قطران کے مادہ سے بنے ہوئے ہوں گے اور ان کے چہروں کو آگ کے شعلے ڈھانپ لیں گے (سَرابیلُھمْ مِنْ قَطِرانٍ وَ تَغْشی وُجُوھھُمُ النَّارُ
”سرابیل “ ” سربال “ ( بروزن ”مثقال “)کی جمع ہے ۔ اس کا معنی ہے ” قمیص “ چاہے وہ کسی بھی چیز سے بنی ہو۔ نیز بعض نے کہا ہے کہ یہ ہر قسم کے لباس کے معنی میں ہے لیکن پہلا معنی زیادہ مشہور ہے ۔
” قطران “ لغت میں کبھی قاف پر زبر اور تا پر سکون اور کبھی قاف کے نیچے زیر اور طاء پر سکون کے ساتھ پڑھا گیا ہے ۔ اس کا معنی ہے ایسا مادہ جو ابہل نامی درخت سے لیا جاتا ہے تا کہ اس بیماری کے باعث ہونے والی سوزش کو ختم کیا جا سکے اور اس کے مادہ کو جڑ سے ختم کیا جا سکے ۔ بہر حال یہ ایک ایسا بد بو دار سیاہ رنگ مادہ ہے جو شعلہ ور ہو سکتا ہے ۔ ۱ ۲
بہر کیف ” سرابیلھم من قطران “ کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے بدن لباس کی بجائے ایک طرح کے سیاہ رنگ بدبودار جل اٹھنے والے مادہ سے ڈھانپے جائیں گے ۔ یہ ایسا لباس ہوگا جو ویسے بھی برا ہوگا اور دیکھنے میں بھی بہت قبیح ہوگا ۔ بدبو بھی دے گا اور خود بخود جل اٹھنے والا بھی ہوگا ۔ جب لباس میں یہ چار عیب ہونگے تو گویا وہ بد ترین لباس ہوگا ۔ کیونکہ لباس زینت کے لئے بھی ہوتا ہے اور گرمی سردی سے بچنے کے لئے بھی جبکہ یہ لباس برا اور قبیح صورت بھی ہوگا اور جلانے والا بھی ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ لباس گناہ پہن کی مجرم اس جہان میں بارگاہ الہی میں بھی اپنے تئیں رو سیاہ کرتے ہیں اور ان کے گنا کا تعفن اس معاشرے کو بھی آلودہ کرتا ہے ۔ نیز ان کے اعمال اس معاشرے میں فساد وگناہ کی آگ بھڑکنے کا باعث بنتے ہیں ۔ یہ ” قطران “ کہ جس کا لباس انہیں اس جہان میں پہنایا جائے گا گویا ان کے اس جہان اعمال کی تجسیم ہے ۔
یہ جو آیت میں ہے کہ آگ کے شعلے ان کے چہروں کو ڈھانپ دیں گے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس حصہ پر ” قطران “ نہیں ہوگا وہ اس کے شعلوں میں جلے گا ۔
یہ اس لئے ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ ہر شخص اس کے کئے کے مطابق سزا دے ( لِیَجْزِیَ اللَّہُ کُلَّ نَفْسٍ ما کَسَبَتْ ) ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن یہ نہیں کہتا کہ ” انہیں ان کے اعمال کی سزا دے گا “ بلکہ کہتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے انجام دیا ہے ، انہیں جزا کے طور پر دے گا ۔ دوسرے لفظوں میں ان کی جزا ان کے اعمال مجسم ہونا ہے ۔ اس خاص تعبیر کے باعث یہ آیت تجسیم اعمال کی ایک اور دلیل ہے ۔
آخر میں فرمایا گیا ہے: اللہ سریع الحساب ہے ۔ (إِنَّ اللَّہَ سَریعُ الْحِسابِ
بالکل واضح ہے کہ جب انسان کے اعمال ختم نہ ہوں اور چہرہ بدل کر انسان کے پاس آ جائیں تو اس سے زیادہ جلدی حساب اور کیا ہوگا اور در اصل انسان کا حساب اس کے ساتھ ساتھ ہی ہے ۔
بعض روایات میں ہے ۔
ان اللہ تعالیٰ یحساب الخلائق کلھم فی مقدار لمح البصر
اللہ تعالیٰ چشم زدن میں تمام مخلوقات کا حساب کر لے گا ۔
اصولی طور پر پروردگار کی طرف سے محاسبہ مدت کا محتاج نہیں ۔ مذکورہ بالا روایت نے در اصل مختصر ترین زمانے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد ۲ ص ۴۵۔ ( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔
یہ سورہ اور تمام قرآن چونکہ لوگوں کو دعوت توحید دیتا ہے ، احکام الہی کی تبلیغ کرتا ہے اور احکام الہی کی خلاف ورزیوں سے ڈراتا ہے لہذا اس سورہ کی آخری آیت میں فرمایا گیا ہے : قرآن کا ابلاغ سب لوگوں کے لئے عمومی ہے ( ھذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ ) ۔اور انہیں ڈرانے والا ہے ( وَ لِیُنْذَرُوا بِہِ ) ۔ اور اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ جان لیں کہ ان کا معبود بس وہی ایک ہے (وَ لِیَعْلَمُوا اٴَنَّما ھُوَ إِلہٌ واحِدٌ ) ۔ نیز ہدف یہ ہے کہ صاحبان عقل و فکر متوجہ ہوں (وَ لِیَذَّکَّرَ اٴُولُوا الْاٴَلْبابِ )

 


۱ ۔تفسیر کبیر ، فخر الدین رازی جلد ۱۹ ص۱۴۸۔
۲ ۔فرید وجدی دائرة المعارف میں قطران کے مادہ میں کہتا ہے :
یہ ایسا مایع ہے کو پتھر کو کوئلہ کی تقطیر کے وقت ہاتھ آتا ہے جبکہ ایک خاص گیس حاصل کرنے کے لئے عمل تقطیر کیا جاتا ہے اور نباتی قطران بعض درختوں سے لیا جاتا ہے ۔
سوره ابراهیم / آیه 46- 52 ۱۔ زمین اور آسمان بدل جائیں گے :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma