توحید کی نشانیوں کا ایک بار پھر تذکرہ ،

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
چند اہم نکات کور دل مغرور وں کی منطق

ہم نے اوپر بیان کیا کہ مومنین کے اوصاف بیان کرنے کے بعد قرآن مجید ایمان کے حصول کے طریقے بیان کرتاہے .گذشتہ آیتوں میں اللہ کی قدرت وعظمت کی وہ نشانیاں جو خود ہمارے جسموں میں موجود ہیں .کاتذکرہ کیا گیا ، زیر بحث آیتوں میں انسان سے باہر کی کا ئنات میں اللہ کی نشانیوں میں سے زمین و آسمان میں اس کی عظمت ِ قدرت ِ کا مظاہر کا تذکرہ ہے .سب سے پہلے ارشاد ہوتا ہے : ہم نے تمہارے اوپر سات راستے بنائے ہیں ( ولقد خلقنا فوقکم سبع طرائق ) طرائق ، طریقہ ، کی جمع ہے اور اس کا مطلب راستہ یا عمارت کی منزل ہے .اوّل الذکر معنی کی بنیاد پر آیت کا مفہوم یہ ہوگا ، کہ ہم نے تمہارے اُوپر سات راستے بنائے .شاید یہ فرشتوں کی آمدورفت کے راستوں کا ذِکر ہو یا ستاروں کے مداروں کا ذِکر ہو ، موٴخر الذکر معنی کی بنیاد پر آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ ہم نے تمہارے اوپر سات منزلیں (سات آسمان ) بنائے .
سات آسمان کے بارے میں ہم بہت کچھ بیان کرچکے ہیں .یہاں صرف اشارہ عرض ہے کہ اگر سات کے عدد کو تکثیر کے معنی میں لیں تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ تمہارے اوپر بہت سے کرّات سماوی اجرام فلکی عوالم ستارے اور سیاّرے ہیں .منزلوں کا مفہوم کسی طرح بھی بطلیموسی نظرئے پر منطبق نہیں ہوتا ، کہ جس کے مطابق سات آسمان پیا ز کے چھلکوں کی طرح ایک دوسرے کے اوپر موجود ہیں اور نہ ہی یہ تصور ہوسکتا ہے کہ قرآن مجید ایک باطل مفروضے کو اپنی گفتگو کی بنیاد بنا ئے بلکہ طرائق اور طبقات اس حقیقت کی طرف اشارہ ہیں کہ ہم سے فاصلوں پر مختلف عوالم اور جہاں آبادہیں اور ہمارے لحاظ سے ان میں سے ہرایک دوسرے سے اُوپر ہے بعض بہت دُور ہیں اور بعض نزدیک ۔
اور اگر ، سبع ، کے معنی صرف سات لیں تو مفہو م یہ ہوگا کہ جس کائنات کو ہم دیکھتے ہیں .(جو ہماری کہکشاوٴں .سیاروں اور ستاروں کا مجموعہ ہے ) اس کے علاوہ اور عالم ہیں جو ہمارے اوپر بنائے گئے ہیں اور جن تک ابھی انسان کو دستر س حاصل نہیں ہوئی ہے .اگر نظام شمسی کا بغور جائزہ لیں .سورج کے گرد مختلف سیاروں کی ترتیب کا گہرا مطالعہ کریں تو ایک اور تفسیر بھی کی جا سکتی ہے وہ یہ کہ سورج کے گرد گھومنے والے سیاروں کی کل تعداد ۹ ہے عطارد اور زہرہ نامی دو سیاروں کا مدار زمین کے مدار کے نیچے ہے .اور باقی چھ سیاروں کا مدار زمین کے اوپر عین اس طرح ہے جس طرح چند منزلہ عمارت کی منزلیں ہوتی ہیں .مزید برآں چاند کا مدار بھی زمین کے اوپر ہی ہے اس طرح زمین کے اوپر منزل کل سات مدار ہوئے گویا زمین کے اوپر سات منزلیں قرار پاتی ہیں (غور کیجئے گا) ۱
مختلف کہکشاوٴں اور عالم کی کثرت ِ وسعت سے شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال اُبھرے کہ ان کا پیدا کرنے والا کہیں ان سے غافل نہ ہوجائے ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے آیت کے آخری حِصے میں ارشاد ہوتا ہے .کہ ہم اپنی پیدا کردہ خلقت سے غافل نہ تھے اور نہ ہیں ،( وَ ما کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غافِلینَ )۔
یہاں لفظ ، خلق ، استعمال کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے کہ خلقت کا وجود بجائے خود دلیل ہے کہ پیدا کرنے والے کے علم میں سب کچھ ہے اور اس کی پوری توجہ اس کی طرف مبذول ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوسکتا ، کہ پیدا کرنے والا اپنی مخلوق سے غافل ہو ،
یہ احتمال بھی ہے کہ اس آیت کی تفسیر یہ ہو کہ ہم نے فرشتوں کی آمد ورفت کے لیے تمہارے اوپر بہت سے راستے بنا رکھے ہیں .ہم تمہاے حالات سے بے خبر نہیں اور ہمارے فرشتے بھی تمہاری حرکات وسکنات کے گواہ ہیں .بعد کی آیت زمین و آسمان کی ان گنت برکتوں اور نعمتوں اور اللہ کی قدرت کاملہ کے لاتعداد مظاہر میں سے ایک مظہر ذاتی کے بارے میں کہہ رہی ہے .ہم نے آسمان سے ایک معین مقدار میں پانی اُتارا ( وانزلنا من الّسمآء ماء بقدر ) نہ اتنی زیادہ بارش کہ بہالے جانا والا سیلاب بن جائے اور نہ اتنی کم کہ نباتات وحیوانات کی پیاس بھی نہ بجھے ،اس میں شک نہیں کہ آسمانوں کے بعد جب زمین پر نظر کریں تو عطیات پرور دگار میں سے اہم ترین پانی ہے جو تمام زندہ موجودات کی زندگی کا ضامن ہے .اس کے بعد اس سلسلے کا ایک اور زیادہ اہم مسئلہ یعنی زیر زمین کے ذخائر کا ذکر تے ہوئے ارشاد ہوتاہے .ہم نے اس پانی کو زیر زمین پانی کے ذخائر میں محفوظ کیا ہے حالانکہ اگر ہم چاہتے کہ اسے ختم کر دیں تو ہمیں ایسا کرنے کی پوری طاقت ہے ،( فاسکنا ہ فی الارض وانا علیٰ ذھاب بہ لقادرون )
ہم جانتے ہیں کہ زمین نے دو بالکل مختلف طبقوں سے تشکیل پائی ہے ایک پانی کو اپنے اندر جزب کرنے والا اور دوسرا جزب نہ کرنے والا ، اگر زمین کا کریسٹ  ہر جگہ جاذب ہوتا تو چاہے کتنا بھی مینہ بر ستا زمین کے اندر ہی جذب ہوکر اس کی گہرایوں تک پہنچ جاتا ہے .وسیع وعریض زمین کی تمام سطح خشک رہتی اور پانی کا ایک قطرہ تک نہ ملتا ،
اس کے برعکس اگر ہرجگہ زمین کی سطح غیرجاذب اور سنگلاخ ہوتی تو بارش کا سارے کا سارا پانی سطح زمین کے اوپر ہی رہتا اور رطوبت تّعفن کا یہ عالم ہوتا کہ عرصئہ زمین انسان کے لیے تنگ ہوجاتا اور زندگی کا ضامن پانی انسان کی ہلاکت کا ذریعہ بن جاتا ، لیکن احسان کرنے والے عظیم اللہ نے زمین کی سطح کے اوپر کے حصّے کو جاذب آب اور نچیلے حِصّے کو غیر جاذب بنا یا ، تاکہ سطح زمین سے پانی تو نیچے چلا جائے .مگر اتھا ہ گہرایوٴں میں کم ہونے کی بجائے ایک خاص گہرائی تک جاکر غیر جاذب سطح پر رُک کر اکٹھا ہوجائے .تاکہ بعد میں کنوٴوں اور چشموں اور ٹیوب ویلوں کی صورت میں فضاکو مکدر کیے بغیر انسان کے لیے قابِل استفادہ بن سکے .
یہ خوشگوار اور مزدار پانی جس کو آج گہرے کنوٴوں سے نکال کر اپنے اندر توانائی پیدا کرتے ہیں شاید ہزاروں برس پہلے برسنے والی گھٹاوٴں کا ہو جو متعفن ہوے بغیر
۱ سات آسمانوں کی مزید وضاحت کے لیے اس تفسیر کی پہلی جلد میں سوٴرہ کی آیت ۲۹ کی تفسیر ملاحظہ ہو ۔
آج کے لیے جمع کیا گیا ہو ، بہر حال وہ ذات بابرکت جس نے انسان کو زندگی کے لیے پیدا کیا ہے اور پانی کو زندگی کا اہم ذریعہ قرار دیا ہے ،اس نے انسان سے بہت پہلے اس مادہ حیات کو جمع کرنے کے لیے اہم ذخائر پیدا کئے اور ان میں پانی جمع کیا ،
البتہ، برف ، کی صورت میں اس مادئہ حیات ، کا ایک حِصّہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی ہے جو یا تو سال بھر برابر پگھل پھگل کر دریاوٴں کا منبع قرار پاتا ہے .یا صدیوں بلکہ ہزاروں سال ، گلیشر ، کی صورت میں وہیں رُکا رہتا ہے حتی ٰ کہ موسمی تغیر وتبد ل کے ذریعے اس نیچے پھلنے کا حکم دیاجاتا ہے تاکہ پیاسے اور خشک بیا بانوں کو سیراب کرے .لیکن ، فی الارض ، میں ، ارض ، کے ساتھ ، فی، پر غور کر نے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ آیت زیر ِزمین پانی کے ذخائر کی طرف اشارہ کررہی ہے .نہ کہ اُوپر کے ذخائر کی طرف.
اس کے بعد بارش کے بابرکت اور اس سے ہونے والی پیداوار کی طرف اشارہ ہورہا ہے اور اس کے ذریعے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ اُگادئے جن میں تمہارے کھانے کے لیے ڈھیر سارے پھل موجود ہیں .(فانشا ء نا لکم بہ جنات من نخیل واعناب لکم فیھا فواکہ کثیرتہ ومنھا تاء کلون ) بارش سے پیدا ہونے والے پھل صرکھجور اور انگور ہی تو نہیں ہیں .بلکہ طرح طرح کے ان گنت پھل ہیں اور دیگر پیداوار بھی ہے آیت میں صرف ان دو کا ذکر مجموعی پیداوار میں سے عمدہ اور اعلیٰ ہونے کی بنا ء پر کیا گیا ہے اور ، منھا تاء کلون ، یعنی ان میں سے تم کھاتے ہو ، شاید اس طرف اشارہ ہو کہ نعمتوں سے مالامال ان باغوں میں صرف پھل فروٹ ہی تو نہیں .بلکہ یہ کھانے پینے کی چیز یں ان گنت پیداوار کا ایک حِصّہ ہیں .
نخلستانوں سمیت تمام باغات انسان کی غذا ئی ضرویات کے علاوہ اور بہت سے فوائد کے حامل ہیں .مثلاً ان کے پتوں سے چٹا یئاں اور بعض اوقات کپڑے بھی بنتے ہیں .ان کی لکڑی سے گھر فرنیچر اور سواریاں بنتی ہیں .بعض درختوں کی جڑی بوٹیوں سے دوایئاں تیار کی جا تی ہیں .انسان کے کام کرنے والے جانور پّتوں سے پیٹ پالتے ہیں .اور لکڑیاں بطور ایندھن استعمال ہوتی ہیں .
فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں ، منھا تاء کلون ، سے ایک اور احتمال کا اظہار بھی کیا ہے .بقول ان کے اس سے یہ مراد ہے کہ ، یہ باغات تمہارا ذریعہ معاش ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں کام سے روٹی کھاتا ہے یعنی اس کی زندگی کی بسر اس کام پر ہے ۱
یہ نکتہ بھی توجہ طلب ہے کہ زیر بحث آیت میں انسانی زندگی کا نقطئہ آغاز ، نطفے کا پانی .، اور نباتاتی زندگی کا نطفہ آغاز بارش کا پانی .، بیا ن کیا گیا ہے حقیقت بھی یہی ہے زندگی کے ان دونمونوں کا سر چشمہ پانی ہے .بے شک ہر جگہ اللہ کا ایک ہی قانون حکم فرماہے .
اس کے بعد بارش کے پانی سے نمو پانے والے ایک اور بابرکت درخت کا ذکر کرتے ہوُئے ارشاد ہوتا ہے کہ کھجور انگور اور دیگر درختوں کے علاوہ ، طور سینا سے اُگنے والا ایک اور درخت بھی ہے جس سے تیل اور سالن کھانے والوں کو حاصل ہوتا ہے .( وشجرتہ تخرج من طور سینا ء تنبت بالدھن وصبغ للاٰکلین ) طور سینا کے متعلق مفسرین نے دو عمدہ احتمالات کا اظہار کیا ہے .
(۱) صحرائے سیناء میں موجود مشہور کوہ طور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے .قران مجید کے کوہ طور سے اُگنے والے درخت کو زیتون کا درخت ، کہنے کی وجہ یہ ہے کہ حجاز کے عرب جب بے آب وگیاہ صحراوٴں سے گذرتے ہوئے شمال کی طرف بڑھتے تھے .تو زیتون کے درختوں سے بھرا ہوا پہلا زر خیز علاقہ صحرائے سینا کے جنوب میں یہی طور کا علاقہ تھا ، (نقشہ دیکھنے سے بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے .)
(۲) طور سینا صفت استعمال ہواہے یہ اصطلاح بابرکت اور مقدس پہاڑ یا درختوں سے بھرا ہوا پہاڑ دریا خوبصورت و حسین پہاڑ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے .
۱ پہلی تفسیر کی بنا ء پر ، من ، تبعیضیة ، ہے اور دوسری کے مطابق ، نشویہ ، ہے .
کیونکہ ، طور ، بمعنی پہاڑ ہے اور سینا ، بابرکت ، خوبصورت اور سر سبز شاداب کے معنے میں ہے .
،صبغ ، کا مطلب در اصل رنگ ہے ، عام طور کھانا کھاتے ہوُئے انسان جب چباتی سالن کے ساتھ کھاتاہے تو وہ رنگین ہوجاتی ہے .لہذا تمام قسم کے روٹی سالن کو ، صبغ ، کہا گیا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لفظ ، صبغ ، زیتون کے تیل کی طرف اشارہ کررہاہو ، جسے کھانے کے ساتھ کھایا جاتا ہے .یا مختلف قسم کے سالن کی طرف اشارہ ہو جو مختلف درختوں سے تیار کیے جاتے ہیں .
اس مقام پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے اور وہ یہ کہ طرح طرح کے بے شمار پھلوں میں سے کھجور ، انگور اور زیتون تین پھلوں کا ذکر کیوں کیا گیا ہے ؟ ا س کا جواب یہ ہے .ماہر ین خوراک کی جدید تحقیق کے مطابق بہت کم پھل ایسے ہیں جو انسانی صحت کے لیے ان تین پھلوں کے برابر مفید اور موٴثر ہوں.
زیتون کا تیل انسانی بدن کی ساخت اور مفید رطوبتوں کے لحاظ سے بڑی قابل قدر شئے ہے ،اس میں حرارتی عنصر بہت زیادہ ہے .جِگر کے لیے مفید ہے اور گردوں کے کئی عارضوں کو ختم کرنے والا ہے گرُدے کے درد اور پھتر ی کا بہترین نسخہ ہے .اعصاب کے لیے مقوی ہے .مختصر یہ کہ انسانی صحت کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے .
کھجور ، کی اتنی تعریف کی گئی ہے کہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہے .کھجور سے حاصل کی ہوئی چینی اعلیٰ اور مکمل چینی ہے ماہرینِ خوراک کی اکثریت کے مطابق کھجور ، مانع سرطان ہے ، ماہرین نے اس میں تیز قسم کی حیاتیں اور پانچ قسم کے وٹامن کا انکشاف کیا ہے .جس کی وجہ سے وہ کھجور کو قیمتی غذا کے سر چشمہ کے طور پر پیش کرتے ہیں .
اور انگور ، بعض ماہرین کے مطابق ایک فطری .، میڈیکل سٹور ، ہے انسانی بدن کے لیے شیر مادر کی سی خا صیتں رکھتا ہے جسم میں گوشت سے دُگنی حرارت پیدا کرتا ہے .مصفی خون ہے .بدن کے زہریلے مادے خارج کردیتا ہے اور اس میں موجود طرح طرح کے وٹامن انسان کو قوت وطاقت دیتے ہیں . ۱
نباتی نعمتوں کے بعد بارش کے پانی سے پلنے والی حیواناتی نعمتوں کے ایک اہم حِصّے کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے .چوپایوں میں تمہارے لیے لمحہ فکریہ ہے (وان لکم فی الانعام لعبرة ) ، ۲
پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے .جو کچھ ان کے پیٹ میں ہے .اس سے ہم تمھیں سیراب کرتے ہیں .(نسقیکم مما فی بطونھا ) ،بے شک خون اور اسی طرح کی کئی ایک غلاظتوں میں سے ، دودھ ، جیسی مزیدار خوشگوار مقوی اور مکمل غذا نکالی جاتی ہے .تاکہ انسان سمجھ سکے کہ اللہ کو وہ چیزوں میں سے پاک اور مزیدار چیز نکالنے کی پوری قدرت رکھتا ہے
اسکے بعد مزید کہا جارہاہے کہ جانور وں سے متعلق سبق آموز امور کی برکتیں اور نعمتیں صرف دودھ تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدہ ہیں اور تم ان کا گوشت کھاتے ہو ( ولکم فیھا منافع کثیرة ومنھا تاء کلون ، ۔ )
حّدِ اعتدال میں رہتے ہوئے گوشت کا استعمال جسم کی غذا ئی ضرورات کو پُورا کر تا ہے ،اس کے علاوہ ان کی کھالیں کئی قسم کے لباس اور شامیانے وغیرہ بنانے کے کام آتی ہیں .ان کے بالوں سے چٹائیاں .لباس ، اور کئی طرح کے اوچھاڑ وغیرہ بنائے جاتے ہیں .ان کے بدن کے بعض اعضار سے دوائیاں بنتی ہیں حتیٰ کہ ان کے گوبر سے ایندھن کے علاوہ درختوں اور فصلوں کے لیے بڑی مفید کھاد تیار کی جاتی ہے .
ان سب سے قطع نظر سواری کے لیے خُشکی میں چوپایوں کو اور دریاوٴں میں کشتی کو استعمال کرتے ہو اور اپنی منزلوں تک پہنچتے ہو ( وعلیھا وعلی الفلک تحملون ) 3
جانوروں کی انواع ، اور فوائد واقعی سرمایہ غور فکر ہیں .ایک طرف یہ انسان کو ان نعمتوں کے پیدا کرنے والے کی معرفت دلاتے ہیں اور دوسری طرف اس کو شکر گزار ی کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں . 4
یہاں صرف ایک سوال باقی رہتا ہے وہ یہ کہ چوپائے اور کشتیاں ایک ہی صفت میں کیسے کھڑی کردی گئی ہیں ؟ ایک نُقطے کو سمجھنے سے سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ انسان کو ساری زمین میں سواری کی ضرورت ہے ،اس لیے بَڑی سواری کے ساتھ ساتھ بحری سواری کا بھی ذکر دیا گیا ہے .دراصل سُورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۷۵ میں انسان کو عطاکی جانے والی نعمتوں کے ذیل میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے .ارشاد ہوتا ہے .( وحملنا ھم فی البّر وابحر ) ، ہم انہیں خشکیوں اور پانیوں میں ادِھر اُدھر لے جاتے ہیں ۔،

 

(وَ لَقَدْ اٴَرْسَلْنا نُوحاً إِلی قَوْمِہِ فَقالَ یا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّہَ ما لَکُمْ مِنْ إِلہٍ غَیْرُہُ اٴَ فَلا تَتَّقُونَ (23)
فَقالَ الْمَلَاٴُ الَّذینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِہِ ما ہذا إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُریدُ اٴَنْ یَتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ وَ لَوْ شاء َ اللَّہُ لَاٴَنْزَلَ مَلائِکَةً ما سَمِعْنا بِہذا فی آبائِنَا الْاٴَوَّلینَ (24)
إِنْ ہُوَ إِلاَّ رَجُلٌ بِہِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِہِ حَتَّی حینٍ (25)
ترجمہ
۲۳۔ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا ، انہونے اپنی قوم سے کہا ، اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو ، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم ( پھر بھی بتوں کی پرستش سے ) پرہیز نہیں کرتے ؟
۲۴ ۔ ان کی قوم کے سردار ( اور مغرور لوگ ) کہ جو کافر تھے .کہنے لگے کہ یہ شخص تمہاری ہی طرح کا بشر ہے اور یہ تم پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے .اور اگر اللہ نبی بھیجنا چاہتا تو فرشتے نازل کرتا ، ہم نے اپنے اباؤ اجداد سے اس قسم کی کوئی بات کبھی نہیں سنی ۔
۲۵ ۔ یہ آدمی تو بس ایک طرح کے جنون میں مبتلا ہے ۔ کچھ عر صہ اس کے بارے میں صبر کرو ( یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہوجائے یا یہ اس بیماری سے نجات پالے )

 


۱ ان تین حیات بخش پھلوں کی مزید تفصیلات کے لیے اس تفسیر کی جلد ۶ سوٴرہ نحل آیت نمبر ۵ کی تفسیر ملاحظہ ہو ۔
۲ یہاں ، عبرہ ، کو بطور نکرہ استعمال اس عظمت کے اظہار کے لیے ہے .
چند اہم نکات کور دل مغرور وں کی منطق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma