تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 67 - 78 سورہ مومنون کی فضیلت


تفسیر
ہرامت کے لئے ایک عبادت مقرر ہے


ہماری گذشتہ بحثیں مشرکین کے بارے میں تھیں، مشرکین مکّہ علی الخصوص اور دوسرے اسلام مخالف عناصر علی العموم پیغمبر اکرم صلی علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ جھگڑتے رہتے تھے اور پرانے احکامات کی تنسیخ اور نئی شریعت کے نفاذ کو اسلام کی کمزوری خیال کرتے تھے، حالانکہ یہ تبدیلیاں کسی کمزوری کی دلیل نہ تھیں، بلکہ ارتقاء وتکاملِ ادیان کے پروگرام کا ایک حصّہ تھیں، چنانچہ زیرِ بحث پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ہم نے ایک امّت کے لئے ایک عبادت مخصوص کردی ہے تاکہ وہ اسی طرح اپنے رب کی عبادت کرے (لِکُلِّ اٴُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَکًا ھُمْ نَاسِکُوہُ) ۔(۱)
”مناسک“ ”منسک“ کی جمع ہے اور جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ ”منسک“ کا مطلب ”عبادت“ ہے، ہوسکتا ہے یہاں پر یہ لفظ مختلف دینی ضابطوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے، اس بناء پر آیت کا مفہوم یہ ہوگا: کیا سابقہ امتیں اپنے لئے ایک مخصوص شریعت رکھتی تھیں، جو مخصوص حالات مختلف زمان ومکان اور دیگر جہات کے لحاظ سے ان کے لئے مکمل ضابطہٴ حیات تھیں، مگر ان مخصوص حالات کے بدل جانے کی صورت میں ضروری تھا کہ وہ ضابطہ بھی بدل جائے اور نئے احکام اس کی جگہ لیں، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: اس وجہ سے ان کوآپ کے خلاف نہیں اٹھ ہونا چاہیے (فَلَایُنَازِعُنَّکَ فِی الْاٴَمْرِ) ۔ آپ اپنے پالنے والے کی طرف دعوت دیجئے کیونکہ سیدھا راستہ یہی ہے جس پر آپ گامزن ہیں ۔

(وَادْعُ إِلَی رَبِّکَ إِنَّکَ لَعَلیٰ ھُدًی مُسْتَقِیمٍ) ۔ یعنی ان کے سروپا اعتراضات اور لغو باتیں آپ کو ذرّہ بھر متاٴثر نہ کرپائیں، کیونکہ آپ تو الله کی طرف بلا رہے ہیں اور آپ راہ راست پر ہیں ”ھُدًی“ کی صفت ”مستقیم“ بیان کی گئی ہے، یہ اس لئے ہے کہ تاکید وتشدید کا اظہار ہو یا یہ بیان مقصود ہو کہ کسی منزل کی طرف کئی راستے راہنمائی کرسکتے ہیں، نزدیک، دور ، ٹیڑھا اور سیدھا، لیکن الله کی طرف سے جو راستہ مقرر ہوگا وہ نزدیک ترین اور سیدھا راستہ ہوگا لیکن اس کے باوجود مخالفت جاری رکھیں اور آپ کی ہدایت سے اثر قبول نہ کریں تو ان سے کہہ دیں کہ الله ان کی حرکات سے زیادہ مطلع ہے ۔
(وَإِنْ جَادَلُوکَ فَقُلْ اللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ) ۔ الله تمھارے اختلاف کا فیصلہ فرمائے گا (فردائے قیامت، جو الله کی طرف بازگشت کا دن ہے اور اتحاد ویگانیت کا دن ہے اور تمام اختلافات مٹ جانے کا دن ہے، تم سب پر حق واضح کردے گا (اللهُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا کُنْتُمْ فِیہِ تَخْتَلِفُونَ) ۔(2)
چونکہ قیامت کے دن بندوں کے جملہ اختلافات کو ختم کرنا اور ان کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنا اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ جو ذات یہ مرحلے طے کرے، وہ لازمی طور پر بے پناہ علم کی حامل ہو، لہٰذا ارشاد ہوتا ہے: ”کیا آپ کو علم نہیں کہ زمین وآسمان میں ہر چیز سے الله واقف ہے“ (اٴَلَمْ تَعْلَمْ اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ) ۔ بیشک یہ سب علوم واشیاء ایک کتاب میں موجود ہیں (إِنَّ ذٰلِکَ فِی کِتَابٍ) ۔
الله علیم وحکیم کے لامتناہی علم کی ڈائری اور کتاب عالمِ ہست ونابود اور کائناتِ اثر وموٴثر کی کتاب ہے جس میں سے کچھ ناپید نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اس میں تغیر وتبدل اور اضافہ ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ انسان کے گلے سے نکلی ہوئی کمزور آواز بھی ہزار سال پہلے اس کائنات میں وجود آئی تھی، فنا نہیں ہوگی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی فضا میں موجود رہے گی، یہ بہت جامع اور مفصّل کتاب ہے جس میں ہر چیز لکھی ہوئی ہے بالفاظ دیگر یہ سب کچھ لوح محفوظ یعنی ”علم الٰہی کی تختی“ میں درج ہے اور تمام موجودات اپنی تمام تر تفاصیل کے ساتھ اس کے نزدیک حاضر ہیں اس لئے آیت کے آخری جملے میں ارشاد ہوتا ہے: الله کے لئے سب کچھ بہت آسان ہے کیونکہ تمام موجودات اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ اس کے سامنے ہیں (إِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللهِ یَسِیرٌ) ۔


 

 


۱۔ بعض مشرکین کے نزدیک آیت مشرکین کے لئے اس سوال کا جواب ہے کہ تم ذبح کرکے گوشت کھالیتے ہو جبکہ مردہ کا نہیں کھاتے ہو، یعنی اپنے مارے ہوئے کو کھاتے مگر خدا کے مارے ہوئے کونہیں؟ مگر یہ بات بہت بعید معلوم ہے کیونکہ زیرِ بحث آیت میں ہر طرح کے مفہوم کی گنجائش ہے نہ کہ سرف مسئلہ ذبح کی ۔ مزید برآں، مردار کا گوشت کھانا کسی شریعت میں بھی جائز نہیں تھا، اس کے بارے میں قرآن مجید کہہ سکتا ہے کہ ہر ایک امّت کا ذبح کے بارے میں الگ طریقہ تھا ۔

2۔ ممکن ہے اس آیت کے مخاطب سول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور مخالفین اسلام دونوں ہوں، اس بناء پر (اللهُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ) کا جملہ قول پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم ہوگا، دوسرا احتمال یہ ہے کہ آیت کے مخاطب مسلمان اور کفار ہوں، اس صورت میں یہ آیت الله کی تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے ایک مستقل بیان ہوگی ۔

 

 


مکھّی سے بھی زیادہ کمزور


گذشتہ آیتوں میں شرک اور توحید سے متعلق گفتگو کے لحاظ سے زیرِ بحث آیت میں دوبارہ مشرکین اور ان کی غلط کاریوں کا ذکر کیا جارہا ہے چونکہ شرک اور بپت پرستی کے بطلان کا واضح ثبوت یہ ہے کہ عقلی اور نقلی کوئی دلیل اس قبیح عمل کا جواز مہیّا نہیں کرتی، لہٰذا پہلی آیت میں فرمایا جارہا ہے: الله کو چھوڑ کر جن کی وہ پرستش کرتے ہیں، اس کے بارے میں الله نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی (وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَانًا) ۔
در اصل یہ آیت بُت پرستوں کے اس عقیدے کو باطل کررہی ہے جس کے تحت وہ کہا کرتے تھے کہ بُت الله کی بارگاہ میں ہمارے شفیع ہیں اور ہم ان کی اجازت سے ہی ان کی عبادت کرتے ہیں، اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے وہ ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جن کے بارے میں انھیں کچھ معلومات نہیں ہیں (وَمَا لَیْسَ لَھُمْ بِہِ عِلْمٌ) ۔ یعنی اپنے اس فعل سے متعلق وہ نہ تنزل من الله کوئی دلیل رکھتے ہیں اور نہ ہی فہم عامہ سے کوئی جواز پیش سکتے ہیں ۔
واضح سی بات ہے کہ جس شخص کے پاس اپنے عقیدے اور اعمال کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو وہ بڑی حماقت کی مرتکب ہوا ہے، اس نے اپنے آپ پر بھی زیادتی کی اور دوسروں پر بھی اور جب وہ گرفتار ِ عذاب وعقاب الٰہی ہوگا تو کوئی بھی اس کی حمایت کی جرئت نہیں کرسکے گا، اس حقیقت کو آیت کا آخری حصّہ واضح کررہا ہے: ”ستمگروں کا کوئی یار ومددگار نہیں“ (وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ نَصِیرٍ) ۔
یہ احتمال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ”نصیر“ سے مراد رہبر وراہنما ہے اور اب تک کی بحث کا نتیجہ بھی یہی ہے ، اور مفہوم یہ ہے کہ ان باطل عقیدہ رکھنے والوں کے پاس نہ خدا کی طرف سے کوئی دلیل ہے اور نہ ہی عقل ومنطق کی برہان کہ جن تک وہ خود پہنچے ہوں اور نہ کوئی ایسا رہبر ورہنما انھیں میسّر ہے جو زندگی کے پُرپیچ راستوں میں ان کی رہبری کرسکے وہ بڑے ظالم ہیں کہ حق کے مطیع نہ ہوئے، مندرجہ بالا تین مختلف مفاہیم ایک دوسرے سے منافی ہیں، اگرچہ پہلا مفہوم زیادہ واضح دکھائی دیتا ہے ۔

اس کے بعد الله کے احکامات سننے کے بعد بت پرستوں کے شدید درعمل، ضد، تعصّب اور ہٹ دھرمی کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:
”جب ہمارے واضح احکامات (جن کی عقلی ومنطقی صحت بڑی واضح ہے) جن سے فائدہ اُٹھانا عقل سلیم رکھنے والے ہر فرد کے لئے آسان ہے، ان کے سامنے بیان کئے جاتے ہیں، تو کفار کے چہروں پر انکار وتنفر کے آثار ملاحظہ کرتا ہے (وَإِذَا تُتْلَی عَلَیْھِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِی وُجُوہِ الَّذِینَ کَفَرُوا الْمُنْکَرَ) ۔(۱)
حقیقت کہ جب یہ صاف ستھرے اور منطقی احکامات بیان کئے جاتے ہیں، تو اسے اپنے جاہلانہ اور باطل عقائد متضاد نظر آتے ہیں، چونکہ وہ سچائی اور صداقت کو قبول نہیں کرتے اس لئے غیراختیاری طور پر نفرت وناپسندیدگی کے آثار ان کے چہروں سے عیاں ہوجاتے ہیں یہاں تک ہی نہیں بلکہ تعصّب، ہٹ دھرمی اور ضد کی شدّت کی وجہ سے ہوسکتا ہے وہ جلد ہی احکامات کو غور سے سننے والوں سے ہاتھا پائی اور دھینگا مستی پر اُتر آئیں (یَکَادُونَ یَسْطُونَ بِالَّذِینَ یَتْلُونَ عَلَیْھِمْ آیَاتِنَا) ۔
”یَسْطُونَ“ ”سطوت“ کے مادہ سے ہے اور آستینیں چڑھاکر ہاتھ اُٹھاکر مدّمقابل پر حملہ آور ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، بقول راغب کے جب گھوڑا پچھلے پاوٴں پر کھڑا ہوکر اگلے پاوٴں اٹھاتا ہے اسے ”سطوت“ کہتے ہیں، اس کے علاوہ مندرجہ بالا مفہوم بھی استعمال ہوتا ہے، اگر کسی معاملے میں انسان عقل ومنطق سے غور کرے تو اپنے مخالف کی دلیل سے نہ چہرے کے تاثرات میں تغیر وتبدل کی ضرورت ہے اور نہ ہی مکّہ لہرانے کی بلکہ دلیل کا جواب دلیل سے دیا جاتا ہے، کفار کا غلط ردّعمل ہی اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ وہ کسی دلیل ومنطق کو سننے پر تیار نہیں، بلکہ جہالت ہٹ دھرمی اور طاقت وتشدد کے قائل ہیں ۔
توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ ”یَکَادُونَ یَسْطُونَ“ فعل مضارع ہے اور کفار کی مذکورہ بالا کیفیت کے استمرار پر دلالت کرتا ہے یعنی اگروہ مار پیٹ کا موقع پاتے تو ضرور مارتے اور اگر موقع نہ پاتے مار پیٹ کے لئے تیار ضرور رہتے، ہماری زبان میں وہ اکثر دانت پیستے ہی رہتے ہوں گے کہ وہ مارپیٹ پر قادر نہیں، ایسے احمقوں کے مقابلے میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ ان سے کہہ دے کہ اس سے یہ بدتر چیز کی تم تم کو خبر دوں! جہنّم کی بھسم کردینے والی آگ اس سے کہیں تکلیف دہ (قُلْ اٴَفَاٴُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِکُمْ النَّارُ) ۔ یعنی اگر الله کی واضح اورکھلی ہوئی آیتیں تمھیں بُری معلوم ہوتی ہیں، شاید اس لئے کہ تمھارے منفی اور اٹکل بچّو نظریات کے برعکس ہیں تو کہیں زیادہ بُری چیز کی تم کوخبر دے دوں اور وہ یہ کہ الله کی طرف سے تیار کیا ہوا اذیت ناک عذاب اور سزا ہے جو ضدّی اور ہٹ دھرم لوگوں کا آخری ٹھکانا ہے، ”بھسم کردینے والی وہی آگ جس کا الله نے کفار سے وعدہ کر رکھا ہے“ (وَعَدَھَا اللهُ الَّذِینَ کَفَرُوا) ۔ اور یہ آگ بہت ہی بڑا ٹھکانا ہے (وَبِئْسَ الْمَصِیرُ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ ان بدخوار اور تند مزاج مخالفین کہ جن کے دلوں میں ہمیشہ تعصّب اور ہٹ دھرمی کے شعلے بھڑکتے رہتے ہیں، کا بدلہ جہنّم کی آگ کے سوا اور کچھ ہی نہیں کیونکہ ہمیشہ الله کی طرف سے دی جانے والی سزا گناہ کے تناسب ہوا کرتی ہے ۔
اس کے بعد بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی کیفیت، کمزوری اور توانائی کا دلچسپ اور حسبِ حال خاکہ بیان کیا گیا ہے اور مشرکین کے نظریات کو بڑے واضح انداز میں باطل ثابت کیا گیا ہے ۔
عوام الناس سے خطاب کیا جارہا ہے: اے لوگو! بیان کی جانے والی ایک مثال توجہ سے سُنو (اس پر غور وخوض کرو) ۔
(یَااٴَیُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَہُ) ۔ الله کو چھوڑ کر جن کو بطور خدا پکارتے ہو، وہ تو کبھی بھی پیدا نہیں کرسکتے، چاہے وہ سب کے سب مل کر اجتماعی کوششیں کریں (إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لَنْ یَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوْ اجْتَمَعُوا لَہُ) ۔ تمام بت اور دیگر معبود، سب دانشور صاحبان فکر ونظر اور بنی نوع انسان کے تمام صفت کار اور موجد اگر مل کر کوشش کریں تو ایک مکھی تک پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، ایسے میں وہ کسی بناء پر ان نا اہل چیزوں کو اس پروگرام کا ہم پلّہ قرار دے سکتے ہیں، جو زمین وآسمان پر ہزارہا ذی رُوح موجودات، دریاوٴں، ریگستانوں، جنگلوں، زیرِ زمین اور زیرِ آب خزانوں کا بنانے والا پیدا کرنے والا ہے، وہ الله جو زندگی کو مختلف شکلوں اور طرح طرح کی صورتوں میں پیش کرنے والا ہے، جس کی قدرت کاملہ کے حیرت انگیز اور عجیب وغریب مظاہر انسان کو اس کی تحسین وآفرین اور حمد وستائش کرنے پر بے اختیار محبور کرتے ہیں، یہ کمزور ونااہل معبود کہاں اور وہ قادر حکیم مطلق کہاں ۔ تاکید مزید کے طور پر اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ بناوٴٹی معبود مکھی تک پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ خالق ومعبود حقیقی کی پیدا کی ہوئی ایک مکھی کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتے، ایک مکھی ان سے کچھ چھین لے تو یہ واپس تک لینے کی طاقت نہیں رکھتے (وَإِنْ یَسْلُبْھُمْ الذُّبَابُ شَیْئًا لَایَسْتَنقِذُوہُ مِنْہُ) ۔
ایسا کمزور اور بے بس موجود جو ایک مکھی کے مقابلے میں شکست کھاجائے، کیا یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ ہم اسے اپنی تقدیر کا مالک اور حلّال مشکلات سمجھ سکیں؛ بلا شک وشبہ ایسے معبود دونوں ہی ضعیف وبے بس ہیں (ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ) ۔
روایات میں ہے کہ بت پرست قریش ان بتوں پر جو انھوں نے خانہٴ کعبہ کے گرد و نواح میں جمع کرکھے تھے، شہد مُشک عنبر اور زعفران چھڑکتے اور طواف کرتے ہوئے ”لبّیک اللّٰھم لبّیک، لبّیک لا شریک الّا شریک ھو لک تملکہ و ما ملک“ کا غلعلہ کرتے، یہ خرافات توحید پرستوں کی لبیک کی واضح تحریف اور ان کے شرک کی واضح دلیل تھی جو ان پست وحقیر چیزوں کو خالق کون ومکان کا شریک سمجھتے تھے، لیکن ان بتوں پر مکھیاں بھنبھناتیں اور شہد وزعفران اور مشک وعنبر اُڑا لے جاتیں اور یہ بت مکھیوں کوروک نہ سکتے تھے، قرآن مجید اس منظر کو بتوں کی بے بسی اور مشرکین کی کمزور منطق کے بیان کے لئے بطور ایک مثال ذکر کرتا ہے، گویا کہ چیلنج کررہا ہے کہ اچھی طرح سوچ سمجھ لو کہ وہ چیزیں جن کو تم اپنے معبود اور مشکل کشا سمجھتے ہو کِس طرح ہماری پیدا کردہ ایک مکھی کے سامنے بے بس ہیں اور اس حقیر مخلوق کے مقابلے میں بھی اپنا دفاع نہیں کررہا ہے، یہ کس قدر پست وحقیر معبود ہیں، ”طالب ومطلوب“ سے وہی مراد ہے جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں، یعنی ”طالب“ بتوں کو پوچنے والے اور”مطلوب“ خود بت دونوں ہی کمزور وبے بس ہیں ۔
بعض مفسرین نے ”طالب“ سے مکھی مراد لی ہے اور ”مطلوب“ سے بُت کیونکہ مکھیاں بتوں پر لگی ہوئی خوراک کھانے ان پر بیٹھی ہیں ۔
بعض دیگر مفسرین نے ”طالب“ سے بت مراد لئے ہیں اور ”مطلولب“ سے مکھی، کیونکہ بالفرض بُت مکھی جیسی حقیر شے بھی پیدا کرنا چاہیں تو بھی نہ کرسکیں گے، لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح نظر آتا ہے ۔
مذکورہ بالا مثال دینے کے بعد قرآن مجید نتیجةً یہ کہہ رہا ہے: جس طرح الله کو پہچاننے کا حق تھا انھوں نے نہیں پہچانا (مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِہِ) ۔ الله کی معرفت کے بارے میں وہ اس قدر پیچھے ہیں کہ اس باعظمت وجلالت خدا کو اتنا پست کردیا کہ اتنی بے وقعت چیزوں کو اس کا شریک گردانا، الله کی اگر تھوڑی سی بھی معرفت رکھتے تو اس بے حیثیت جوڑ پر شرمندہ ہوتے، آیت کے آخر میں الله تعالیٰ اپنی طاقت وسطوت کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اور الله طاقتور اور صاحب سطوت ہے (إِنَّ اللهَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ) ۔ اور ہرگز ان جھوٹے اور بے بس خداوٴں کی طرح نہیں ہے جو ایک حقیر سا جانور پیدا کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے اور نہ مکھی سے مقابلے کی تاب رکھتے ہیں، بلکہ وہ تو ہرچیز پر قادر ہے اور اس پورے عالم میںایک وجود بھی ایسا نہیں جو سا کے سامنے ٹھہرسکے ۔

 


۱۔ تفسیر المیزان اور کبیر زیرِ بحث آیت کی تفسیر کے ذیل میں ۔


چنداہم نکات
۱۔ بتوں کی ناتوانی کی ایک واضح مثال


اگرچہ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ان آیتوں میں مثال کے بارے میں گفتگو ضرور ہے، مگر خود مثال کو بیان نہیں کیا گیان بلکہ قرآن مجید کے دیگر مطالب کا ذکر کیا گیا ہے یا یہاں ”مثال“ صرف بمعنی ثبوت یا اصل مطلب یا ایک حیرت انگیز چیز کے معنی میں استعمال کی گئی ہے نہ کہ اپنے معمول کے معنی میں، لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے، کیونکہ قرآن مجید نے ان آیتوں میں ”مثال“ کے تحت جس چیز کو پیش کیا ہے اور جس پر غور وخوض کی عمومی دعوت دی ہے وہ ”مکھی“ ہی تو ہے جسے کمزور مخلوق مگر خوراک چھیننے والی کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اگرچہ یہ مثال مشرکین عرب کے مقابلے میں پیش کی گئی ہے، مگر آیت مجیدہ کے عمومی خطاب (یَااٴَیُّھَا النَّاسُ) کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مکڑی اور پتھروں کے بتوں کے بتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ان تمام معبودوں کے مقابلے میں ہے، جن کی الله کے علاوہ کسی طور پر بھی پرستش کی جاتی ہے، نمرود، فرعون، بت جھوٹی شخصیتیں اور طاقتیں وغیرہ سبھی اس میں شامل ہیں، یہ سب کے سب اگر اکھٹے ہوجائیں اور اپنے تمام وسائل وذرائع، علوم اور ٹیکنالوجی بروئے کار لائیں اور نابغہٴ روزگار سائنس دانوں کی بھرپور صلاحیتوں سے استفادہ کریں، لیکن پھر بھی ایک مکھی تک پیدا نہیں کرسکتے اور یہاں تک کہ اگر مکھی ان کے دسترخوان سے کھانے کا ایک ذرّہ اُٹھاکر لے جائے تو اس سے واپس لینے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔


۲۔ ایک سوال کا جواب


ہوسکتا ہے اس مقام پر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوکر آج کا انسان اپنے علم اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایسی ایسی ایجادیں کرچکا ہے جو مکھی کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدہ اور اعلیٰ ہیں، مثلاً تیز رفتار ذرائع آمد ورفت ، خلانوردی کے ذرائع، آواز سے زیادہ تیز رفتار راکٹ اور سیارچے جو پلک جھپکنے میںزمین کے مدار سے نکل جاتے ہیں، اسی طرح کمپیوٹر اور روبوٹ جو ریاضی کے پیچیدہ سوال ایک لحظے میں حل کرکے رکھ دیتے ہیں، تو کیا مذکورہ بالا مثال ہمارے اس ترقی یافتہ انسان کے لئے صادق آتی ہے؟
جواباً ہم عرض کریں گے کہ بیشک ان محیّر العقول وسائل اور اشیاء کی ایجاد آج کے انسان کی غیر معمولی ترقی ترقی کی روشن دلیل مگر یہ سب کچھ ایک زندہ اور بارادہ مخلوق کی خلقت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔
اگر ہم فزیالوجی کی ان کتب کا بغور مطالعہ کریں، جن میں مکھی جیسے چھوٹے سے کیڑے مکوڑے کی جسمانی ساخت اور زندگی کے مختلف پہلووٴں کا ذکر ہے تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ ایک مکھی کے دماغ کی ساخت اعصاب کا جل اور نظامِ ہاضمہ آج کے بآسائش ہوائی جہاز کی ساخت سے کہیں پیچیدہ اور اعلیٰ ہے اور کسی لحاظ سے بھی اس سے موازنہ کے لائق نہیں دراصل زندگی، زندہ موجودات کی حرکات واحساسات اور نشو ونما علی الخصوص ان کی پیدائش ابھی تک بڑے بڑے سائنسدانوں اور دانشوروں کے لئے لایخل مسائل ومعمات کی طرح ہے، اس پر مستزاد یہ کہ ان کی ان خلقت کے لئے کن باریکیوں اور تکنیک کی ضرورت ہوگی، کسی کو خبر نہیں ہے ۔
علوم طبیعات کے ماہرین کے بقول بعض حشرات کی آنکھیں بہت چھوٹی ہیں، جو مزید کئی سو چھوٹی آنکھوں سے مرکب ہیں، یعنی وہ ایک آنکھ جس کو بڑی مشکل سے دیکھا جاسکتا ہے اور شاید وہ بھی سوئی کی نوک کے حجم کے برابر ہے، کئی سو چھوٹی چھوٹی آنکھوں کا مجموعہ ہے، اس کے مرکب کو آنکھ کہتے ہیں، بہرحال فرض کریں اگر انسان بے جان مواد سے ایک زندہ چیز بنالے، مگر کس میں یہ صلاحیت ہے کہ کئی سو چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو باہم مربوط کرکے اس کے دماغ تک سا طرح لے جائے کہ وہ شاہدات وماغ کو مستقل کرسکے تو کیا وہ چیز کسی موقع پر اپنے ارد گرو رونما ہونے والے پر کسی قسم کے ردّعمل کا اظہار کرسکتی ہے ’ اور کیا تمام قابل انسان مل کر بھی مذکورہ بالا حقیر سی مگر پیچیدہ اور پُراسرار شے بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
اس پر مستزاد یہ کہ اگر انسان مذکورہ بالا فرض کو حقیقت بھی کردکھائے اسے ”خلقت“ کا نام دیا جاسکتا ہے! یا اسے صرف ”ASSEMBL“ یعنی پرزوں کو جوڑنے کا نام دیا جائے گا، بالکل اسی طرح جس طرح پرزوں کو جوڑکر گاڑی یتار کرنے والے اس کے ”جوڑنے والے“ تو کہلاسکتے ہیں مگر موجد نہیں کہلا سکتے ۔

 

شان نزول


بعض مفسرین کے بقول، ولید بن مغیرہ، جو مشرکین کا دماغ سمجھا جاتا تھا، وہ اور اس جیسے بعض دیگر مشرکین، پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے مبعوث برسالت ہونے کے بعد حیرت سے کہا کرتے تھے:
”اٴَ اٴَنزَلَ علیہِ الذّکر مِن بَینَنَا“
”کیا ہم سب کو چھوڑ کر (ہم میں سے محمد جیسے(یتیم ومفلوک الحال) پر وحی نازل ہوئی ہے“۔
اس تعجب کا جواب بن کر زیرِ بحث آیت نازل ہوئی (اور انھیں بتایا گیا کہ انبیاء اور فرشتوں کا رسالت کے لئے انتخاب لیاقت وقابلیت اور معنوی معیار کی بناء پر ہوا کرتا ہے ۔(۱)
 


تفسیر
پانچ اہم اور تعمیری احکام


گذشتہ آیات توحید، شرک اور مشرکین کے خیالی اور خود ساختہ معبودوں کے بار ے میں تھیں اور اس لحاظ سے کہ بعض لوگوں نے فرشتوں اور بعض بعض انبیاء کو بھی معبود بنالیا تھا، زیرِ بحث پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: الله کی طرف سے آنے والے تمام پیغمبر الله کے مطیع اور فرمانبردار تھے، ”الله فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول انتخاب کرتا ہے“ (اللهُ یَصْطَفِی مِنَ الْمَلَائِکَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ) ۔
فرشتوں میںسے رسولوں کی مثال جبرائیل امین کی ہے اور انسانوں میں سے تمام رسول اس کی مثال ہیں، ملائکہ کے سلسلے میں ”مِنْ“ کا لفظ جسے ”مِن تبعیضی“ کہتے ہیں، اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ تمام فرشتے انسان کی طرف اس کے رسول بن کر نہیں آئے بلکہ ان میں سے چندایک کو یہ خصوصیت حاصل ہے، اس لحاظ سے سورہٴ فاطر کی پہلی آیت <جاعل الملائکة رسلا ”الله نے فرشتوں کو رسول بنایا“۔اس آیت کی نفی نہیں کرتی، کیونکہ وہاں جنس ملائکہ مراد ہے نہ کہ افرادِجنس، آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے : ”الله سننے اور دیکھنے والا ہے“ (إِنَّ اللهَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ) ۔
یعنی الله اپنے رسولوں کی کارکردگی سے بے خبر نہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ مطلع ہے، ان کی بات چیت سنتا اور ان کے اعمال وافعال ملاحظہ کرتاہے، اس کے بعد تبلیغ وترویج رسالت کے سلسلے میں رسول کی ذمہ داریوں اور الله کی طرف سے ان کی نگرانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ”الله اُسے بھی جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہے اور اُسے بھی جو اُن کے پیچھے ہے (یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اٴَیْدِیھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ) ۔ یعنی الله ان کے ماضی اور مستقبل اور ان کے آثار سے پوری طرح آگاہ ہے ”اور تمام کاموں کی انتہا اور بازگشت الله کی طرف ہے“ اور سب اس کے سامنے ہی جوابدہ ہیں (وَإِلَی اللهِ تُرْجَعُ الْاٴُمُورُ) تاکہ وہ لوگ بھی اچھی طرح جان لیں کہ فرشتے اور پیغمبر بھی بندے ہیں، الله کے مطیع، فرمانبردار اور اس کی بارگاہ میں جوابدہ ہیں، ان کے بارے میں جو کچھ ہے، ان کا اپنا نہیں، بلکہ سب کچھ خدا کا دیا ہے ہے اور وہ ہرگز الله کے مقابلے میں معبود یا لائق پرستش نہیں ہیں، اس بناء پر افعال وکردار پر الله کی طرف سے کڑی نگرانی کی طرف اشارہ ہے ۔
اسی طرح سورہٴ جن کی آیت ۲۷ اور ۲۸ میں بھی کہا گیا ہے:
< فَلَا یَظْہَرُ عَلیٰ غَیْبِہِ اٴَحَداً إِلاَّ مَنْ ارْتَضَی مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّہُ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ رَصَدًا، لِیَعْلَمَ اٴَنْ قَدْ اٴَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّھِمْ وَاٴَحَاطَ بِمَا لَدَیْھِمْ
”الله کسی کواپنے اسرارِ غیب نہیں بتاتا، سوائے چُنے ہوئے پیغمبروں کے جن سے وہ راضی ہے اور ان پر ایسے نگران مقرر کرتا ہے جو ان کے آگے پیچھے رہتے ہیں، تاکہ پتہ چلے کہ وہ اپنے پروردگار کے احکامات پہنچاتے ہیں یا نہیں اور ان کی ہر ایک شے سے الله پوری طرح باخبر ہے ۔(2)
ضمنی طور پر یہ بھی واضح ہوجائے کہ ”یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اٴَیْدِیھِمْ“ سے مراد مستقبل اور ”وَمَا خَلْفَھُمْ“ سے مراد انبیاء سے قبل کے واقعات ہیں ۔
اس کے بعد سورہٴ حج کی آخری دو آیات میں مومنین کے دنیوی واُخروی، ہمہ جہتی مفاد کے ضامن بنیادی اور مجموعی احکامات بیان کرتے ہوئے اُن سے خطاب کیا جارہا ہے اور اے ایمان والو! رکوع کرو، سجدہ کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور اچھے کام کرو تاکہ کامیاب رہو (یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ) ۔
ارکان نماز میں سے صرف رکوع وسجود کا ذکر ان کی اشدّ اہمیّت پر دلالت کرتا ہے، اس کے بعد عمومی طور پر عبودیت کا بلاقید حکم ہے، اس سے مراد الله کی ہر قسم عبادت وبندگی ہے، ”ربّکم“ کہہ کر الله کی عالم کائنات میں صرف وہی اکیلا مالک اور پانے والا ہے ”فعل الخیرات“ کا حکم بھی مطلق ہے اور کسی کی قید وشرط کے بغیر ہے چنانچہ اس سے ہر نیک کام مراد ہے، اس سلسلے میں ابن عباس کی روایت کہ اس سے مراد صلہٴ رحمی اور ”مکارم الاخلاق“ ہے دراصل اس کے وسیع مفہوم کا ایک تعمیری مصداق ہے ۔
اس کے بعد لفظ ”جہاد“ وسیع معانی میں استعمال کرتے ہوئے پانچواں حکم دیا جاتا ہے: ”راہ خدا میں اس قدر جہاد کرو کہ جہاد کا حق ادا ہوجائے“ (وَجَاھِدُوا فِی اللهِ حَقَّ جِھَادِہِ) ۔ اکثر مفسرین نے اس جگہ جہاد سے مسلح جنگ مراد نہیں لیا، بلکہ جیسا کہ اس لفظ کے لغوی معنیٰ ہیں، راہ خدا میں مجموعی جدّ وجہد، کوشش اور نیک کام نیز سرکش اور احکام الٰہی کی باغی ہوا وہوس کو قابو میں رکھنا، یعنی جہاد اکبر اور ظالم وجارح دشمن کا میدان کارزار میں مقابلہ کرنا، یعنی جہادِ اصغر مراد لیا ہے ۔

”مجمع البیان“ میں مرحوم جناب طبرسی بہت سے مفسرین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”حق جہاد“ سے مراد خلوص نیّت اور اعمال کو صرف اور صرف الله کے لئے انجام دیناہے ۔
بیشک ”حق جہاد“ بھی عمومی اور سیع معنیٰ رکھتا ہے، جس میں مقدار، تعداد، کیفیت، حیثیت اور زمان ومکان سب شامل ہیں، مگر چونکہ اخلاص کی منزل جہاد بالنفس کے سلسلے میں مشکل ترین مراحل میں سے ہے، لہٰذا اس کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے، کیونکہ انسان کے دل اور اعمال میں شیطانی خیالات وافکار کا عمل دخل بہت لطیف اور خفیہ انداز سے ہوتا ہے اور الله کے خاص بندوں کے سوا اس سے شاید ہی کوئی بچ نکلتا ہے ۔
در اصل قرآن مجید نے ان پانچ احکامات کے ذیل میں آسان ترین مرحلے سے شروع کرکے مشکل ترین اور اعلیٰ ترین منزل تک راہنمائی کی ہے، سب سے پہلے رکوع کا ذکر کیا گیا ہے، پھر اس سے برتر فعل سجدے کی بات ہے، پھر مجموعی عبادت اور آخر میں تمام اچھے اور نیک اعمال وکردار کا ذکر ہے، جس میں عبادات وغیر عبادات سب شامل ہیں، اس کے بعد انفرادی، اجتماعی، ظاہری باطنی، قولی اور فعلی جدّ وجہد، کوشش، تگ ودو اور اخلاق وخلوصِ نیّت کی بات کی گئی ہے ۔
یہ ایک جامع آئین ہے کہ جس کے نتیجے میں سوفی صد کامیابی وکامرانی ہے، ممکن ہے، اس مقام پر یہ خیال پیدا ہو کہ کمزور بندوں کو کس طرح ان بھاری اور سنگین ذمہ داریوں اور احکامات کا حامل قرار دیا گیا ہے، جبکہ ان میں سے ہر ایک ذمہ داری دوسری سے زیادہ وسیع اور جامع ہے، اس کے بعد آنے والے جملوں میں مختلف پیرائے میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ بالا ذمہ داریاں بارگاہِ احدیت میں مومنین کے مقام ومنزلت اور عظمت وشخصیت کی علامت ہیں اور الله کی طرف سے مومن پر خاص لطف وکرم کا مظہر ہیں، اس سلسلے میں سب سے پہلے ارشاد ہوتا ہے: ”اس نے تمھارا انتخاب کرلیا ہے“ پھر ارشاد ہوتا ہے: اس نے ان کڑی ذمہ داریوں کی انجام دہی کو تمھارے لئے باعثِ زحمت ومشقّت قرار نہیں دیا ۔ (وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ) ۔ یعنی اگر عقل سلیم سے سوچو تو معلوم ہوجائے گا یہ ذمہ داریاں کڑی اور سخت نہیں ہیں، بلکہ تمھاری فطرت سے ہم آہنگ اور تمھارے مزاج اور طبیعت سے مطابقت رکھتی ہیں، اصولی طور پر چونکہ تمھارے ارتقاء وتکامل کا ذریعہ ہیں، ان میں سے ہر ذمہ داری ایک واضح فلسفہ اور کثیر منفعت کی حامل ہے اور یہ منفعت تمھارے لئے ہی ہے، اس بناء پر ان کی انجام دہی تمھارے لئے قطعاً شاق اور تلخ نہیں ہے، بلکہ نہایت شیرین اور خوشگوار ہے، تیسری بات یہ بیان کی جارہی ہے کہ یہ پروگرام تمھارے باپ ابراہیم کا دین ہے (مِلَّةَ اٴَبِیکُمْ إِبْرَاھِیمَ) ۔
حضرت ابراہیم(علیه السلام) کو ”باپ“ کہنے کی دو وجہیں سمجھ میں آتی ہیں:
۱۔ عرب اور اس وقت کے مسلمان زیادہ تر حضرت اسماعیل(علیه السلام) کی نسل میں سے تھے ۔
۲۔ اس وقت کے تمام لوگ حضرت ابراہیم(علیه السلام) کو اپنا بزرگ اور روحانی باپ سمجھتے تھے، اس طرح تقریباً سبھی ان کا احترام کرتے تھے، اگرچہ ان کا صرف ستھرا مقدّس دین طرح طرح کی خرافات سے آلودہ کردیا گیا تھا ۔
اس کے بعد اسی سلسلہ میں ایک اور ارشاد ہوتا ہے: سابقہ کتب آسمانی اور اس وقت کی آسمانی کتاب (قرآن حکیم) میں اس نے تمھارا نام ”مسلمان“ رکھا ہے (ھُوَ سَمَّاکُمْ الْمُسْلِمینَ مِنْ قَبْلُ وَفِی ھٰذَا) ۔ اور مسلمان وہ ہے جو تمام احکامات خداوند قدّوس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو اپنے لئے ایک بڑا اعزاز تصور کرے ۔
”ھُوَ سَمَّاکُمْ“ میں ضمیر ”ھُوَ“ کے مرجع کے بارے میں شدید اختلاف ہے، بعض مفسرین کے خیال میں ”ھُوَ“ کا مرجع ”الله“ ہے یعنی خود الله نے سابقہ کتب اور قرآن مجید میں مسلمانوں کو اس قابلِ فخر نام سے موسوم کیا، بعض دوسرے مفسرین کے خیال میں ”ھُوَ“ کا مرجع حضرت ابراہیم(علیه السلام) ہیں کیونکہ سورة البقرہ آیت نمبر ۱۲۸ میں مذکور ہے کہ تعمیر خانہٴ کعبہ کے اختتام پر حضرت ابراہیم نے بارگاہ اقدس الٰہی میں چند دعائیں کی تھیں، جن میں سے ایک یہ دعا تھی:
<رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اٴُمَّةً مُسْلِمَةً لَکَ
”بارالٰہا! ہم دونوں (مجھے اور میرے بیٹے) کو اپنا مطیع رکھ اور ہماری نسل سے ایک ”امّت مسلمہ“ جو تیری مطیع وفرمانبردار ہو، پیدا کردے“۔
لیکن ہماری نظر میں پہلا نظریہ زیادہ صحیح ہے اور آیت کے مضمون سے زیادہ ہم آہنگ ہے، سابقہ کتب اور قرآن مجید میں مسلمانوں کا نام رکھنے کی نسبت حضرت ابراہیم کی طرف دینا مناسب نہیں بلکہ یہ نسبت الله ہی کی طرف ہے ۔(3)
پانچواں اور آخری شوق آفریں نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا تعارف تمام امتوں کے لئے ایک نمونہ اور علامت کے طور پر کرایا جارہا ہے، ارشاد ہوتا ہے: ”مقصد یہ تھا کہ پیغمبر تمھارے گواہ ہیں اور تم تمام لوگوں کے گواہ ہو (لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَھِیدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُونُوا شُھَدَاءَ عَلَی النَّاسِ) ۔
”شھید“ ”شھود“ کے مادہ سے ہے اور اس کا مطلب وہ آگاہی و باخبری ہے، جو چشم دیدہ ہو، اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کا تمام مسلمانوں پر گواہ ہونا، تمام اعمال وکردار سے باخبر ہونے کے معنی میں ہے، یہ مفہوم ان تمام آیات وروایات جن میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں ”عرض اعمال“ کا ذکر ہے، کے عین مطابق ہے، ان روایات کے مطابق ہفتہ بھر میں ایک دن تمام امّت کے تمام اعمال آپ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں، اور آپ کی روح مطہر ان سے باخبر ہوتی ہے ۔ اس بناء پر آپ امّت کے گواہ ہیں ۔

”وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلَامَ دِینًا “
متعدد روایات میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو ”اوّل المسلمین“ فرمایا گیا ہے، جن میں سورہٴ انعام آیت نمبر ۱۲ بھی شامل ہے ۔
یہ بات کہ امّت کس طرح تمام لوگوں کی گواہ بنی؟ بعض روایات کے مطابق اس سے مراد امّت کے معصوم افراد، یعنی ائمہ اطہار علیہم السلام ہیں جو لوگوں کے اعمال کے گواہ ہیں، امام علی الرضا علیہ السلام سے ایک روایت ہے:
”نحنُ حجج الله فی خلقہ ونح شھداء الله واعلامہ فی بریتہ“
”الله کی مخلوق اور بندوں میں ہم اس کے نمائندے گواہ اور نشانیاں ہیں“۔(4)
در اصل ”لتکونوا“ کے ذریعے اگرچہ ظاہراً ساری امّت سے خطاب کیا جارہا ہے، مگر درحقیقت امّت کے سیّد وسردار اور بزرگ مراد ہیں، جزو کی بناء پر کل سے خطاب ہمارے بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ چندافراد سے خطاب کے لئے سب سے خطاب کیا جاتا ہے، مثلاً سورہٴ مائدہ کی آیت نمبر ۳۰ میں ارشاد ہوتا ہے:
”الله نے تمھیں بادشاہ اور فرمانروا بنایا“۔
یہ خطاب بنی اسرائیل کو دی گئی نعمتوں کے شمارے کے ذیل میں تمام امّت سے کیا جارہا ہے، حالانکہ اس منصب کے حامل تو معدودے چند افراد تھے ۔
”شھود“ ایک اور معنی بھی رکھتا ہے اور وہ ہے ”عملی شہادت“ یعنی اپنے کردار سے کسی بات کی گواہی دینا، یعنی موازنہ اور مقابلہ سنجی، کسی عمل وکردار کو دوسرے عمل وکردار سے موازنہ کرنا بالفاظ دیگر ایک شخص کے اعمال وکردار کا دوسروں کے لئے نمونہ ہونا، اس معنی میں تمام سچّے مسلمان شامل ہوسکتے ہیں، یعنی وہ بہترین دین پر مکمل عمل پیرا ہوکر تمام لوگوں کے لئے شرافت اور کردار کی رفعت کا ایک پیمانہ بن جائیں، حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ سے ایک روایت ہے ۔
الله نے مسلمانوں کو چند فضیلتیں عطا کی ہیں، منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ گذشتہ ادوار، جبکہ ہر امّت کے لئے نمونہ ان کا پیغمبر ہوتا تھا، کی بجائے الله نے ساری امّت کو مخلوق کے لئے نمونہ قرار دیا ہے، فرماتا ہے:
”لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَھِیدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُونُوا شُھَدَاءَ عَلَی النَّاسِ“۔(5)
یعنی جس طرح ہر نبی اپنی امّت کے لئے اسوہٴ حسنہ اور نمونہ ہوتا ہے، تم ساری دُنیا کے لئے ایک مثالی کردار اور نمونہ ہو، یہ مفہوم ایک تو پہلے بیان شدہ مفہوم کے منافی نہیں اور مزید برآں ہوسکتا ہے یہ مفہوم بھی ہو کہ یوں تو تمام امّت ہی گواہ ہے اورمگر ائمہ اطہار علیہم السلام ممتاز اور نمایاں گواہ اور نمونہ ہیں ۔(6)

آیت کے آخر میں پانچ ذمہ داریوں کو تاکیداً تین جملوں میں زیادہ مختصر پیرلئے میں فرمایا جارہا ہے: اب اگر یُوں ہے اور تم اعزازات اور امتیازات کے حامل ہو تو نماز ادا کرو، زکوٰة ادا کرو اور پروردگار عالم کی بے پایاں عنایات کے پرتو میں آئینِ اسلام سے متمسک رہو (فَاٴَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللهِ) ۔ کیونکہ تمھارا سرپرست اور مددگار وہی ہے (ھُوَ مَوْلَاکُمْ) ۔ اور کتنا اچھا سرپرست اور کیسا عمدہ اور باصلاحیّت مددگار ہے (فَنِعْمَ الْمَوْلَی وَنِعْمَ النَّصِیرُ) ۔ در اصل یہ جملہ ”وَاعْتَصِمُوا بِاللهِ ھُوَ مَوْلَاکُمْ“ کی دلیل ہے یعنی اگر تمھیں کہا گیا ہے کہ صرف الطاف وعنایات پروردگار سے وابستہ رہنا بلاوجہ نہیں، کیونکہ وہ سب سے اعلیٰ، اچھا، اور مناسب یاور وناصر ہے ۔  

 


۱۔ تفسیر قرطبی، ابوالفتوح، رازی، فخر الدین رازی، اور روح المعانی زیرِ بحث آیت کی تفسیر کے ذیل میں ۔
2۔ تفسیر المیزان میں زیرِ بحث آیت کی تفسیر کے ذیل میں علامہ طباطبائی ”یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اٴَیْدِیھِمْ“ کو مسئلہ عصمت اور الله تعالیٰ کی مدد ونصرت کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں، لیکن ہماری نظر میں یہ بعید ہے ۔
3۔ سورہٴ مائدہ آیت نمبر ۳ میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ الله تعالیٰ نے اس دین کا نام اسلام رکھا ہے ۔
4۔ نور الثقلین، جلد۳، ص۵۲۶، کے مطابق کتاب ”کمال الدین“ اور اسی طرح کی دوسری روایت بھی نقل کی گئی ہیں ۔
5۔ تفسیر برہان، ج۳، ص۱۰۵
6۔ اسی تفسیر کی پہلی جلد میں سورة البقرہ آیت نمبر ۱۴۳ اور سورة النساء کی آیت نمبر۴۱ کی تفسیر کے ذیل میں ہم اسی مضمون سے متعلق سیر حاصل بحث کرچکے ہیں ۔

 

سوره حج / آیه 67 - 78 سورہ مومنون کی فضیلت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma