رزقِ حسن

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 55 - 60 سوره حج / آیه 63 - 66


تفسیر
رزقِ حسن


گذشتہ آیتیں، الله کی نشانیوں کو محو کرنے کے لئے مخالفین کی سرگرمیوں کے بارے میں تھیں، زیرِ بحث آیتوں میں انہی متعصّب اور ضدّی لوگوں کی ان مذموم کوششوں کے جاری رہنے کا ذکر ہے ۔
پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ”کفار ہمیشہ قرآن مجید اور تیرے توحیدی دین کے بارے میں (روز قیامت تک) شکوک میں مبتلا رہیں گے، حتّیٰ کہ قیامت اچانک آجائے گی، یا یومِ عقیم کہ جس دن وہ کسی قسم کی تلافی کرنے کی صلاحیّت نہ رکھتے ہوں گے کا عذاب ان کو آلے گا (وَلَایَزَالُ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی مِرْیَةٍ مِنْہُ حَتَّی تَاٴْتِیَھُمْ السَّاعَةُ بَغْتَةً اٴَوْ یَاٴْتِیَھُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیمٍ) ۔
واضح رہے کہ کافرین سے مراد تمام کفار نہیں ہیں، کیونکہ ان میں کے بہت سے تبلیغ کے دوران پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم پر ایمان لے آئے تھے اور مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے تھے، یہاں کافرین سے مراد ان کے ضدّی اور متعصّب سردار اور ہٹ دھرم کینہ پرور لوگ جو آخر تک ایمان نہ لائے اور تخریبی کارروائیوں میں مصروف رہے ۔
لفظ ”مریہ“ جس کا معنیٰ رشک، تردد اور تذبذب ہے، یہ ظاہر کرتاہے کہ کفار قرآن اور اسلام کو یقین کی حد تک غلط نہیں سمجھتے تھے اگرچہ زبان سے ایسا ہی کہتے تھے، وہ اسلام کے خلاف یقین کی منزل سے گرکر کم از کم شک کی سطح پر آگئے تھے مگر تعصّب اور کینہ انھیں حقیقت کو پانے کے لئے مزید مطالعے کی اجازت نہیں دیتا تھا، لفظ ”ساعة“ کے متعلق اگرچہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس کا مطلب ”موت“ اور ”لمحاتِ مرگ“ ہے مگر بعد کی آیتیں بتلاتیں ہیں کہ اس سے مراد قیامت کا آنا ہے، علی الخصوص ”بغتة“ یعنی اچانک اور ”ناگہانی“ کے قرینے سے ”یوم عقیم“ کے عذاب سے مراد قیامت کی سزا ہے، اس کو ”بانجھ“ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے ان کا کوئی ایسا دن میسّر نہ آئے گا کہ اپنے گناہوں کا کفارہ، یا کوتاہیوں کا ازالہ کرسکیں اور اپنی حالت وکیفیت میں کسی قسم کی تبدیلی کرسکیں، اس کے بعد قیامت کے دن الله کی ہمہ جہت حاکمیت اعلیٰ کا ذکر کیا گیا ہے، اس دن صرف اور صرف الله ہی کا حکمرانی ہوگی (الْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ) ۔ یہ بات صرف قیامت کے دن سے ہی مخصوص نہیں ہے، کیونکہ الله تو ہمیشہ ہمہ جہت اور مطلق حاکم ہے، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا، البتہ دُنیا میں چونکہ دوسرے حکام اور فرمانروا بھی ہوتے ہیں، اگرچہ ان کی حکومت محدود اور کمزور ہوتی ہے اور اس کی صورت صرف ظاہری ہوتی ہے ۔
البتّہ یہی بات ہوسکتی ہے، اس امر کا باعث بنے کہ کہاجائے کہ الله کے علاوہ اور بھی حاکم ومالک موجود ہیں، لیکن روزِ قیامت جبکہ قیامت دنیاوی تمام حاکموں اور بادشاہوں کی بساط لپیٹ دی جائے گی، تب یہ حقیقت ہر زمانے سے زیادہ واضح ہوگی کہ حاکم ومالک صرف اور صرف الله ہی ہے ۔
بالفاظ دیگر حاکمیّت کی دوقسمیں ہیں، ایک حقیقی حاکمیت جو خالق کوو مخلوق پر حاصل ہے، دوسری اعتباری اور قراردادی گئی، حاکمیت جو لوگوں کے درمیان ایک نظام قائم رکھنے کے لئے ہوتی ہے، دُنیا میں دونوں قسم کی حاکمیتیں موجود ہیں، مگر آخرت میں اعتباری اور قرار دی گئیں حکومتیں سب کی سب ختم کردی جائیں گی اور صرف خلاق عالم کی حاکمیت باقی رہ جائے گی ۔(۱)
بہرحال حقیقی مالک وہی ہے، چنانچہ حقیقی حاکم و فرمانروا بھی وہی ہوگا، لہٰذا وہ کافر ومومن تمام انسانوں کا فیصلہ کرے گا اس کا نتیجہ وہی ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں اس کے بعد کیا گیا ہے، یعنی: جو ایمان لائے اور نیک اعمال نجام دیئے ۔ بہشت میں طرح طرح کی نعمتوں والے ابغوں میں رہیں گے، ایسے باغات جہاں ہر وہ نعمت اور ہر خیر وبرکت موجود ہوگی ۔ جس کا وہ تصور کریں گے (یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ فَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِی جَنَّاتِ النَّعِیمِ) ۔ البتہ جو منکر بنے اور جنھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا وہ ذلّت آمیز عذاب میں مبتلا رہیں گے (وَالَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِآیَاتِنَا فَاٴُوْلٰئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُھِینٌ) ۔ واقعی کیا منھ بولتی اور زندہ تصویر پیش کی گئی ہے یہ عذاب ان لوگوں کو رسوا اور پست کرے گا جو مغرور اور متکبّر تھے، جو اپنے آپ کو باقی مخلوق خدا سے برتر سمجھتے تھے، خودکو بڑے اور دوسروں کو پست اور چھوٹا سمجھتے تھے ۔

قرآن کی آیات میں عذاب کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں ”الیم“”عظیم“ اور ”مھین“ ان میں سے ہر قسم، گناہ کی اس قسم کے ساتھ مطابقت ومناسبت رکھتی ہے جو مغرور اور متکبّر لوگ کرتے رہے ہوں گے ۔
توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ مومنین اور کفار دونوں کے ساتھ دو چیزوں کی نسبت دی گئی ہے، مومنین کے لئے ایمان اور عمل صالح، اور کفار کے لئے کفر اور تکذیب، در اصل یہ ہر گروہ کی اندرونی اعتقاد اور ظاہری آثار کی عکّاسی ہے، کیونکہ انسان کے اعمال وکردار کا سرچشمہ اس کے نظریات ہیں ۔
گذشتہ چند آیتوں میں الله اور اس کے دین کے لئے اپنے گھر بار چھوڑنے والے مہاجرین کا ذکر تھا، زیرِ بحث آیت میں ان کو ایک ممتاز طبقے کے طور پر پیش کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: جنھوں نے راہِ خدا میں ہجرت کی اور اس کے بعد جامِ شہادت نوش کیا یا ویسے ہی چل بسے، الله ان کو عمدہ روزی اور مخصوص نعمتوں سے نواز دے گا، کیونکہ وہ بہترین روزی دینے والا ہے (وَالَّذِینَ ھَاجَرُوا فِی سَبِیلِ اللهِ ثُمَّ قُتِلُوا اٴَوْ مَاتُوا لَیَرْزُقَنَّھُمْ اللهُ رِزْقًا حَسَنًا وَإِنَّ اللهَ لَھُوَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ) ۔
بعض مفسرین نے ”رزق حسن“ سے مراد وہ نعمتیں لیں ہیں جن پر اگر انسان کی نظر پڑے تو دیکھتا ہی رہ جائے اور اس میں ایسا کھوجاتا ہے کہ کسی دوسری چیز کا ہوش نہیں رہتا اور ایسی روزی صرف الله ہی دے سکتا ہے ۔
بعض علماء نے اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کی ہے:
جب مسلمانوں نے مدینے کی طرف ہجرت کی، وہاں کچھ مسلمان تو طبعی موت سے دُنیا سے اُٹھ گئے اور بعض نے جامِ شہادت نوش کیا، اس موقع پر مسلمانوں کا ایک گروپ یہ تاٴثر دینے لگا کہ تمام درجات اور فضیلتیں صرف ان ہی سے مخصوص ہیں جو شہید ہوئے ہیں اور ویسے فوت ہونے والوں کے لئے کچھ نہیں ہے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور دونوں کو نعمتوں کا مستحق بتایا ۔
یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ اصل اہمیت راہِ خدا میں جان دینا ہے، چاہے میدانِ کارزار میں جام شہادت نوش کرے ہوئے دے یا اطاعت راہِ خدا میں فوت ہوجائے، الله کی فرمانبرداری کرتے ہوئے مرنے والا بھی شہداء کے ثواب کا حامل ہوتا ہے ۔
”انّ المقتول فیسبیل الله والمبیت فی سبیل الله شہید“(2)

آخری آیت میں عمدہ روزی کا ایک نمونہ پیش کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے : الله انھیں ایسے مقام پر لے جائے گا کہ وہ خوش ہوجائیں گے (لَیُدْخِلَنَّھُمْ مُدْخَلًا یَرْضَوْنَہُ) ۔ یعنی اگر اس دنیا میں وہ اپنے گھر بار سے بڑی پریشانی اور دُکھ کے عالم میں نکلنے پر مجبور کردیئے گئے تو الله ان کو دوسرے جہان میں ایسی بارش گاہ اور مسکن دے گا، جو ہر لحاظ سے ان کے لئے لذّت انگیز اور نشاط وانبساط بخش ہوگا اور یوں ان کی جاں نثاری اور قربانی کی تلافی بہ طریق احسن کرے گا، آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ الله ان کے اعمال وکردار سے پوری طرح سے باخبر ہے، نیز حلیم وبردبار ہے اور سزاء وجزاء میں جلد بازی سے کام نہیں لیتا، تاکہ اس امتحان گاہ میں مومنین کی تربیت بھی ہو، اور مکمل امتحان بھی (وَإِنَّ اللهَ لَعَلِیمٌ حَلِیمٌ) ۔


 

۱۔ المیزان، ج۱۴، ص۴۳۳
2۔ تفسیر طرقبی، ج۷، ص۴۴۸۷۰
سوره حج / آیه 55 - 60 سوره حج / آیه 63 - 66
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma