انبیاء(علیه السلام) کے خلاف شیطانی وسوسے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 52 - 54 سوره حج / آیه 55 - 60


تفسیر
انبیاء(علیه السلام) کے خلاف شیطانی وسوسے


گذشتہ دو آیتوں میں کفار ومشرکین کی طرف سے دینِ خدا کی تضحیک اور استہزاء اور اسے مٹانے کی سرگرمیوں کا ذکر تھا زیرُ بحث آیتوں میں لوگوں کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ دین دشمن دسیسہ کاریاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہمیشہ سے طاغوتی اور شیطان شکوک وشبہات انبیاء کے مقابلے میں پھیلائے جاتے رہے ہیں، چنانچہ پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ”تجھ سے پہلے ہم نے جب کبھی بھی کوئی نبی بھیجا اور اس نے خدائی مقاصد کی توسیع وترقی کا منصوبہ بھی بنایا ضرور شیطان نے اس میں شکوک وشبہات پیدا کئے“ (وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ وَلَانَبِیٍّ إِلاَّ إِذَا تَمَنَّی اٴَلْقَی الشَّیْطَانُ فِی اٴُمْنِیَّتِہِ) لیکن شیطانوں کے وسوسوں کے ہجوم کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا، بلکہ ”الله شیطان کے شکوک وشبہات کو زائل کردیتا اور اپنی نشانیوں کو استحکام بخشتا (فَیَنْسَخُ اللهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللهُ آیَاتِہِ) ۔ اور یہ کام الله کے لئے آسان ہے، کیونکہ وہ علیم وحکیم ہے، تمام منفی وریشہ دوانیوں سے پوری طرح باخبر ہے ۔ اور ان کو ناکام بنانے کے طریقوں سے اچھی طرح واقف ہے (وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ) ۔ البتہ دین دشمن طاقتوں کی سیاہ کاریاں اور طاغوتی کارستانیاں ہمیشہ مومنین ، باخبر افراد اور کفار سب کے لئے امتحان کا سبب بنتی ہیں، چنانچہ بعد والی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ”یہ تمام امور بیمار دل اور سنگدل افراد کی آزمائش کا ذریعہ ہیں (لِیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِینَ فِی قُلُوبِھِمْ مَرَضٌ وَالْقَاسِیَةِ قُلُوبُھُمْ) ۔ اور ظالم وناانصاف لوگ حق سے بہت دور ہیں اور ان کے دل بغض وعداوت سے بھر پڑے (وَإِنَّ الظَّالِمِینَ لَفِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ) ۔ علاوہ بریں ا موازنہ کرکے سمجھ جائیں کہ خدائی قانون ہی دینِ حق ہے اور تیرے رب کی طرف سے ہے چنانچہ اس پر ایمان لئے آئیں اور ان کے دل پوری طرح الله کی بارگاہ میں جھُک جائیں (وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ اٴَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَیُؤْمِنُوا بِہِ فَتُخْبِتَ لَہُ قُلُوبُھُمْ) ۔ بیشک الله ان آگاہ اور حق طلب مومنین کو ان خطرناک راہوں میں اکیلا نہیں چھوڑتا، بلکہ صاحبان ایمان کو راہِ راست کی ہدایت کرتا ہے (وَإِنَّ اللهَ لَھَادِ الَّذِینَ آمَنُوا إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ) ۔


چند اہم نکات
۱۔ شیطانی شکوک وشبہات کیا ہیں؟


مندرجہ بالا تفسیر کے علاوہ ان آیتوں کے بارے میں اور خیالات کا بھی اظہار کیا گیا ہے، اگرچہ مذکورہ بالا تفسیر بعض محقق مفسرین کے نظریات سے ہم آہنگ ہے، بعض مفسرین کے نزدیک ”تمنّی“ اور ”امنیہ“ کے معنیٰ تلاوت یا قرائت کے ہیں اور بعض عرب کے شعراء نے بھی ان الفاظ کو اسی معنیٰ میں استعمال کیا ہے، اس بناء پرزیرِ بحث پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہوگا کہ ماضی میں جب انبیاء(علیه السلام) الله کے احکامات لوگوں کو سناتے تھے تو شیاطین (خصوصاً شیاطین نما، انسان ان کی گفتگو میں شکوک وشبہات پیدا کردیتے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لئے اور پیغمبروں کی ہدایت کو غیر موٴثر بنانے کے لئے ان کی تقریر کے دوران ہی باطل نظریات کا پرچار کرنے لگتے، لیکن الله اپنی قدرت کاملہ سے ان باطل افکار کے اثرات کو زائل کردیتا اور اپنے احکامات کو پختگی بخشتا، یہ مفہوم ”ثُمَّ یُحْکِمُ اللهُ آیَاتِہِ“ کے جملے سے مطابقت رکھتا ہے اور بعد میں آنے والے ”غرانیق“ کے فسانے سے ملتا جلتا ہے (اگرچہ بعض پہلووٴں کے اعتبار سے) لیکن زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ ”تمنّی“ اور ”امنیہ“ کے معنیٰ شاذ ہی استعمال ہوئے ہیں، حتّیٰ کہ خود قرآن الحکیم میں کہیں بھی اس معنیٰ میں استعمال نہیں ہوئے ”تمنّی“ کا اصل مادہ ”منی“ (بروزن ”مشی“) ہے اور یہ در اصل تقدیر اور فرض کے معنی میں ہے، انسان اور حیوان کے نُطفہ کو اسی لئے ”منی“ کہا جاتا ہے کہ اس سے بچے کی شکل وصورت معیّن ہوتی ہے ”منیہ“ موت کے بھی استعمال کیا جاتا ہے، یہ اس لئے کہ موت انسان کے مقدر ہوتی ہے، آرزووٴں کو بھی ”منی“ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انسان اپنے ذہن میں ان کی تصویر
بنالیتا ہے اور انھیں اپنا مقدر سمجھنے لگتا ہے،مختصر یہ کہ اس لفظ کی بنیاد ہر جگہ تقدیر، فرض اور تصویر ہی ہے، یوں تو تلاوت اور قرائت کو بھی اس معنے سے مرتبط کیا جاسکتا ہے کہ تلاوت الفاظ کی تقدیر وتصویر تو ہے مگر یہ ربط بہت دور کا ہے اور عربی زبان میں ایسے ربط کی مثال بہت کم ملتی ہے، البتہ انبیاء مرسلین کے منصوبوں اور پروگراموں والا معنیٰ جوہم نے پیش کیا ہے، وہ اس لفظ کے بنیادی اور اصلی معنیٰ کے بہت قریب ہے ۔
اسی ذیل میں ایک تیسرا احتمال یہ بھی پیش کیا ہے کہ ”اس سے مراد وہ شیطانی وسوسے ہیں جو بہت ہی کم وقفے کے لئے انبیاء(علیه السلام) سے پاک اور نورانی افکار ڈالے جاتے تھے، مگر مقامِ عصمت کی وجہ سے الله کی غیبی قوت اور مدد کے ذریعے ان وسوسوں کو بہت جلد زائل کردیا جاتا تھا اور ان کو بدستور راہِ راست پر قائم رکھا جاتا تھا، یہ مفہوم بھی بعد کی آیتوں سے مطابق نہیں رکھتا کیونکہ بعد والی آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ شیطانی شکوک اور وسوسے صاحبانِ علم، مومنین اور کافروں کے لئے آزمائش کا ذریعہ تھے چنانچہ اس مفہوم کا تعلق انبیاء کی قلبی اور فکری کیفیت سے ہرگز نہیں ہوسکتا، جس کیونکہ وہ بہت جلد شیطانی وسوسوں کو سمجھ لیتے تھے اور ان سے دُور رہتے تھے ۔
بہرحال اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ سب سے پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے، جس میں انبیاء(علیه السلام) کی کارکردگیوں اور منصوبوں کے مدّمقابل شیطانی سازشوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کے ذریعے وہ انبیاء کے فلاحی اور تعدی منصبوں کو ہمیشہ سبوثاژ کرنے کے درپے رہتے تھے، مگر الله ان کو ناکامبنادیا کرتا تھا ۔


۲۔ ”غرانیق“ کا من گھڑت فسانہ


بعض کتب اہلِ سنّت میں اس موقع پر ابنِ عباس سے ایک عجیب روایت نقل کی گئی ہے، وہ یہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سورہٴ نجم کی تلاوت میں مصروف تھے، جب آپ اس مجیدہ <اٴَفَرَاٴَیْتُمْ اللاَّتَ وَالْعُزَّی، وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْاٴُخْریٰ جس میں مشرکین بتوں کے نام لئے گئے ہیں، پر پہنچے تو شیطان نے آپ کی زبان پر یہ جُملے جاری کرادیئے :
”تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی“
”یہ دلکش بلند پایہ پرندوں ہیں جن سے شباعت کی امید ہوتی ہے“۔(۱)
یہ سننا تھا کہ مشرکین مکّہ بہت خوش ہوئے اورکہنے لگے: ”گآج پہلا موقع ملا ہے کہ محمد نے ہمارے خداوٴں کے نام اچھائی کے ساتھ لیا ہے“۔
اس وقت پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے سجدہ کیا اور مشرکین نے بھی سجدہ کیا، جبرائیل(علیه السلام) نازل ہوئے اور اطلاع دی کہ موخر الذکر دو جملے میں آپ کے پاس نہیں لایا تھا، بلکہ وسوسہٴ شیطانی تھے اور اس وقت (وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ) والی آیت نازل ہوئی اور اس طرح رسول الله اور مومنین کو تنبیہ کی گئی ۔(۲)

بعض اسلام دشمنوں نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے مشن کو نقصان پہنچانے کے لئے اس روایت کو اپنے لئے بڑی عمدہ دستاویز بنالیا ہے، انھوں نے اپنے اس معاملے کو بڑی شدّو مد سے نقل کیا ہے اور اس پر بہت حاشیے چڑھائے ہیں، جب ایسے بہت سے قرائن موجود ہیں، جن سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ ایک من گھڑت حدیث ہے ۔
۱۔ مثلاً بقول محققین اس حدیث کے راوی ضعیف اور غیر ثقہ ہیں اور ابم عباس سے اس کاروایت ہونا ثابت نہیں ہے ۔ بقول محمد ابن اسحاق یہ قصّہ زندیقیوں اور ملحدوں کے بہت سے گھڑے ہوئے قصّوں میں سے ایک ہے، اس نے یہ بات اپنی ایک کتاب میں لکھی ہے ۔
۲۔ سورہٴ نجم کی ابتدائی آیتوں میں صریحاً ان خرافات کی نفی کی گئی ہے، اس سورہ کی تیسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
<وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْھَوَی، إِنْ ھُوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوحیٰ
”رسول الله ہوائے نفس سے کلام ہی نہیں کرتے وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں وحی ہوا کرتی ہے“۔
اس آیت کی موجودگی میں مذکورہ فسانہ کیا حیثیت رکھتا ہے ۔
۳۔ سورہٴ نجم کے نزول کے دوران اور اس کے بعد حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور مسلمانوں کے سجدہ کرنے کے بارے میں مختلف کتابوں میں متعدد روایات نقل کی گئی ہیں، مگر کسی میں غرانیق والا افسانہ موجود نہیں ہے، جو اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ یہ فسانہ بعد میں بڑھایا گیا ہے ۔(3)
۴۔ ان بتوں کے نام والی آیت کے بعد آنے والی آیتیں سب کی سب بتوں کی شدید مذمّت کررہی ہیں اور ان کی پستی وضلالت کو واضح کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ تمھارے من گھڑت اوہام وتصورات ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔
<إِنْ ھِیَ إِلاَّ اٴَسْمَاءٌ سَمَّیْتُمُوھَا اٴَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا اٴَنزَلَ اللهُ بِھَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَمَا تَھْوَی الْاٴَنْفُسُ وَلَقَدْ جَائَھُمْ مِنْ رَبِّھِمْ الْھُدیٰ
مذمت کے ان شدید الفاظ کے بعد کس طرح تصور کیا جاسکتا ہے کہ پہلے کی کسی آیت میں بتوں میں کی تعریف وتوصیف کی گئی ہو، مزید برآں قرآن مجید کے بارے میں صریحاً کہا گیا ہے کہ یہ ہر قسم کی تحریف وتغیر سے منزّہ ہے، سورہٴ حجر کی آیت۹ اس طرح ہے:
<إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ

۵۔ حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے زندگی بھر بتوں کے خلاف مسلسل وپیہم جہاد فرمایا اور کبھی لمحہ بھر کے لئے بھی ان سے سمجھوتہ نہیں فرمایا ۔
ابتدائی سن مبارک سے لے کر آخری دنوں تک بتوں اور بت پزستی کی طرف معمولی سا جھکاوٴ اور میلان بھی نہیں دکھایا جاسکتا یہاں تک کہ سخت ترین حالات میں بھی آپ کے رویے میں ذرا سی لچک بھی پیدا نہ ہوئی تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ یہ الفاظ آپ کی زبان مبارک پر آئے ہوں ۔
۶۔ وہ لوگ جو مسلمان نہیں اور آپ کو منصوص من الله نہیں مانتے، وہ بھی آپ کو ایک مدبّر مفکّر اور دانشور ضرور سمجھتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی حکیمانہ تدبیروں سے شاندار کامیابیاں حاصل کریں تو اس کردار کی حامل شخصیت جو زندگی بھر ”لاالٰہ الّا الله“ کا نعرہ بلند کرے، کسی قسم کی مصالحت اور سمجھوتے کے بغیر شرک وبت پرستی کے خلاف جہاد مسلسل جاری رکھے، کیا ممکن ہے کہہ یکایک اپنے مقصد کو چھوڑکر بتوں کی تعریف کرنے لگ جائے ۔
مندرجہ بالا مفصّل بحث یہ واضح کررہی ہے کہ ”غرانیق“ کا قصّہ عناد دشمنوں اور بے خبر مخالفوں کا خود ساختہ ہے جنھوں نے قرآن مجید اور پیغمبر اکرم صلی علیہ وآلہ وسلّم کی حیثیت کو داغدار کرنے کے لئے بے بنیاد اور گمراہ کن روایات گھڑی ہیں، شیعہ وسُنّی سے بالاتر ہوکر اسلام کے تمام محققّین نے اس روایت کی پوری شدّومد کے ساتھ نفی کی ہے ۔(4)
البتّہ بعض مفسرین نے اس قصّے کی توجیہہ کی وقعت تو تب ہے جب اصل حدیث صحیح ثابت ہوجاتی بہرحال انھوں نے توجیہہ یوں کی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی علیہ وآلہ وسلّم قرآن مجید کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کیا کرتے تھے اور آیات کے درمیان چند لمحوں کا وقفہ کیا کرتے تھے تاکہ آیات سامعین کے ذہن نشین ہوجائیں، سورہٴ نجم کی تلاوت کے دوران میں بھی جب آپ نے (اٴَفَرَاٴَیْتُمْ اللاَّتَ وَالْعُزَّیالْاٴُخْریٰ) والی آیت تلاوت کرنے کے بعد وقفہ فرمایا تو شیطان صفت ہٹ دھرم مشرکین نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے (تلک الغرانیقلترتجی) کا جُملہ اسی خاص لحن کے ساتھ کہہ دیا تاکہ پیغمبر اکرم صلی علیہ وآلہ وسلّم کا تمسخر اڑے اور لوگوں میں شکوک پیدا ہوں ۔(5)
مگر بعد والی آیتوں نے مسئلے کو واضح کرتے ہوئے اس کا دندان شکن جواب دے دیا اور بت پرستی کی شدید مذمّت کی، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ جو بعض افراد نے ”غرانیق“ والی داستان متعصّب مشرک بت پُرستوں کی ہٹ دھرمی کے باوجود ان کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے پیغمبر اکرم صلی علیہ وآلہ وسلّم کے دوٹوک رویّے کا ادراک نہیں ہے اور تاریخی حقائق سے یا تو بے خبر ہیں یا بجاہلِ عارفانہ کا مظاہرہ کررہے ہیں کہ جن کے مطابق مشرک، پیغمبر اسلام کو منھ مانگے دام دینے کے لئے تیار تھے، بشرطیکہ آپ اپنے موقف سے دستبردار ہوجائیں، مگر آپ(علیه السلام) نے ان کی ہر پیش کش کو ٹھکرا دیا اور اپنے موقف سے سرمو اِدھر اُدھر نہ ہوئے ۔

اس مسئلے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے، ہماری نظری میں زیادہ صحیح ہے یہ ہے کہ رسول، ان انبیاء کو کہتے ہیں جو اپنے دین کی تبلیغ وترویج اور لوگوں کو اس کی دعوت دینے پر مامور تھے، جیسا کہ ان کی سوانح حیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں انتھک کوشش کرتے تھے، معمولی سی فرد گذاشت بھی نہیں کرتے تھے اور ہر طرح کی سختی اور تکلیف خندہ پیشانی سے برداشت کرتے تھے ۔ البتّہ نبی، جیسا کہ اس لفظ سے ہی ظاہر ہے کہ اس شخصیّت کو کہا جاتا ہے جو وحی الٰہی کی خبر دے، اگرچہ وہ وسیع سطح پر تبلیغ پر مامور نہیں ہوتا، دراصل وہ ایک ڈاکٹر کی مانند ہوتا ہے، جس کو تلاش کرکے لوگ اپنی بیماری کا علاج کراتے ہیں مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف پیغمبروں کے ماحول حالات میں خاصا فرق تھا اور ہر ایک کے فرائض وذمہ داریاں جدا جدا تھیں ۔(6(


۱۔ ”غرانیق“ ”غرنوق“ (بروزن ”مزدور“) کی جمع ہے، یہ مفید یا سیاہ دنگ کاین آب پرندہ ہے، اس کے علاوہ یہ لفظ اور معنیٰ میں بھی آیا ہے ۔(قاموس اللغة)
۲۔ تفسیر المیزان زیرِ بحث آیت کی تفسیر کے ذیل میں یہ حدیث اہلِ سنّت کے حفّاظ حدیث سے نقل کی گئی ہے، ان میں ابن حجر بھی شامل ہیں ۔
3۔ تفسیر کبیر فخر الدین رازی، ۲۳، ص۵۰
4۔ تفسیر کبیر فخر الدین رازی، ۲۳، ص۵۰
5۔ تفسیر مجمع البیان، تفسیرفخر الدین رازی، تفسیر قر طبی، تفسیر فی ظلال، تفسیر روح المعانی، تفسیر المیزان اور دوسری تفاسیر (اسی آیت کے ذیل میں)7(
6۔ تفسیر قرطبی، ج، ص۴۴۷۴، تفسیر مجمع البیان میں مرحوم طبرسی بھی ایک طرح اس کا ذکر کیا ہے ۔
 
سوره حج / آیه 52 - 54 سوره حج / آیه 55 - 60
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma