سیرو سیاحت اور دلوں کی بیداری

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 14
ه حج / آیه 46 - 51سوره حج / آیه 52 - 54

تفسیر
سیرو سیاحت اور دلوں کی بیداری


گذشتہ آیتوں میں ان بداعمال اور روسیاہ ظالموں کے بارے میں گفتگو کی جارہی تھی، جن کو الله نے کیفر کردار تک پہنچایا اور ان کے شہروں کو برباد کردیا، زیرِ بحث پہلی آیت میں اسی مضمون کی تاکید مزید کے طور پر ارشاد ہوتا ہے: آیا وہ زمین میں سیرو سیاحت نہیں کرتے کہ ان کے دل حقیقت شناس ہوجائیں یا ان کے کان صدائے حق سن لیں (اٴَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَتَکُونَ لَھُمْ قُلُوبٌ یَعْقِلُونَ بِھَا اٴَوْ آذَانٌ یَسْمَعُونَ بِھَا) ۔
بیشک ظالموں کے محلات اور دنیا پرستوں کے ٹھکانے اور مساکین جن کا اقتدار کبھی بلند تھا اس خاموشی کے باوجود ہزار ہزار باتیں کہہ رہے ہیں اور ہر بات میں ہزار ہزار نکتے پوشیدہ ہیں، یہ ویران اور اجڑی ہوئی بستیاں، گویا ان اقوام کی سوانح کردار و رفتار، شرمناک طرزِ زندگی اور عبرتناک انجام پر منہ بولتی کتابیں ہیں ۔
یہ کھنڈرات اور ان سے نظر آنے والے آثار انسان کے دل ودماغ پر ایسے اثرات مرتب کرتے ہیں کہ بعض اوقات ان میں سے کسی ایک جگہ کا مشاہدہ کثیر مطالعے سے زیادہ اثر انگیز ہوتا ہے اور تاریخ کے دہرائے جانے کے تناظر میں ، جو انسانی زندگی کی بنیاد ہے، ان کھنڈرات کا مشاہدہ انسان کے مستقبل کو مسجم شکل میں اس کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے، واقعی سابقہ اقوام کا مطالعہ اور ان کے آثار کا مشاہدہ کان کو نوا اور آنکھ کوو بینا کردیتا ہے ۔
اسی لئے قرآن مجید کی متعدد آیات میں سیاحت کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن الٰہی اور اخلاقی سیاحت جس کی غرض وغایت عبرت حاصل کرنا اور سیکھنا ہو، سیّاح کی آنکھوں سے گویا اس کا دل جھانک رہا ہو جو مدائن کے ایوانوں اور فراعنہ کے محلوں کا نگاہِ عبرت سے دیکھا رہا ہو، کبھی دجلہ کے ساتھ ساتھ مدائن کی وادیوں میں پہنچے اور کبھی مدائن میں اپنے آنسووٴں سے ایک دجلہ بہادے ۔
ظالم بادشاہوں کے محلات کے کھنڈروں میں ٹوٹے ہوئے برجوں سے نصیحت حاصل کرے اور اہلِ دل کے کانوں سے وہاں کی خاک کے ہر ذرّے سے سنائی دیتا ہو یہ نغمہ دل نشیں سُنے:
گامی دو سہ بر، مانہ
اشکی دو سہ نفشان
یعنی دو تین قدم چلو اور دو تین آنسو بہاوٴ۔(۱)
اس کے بعد قرآن مجید اس حقیقت کو کہ اکثر لوگ ظاہری آنکھیں اندھی وسالم نہیں ہوتیں، بلکہ سینوں کے اندر دل اندھے ہوجاتے ہیں (فَإِنَّھَا لَاتَعْمَی الْاٴَبْصَارُ وَلَکِنْ تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِی فِی الصُّدُورِ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ ظاہری آنکھوں سے محروم جو عرف عام میں اندھے کہلاتے ہیں، بعض اوقات بہت روشن دل اور باخبر ہوتے ہیں، حقیقی اندھے تو وہ لوگ ہیں کہ جن کے دل کی آنکھ ہوگئی ہو اور وہ صحیح ادراک نہ کرسکتے ہوں، اسی لئے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:
”شرّ العمی عمّی القلب“
”بدترین اندھا پن دل کا اندھا پن ہے“۔
اور دوسری جگہ فرماتے ہیں:
”اعمی العمی عمی القلب“
”سب سے شدید اندھا پن دل اندھا پن ہے“۔(۲)

عوالی اللئالی میں ایک اور روایت درج ہے ، رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں:
”اذا اراد الله بعبد خیراً فتح عین قلبہ فیشاھد بھا ما کان غائباً عنہ“
”جب الله کسی بندے کی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے دل کی آنکھیں روشن کردیتا ہے تاکہ وہ اس ذریعے سے پوشیدہ حقائق کا مشاہدہ کرسکے ہیں ۔(3)
یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ادراک حقائق کی نسبت سینے کے اندر سے کیوں دی گئی ہے، حالانکہ دل کا کام صرف خون کی گردش دینا ہے، اس کا جواب ہم سورہٴ بقرہ کی تفسیر کے ذیل میں پہلی جلد میں دے چکے ہیں، البتہ یہاں خلاصہ پیش خدمت ہے ۔
دل کو عقل کے معنی میں بھی لیا گیا ہے اور سینہ انسان کی ذات اور سرشت کے معنی میں ہے، اس کے علاوہ جذبات اور میلانات کا مظہر بھی دل ہی ہے ۔
جب کبھی جذباتی ادراک کی کوئی برقی رو جو شدید تحریک کا سبب ہوا کرتی ہے، انسانی رُوح میں ظاہر ہوتی ہے اسی وجہ سے رُوح کے ظواہر کی نسبت ”دل“ کی طرف د ی جاتی ہے (قابل غور ہے) ۔
زیرِ بحث آیت میںتوجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ انسان کے مجموعی ادراک کی نسبت دل (عقل) اور کانوں کی طرف دی گئی ہے گویا اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے کہ ادراک حقیقت کے صرف دو راستے ہیں:


۱۔ اندرونی ۲۔بیرونی


یعنی یا تو انسان اپنے اندر سے جوش وولولہ لے کر اس کا تجربہ کرے اور اس طرح حقائق تک پہنچے یا بیرونی عوامل، مثلاً انبیاء، اوصیاء، اولیاء اور ناصبین وناقدین کی حقیقت آفرین باتوں سے حق کو پالے یا دونوں طریقوں سے حق تک پہنچے ۔(4)
دوسری زیرِ نظر آیت میں بے ایمان، جاہل، بے خبر اور دل کے اندھوں کا ایک اور چہرہ دکھایا گیا ہے کہ وہ جلد عذاب کا مطابہ کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ”اگر تم سچّے ہو تو پھر خدا کا عذاب کیوں ہمیں آ نہیں لیتا“ (وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ) ۔

”ان سے کہہ دیجئے کہ جلدی نہ کریں الله کبھی وعدہ خلافی نہیںکرتا (وَلَنْ یُخْلِفَ اللهُ وَعْدَہُ) ۔ کیونکہ جلدی اور عجلت تو اُسے ہوا کرتی ہے جسے یہ ڈر ہو کہ کہیں موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے اور اس کے وسائل واختیارات ختم نہ ہوجائیں، جبکہ الله جو ازل سے ابد تک ہر چیز پر قدرت کاملہ رکھتا ہے، کسی کام میں جلدی کیوں کرے گا، وہ ہمیشہ اپنے وعدوں کو بروقت پورا کرتا ہے، اس کے نزدیک ایک لمحہ، دن یا ایک سال سب برابر ہیں ”کیونکہ تیرے پروردگار کے ہاں ایک دن تمھارے حساب سے ہزار سال کے برابر ہے“ (وَإِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاٴَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ) ۔
چنانچہ وہ سنجیدگی کے ساتھ عذاب کا مطالبہ کریں یا بطور تضحیک واستہزاء ایسا کہیں کہ ”عذابِ خدا ہم پر نازل نہیں ہوتا“۔
انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ الله کی طرف سے آنے والا عذاب ان کی گھات میں ہے جلدی یا بدیر ضرور ان کو آئے گا، یہ مہلت جو انھیں دی گئی ہے اس کا مقصد ان بیداری شعور اور تجدید نظر کا موقع فراہم کرتا ہے ۔
اور جب عذاب نازل ہوگیا تو معافی اور توبہ کے تمام دروازے ان پر بند کردیئے جائیں، شعور اور نجات کا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا ۔
”إِنَّ یَوْمًا عِنْدَمِمَّا تَعُدُّونَ“ کے جملے کی مندرجہ بالا تفسیر کے علاوہ اور مفاہیم بھی مفسرین نے پیش کئے ہیں، منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ کسی کام کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لئے تمھیں ہزار سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے، مگر الله کو نہ کسی تیاری کی ضرورت ہے نہ وقت کی احتیاج، بلکہ وہ کسی کام (عذاب) کو ایک دن (بلکہ اس سے کم) میں بھی انجام دے سکتا ہے ۔ایک اور مفہوم یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آخرت کا ایک دن دُنیا کے ہزار سال کے برابر ہے (اسی لحاظ سے وہاں کی جزاء اور سزاء کی طولت بھی زیادہ ہے) اسی سلسلے میں ایک روایت نقل کی گئی ہے ۔
”انّ الفقراء یدخلون الجنة قبل الاغنیاء نصف یوم ای خمسة ماٴة عام“
”غریب لوگ امیر کبیر لوگوں کے مقابلہ میں آدھا دن یعنی پانچ سو سال قب داخل ہوں گے“(5)

آخری آیت میں گذشتہ آیتوں بیان شدہ بنیادی نقطہ ”عادة“ بیان کیا جارہا ہے اور اسی طرح ہٹ دھرم کفار کو تنبیہ کی جارہی ہے ۔
”کتنی ایسی بستیاں اور آبادیاں ہیں جنھیں ہم نے مہلت حالانکہ وہ ظالم تھے (مہلت اس لئے دی گئی تاکہ وہ خواب غفلت سے جاگ اٹھیں, مگر جب ایسا نہ ہوا تو ہم نے انھیں ڈھیل دی تاکہ پُرتعیش زندگی میں مگن ہوجائیں) پھر اچانک ان کی سزا یعنی عذاب نے انھیں آلیا“ (وَکَاٴَیِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ اٴَمْلَیْتُ لَھَا وَھِیَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اٴَخَذْتُھَا) ۔ وہ بھی تمھاری طرح عذاب میں تاخیر کی شکایت کرتے تھے اور مذاق آڑایا کرتے تھے اور اس تاخیر عذاب کو پیغمبروں کے جھوٹا ہونے کی دلیل بنا لیا کرتے تھے، لیکن آخرکار عذابِ میں مبتلا ہوئے اور آہ وبکا کرنے لگے مگر اس آہ وبکا کی شنوائی نہ ہوسکی، بیشک یہ سب میری طرف ہی لوٹیں گے تمام راہیں الله ہی پر جاکر ختم ہوتی ہیں اور تمام ذخائر ووسائل اور یہ تمام دولت یہاں باقی رہ جائے گی اور وہی ان سب کا مالک ہے (وَإِلَیَّ الْمَصِیرُ) ۔

 

 

۱۔ ادوار ماضی اور سابقہ لوگوں کے اثار کے متعلق سیر وسیاحت کے آداب کے بارے میں سورہٴ آلِ عمران ایت ۱۳۷ کی تفسیر کے ذیل میں ہم اس تفسیر کی جلد ۳ میں سیر حا بحث کرچکے ہیں ۔
۲۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۰۸
3۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۰۹
4۔ تفسیر المیزان زیر بحث آیت کی تفسیر کے ذیل میں، ج۱۴، ص۴۲۶
5۔ تفسیر مجمع البیان زیرِ بحث آیت کی تفسیر کے ذیل ہیں ۔

 

 

رزقِ کریم


گذشتہ آیتوں میں کفّار کی طرف سے عذاب میں تعجیل کے مطالبے کا ذکر تھا اور یہ مسئلہ صرف ذات پروردگار عالم اور اس کی حکمت آفریں مشیت سے متعلق ہے، یہاں تک کہ انبیاء(علیه السلام) کو بھی اس میں کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں پائے گا ۔ چنانچہ زیرِ بحث پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ”کہہ دیجئے، اے لوگو! میں تمھارے لئے صرف ایک کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں“ (قُلْ یَااٴَیُّھَا النَّاسُ إِنَّمَا اٴَنَا لَکُمْ نَذِیرٌ مُبِینٌ) ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم ڈرانے والے بھی ہیں اور خوشخبری دینے والے بھی مگر اس آیت مبارکہ میں خوشخبری کا ذکر نہ کرنے اور صرف ڈرانے کی بات کرنے کی وجہ مخصوص نظریے کے مخاطب ہیں، چونکہ وہ بے ایمان اور ہٹ دھرم قسم کے افراد تھے جو خدائی عذاب وعقاب کا بھی مذاق اُڑایا کرتے تھے، البتہ بعد والی دو آیتوں میں بشارت اور ڈراوا! دونوں کا ذکر کیا گیا ہے چونکہ الله کی رحمتِ واسعہ اس کے عذاب پر سبقت رکھتی ہے، لہٰذا پہلے بشارت کا ذکر کیا گیا ہے، وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور انھوں نے بھلے کام کئے، الله تعالیٰ کی طرف سے معافی اور اعلیٰ رزق وروزی اِن کے لئے مخصوص ہے (فَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَھُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کَرِیمٌ) یعنی پہلے الله کی معافی، بخشش اور عفو ودرگذر کی جاری نہر میں غوطہ زن ہوگا کثافت وغلاظت کے بوجھ سے سبکدوش ہوتے ہیں، پاک باطن بن جاتے ہیں، پھر اس کے لطف وکرم کی طرح طرح کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔
اس لحاظ سے کہ ”کریم“ سے مراد ہرقابلِ قدر اور اعلیٰ چیز ہوا کرتی ہے ”رزق کریم“ ایک وسیع مفہوم پر دلالت کرتا ہے جو تمام مادی اور معنوی گرانقدر نعمتوں پر محیط ہے ۔
بیشک الله اپنے اس کریم مہمان خانے میں طرح طرح کی کریم نعمتوں کے ساتھ اپنے، مومن، صالح اور کریم اور بندوں پر فیوض وبرکات کی بارش کرے گا ۔
راغب اپنی مشہور کتاب ”مفرادات“ میں لکھتا ہے کہ لفظ ”کرم“ عام طور پر بہت نیک ، بھلے، اچھے اور قابل قدر امور کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، کم درجے کی نیکی اور اچھائی کے لئے ہیں، بعض مفسرین نے ”رزق کریم“ سے غیر منقطع، مسلسل، بے نقص، روزی کے معنی مراد لئے ہیں اور بعض نے مناسب اوور حسبِ حال مفہوم لیا ہے، اصل میں یہ سب مفاہیم مندرجہ مذکورہ مفہوم میں شامل ہیں ۔
اس کے بعد دوبارہ فرمایا گیا ہے لیکن وہ لوگ جو الله کی نشانیوں کو مٹانے اور تخریبی کاروائیوں میں سرگرم ہیں اور اپنے زعمِ باطل الله کے ارادوں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ دوزخی ہیں (وَالَّذِینَ سَعَوْا فِی آیَاتِنَا مُعَاجِزِینَ اٴُوْلٰئِکَ اٴَصْحَابُ الْجَحِیمِ) ۔(۱)

 


  ”  1 سَعَوْا“ ”سعی“ کے مادہ سے دوڑنے کے معنیٰ میں ہے اور یہاں آیاتِ الٰہی کو مٹانے کے لئے کوشش کرنے کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ”معاجزین“ ”عجز“ کے مادہ سے ہے، یہاں ان لوگوں کے ارادوں کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے جو الله تعالیٰ کی بے پناہ قوت وسطوت پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، بعض مفسرین نے ”معاجزین“ کو پیغمبر اور مومن کے ساتھ منسوب سمجھا ہے، ان کے خیال میں کسی شخص کے بارے میں یہ احتمال نہیں ہوسکتا ہے وہ خدا کو عاجز کرنا چاہتا ہو، حالانکہ یہی تعبیر دوسری قرآنی آیات میں الله تعالیٰ کے بارے میں آئی ہے (سورہٴ جن/ ۱۲، اور توبہ/۲،۳ اور مراد یہ ہے کہ کسی عمل اس کے چہرے سے ظاہر ہو۔
”جحیم“ ”جحم“ (بروزن ”شرم“ کے مادہ سے ہے، اس کا معنیٰ آگ کا شدّت سے بھڑکنا اور غیظ وغضب کی شدّت ہے، لہٰذا ”جحیم“ وہ جگہ ہوئی جہاں آگ، غیظ اور غضبشدّت سے بھڑکتے ہیں، یعنی دوزخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

 

ه حج / آیه 46 - 51سوره حج / آیه 52 - 54
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma